پیر، 16 جون، 2025

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

 

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

رسول پاک ﷺ کے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین بڑی شان و مرتبت والے ہیں جن کو ظاہری زندگی میں نبی کریم ﷺ کا دیدار اور صحبت نصیب ہوئی۔ ان خوش نصیب ہستیوں میں جلیل القدر صحابی خلیفہ ثالث امیر المومنین خلیفۃ المسلمین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہیں۔
حضرت عثمان ؓ کی شخصیت اسلامی تاریخ میں ایک درخشاں ستارے کی مانند ہے۔ آپؓ کی زندگی بے شمار فضائل و مناقب سے بھری ہوئی ہے۔ آپ عام الفیل کے چھ سال بعد پیدا ہوئے۔ آپ کی نانی حضورکے والد ماجد کی حقیقی بہن تھیں اس طرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول پاک ﷺ کی پھوپھی زاد بہن کے بیٹے تھے۔آپ کا شمار ان صحابہ کرامؓ میں ہوتا ہے جنہوں نے ابتدا ئے اسلام میں اسلام قبول کیا۔ 
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ  فرماتے ہیں بیشک نبی کریم ﷺ بدر والے د ن کھڑے ہوئے اور فرمایا بیشک عثمان اللہ اور اسکے رسول ؐ کے کام میں مصروف ہے اور بیشک میں اس کی بیعت کرتا ہوں اور حضور نبی کریم ؐ نے مال غنیمت میں سے بھی آپ کا حصہ مقر فرمایا اور آپ کے علاوہ جو کوئی اس دن موجود نہیں تھا اس کے لیے حصہ مقرر نہیں کیا۔ ( ابو دائود )۔ 
 آپ کو یہ بھی فضیلت حاصل ہے کہ اللہ کے پیارے حبیب ؒؓ کی دو صاحبزادیاں حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنھا یکے بعد دیگرے آپ کے نکاح میں آئیں اسی لیے آپ کو ذوالنورین کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔ 
نور کی سرکار سے پایا دو شالہ نور کا 
ہو مبارک تم کو ذوالنورین جوڑا نور کا 
آپ  حافظ قرآن ، عالم قرآن ، جامع قرآن اور ناشر قرآن بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم و حکمت کی بے شمار دولت سے مالا مال فرمایا تھا۔حضرت علیؓ آپ کی علمی عظمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : خدا کی قسم میں نہیں جانتا کہ میں آپ سے کیا کہوں ، مجھے کوئی بات ایسی معلوم نہیں جس سے آپ واقف نہیں اور نہ ہی ایسی کوئی بات بتا سکتا ہوں جس سے آپ بے خبر ہوں۔میں آپ سے کسی بات میں سبقت نہیں رکھتا ، نہ ہی میں نے تنہائی میں رسول کریم ﷺ سے کوئی ایسا علم حاصل کیا ہے جو آپ تک پہنچائو ں۔ آپ نے رسول اللہ ؐ کو اسی طرح دیکھا جیسے میں نے دیکھا ، آپ نے آپ کو ایسے ہی سنا جیسے ہم نے سنا ، آپ نے ان کی صحبت ایسی ہی پائی جیسے ہم نے پائی۔( نہج البلاغۃ)۔
آپ  کو یہ خا ص اعزاز حاصل ہے کہ آپ نے دو مرتبہ ہجرت فرمائی ایک مرتبہ مکہ مکرمہ سے حبشہ کی طرف اور دوسری مرتبہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں