اللہ تعالی کی طرف سے بہت ہی آسان فلاح کا راستہ سنیے اور عمل کیجئے تاکہ ہم سب فلاح پا لیں . ہر قسم کی تفرقہ بازی اور مسلکی اختلافات سے بالاتر آسان اور سلیس زبان میں
جمعہ، 31 اکتوبر، 2025
شیطانی وسوسے (۲)
شیطانی وسوسے (۲)
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا شیطان ابن آدم کے دل سے چپکا ہوا ہے لیکن جب وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو وہ الگ ہو جاتا ہے اور جب ابن آدم غافل ہو جاتا ہے تو شیطان وسوسہ ڈالتا ہے۔ ( بخاری )۔
حضرت ابو ہریرہ ؓسے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں عرض کیاہمارے دلوں میں ایسے وسوسے آتے ہیں جن کو ہم زبان پر لانا مناسب نہیں سمجھتے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کیا واقعی تم پر ایسا گزرا ہے۔صحابہ نے عرض کی جی یا رسول اللہ ؐ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ کامل ایمان کی صحیح نشانی ہے۔ (مسلم )
عثمان بن العاص ؓ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم ﷺ سےعرض کیا یا رسول اللہ ؐ شیطان میری نماز اور قرات کے درمیان حائل ہوااور مجھے شبہات میں مبتلا کرتا رہا۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم شیطان کی مداخلت کا احساس کرو تو اللہ سے پناہ طلب کرو اور اپنی بائیں جانب تین مرتبہ د ھتکارو میں نے ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو مجھ سے دور کر دیا۔ ( مسلم )۔
جیسے انسان کی خواہشات اور شہوات اس کی زندگی کا حصہ ہیں وہ اس سے الگ نہیں ہو سکتیں اسی طرح شیطان بھی انسان کے دل کے ساتھ چپکا ہوا ہے اور انسان کے دل میں مختلف قسم کے وسوسے ڈالتا رہتا ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا شیطان انسان کے وجود میں خون کی طرح گردش کرتا ہے لہذا اس کے راستوں کو بھوک سے بند کرو۔ حضور نبی کریم ﷺ نے بھوک کا ذکر اس لیے فرمایا کہ بھوک شہوت کو ختم کرتی ہے اور شیطان کے راستے بھی شہوات ہیں۔ انسان اپنے دل سے شیطانی وسوسوں کو اسی صورت میں دور کر سکتا ہے کہ وہ اپنی زبان اور دل کو ذکر الٰہی میں مشغول رکھے۔
جب شیطان کسی کے دل میں وسوسے ڈالے تو وہ ذکر الٰہی کرے کیوں کہ جب دل میں کسی چیز کا خیال آتا ہے تو پہلے والے خیالات ختم ہو جاتے ہیں۔اگر انسان کے دل میں ذکر الٰہی اور اس کے فرامین کے علاوہ کچھ ہو تو شیطان اسے اپنا ٹھکانہ بنا لیتا ہے اور انسان مختلف پریشانیوں میں گھرا رہتا ہے لیکن ذکر خدا ہی واحد چیز ہے جس کی وجہ سے انسان کا دل مطمئن رہتا ہے کیونکہ دلوں کا سکون ذکر خدا میں ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے بیشک شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے۔ لہٰذا ہمیں شیطان مردود کے وسوسوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے رہنا چاہیے۔
جمعرات، 30 اکتوبر، 2025
بدھ، 29 اکتوبر، 2025
شیطانی وسوسے (۱)
شیطانی وسوسے (۱)
اللہ تعالیٰ بڑا عظیم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے بندوں کو عظمت عطا فرمائی ۔اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو توفیق دیتا ہے کہ وہ نیک اعمال کے ذریعے اس کی قربت اور خوشنودی حاصل کریں۔ لیکن شیطان یہ چاہتا ہے کہ بندے اللہ تعالیٰ کی معرفت اور قربت حاصل نہ کر سکیں اور وہ اس مقصد کے لیے ان کے دلوں میں مختلف وسوسے ڈالتا رہتا ہے تاکہ بندے یاد الٰہی سے غافل ہوکر صراط مستقیم سے ہٹ جائیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اور اگر تجھے شیطان کی جانب سے وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ مانگ بیشک وہی سنتا ہے‘‘ ۔ ( سور ۃ حم السجدہ )
یعنی اگر تجھے شیطان برائیوں پر ابھارے اور نیک کاموں سے دور کرنے کی کوشش کرے تو اس کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ اوراپنی نیکیوں پر قائم رہتے ہوئے شیطان کی راہ اختیار نہ کر اللہ تعالیٰ تیری مدد فرمائے گا۔ ’’بیشک وہ اوراے سننے والے اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ مانگ بیشک وہی سنتا جانتا ہے ۔ بیشک وہ جو ڈر والے ہیں جب انہیں کسی شیطانی خیال کی ٹھیس لگتی ہے ہو شیار ہو جاتے ہیں اسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں ‘‘۔( الاعراف)
ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اگر شیطان تمہارے دل میں کچھ وسوسے ڈال کر سیدھی راہ سے ہٹانے کی کوشش کرے یا کسی دشمن سے لڑانے کے لیے غصہ دلائے یا کسی جاہل سے الجھانے کی کوشش کرے تو فوراً اللہ تعالیٰ سے اس شیطان مردود کے وسوسوں سے پناہ مانگو ۔ اللہ تعالیٰ نے تلاوت قرآن مجید شروع کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی شیطان مردود سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے تا کہ تلاوت قرآن مجید کے دوران ذہن میں مختلف قسم کے وسوسوں سے محفوظ رہ سکیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’تو جب تم قرآن پڑھو تو اللہ کی پناہ مانگو شیطان مردود سے ۔ بیشک اس کا کوئی قابو ان پر نہیں جو ایمان لائے اور اپنے رب ہی پربھروسہ رکھتے ہیں ۔ اس کا قابو انہیں پر ہے جو اس سے دوستی کرتے ہیں اور اسے شریک ٹھہراتے ہیں ‘‘۔ ( سورۃ النحل )
تلاوت قرآن مجید سے پہلے تعوذ ’’ اعوذ با اللہ من الشیطن الرجیم ‘‘ پڑھ لینا چاہیے ۔وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ پر کامل توکل رکھتے ہیں شیطان ان کے دلوں میں وسوسے نہیں ڈال سکتا چاہے جتنی بھی کوشش کر لے ۔
ارشادباری تعالیٰ ہے :’’ شیطان تمہیں اندیشہ دلاتا ہے محتاجی کا اور حکم دیتا ہے بے حیائی کا اور اللہ تم سے وعدہ فرماتا ہے بخشش اور فضل کا اور اللہ وسعت علم والاہے ۔( سورۃ البقرۃ )
منگل، 28 اکتوبر، 2025
پیر، 27 اکتوبر، 2025
ایمان ، یقین اور استقامت
ایمان ، یقین اور استقامت
انسانی زندگی میں بعض تصورات ایسے ہیں جو محض الفاظ نہیں ہو تے بلکہ وہ کردار ، سوچ اور عمل کی بنیاد بن جاتے ہیں ۔ایمان ،یقین اور استقامت تین ایسے تصورات ہیں جو فرد کے فکری ، روحانی اور عملی وجود کو ایک سمت عطا کرتے ہیں اگر ان تینوں کو ایک لڑی میں پرو دیا جائے تو ایک مکمل شخصیت کی تکمیل ہوتی ہے اور دنیاو آخرت میں کامیابی نصیب ہوتی ہے۔انسان کے دل میں سب سے پہلی چیز جو جنم لیتی ہے وہ ایمان ہے ۔ ایمان وہ چیز ہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ کے وحدہ لاشریک ہونے ، اس کے رسولوں ، کتب سماویہ ، ملائکہ ، اچھی اور بری تقدیر اور یوم آخرت پر یقین رکھنے کا درس دیتا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ رسول ایمان لایا اس پر جو اس کے رب کی طرف سے اس پر اترا اور ایمان والے ، سب نے مانا اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو ‘‘۔ ( سورۃ البقرہ )
ایمان ایک ایسا نور ہے جو انسان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آتا ہے ۔ ایمان صرف زبانی دعوے کا نام نہیں بلکہ اس کا اثر انسان کے اعمال اور کردار میں بھی نظر آنا چاہیے ۔ جب ایمان انسان کے دل میں مضبوط ہو جاتا ہے تو وہ یقین میں ڈھل جاتا ہے ۔ یقین ایک ایسا درجہ ہے جس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور زمین میں نشانیاں ہیں یقین والوں کے لیے ‘‘۔ ( سورۃ البقرہ )
یقین انسان کو مشکل وقت میں بھی اپنے رب پر بھروسہ رکھنے کا حوصلہ دیتا ہے ۔جس کی مثالیں ہمیں انبیاء کرام ، نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کی زندگیوںسے ملتی ہیں کہ کس طرح انہوں نے مشکلات و مصائب میں اللہ تعالیٰ پر کامل یقین رکھا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں کامیابی عطا فرمائی ۔ جب انسان حق کو پہچا ن کر اسے دل و جان سے تسلیم کرتے ہوئے اس پر ڈٹ جائے اور ثابت قدم رہے تو اسے استقامت کہتے ہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ بیشک جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر قائم رہے ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو ‘‘۔ ( سورۃ الفصلت )
کسی بھی بات پر قائم رہنا آسان نہیں ۔ یہ صبر ، قربانی اور حوصلے کا تقاضا کرتی ہے ۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان کی زندگیاں ہمارے لیے استقامت کا عملی نمونہ ہیں کہ کس طرح انہیں طرح طرح کی تکالیف دی گئیں لیکن وہ استقامت کے ساتھ اپنے دین پر قائم رہے ۔ حضرت بلال حبشی ؓ کو تپتی ریت پر لٹایا گیا آپ کے جسم پر پتھر رکھے گئے لیکن آپؓ کی استقامت کا یہ عالم تھا کہ آپ احد احد ہی کی صدا بلند کرتے تھے ۔ ایمان بندے کے دل میں روشنی پیدا کرتا ہے ، یقین اس روشنی کو مستقل قوت دیتا ہے اور استقامت اس قوت کو آزمائش میں ثابت کرتی ہے ۔ ایمان ، یقین اور استقامت ایک ایسا نظام ہے جو انسان کو دنیا و آخرت میں کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے ۔ جب انسان ان تینوں صفات کو اپنا لے تو وہ نہ صرف خود کو سنوارتا ہے بلکہ معاشرے کی بھی اصلاح کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سچا ایمان ، مضبوط یقین اور استقامت عطا فرمائے ۔ آمین ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ رسول ایمان لایا اس پر جو اس کے رب کی طرف سے اس پر اترا اور ایمان والے ، سب نے مانا اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو ‘‘۔ ( سورۃ البقرہ )
ایمان ایک ایسا نور ہے جو انسان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آتا ہے ۔ ایمان صرف زبانی دعوے کا نام نہیں بلکہ اس کا اثر انسان کے اعمال اور کردار میں بھی نظر آنا چاہیے ۔ جب ایمان انسان کے دل میں مضبوط ہو جاتا ہے تو وہ یقین میں ڈھل جاتا ہے ۔ یقین ایک ایسا درجہ ہے جس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور زمین میں نشانیاں ہیں یقین والوں کے لیے ‘‘۔ ( سورۃ البقرہ )
یقین انسان کو مشکل وقت میں بھی اپنے رب پر بھروسہ رکھنے کا حوصلہ دیتا ہے ۔جس کی مثالیں ہمیں انبیاء کرام ، نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کی زندگیوںسے ملتی ہیں کہ کس طرح انہوں نے مشکلات و مصائب میں اللہ تعالیٰ پر کامل یقین رکھا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں کامیابی عطا فرمائی ۔ جب انسان حق کو پہچا ن کر اسے دل و جان سے تسلیم کرتے ہوئے اس پر ڈٹ جائے اور ثابت قدم رہے تو اسے استقامت کہتے ہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ بیشک جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر قائم رہے ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو ‘‘۔ ( سورۃ الفصلت )
کسی بھی بات پر قائم رہنا آسان نہیں ۔ یہ صبر ، قربانی اور حوصلے کا تقاضا کرتی ہے ۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان کی زندگیاں ہمارے لیے استقامت کا عملی نمونہ ہیں کہ کس طرح انہیں طرح طرح کی تکالیف دی گئیں لیکن وہ استقامت کے ساتھ اپنے دین پر قائم رہے ۔ حضرت بلال حبشی ؓ کو تپتی ریت پر لٹایا گیا آپ کے جسم پر پتھر رکھے گئے لیکن آپؓ کی استقامت کا یہ عالم تھا کہ آپ احد احد ہی کی صدا بلند کرتے تھے ۔ ایمان بندے کے دل میں روشنی پیدا کرتا ہے ، یقین اس روشنی کو مستقل قوت دیتا ہے اور استقامت اس قوت کو آزمائش میں ثابت کرتی ہے ۔ ایمان ، یقین اور استقامت ایک ایسا نظام ہے جو انسان کو دنیا و آخرت میں کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے ۔ جب انسان ان تینوں صفات کو اپنا لے تو وہ نہ صرف خود کو سنوارتا ہے بلکہ معاشرے کی بھی اصلاح کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سچا ایمان ، مضبوط یقین اور استقامت عطا فرمائے ۔ آمین ۔
اتوار، 26 اکتوبر، 2025
اسلام میں بغض و کینہ کی مذمت(2)
اسلام میں بغض و کینہ کی مذمت(2)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا لوگوں کے اعمال ہر ہفتے دو دفعہ پیش کیے جاتے ہیں پس ہر مومن بندے کو بخش دیاجاتا ہے سوائے اس کے جس کا اپنے بھائی کے ساتھ کینہ ہو پس کہا جاتا ہے ان دونوں کو چھوڑ دو یہاں تک کہ مل جائیں۔ (مسلم )۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا تین قسم کے لوگوں کی نمازیں ان کے سر سے ایک بالشت بھی نہیں اٹھتیں۔ ایک قوم کا وہ امام جسے لوگ پسند نہیں کرتے ، دوسری وہ عورت جو اس حالت میں رات گزارے کہ اس کاشوہر ناراض ہے اور تیسرا وہ بھائی جو آپس میں ناراض ہیں۔ (ابن ماجہ )۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا اس ذات اقدس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم اس وقت تک جنت میں داخل نہ ہو گے جب تک کامل مومن نہ بن جائو اور ایمان کامل اس وقت تک نہ ہو گا جب تک آپس میں محبت نہ کرو۔آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تمہیں وہ بات نہ بتادو ں جس کی وجہ سے تم ایک دوسرے کو دوست رکھنے لگو ، فرمایا آپ ﷺ نے، سلام کو رواج دو۔ ( مسلم شریف )۔
بغض و کینہ کے بے شمار نقصانات ہیں جن میں سب سے بڑ انقصان ایمان اور روحانیت کا زوال ہے۔دل کی روشنی بجھ جاتی ہے ، عبادت میں لذت ختم ہو جاتی ہے۔ جس دل میں بغض پیدا ہو جائے وہاں سکون ختم ہو جاتا ہے انسان ہر وقت غصے اور اضطراب میں رہتا ہے اور ہر وقت ماضی کے دکھوں میں گرفتار رہتا ہے۔بغض و کینہ رکھنے والا شخص اپنے رشتہ دارو ں اور دوستوں سے دور ہو جاتاہے اور معاشرے میں تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے۔
حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو کیونکہ بغض خیرو برکت کے زوال کا باعث ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایاتم لوگ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو ایک دوسرے سے قطع تعلق نہ کرو اور تم لوگ آپس میں بھائی بھائی بن جائو۔ ( بخاری )۔
بغض و کینہ ایک ایسی آگ ہے جو سب سے پہلے اسی کے دل کو جلاتی ہو جو اسے پالتا ہے۔ یہ انسان کی خوشیوں کو چھین لیتا ہے اوراس کی عبادت کی برکتیں ختم کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بغض و کینہ ، حسد اور نفرت سے پاک دل عطا فرمائے۔
ہفتہ، 25 اکتوبر، 2025
اسلام میں بغض و کینہ کی مذمت(۱)
اسلام میں بغض و کینہ کی مذمت(۱)
بغض و کینہ انسان کے دل و دماغ کو زہر آلود کر دینے والی وہ خطرناک بیماری ہے جو بظاہر نظر تو نہیں آتی لیکن اس کے اثرات زندگی کے سکون کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ یہ دشمنی ، حسد ، انتقام اور بد گمانی کے امتزاج سے پیدا ہوتی ہے۔ جب انسان کے دل میں کسی کے خلاف کینہ بیٹھ جائے تو اس کا سکون ، محبت ، ایمان اور تعلقات سب متاثر ہو جاتے ہیں۔
بغض و کینہ شفقت و عفو کی ضد ہے۔ اگر یہ برائی ختم ہو جائے تو بندے کے دل میں دوسروں کے لیے رحم ، شفقت اور محبت کا جذبہ پیداہو جائے۔بغض و کینہ شیطان کا خطر ناک اور پسندیدہ ہتھیار ہے وہ انسان کے دل میں نفرت اور بد گمانی کے بیج بو دیتا ہے تا کہ مسلمان ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں۔
ارشادباری تعالیٰ ہے :’’ شیطان یہی چاہتا ہے کہ تم میں بغض اور دشمنی ڈلوا دے شراب اور جوئے میں اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روکے۔ تو کیا تم باز آئے۔(سورۃ المائدہ )۔
اس آیت کریمہ سے واضح ہو جاتا ہے کہ شیطان یہی چاہتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے درمیان محبت کو ختم کر دے اور ان کے دلوں میں بغض و کینہ پید ا ہو جائے اور وہ ایک دوسرے کے خلاف ہو جائیں۔ بغض و کینہ انسان کو راہ حق سے دور کر دیتا ہے کیونکہ جو وقت اس نے حق کی تلاش میں لگانا ہے وہ عداوت اور انتقام کے منصوبے بناتے ضائع ہو جاتا ہے۔
سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’ اے ایمان والو غیروں کو اپنا راز دار نہ بناو وہ تمہاری برائی میں فائدہ اٹھانے میں کسر نہیں اٹھا رکھتے ان کی آرزو ہے جتنی ایذا تمہیں پہنچے بغض ان کی باتوں سے جھلک اٹھا اور وہ جو سینے میں چھپائے ہیں اور بڑا ہے ہم نے نشانیاں تمہیں کھول کر سنا دیں اگر تمہیں عقل ہو ‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو غیر مسلموں اور منافقوں سے دوستی کرنے سے روکا ہے کیونکہ وہ لوگ مسلمانوں کے دشمن ہیں اور ان کے لیے دلوں میں بغض رکھتے ہیں اور انہیں جب بھی موقع ملے گا وہ ضرور انہیں نقصان پہنچائیں گے۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مومن ہر قسم کی خصلتوں پر پیدا کیا جاتا ہے ماسوائے خیانت اور جھوٹ کے۔( احمد )
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ سرور کائنات ؐ نے ارشاد فرمایا کہ شب برات کی رات اللہ تعالیٰ تمام بخشش مانگنے والوں کو بخش دیتا ہے اور رحمت طلب کرنے والوں پر رحمت نازل فرماتا ہے لیکن جو لوگ کینہ رکھتے ہیں ان کے معاملے کو مؤخر اور ملتوی فرما دیتا ہے۔ ( کنزالعمال )
جمعہ، 24 اکتوبر، 2025
اسلام اور انسانی حقوق
اسلام اور انسانی حقوق
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں عقائد و عبادات اور معاملات کا اپنا ایک مکمل نظام موجود ہے۔ اسلامی نظام کا سر چشمہ قرآن و حدیث ہے اور اس کے احکامات ناقابل تنسیخ ہیں کیونکہ قرآن مجید کسی انسان کی نہیں اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب ہے۔ اوراسکے احکامات پر عمل کرنا لازم و ملزوم ہے۔ کائنات کی ہر چیز کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو شکل و صورت ،عظمت و برتری اور علم و حکمت کی صلاحیتو ں سے نوازا ہے۔ اسلام نے انسان کو جو بنیادی حقوق دیے ہیں انہیں پامال کرنے کاحق کسی کو حاصل نہیں۔ اگر کوئی شخص کسی بھی شخص سے زیادتی کرے اور اس کے حقوق غضب کرنے کی کوشش کرے تو اسلام نے اس کے مطابق سزا مقررکی ہے۔ اگر کوئی دنیا میں اس سز ا سے بچ بھی جائے تو آخرت میں اللہ تعالیٰ کی سزا سے نہیں بچ سکتا۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے نبی کریمﷺ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کو ن ہے ؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کی یا رسول اللہؐ مفلس وہ ہے جس کے پاس کوئی مال اور درہم نہ ہو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا نہیں مفلس وہ نہیں جس کے پاس مال نہیں بلکہ مفلس وہ ہے جس کے پاس قیامت کے دن نماز ، روزہ اور زکوۃ ہوں گے لیکن اس نے کسی کو گالی دی ہوگی ، کسی پر جھوٹا الزام لگایا ہو گا ، کسی کا مال کھایا ہو گا ، کسی کو قتل کیا ہو گا اور کسی کو مارا ہو گا تو اس کی نیکیاں ان لوگوں کو دے دی جائیں گی جن پر اس نے زیادتی کی ہوگی۔ اور اگر زیادتیوں کا بدلہ پورا کرنے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو مظلوموں کے گناہ اس کے اعمال نامہ میں ڈال دیے جائیں گے او ر پھر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ ( مسلم )۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی فلاں عورت رات کو نماز پڑھتی ہے ، دن کو روزہ رکھتی ہے مگر اپنے پڑوسیوں سے بد کلامی کرتی ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس میں کوئی خیر نہیں ہے وہ جہنم میں جائے گی۔ (مسدرک للحاکم)۔
ا ن احادیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ جو اسلام کسی کو ایک گالی دینے کی وجہ سے اس کی زندگی کی اہم ترین عبادت چھین کر اسے جہنم میں پھینک دے گا تو وہ اسلام کیسے کسی جان کو ناحق قتل کرنے کی اجازت دے گا۔ اسلام میں انسانی زندگی بڑی مقدس اور قابل احترام ہے۔ یہ ایک ایسا قیمتی اثاثہ ہے جس کاکوئی نعم البدل نہیں۔ لہٰذا ہر انسان چاہے وہ مسلمان ہے یا غیر مسلم اس کو اپنی زندگی کے تحفظ کاحق حاصل ہے۔
جمعرات، 23 اکتوبر، 2025
اسلام اور مساوات انسانی
اسلام اور مساوات انسانی
اسلام نے ہمیں مساوات کا درس دیا ہے ۔ اسلام کی رو سے تمام انسان برابر ہیں اور برتری کا معیار صرف اور صر ف تقویٰ کو قرار دیا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : اے لوگو! بیشک ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور ہم نے تمہیں مختلف قومیں اور قبیلے بنادیا تا کہ تم ایک دوسرے کی پہچان کر سکو ، بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم سب سے عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہے ۔
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اے لوگو ! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اطاعت کرو اگرچہ کٹی ہوئی ناک والا حبشی غلام تمہارا امیر بنا دیا جائے تم اس کی بات سنو اور اس وقت تک اس کی اطاعت کرو جب تک وہ تم میں اللہ تعالیٰ کے احکام قائم کرتا رہے ۔ ( ترمذی )
حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت مبارکہ سے مساوات انسانی کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں ۔ غزوہ بدر کے موقع پر تین سو تیرہ صحابہ کرام کے ساتھ جب نبی کریم ﷺ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے تو لشکر کے پاس ایک گھوڑا اور ستر اونٹ تھے ۔ نبی کریم ﷺ نے تین سے چار صحابہ کرام کے لیے ایک اونٹ مقرر فرمایا جس پر وہ باری باری سوار ہوا کریں گے ۔
قربان جائیں نبی کریم ﷺ پر آپ ﷺ چاہتے تو خود ساراسفر سواری پر کر سکتے تھے اور کسی صحابی کو کوئی اعتراض بھی نہ ہوتا لیکن آپ ﷺ نے اپنے ساتھ بھی دو آدمی تجویز فرمائے ۔ جب نبی کریم ﷺ اپنی باری کا سفر طے کر کے اترنے لگے تاکہ دوسرا ساتھی سوا ر ہو ںتو دونوں جاں نثارو ں نے عرض کی یا رسو ل اللہ ﷺ آپ سوار رہیں ۔ آپﷺ نے فرمایا تم پیدل چلنے میں مجھ سے زیادہ طاقت ور نہیں اور نہ ہی میں ثواب سے بے نیاز ۔ ( مسند احمد )
سیدنا فاروق اعظم ؓ جب یروشلم کے لیے روانہ ہوئے تو سواری کے لیے ایک اونٹ تھا اور آپ دو لوگ تھے ۔ اونٹ کمزور ہونے کی وجہ سے دولوگوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا تھا ۔ اس لیے سیدنا فاروق اعظم ؓ اور غلام باری باری سفر کرتے ۔ جب غلام سوار ہوتا تو سیدنا فاروق اعظم اونٹ کی مہار تھام لیتے ۔ جب شہر میں پہنچے تو غلام سواری پر سوار تھا اور سیدنا فاروق اعظم عظیم الشان فاتح کی حیثیت سے مہار تھامے ہوئے تھے ۔
عدل و انصاف اور برابری کا یہ منظر دیکھ کر یروشلم کے راہب حیران رہ گئے ۔ اس کے علاوہ حج کے موقع پر مختلف رنگ و نسل اور زبان بولنے والے لوگ ایک ہی لباس میں یک زبان ہو کر اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کرتے ہیں اور نماز میں امیر غریب، بادشاہ غلام ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں۔
بدھ، 22 اکتوبر، 2025
منگل، 21 اکتوبر، 2025
اسلام میں حسد کی ممانعت(۲)
اسلام میں حسد کی ممانعت(۲)
احادیث مبارکہ میں بھی حسد کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو ایسے کھا تا ہے جیسے آگ لکڑی کو ۔( ابو دائود )
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اے مسلمانوں یہ خیال رکھنا کہ تم میں وہ چیز پیدا نہ ہو جس کی وجہ سے پہلی امتیں تباہ ہو گئیں اور وہ چیز حسد اور عداوت ہے ۔ اور فرمایا کہ قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم اس وقت تک جنت میں ہر گز داخل نہ ہو پائو گے جب تک کہ تم ایک دوسرے سے دوستانہ محبت نہ رکھو اور میں تمہیں یہ بتا دوں کہ محبت کیسے پیدا ہوتی ہے ۔فرمایا جب تمہارا ایک دوسرے سے آمنا سامنا ہو تو اعلانیہ ایک دوسرے کو سلام کرو ۔ ( کنزالعمال )
ابن ماجہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے لکڑی آگ کواور صدقہ گناہوں کو اس طرح بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے اور نماز مومن کا نور ہے اور روزہ جہنم سے ڈھال ہے ۔(ابن ماجہ )
حضرت ضمرہ بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا لوگ اس وقت تک ہمیشہ خیریت اور اچھی حالت میں ہوں گے جب تک وہ ایک دوسرے سے حسد نہیں کریں گے ۔ ( کنزالعمال )
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا سوائے دو آدمیوں کے کسی سے حسد جائز نہیں ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا اور اور وہ اسے ہر وقت اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہو اور دوسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ نے علم دیا ہو اوروہ اس کے ذریعے فیصلہ کرتا اور اس کی تعلیم دیتا ہو ۔ ( ابن ماجہ )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ایک دوسرے سے حسد مت کرو اور ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور ایک دوسرے سے قطع تعلق نہ کرو اے اللہ کے بندو تم آپس میں ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن جائو ۔ ( بخاری )
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے جس بندے پر اپنی نعمت پوری کرنا چاہے کر کے ہی رہتا ہے حاسد خواہ کتنا ہی حسد کیوں نہ کریں ۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حاسدین کے حسد سے اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگو ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حسد سے بچنے کی تو فیق عطا فرمائے۔آمین
پیر، 20 اکتوبر، 2025
اسلام میں حسد کی ممانعت(۱)
اسلام میں حسد کی ممانعت(۱)
اللہ تعالیٰ بڑا بے نیاز اور غفورالرحیم ہے جس پر چاہتا ہے اپنی رحمتوں کی بارش کر دیتا ہے اور اس کا رزق کشادہ کر دیتا ہے اور یہ بندے پر اللہ تعالیٰ کا احسان اور کرم ہے جسے تسلیم کرنا ایمان کامل کا تقاضا ہے۔لیکن دوسروں پر اللہ تعالیٰ کی عنایات دیکھ کر دل میں یہ بات رکھنا کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں چیز اسے دی ہے مجھے کیوں نہیں اور کسی کی شان و شوکت اور شہرت کو دیکھ کر اس پر جلنا حسد کہلاتا ہے۔
حسد ایک خطر ناک بیماری ہے جو انسان کے باقی نیک اعمال کو بھی لے ڈوبتی ہے۔یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں انسان اللہ تعالیٰ کی عطا پر اعتراض کرتا ہے کہ فلاں چیز اسے ملی ہے مجھے کیوں نہیں ملی۔ اس لیے اسلام میں اسے بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ اپنے دل میں حسد پیدا نہ ہونے دے اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر قناعت کرے اور جس قدر ہو سکے اس کا شکر بجا لائے۔ قرآن و حدیث میں حسد کی سخت مذمت کی گئی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’یا لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا تو ہم نے ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور انہیں بڑا ملک دیا ‘‘۔ ( سورۃ النساء )۔
اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم ﷺ کو جو نبوت و رسالت عطا فرمائی اور آپ ؐ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جو نصرت اور غلبہ اور عزت عطا فرمائی اس کی وجہ سے یہ لوگ نبی کریم ﷺ اور اہل ایما ن سے حسد کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اہل یہود کے اس فعل کو جہالت اور حماقت قرار دیا۔ حسد ہی سب سے پہلا گناہ ہے جو آسمان میں شیطان سے سر زد ہوا۔اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کی تو فرشتوں کو کہا کہ وہ آپ کو سجدہ کریں لیکن شیطان نے سجدہ نہ کیا اور کہاکہ میں آگ سے بنا ہوں اور آدم علیہ السلام مٹی سے لہذا آگ مٹی سے افضل ہے اس لیے یہ فضیلت مجھے ملنی چاہیے تھی۔ شیطان نے آپ کی فضیلت کی وجہ سے آپ سے حسد کیا اور مردود کہلایا۔اور اسی حسد ہی کی وجہ شیطان انسانیت کا دشمن بن گیا۔ یہ حسد ہی تھا جس کی وجہ سے زمین پر سب سے پہلا گناہ قابیل سے سرزد ہوا اور اس نے حسد میں آ کر اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور انہیں پڑھ کر سنائو آدم کے دو بیٹوں کی سچی خبر جب دونوں نے ایک ایک نیاز پیش کی تو ایک کی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی۔ بولا قسم ہے میں تجھے قتل کر دوں گا۔ کہا اللہ اسی سے قبول کرتا ہے جسے ڈر ہے ‘‘۔ ( البقرۃ )۔
اتوار، 19 اکتوبر، 2025
عزت و آبرو
عزت و آبرو
عزت و آبرو انسان کے لیے ایک بہت ہی نایاب خزانہ ہے جسے حاصل کرنے کے لیے انسان بہت زیادہ محنت کرتا ہے۔ہر انسان عزت و آبرو کا تحفظ چاہتا ہے۔ کوئی بھی شخص یہ نہیں چاہتا کہ اس کی معاشرے میں جو عزت ہے وہ خراب ہو اور وہ لوگوں کی نظروں سے گر جائے۔طاقت کی وجہ سے کسی سے عاجزی کروالینا۔ اقتدار میں رہ کر کسی سے احترام کروا لینا اور ظلم و ستم کے بل بوتے پر اپنی تکریم کروا لینا عزت نہیں بلکہ حقیقی عزت وہ ہے جو بغیر کسی جبر کے کوئی دل کی گہرائیوں سے کرے اور یہ پوری زندگی پر محیط ہو۔ انسان تخت پر بیٹھا ہو یا پھر کٹیا نشین ہو ، وہ کسی اعلی منصب پر ہو یا ایک عام انسان کی طرح رہ رہا ہو ہر حال میں اس کی عزت میں فرق نہ آئے تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے عزت و تکریم کی دولت سے مالا مال فرمایا ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص صاحب اقتدار ہے اور اس کی عزت و تکریم کی جائے اور جب اقتدار ختم ہو جائے تو عزت و تکریم بھی ختم ہو جائے تو اس کا مطلب ہے یہ حقیقی عزت نہیں۔
عزت ایسی چیز نہیں جو بازار سے مل جائے ، یا پھر عزت زبر دستی چھین لینے والا سرمایہ نہیں بلکہ حقیقی عزت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے حاصل ہوتی ہے اور بارگاہ الٰہی میں مقبولیت کی دلیل ہے۔ ایک بندہ جتنا زیادہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہو تا ہے اس کی عزت مخلوق کی نظر میں اتنی زیادہ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ عزت کا طالب تو ہر انسان ہوتا ہے لیکن وہ عزت حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں سے عزت طلب کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ ذلتوں کی دلدل میں دھکیل دیا جاتا ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ منافقوں کو درد ناک عذاب کی خبر دیجیے جو اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنے دوست بناتے ہیں کیا یہ ان کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں بیشک تمام تر عزت اللہ ہی کے لیے ہے ‘‘۔ (سورۃ النساء )
انسان معزز بننے کے لیے دوستوں سے وفاداری نبھاتا ہے اور اس میں اتنا آگے نکل جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ناراض کر کے اپنے دوستوں کو خوش رکھنا چاہتا ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ میری عزت اسی صورت باقی رہے گی کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیوفائی نہ کروں۔ لیکن اللہ کی نافرمانی کر کے عزت بچاتے ہوئے وہ اللہ تعالیٰ کے اس قانون کو بھول جاتا ہے کہ جو کسی ظالم کی مدد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس ظالم کو اس پر مسلط کر دیتا ہے۔
ہفتہ، 18 اکتوبر، 2025
زبان کی آفات
زبان کی آفات
ارشاد باری تعالیٰ ہے : جب لے لیتے ہیں دو لینے والے۔ ایک دائیں جانب اور ایک بائیں جانب بیٹھا ہوتا ہے وہ اپنی زبان سے کوئی بات نہیں نکالتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان تیار ہوتا ہے۔ ( سورۃ ق)۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : نیکیاں لکھنے والا فرشتہ انسان کی دائیں جانب اور برائیاں لکھنے والا بائیں جانب ہوتا ہے۔اور نیکیاں لکھنے والا برائیاں لکھنے والے پر ذمہ دار ہوتا ہے۔ پس جب وہ نیکی کرے تو دائیں سمت والا دس نیکیاں لکھ لیتا ہے اور اگر ایک برائی کرے تو دائیں طرف والا بائیں طرف والے سے کہتا ہے کہ اس کے ساتھ گھڑیاں چھوڑ ے رہو شاید کہ استغفار کر لے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ایک دوسرے کی غیبت نہ کیا کرو۔ کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرتا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔ تم اسے مکروہ سمجھتے ہو۔ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ بیشک اللہ تعالیٰ بہت توبہ قبول کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔(سورۃ الحجرات )۔
حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے آپ ﷺ سے عرض کی یارسول اللہ ﷺ مجھے اس عمل کی خبر دیں جو مجھے جنت میں داخل کرے اور جہنم سے آزاد کر دے۔ آپﷺ نے فرمایا : تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کر اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا۔ نمازقائم کرے ، زکوۃ ادا کرتا رہے اور رمضان کے روزے رکھے۔ پھر فرمایا میں تجھے خیر کے ابواب پر دلالت نہ کروں۔ روزہ ڈھال ہے۔صدقہ خطا کو یوں مٹا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔ اور آدمی کی نماز رات کے دوران۔ اس کے بعد آپﷺ نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی :
ترجمہ: ان کے پہلوخواب گاہوں سے دور رہتے ہیں۔ اپنے رب کو پکارتے ہیں ڈرتے ہوئے اور امید کرتے ہوئے اور ہم نے انہیں جو رزق دیا اس سے خرچ کرتے ہیں۔پس کوئی شخص نہیں جانتا اس آنکھوں کی ٹھنڈک کو جو ان سے چھپا رکھی گئی ہے۔ یہ صلہ ہے ان اعمال کا جو وہ کرتے ہیں۔( سورۃ السجدہ )۔
اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا : کیا میں تجھے امر دین کے سر اور اس کے ستون اور اس کی رفعت کی خبر نہ دوں ؟ فرمایا وہ جہاد ہے۔ پھر فرمایا کہ کیا میں تجھے اس سب کی اصل کی خبر نہ دوں ؟ میں نے عرض کی جی ضرور یارسو ل اللہ ﷺ پس آپ ﷺ نے اپنی زبان مبارک کو پکڑا فرمایا اسے قابو میں رکھ۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ اور کیا ہمیں اس پر مواخذہ ہو گا جو ہم کلام کرتے ہیں۔لوگوں کو جہنم میں چہروں کے بل یا ان کے نتھوں کے بل نہیں گرائیں گی مگر ان کی زبانوں کی درانتیاں۔(ترمذی)۔
جمعہ، 17 اکتوبر، 2025
صحت نعمت ِ الٰہی
صحت نعمت ِ الٰہی
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شما ر نعمتوں اور انعامات سے نوازا ہے جس میں ایک نعمت صحت و تندرستی بھی ہے۔حضور نبی کریم ﷺ نے جسمانی صحت کا خیال رکھنے کے لیے بہت بار حکم فرمایا ہے۔
آپ ؐ نے ارشاد فرمایا : یقینا تمہارے جسم کا تم پر حق ہے ‘‘۔(بخاری ، مسلم )۔
اللہ تعالیٰ نہ ہی ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اپنی جسمانی صحت کا خیال نہیں رکھتے اور زہدو تقویٰ کے نام پر دنیا کو چھوڑ کر جسم کی پاکیزگی ، غذا ، صفائی ، طہارت اور دیگر جسمانی ضروریات کا خیال نہیں رکھتے اور نہ ہی اسلام میں ایسے لوگوں کو پسند کیا جاتا ہے جو اپنی زندگی کا مقصد ہی کھانا پینا اور جسم کی پرورش سمجھتے ہیں۔
دین اسلام میں ہر حکم انسانی صحت کی نشوو نما میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔نماز ، روزہ ، کھانے پینے کے آدا ب ، سونے اور جاگنے کے آداب اور لباس پہننے سے متعلق احکام انسانی صحت پر اچھے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اگر انسان صحت مندہے تو وہ اچھے اور احسن طریقے سے عبادت کرسکتا ہے اور اپنی زندگی کے معاملات کو بھی اچھے طریقے سے دیکھ سکتا ہے۔ اس کے بر عکس انسان صحت مند نہ ہو تو وہ نہ ہی عبادت اچھے طریقے سے کر سکتا ہے اورنہ ہی باقی معاملات زندگی کو احسن انداز میں چلا سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے احکامات کے ذریعے انسانی صحت کی فلاح کا اہتمام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بے حد پیار فرماتا ہے اس لیے وہ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ اس کے بندے صحت مند رہیں۔ اسلام دین فطرت ہے اس لیے اس میں روح کی بالیدگی اور بہتر جسمانی نشو و نما کے لیے واضح خطوط کا تعین کیاگیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر چیز کے جوڑے پیدا کیے ہیں۔ لیکن ان میں سے ایک چیز اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور دوسری ناپسندہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو تقوی و پرہیز پسند ہے اور فسق و فجور نا پسند ہے ، ایمان پسند ہے اور کفر نا پسند ہے۔ اسی طرح صحت اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اوربیماری نا پسند۔ کیوں کہ صحت و تندرستی پر ہی عبادت و ریاضت اور دینی و دنیوی معاملات کا دارو مدار ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ جن چیزوں کا سوال کرتا ہے ان میں محبوب ترین عافیت کا سوال ہے۔
حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس انسان میں تین باتیں پائی جاتی ہوں ایسا ہی ہے جیسے اسے پوری دنیا کی نعمتیں سمیٹ کردے دی گئی ہوں۔ جس شخص نے صبح اس حالت میں کی کہ اسے جسمانی صحت حاصل ہے اور وہ اپنے گھر میں خوش ہے اور اس کے پاس ایک دن گزارنے کے لیے مال ہے، گویا اس کو دنیا سمیٹ کر دے دی گئی ہے۔(ترمذی ، ابن ماجہ)۔
جمعرات، 16 اکتوبر، 2025
مذمت بخل(۲)
مذمت بخل(۲)
احادیث مبارکہ میں بھی بخل کی مذمت کی گئی ہے اور اس سے بچنے کی ترغیب دی گئی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں تمہیں لوگوں میں سے بد تر آدمی کا پتہ نہ دوں؟ عرض کی گئی یارسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتائیں۔ آپؐ نے فرمایا جس سے اللہ تعالیٰ کے نام پر کچھ مانگا جائے اور وہ اس کو نہ دے۔( احمد )۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب بندے صبح کرتے ہیں تو دو فرشتے نازل ہوتے ہیں ان میں سے ایک کہتا ہے کہ اے اللہ اپنی راہ میں خرچ کرنے والے کو اس کا اجر عطا فرما اور دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ بخل کرنے والے کے مال کو تلف فرما دے۔( بخاری )۔
مومن کی صفات بیان کرتے ہوئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو خصوصیات ایسی ہیں جو مومن میں جمع نہیں ہو سکتیں۔فرمایا ایک بخل اور دوسری بد اخلاقی۔( ترمذی )۔
ترمذی شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : سخی شخص اللہ تعالیٰ سے قریب ،جنت سے قریب ، لوگوں سے قریب اور جہنم سے دور ہے اور بخیل اللہ تعالیٰ سے دور ، جنت سے دور ، بندوں سے دور اور جہنم کے قریب ہے۔ اور فرمایا سخاوت کرنے والا جاہل اللہ تعالیٰ کو عبادت کرنے والے بخیل سے زیادہ پیارا ہے۔
طبرانی کی روایت میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بخل ہلاک کر دینے والا عمل ہے۔
حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مکار ، بخیل اور احسان جتلانے والا جنت میں داخل نہ ہو گا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سخاوت جنت کا ایک درخت ہے سخی اس کی شاخ کو پکڑتا ہے اور وہ اسے جنت میں لے جاتی ہے اور فرمایا بخل دوزخ کا ایک درخت ہے اور بخیل اس کی شاخ کو پکڑ تا ہے تو وہ اسے دوزخ میں داخل کیے بغیر نہیں چھوڑے گی۔( بہیقی )۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا بخل سے بچو کیونکہ بخل ہی کی وجہ سے تم سے پہلے ہلاک ہوگئے۔ ( مسلم )
مندرجہ بالا قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بخیل آدمی یعنی کنجوسی کرنے والا اللہ تعالیٰ اور اسکے محبوبؐ کو سخت نا پسند ہے۔ بخیل دنیا میں بھی رسوا ہوتا ہے اور آخرت میں بھی رسوا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بخل سے بچنے اور راہ خدا میں خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
بدھ، 15 اکتوبر، 2025
مذمت بخل(۱)
مذمت بخل(۱)
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مال و متاع عطا فرماتا ہے۔اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے زیادہ نواز دیتا ہے اورجسے چاہتا ہے کم نوازتا ہے۔ اس میں چھپے حکمتوں کے راز اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن جس کو اللہ تعالیٰ نے کثرت مال سے نوازا ہے اسے چاہیے کہ اپنی استطاعت کے مطابق اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرے۔اگر کوئی اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے مال میں سے راہ خدا میں خرچ نہیں کرتا تو یہ بخل ہے جسے اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب ؐ نے نا پسند یدہ عمل قرار دیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہر گز اسے اپنے لیے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لیے بْرا ہے۔ عنقریب وہ جس میں بخل کیا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہو گا اور اللہ ہی وارث ہے آسمانوں اور زمین کا اور اللہ تمہارے کاموں سے خبر دار ہے ‘‘۔ ( سورۃ آل عمران )۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ سورۃ محمد میں ارشاد فرماتا ہے : ’’ ہاں ہاں یہ جو تم بلائے جاتے ہو کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو تم میں کوئی بخل کرتا ہے اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان پر بخل کرتا ہے اور اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج اور اگر تم منہ پھیرو تو وہ تمہارے سے اور لوگ بدلے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہو ں گے ‘‘۔
اللہ تعالیٰ غنی ہے اور سخاوت کو پسند فرماتا ہے۔ جو اس کی راہ میں خرچ نہیں کریں گے اللہ تعالیٰ ان کی جگہ کسی اور کو لے آئے گا۔
سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ جل شانہ ارشاد فرماتا ہے :’’ (اے محبوب ؐ ) تم فرمائو کہ اگر تم میرے پروردگار کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے تو انہیں بھی روک رکھتے اس ڈر سے کہ خرچ نہ ہو جائیں اور آدمی بڑا کنجوس ہے ‘‘۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے دنیا کی محبت میں مبتلا لوگوں کی فطرت کو بیان کیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت سے بے شمار خزانے بھی عطا کر دے تو بھی یہ اس ڈر سے خرچ نہیں کریں گے کہ کم ہو جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ سورۃ تغابن میں ارشاد فرماتا ہے کہ کامیاب وہی ہے جو بخل سے بچ جائے۔ ’’ تو اللہ سے ڈرو جہاں تک ہو سکے اور فرمان سنو اورحکم مانو اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اپنے بھلے کو اور جو اپنی جان کے لالچ سے بچایا گیا وہی فلاح پانے والے ہیں ‘‘۔
اسی طرح سورۃ الیل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
’’ اور جس نے بخل کیا اور بے پرواہ بنا۔اور سب سے اچھی کو جھٹلایا۔ تو بہت جلد ہم اسے دشواری مہیاکریں گے۔ اور اس کا مال اس کے کام نہ آئے گا جب ہلاکت میں پڑ ے گا ‘‘۔
منگل، 14 اکتوبر، 2025
جوانی کا صحیح استعمال (۱)
جوانی کا صحیح استعمال (۱)
انسان کی زندگی کے تمام مراحل میں سب سے اہم مرحلہ جوانی کا ہوتا ہے ۔ کیونکہ یہ دور اس کے عروج کا دور ہوتا ہے ۔انسان جوانی کے دور میں بہت اچھے کام سر انجام دے سکتا ہے ۔ نوجوانوں کو قوم و ملت کا قیمتی سرمایہ کہا جاتا ہے ۔جس قوم کے نوجوان باشعور ہوں اس قوم کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہوتا ہے اور جس قوم کے نوجوان سست اور کاہل ہوں وہ قوم ترقی نہیں کر سکتی ۔
اسلام میں نوجوانوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور قیامت کے دن بھی جوانی کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن پوچھے گا عمر کس کام میں گزاری ، جوانی کن کاموں میں گزاری ، مال کن ذرائع سے کمایا اور کہاں خرچ کیااور اپنے علم پر کس حد تک عمل کیا ۔ ( سنن ترمذی )
جوانی میں عبادت کی توفیق ملنا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے ۔ کیونکہ جب انسان جوانی کی منازل طے کر رہا ہوتا ہے تو شیطان اس کو غلط کاموں کی طرف راغب کرنے کے لیے پوری کوشش کرتا ہے اور نوجوان دنیوی ضرورتوںکو حاصل کرنے کی خاطر دنیا کی رنگینیوں میں کھو جاتا اور آخرت کی فکر چھوڑ دیتا ہے ۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : بڑھاپے سے پہلے جوانی کو غنیمت جانو ، بیماری سے پہلے صحت کو ، فقیری سے پہلے امیری ، مصروفیت سے پہلے فرصت کو اور موت سے پہلے زندگی کو غنیمت جانو۔ ( مشکوۃ المصابیح )
ایک نوجوان تاجر حضرت سیدنا امام عامر شبعی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس سے گزرا نہوں نے پوچھا کہاں جا رہے ہو ۔ نوجوان نے کہا بازار جا رہا ہوں ۔ امام نے نوجوان سے پوچھا علماء کے پاس جاتے ہو ؟ نوجوان نے کہا جاتا ہوں مگر کم ۔ امام شبعیؒنے اس نوجوان کو فرمایا علم اور علماء کی مجالس کو لازم پکڑ لو میں تمہارے اندر علم کی نشانیاں دیکھ رہا ہو ۔ نوجوان نے اس وقت فیصلہ کیا کہ وہ علم دین حاصل کرے گا ۔ اس نوجوان تاجر کو آج دنیا امام اعظم امام ابو حنیفہ کے نام سے جانتی ہے جنہوںنے اپنی جوانی کا بہترین استعمال کیا اور اپنی جوانی کو علم دین حاصل کرنے میں صرف کر کے دنیا و آخرت کو سنوار لیا ۔ نوجوان جب اپنی جوانی میں صحیح فیصلہ لیتا ہے اور اپنی جوانی کو فضول کاموں میں صرف نہیں کرتا وہ نہ صرف اپنا آپ سنوارلیتا ہے بلکہ اس ایک نوجوان کی وجہ سے پورا معاشرہ سنور جاتا ہے ۔
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہو بے داغ ، ضرب ہو کاری
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو قیامت کے دن اپنے عرش اعظم کا سایہ نصیب فرمائے گا ان میں وہ نوجوان بھی ہوں گے جنہوں نے اپنی جوانی عبادت اور احکام الٰہی کی پیروی کر کے گزاری ۔
پیر، 13 اکتوبر، 2025
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے (۳)
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے (۳)
حضرت سہل ؓ فرماتے ہیں، ہم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ذولحلیفہ میں تھے کہ آپ نے ایک مردار بکری کو پڑے دیکھا تو فرمایا خدا کی قسم جتنی یہ بکری اپنے مالک کے لیے حقیر ہے۔ یہ دنیا اللہ تعالیٰ کے سامنے اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے سامنے دنیا کی کوئی حیثیت ہوتی توکافر کو اس میں سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ دیتا۔ ( ابن ماجہ )۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت ہے۔
حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جیسے جب کوئی پانی پر چلتا ہے تو اس کے پائوں ضرور بھیگ جاتے ہیں۔ اسی طرح صاحب دنیا گناہوں سے سلامت نہیں رہ سکتا۔ ( بہیقی )۔حضرت سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ بدن کے لیے دنیاوی غذا حاصل کرو اور دل کے لیے اخروی غذا کی تلاش کرو۔ حضرت فضیلؓ فرماتے ہیں اگر مجھے ساری دنیا کسب حلال کی صورت میں مل جائے مگر آخرت کی بھلائی اس میں نہ ہو تو میں اس سے اس طرح دامن بچا کے نکل جائوں گا جیسے تم مردار سے دامن بچا کے نکل جاتے ہو۔حضرت فضیل فرماتے ہیں کہ اگر دنیا مٹ جانے والے سونے اور آخرت باقی رہنے والی ٹھیکری ہوتی تب بھی فانی چیز کو باقی رینے والی چیز پر ترجیح دیتا مگر دنیا ٹھیکری ہے اور آخرت خالص سونا مگر ہم نے پھر بھی دنیا کو پسند کر لیا ہے۔ حضرت مالک بن دینار ؓ کا قول ہے کہ تم جس قدر دنیا کے لیے غمگین ہوتے ہو اسی قدر آخرت کا غم کم ہو جاتا ہے اور جس قدر آخرت کا غم کھاتے ہو اسی قدر دنیا کا غم مٹ جاتا ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے تین حصے کیے ہیں۔ ایک حصہ مومن کے لیے ایک حصہ منافق کے لیے اور ایک حصہ کافر کے لیے ہے۔ مومن اسے زادِ راہ بناتا ہے ، منافق زیب و زینت کرتا ہے اور کافر اس سے نفع اندوز ہوتا ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ کا فرمان ہے کہ اس دنیا میں ہر شخص بطور مہمان ہے اور یہا ں کی ہر چیز مستعار ہے۔ مہمان آخر کوچ کرجاتا ہے اور مستعار چیز واپس کرنی پڑتی ہے۔
مندرجہ بالا تما م آیات قرآنی ، احادیث نبوی ؐ اور اقول سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہمیں دنیا کے پیچھے بھاگنے کی بجائے آخرت کی تیاری کرنی چاہیے کیونکہ دنیا کی زندگی فنا ہونے والی ہے اور آخرت کی زندگی ہمیشہ رہے گی۔
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
اتوار، 12 اکتوبر، 2025
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے (۲)
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے (۲)
سورۃ کہف میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :’’ اور ان کے سامنے زندگانی دنیا کی کہاوت بیان کرو جیسے ایک پانی ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب زمین کا سبزہ گھنا ہو کر نکلا۔ پھر سوکھی گھاس ہو گیا جسے ہوائیں اڑائیں اور اللہ ہر چیز پر قابو والاہے۔ مال اور بیٹے یہ جیتی دنیا کا سنگار ہے اور باقی رہنے والی اچھی باتیں۔ ان کا ثواب تمہارے رب کے یہاں بہتر اور وہ امید میں سب سے بھلی ‘‘۔
اسی طرح سورۃ انعام میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : اور دنیا کی زندگی نہیں مگر کھیل کود اور بیشک پچھلا گھر بھلا ان کے لیے جو ڈرتے ہیں تو کیا تمہیں سمجھ نہیں۔ ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے سمجھایا ہے کہ دنیا کی دلکشیاں اور زیب و زینت کچھ عرصہ کے لیے ہیں اور پھر ختم ہو جائیں گی۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جیسے زمین کی ہریالی اور سر سبزو شادابی جو ہمارے برسائے ہوئے پانی کی وجہ سے نکلی ہو اور پھر کچھ عرصہ بعد وہ سوکھی ہوئی گھاس میں تبدیل ہو جاتا ہے اور پھر ہوائیں اسے اڑائے پھرتی ہیں۔ یہی مثال دنیا کی زندگی کی ہے لہذا دنیا کی ظاہری رنگینیوں میں کھو کر غافل ہو جانا عقل مندی نہیں۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت مبارکہ کی تلاوت کی۔ترجمہ : جس کو اللہ ہدایت دینا چاہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نور جب سینے میں داخل ہو تو سینہ کھلتا ہے۔ عرض کی گئی یارسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اس بات کوکیسے جان سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا دنیا سے دور رہنا ہمیشہ کے گھر یعنی آخرت کی جانب جھکے رہنا اور موت سے پہلے اس کی تیاری کرنا۔ ( بہیقی)
حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بوریے پر سوئے ہوئے اٹھے تو آپ ؐ کے جسم اقدس پر نشانات تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہﷺ آپ ہمیں حکم فرماتے ہم بستر بچھا دیتے۔آپؐ نے فرمایا کہ میرا دنیا سے اور دنیا کا مجھ سے کیا تعلق سوائے اتنا جیسے سوار درخت کے نیچے سایے میں بیٹھا پھر چل دیا اور اسے چھوڑ گیا۔ ( ترمذی )۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں اکثر اس بات کا اندیشہ کرتا ہوں جب اللہ تم پر یہ دنیا اپنی تمام سامانیوں کے ساتھ فراخ کر دے گا۔ ( بخاری )۔
ہفتہ، 11 اکتوبر، 2025
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے (1)
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے (1)
ا للہ تعالیٰ نے اس دنیا کو انسان کے لیے مقررہ مدت کے لیے بڑادلکش بنایا ہے اور اس میں انسان کے لیے سامان زندگی پیدا کر رکھا ہے تا کہ انسان اپنی زندگی کو آسانی سے گزار سکے لیکن زندگی گزارنے کے لوازمات اتنے دلکش اور پْرکشش ہیں کہ انسان ان میں دل لگا بیٹھا ہے اور یہی اس کے لیے باعث نقصان ہے۔کیونکہ دنیا سے دل لگی کی وجہ سے انسان غفلت میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اسی وجہ سے ذکر الٰہی اور عبادات سے دور ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے حضور نبی کریمﷺ نے دنیاوی زندگی کی مذمت کی ہے۔
صوفیا ء کرام کے نزدیک دنیا ایک سرائے کی مانند ہے جہاں لوگ کچھ دیر کے لیے آرام کرتے ہیں اور پھر اپنی منزل کی طرف گامزن ہو جاتے ہیں۔اسی طرح انسان کی منزل آخرت ہے اور اس کے لیے ساز و سامان اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ذکر الٰہی اور عبادات ہیں۔ جب انسان کو یہ بات معلوم ہے کہ یہ دنیا فانی ہے اور چند روز یہاں گزارنے کے بعد چلے جانا ہے تو دنیا سے محبت کرنا اور اس کو پانے کی کوشش کرنا بے مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسانوں کے لیے بے شمار نعمتیں پیدا کی ہیں لیکن کچھ قباحتیں جو شیطان نے پیدا کی ہیں اور جن کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کی عباد ت سے دور ہوتا جا رہا ہے ان سے بچنا ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ العنکبوت میں ارشاد فرمایا ہے : ’’ اور یہ دنیا کی زندگی سوائے کھیل تماشا کے کچھ نہیں اور بیشک آخرت کا گھر ضروروہی سچی زندگی ہے۔ کیا اچھا تھا اگر اس کو جانتے ‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو کھیل اورتماشہ کے ساتھ تشبیہ دی ہے جس طرح کھیل تماشا کچھ وقت کے لیے ہوتا ہے اور پھر سب اس کو چھوڑکر چلے جاتے ہیں یہی حال دنیا کا ہے جو انتہائی تیزی سے ختم ہو رہی اور موت اسے یہا ں سے جدا کر دیتی ہے۔لیکن آخرت کی زندگی ہی ہمیشہ رہنے والی ہے۔
سورۃ یونس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :’’ دنیا کی زندگی کی کہاوت تو ایسی ہی ہے جیسے وہ پانی کہ ہم نے آسمان سے اتارا تو اسکے سبب زمین سے اگنے والی چیزیں گھنی ہو کر نکلیں جو کچھ آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین نے اپنا سنگھار لے لیا اور خوب آراستہ ہو گئی اور اس کے مالک سمجھے کہ یہ ہمارے بس میں آگئی ہمارا حکم اس پر آیا رات میں یا دن میں تو ہم نے اسے کر دیا کاٹی ہوئی گویا کل تھی ہی نہیں۔ ہم یونہی آیتیں مفصل بیان کرتے ہیں غور کرنے والوں کے لیے۔اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف پکارتاہے اور جسے چاہے سیدھی راہ چلاتا ہے‘‘۔
جمعہ، 10 اکتوبر، 2025
غفلت(۲)
غفلت(۲)
حضور نبی کریم رئو ف الرحیم ﷺ نے غفلت کی مذمت کی اور غافل شخص کو مردہ کی طرح قرار دیا ۔ حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ ے ارشاد فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کا ذکر نہیں کرتا ان کی مثال زندہ اور مردار کی طرح ہے ۔ ( بخاری )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو قوم بھی کسی ایسی مجلس سے اٹھے جس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کیا گیا ہو تو وہ گدھے کے مردار سے اٹھے اور یہ مجلس ان پر حسرت ہو گی ۔ ( ابودائود )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو قوم بھی کسی مجلس میں بیٹھے اور پھر اس میں نہ تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا گیا ہو اور نہ ہی نبی کریم ﷺ پر درود و سلام بھیجا گیا ہو تو قیامت کے دن وہ مجلس ان کے لیے باعث حسرت ہو گی ۔ پھر اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو انہیں سزا دے اور چاہے تو انہیں بخش دے ۔ ایک شخص نے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ مجھے عبادت میں لطف نہیں آتا ۔ آپ ؒ نے فرمایا شاید تو نے کسی ایسے شخص کو دیکھ لیا ہے جو اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا ۔ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا حق یہ ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے تمام چیزو ں کو چھوڑ دیا جائے ۔
حضرت خوجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اے غافل انسان اس سفر کے لیے زادِ راہ تیار کر جو تجھے درپیش ہے یعنی موت کا بلاوا تجھے ہر دم اپنی طرف پکارتا ہے ۔
غافل آدمی شیطان کا دوست ہے اس سے بچنا بہت ضروری ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور جو غافل ہوا اللہ کے ذکر سے ہم اس پر ایک شیطان تعینات کریں کہ وہ اس کا ساتھی ہے۔( سورۃ زخرف )
اسی طرح سورۃ مجادلہ میں اللہ تعالیٰ ارشا د فرماتا ہے : ان پر شیطان غالب آ گیا تو انہیں اللہ کی یاد بھلا دی وہ شیطان کے گروہ ہیں سنتا ہے بیشک شیطان ہی کا گروہ ہار میں ہے ۔
سورۃ طہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے اور جو میرے ذکر سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی بھی تنگ ہو گی اور اسے قیامت کے دن اندھاکر کے اٹھایا جائے گا ۔ ان آیات مبارکہ سے واضح ہو جاتا ہے کہ غفلت بہت بُری چیز ہے اس لیے اے ترک کر کے خود کو یاد الٰہی میں مشغول کر لینا ہے کامیابی ہے ۔غفلت سے شرمندگی بڑھتی ہے اور نعمت زائل ہوتی ہے خدمت کا جذبہ ماند پڑتا ہے ۔حسد زیادہ ہوتا ہے اور ملامت و پیشمانی کی فراوانی ہوتی ہے ۔
سبسکرائب کریں در:
تبصرے (Atom)
-
دنیا کی زندگی ،ایک امتحان (۱) اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک عظیم مقصد کے تحت پیدا فرمایا ہے۔دنیا کی یہ زندگی ایک کھیل تماشا نہیں بلکہ ایک سن...


















