اللہ تعالی کی طرف سے بہت ہی آسان فلاح کا راستہ سنیے اور عمل کیجئے تاکہ ہم سب فلاح پا لیں . ہر قسم کی تفرقہ بازی اور مسلکی اختلافات سے بالاتر آسان اور سلیس زبان میں
منگل، 14 اکتوبر، 2025
پیر، 13 اکتوبر، 2025
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے (۳)
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے (۳)
حضرت سہل ؓ فرماتے ہیں، ہم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ذولحلیفہ میں تھے کہ آپ نے ایک مردار بکری کو پڑے دیکھا تو فرمایا خدا کی قسم جتنی یہ بکری اپنے مالک کے لیے حقیر ہے۔ یہ دنیا اللہ تعالیٰ کے سامنے اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے سامنے دنیا کی کوئی حیثیت ہوتی توکافر کو اس میں سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ دیتا۔ ( ابن ماجہ )۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت ہے۔
حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جیسے جب کوئی پانی پر چلتا ہے تو اس کے پائوں ضرور بھیگ جاتے ہیں۔ اسی طرح صاحب دنیا گناہوں سے سلامت نہیں رہ سکتا۔ ( بہیقی )۔حضرت سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ بدن کے لیے دنیاوی غذا حاصل کرو اور دل کے لیے اخروی غذا کی تلاش کرو۔ حضرت فضیلؓ فرماتے ہیں اگر مجھے ساری دنیا کسب حلال کی صورت میں مل جائے مگر آخرت کی بھلائی اس میں نہ ہو تو میں اس سے اس طرح دامن بچا کے نکل جائوں گا جیسے تم مردار سے دامن بچا کے نکل جاتے ہو۔حضرت فضیل فرماتے ہیں کہ اگر دنیا مٹ جانے والے سونے اور آخرت باقی رہنے والی ٹھیکری ہوتی تب بھی فانی چیز کو باقی رینے والی چیز پر ترجیح دیتا مگر دنیا ٹھیکری ہے اور آخرت خالص سونا مگر ہم نے پھر بھی دنیا کو پسند کر لیا ہے۔ حضرت مالک بن دینار ؓ کا قول ہے کہ تم جس قدر دنیا کے لیے غمگین ہوتے ہو اسی قدر آخرت کا غم کم ہو جاتا ہے اور جس قدر آخرت کا غم کھاتے ہو اسی قدر دنیا کا غم مٹ جاتا ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے تین حصے کیے ہیں۔ ایک حصہ مومن کے لیے ایک حصہ منافق کے لیے اور ایک حصہ کافر کے لیے ہے۔ مومن اسے زادِ راہ بناتا ہے ، منافق زیب و زینت کرتا ہے اور کافر اس سے نفع اندوز ہوتا ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ کا فرمان ہے کہ اس دنیا میں ہر شخص بطور مہمان ہے اور یہا ں کی ہر چیز مستعار ہے۔ مہمان آخر کوچ کرجاتا ہے اور مستعار چیز واپس کرنی پڑتی ہے۔
مندرجہ بالا تما م آیات قرآنی ، احادیث نبوی ؐ اور اقول سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہمیں دنیا کے پیچھے بھاگنے کی بجائے آخرت کی تیاری کرنی چاہیے کیونکہ دنیا کی زندگی فنا ہونے والی ہے اور آخرت کی زندگی ہمیشہ رہے گی۔
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
اتوار، 12 اکتوبر، 2025
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے (۲)
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے (۲)
سورۃ کہف میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :’’ اور ان کے سامنے زندگانی دنیا کی کہاوت بیان کرو جیسے ایک پانی ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب زمین کا سبزہ گھنا ہو کر نکلا۔ پھر سوکھی گھاس ہو گیا جسے ہوائیں اڑائیں اور اللہ ہر چیز پر قابو والاہے۔ مال اور بیٹے یہ جیتی دنیا کا سنگار ہے اور باقی رہنے والی اچھی باتیں۔ ان کا ثواب تمہارے رب کے یہاں بہتر اور وہ امید میں سب سے بھلی ‘‘۔
اسی طرح سورۃ انعام میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : اور دنیا کی زندگی نہیں مگر کھیل کود اور بیشک پچھلا گھر بھلا ان کے لیے جو ڈرتے ہیں تو کیا تمہیں سمجھ نہیں۔ ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے سمجھایا ہے کہ دنیا کی دلکشیاں اور زیب و زینت کچھ عرصہ کے لیے ہیں اور پھر ختم ہو جائیں گی۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جیسے زمین کی ہریالی اور سر سبزو شادابی جو ہمارے برسائے ہوئے پانی کی وجہ سے نکلی ہو اور پھر کچھ عرصہ بعد وہ سوکھی ہوئی گھاس میں تبدیل ہو جاتا ہے اور پھر ہوائیں اسے اڑائے پھرتی ہیں۔ یہی مثال دنیا کی زندگی کی ہے لہذا دنیا کی ظاہری رنگینیوں میں کھو کر غافل ہو جانا عقل مندی نہیں۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت مبارکہ کی تلاوت کی۔ترجمہ : جس کو اللہ ہدایت دینا چاہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نور جب سینے میں داخل ہو تو سینہ کھلتا ہے۔ عرض کی گئی یارسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اس بات کوکیسے جان سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا دنیا سے دور رہنا ہمیشہ کے گھر یعنی آخرت کی جانب جھکے رہنا اور موت سے پہلے اس کی تیاری کرنا۔ ( بہیقی)
حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بوریے پر سوئے ہوئے اٹھے تو آپ ؐ کے جسم اقدس پر نشانات تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہﷺ آپ ہمیں حکم فرماتے ہم بستر بچھا دیتے۔آپؐ نے فرمایا کہ میرا دنیا سے اور دنیا کا مجھ سے کیا تعلق سوائے اتنا جیسے سوار درخت کے نیچے سایے میں بیٹھا پھر چل دیا اور اسے چھوڑ گیا۔ ( ترمذی )۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں اکثر اس بات کا اندیشہ کرتا ہوں جب اللہ تم پر یہ دنیا اپنی تمام سامانیوں کے ساتھ فراخ کر دے گا۔ ( بخاری )۔
ہفتہ، 11 اکتوبر، 2025
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے (1)
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے (1)
ا للہ تعالیٰ نے اس دنیا کو انسان کے لیے مقررہ مدت کے لیے بڑادلکش بنایا ہے اور اس میں انسان کے لیے سامان زندگی پیدا کر رکھا ہے تا کہ انسان اپنی زندگی کو آسانی سے گزار سکے لیکن زندگی گزارنے کے لوازمات اتنے دلکش اور پْرکشش ہیں کہ انسان ان میں دل لگا بیٹھا ہے اور یہی اس کے لیے باعث نقصان ہے۔کیونکہ دنیا سے دل لگی کی وجہ سے انسان غفلت میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اسی وجہ سے ذکر الٰہی اور عبادات سے دور ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے حضور نبی کریمﷺ نے دنیاوی زندگی کی مذمت کی ہے۔
صوفیا ء کرام کے نزدیک دنیا ایک سرائے کی مانند ہے جہاں لوگ کچھ دیر کے لیے آرام کرتے ہیں اور پھر اپنی منزل کی طرف گامزن ہو جاتے ہیں۔اسی طرح انسان کی منزل آخرت ہے اور اس کے لیے ساز و سامان اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ذکر الٰہی اور عبادات ہیں۔ جب انسان کو یہ بات معلوم ہے کہ یہ دنیا فانی ہے اور چند روز یہاں گزارنے کے بعد چلے جانا ہے تو دنیا سے محبت کرنا اور اس کو پانے کی کوشش کرنا بے مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسانوں کے لیے بے شمار نعمتیں پیدا کی ہیں لیکن کچھ قباحتیں جو شیطان نے پیدا کی ہیں اور جن کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کی عباد ت سے دور ہوتا جا رہا ہے ان سے بچنا ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ العنکبوت میں ارشاد فرمایا ہے : ’’ اور یہ دنیا کی زندگی سوائے کھیل تماشا کے کچھ نہیں اور بیشک آخرت کا گھر ضروروہی سچی زندگی ہے۔ کیا اچھا تھا اگر اس کو جانتے ‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو کھیل اورتماشہ کے ساتھ تشبیہ دی ہے جس طرح کھیل تماشا کچھ وقت کے لیے ہوتا ہے اور پھر سب اس کو چھوڑکر چلے جاتے ہیں یہی حال دنیا کا ہے جو انتہائی تیزی سے ختم ہو رہی اور موت اسے یہا ں سے جدا کر دیتی ہے۔لیکن آخرت کی زندگی ہی ہمیشہ رہنے والی ہے۔
سورۃ یونس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :’’ دنیا کی زندگی کی کہاوت تو ایسی ہی ہے جیسے وہ پانی کہ ہم نے آسمان سے اتارا تو اسکے سبب زمین سے اگنے والی چیزیں گھنی ہو کر نکلیں جو کچھ آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین نے اپنا سنگھار لے لیا اور خوب آراستہ ہو گئی اور اس کے مالک سمجھے کہ یہ ہمارے بس میں آگئی ہمارا حکم اس پر آیا رات میں یا دن میں تو ہم نے اسے کر دیا کاٹی ہوئی گویا کل تھی ہی نہیں۔ ہم یونہی آیتیں مفصل بیان کرتے ہیں غور کرنے والوں کے لیے۔اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف پکارتاہے اور جسے چاہے سیدھی راہ چلاتا ہے‘‘۔
جمعہ، 10 اکتوبر، 2025
غفلت(۲)
غفلت(۲)
حضور نبی کریم رئو ف الرحیم ﷺ نے غفلت کی مذمت کی اور غافل شخص کو مردہ کی طرح قرار دیا ۔ حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ ے ارشاد فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کا ذکر نہیں کرتا ان کی مثال زندہ اور مردار کی طرح ہے ۔ ( بخاری )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو قوم بھی کسی ایسی مجلس سے اٹھے جس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کیا گیا ہو تو وہ گدھے کے مردار سے اٹھے اور یہ مجلس ان پر حسرت ہو گی ۔ ( ابودائود )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو قوم بھی کسی مجلس میں بیٹھے اور پھر اس میں نہ تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا گیا ہو اور نہ ہی نبی کریم ﷺ پر درود و سلام بھیجا گیا ہو تو قیامت کے دن وہ مجلس ان کے لیے باعث حسرت ہو گی ۔ پھر اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو انہیں سزا دے اور چاہے تو انہیں بخش دے ۔ ایک شخص نے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ مجھے عبادت میں لطف نہیں آتا ۔ آپ ؒ نے فرمایا شاید تو نے کسی ایسے شخص کو دیکھ لیا ہے جو اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا ۔ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا حق یہ ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے تمام چیزو ں کو چھوڑ دیا جائے ۔
حضرت خوجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اے غافل انسان اس سفر کے لیے زادِ راہ تیار کر جو تجھے درپیش ہے یعنی موت کا بلاوا تجھے ہر دم اپنی طرف پکارتا ہے ۔
غافل آدمی شیطان کا دوست ہے اس سے بچنا بہت ضروری ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور جو غافل ہوا اللہ کے ذکر سے ہم اس پر ایک شیطان تعینات کریں کہ وہ اس کا ساتھی ہے۔( سورۃ زخرف )
اسی طرح سورۃ مجادلہ میں اللہ تعالیٰ ارشا د فرماتا ہے : ان پر شیطان غالب آ گیا تو انہیں اللہ کی یاد بھلا دی وہ شیطان کے گروہ ہیں سنتا ہے بیشک شیطان ہی کا گروہ ہار میں ہے ۔
سورۃ طہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے اور جو میرے ذکر سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی بھی تنگ ہو گی اور اسے قیامت کے دن اندھاکر کے اٹھایا جائے گا ۔ ان آیات مبارکہ سے واضح ہو جاتا ہے کہ غفلت بہت بُری چیز ہے اس لیے اے ترک کر کے خود کو یاد الٰہی میں مشغول کر لینا ہے کامیابی ہے ۔غفلت سے شرمندگی بڑھتی ہے اور نعمت زائل ہوتی ہے خدمت کا جذبہ ماند پڑتا ہے ۔حسد زیادہ ہوتا ہے اور ملامت و پیشمانی کی فراوانی ہوتی ہے ۔
جمعرات، 9 اکتوبر، 2025
غفلت(1)
غفلت(1)
یاد الٰہی اور اطاعت الٰہی میں لاپرواہی کرنا غفلت کہلاتا ہے۔ انسان کی زندگی کا حقیقی مقصد اللہ جل شانہ کی عبادت اور معرفت کا حصول ہے۔جو شخص حق تعالیٰ کو پہچاننے کی کوشش نہیں کرتا اور اس سے بے خبر رہتا ہے وہ غافل ہے۔ طریقت اور معرفت کی منازل طے کرنے میں غفلت بہت بڑی کوتاہی ہے جس کی وجہ سے بندہ ان منازل کو طے کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ جو بندہ اللہ تعالیٰ سے دوستی کا مطلوب ہو اسے غفلت سے نکل کر معرفت کا راستہ اپنانا ہو گا۔
غفلت مقصد حیات کی دشمن ہے ، غفلت انسان کی آنکھوں پر پردہ ڈالے رکھتی ہے۔ غفلت بھلائی کے راستوں کو بند کیے رکھتی ہے۔
غفلت ہی کی وجہ سے بندہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور ذکر سے بے خبر رہتا ہے اور اسی کی وجہ سے نماز پنجگانہ میں استقامت پیدا نہیں ہوتی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اور بیشک ہم نے جہنم کے لیے پیدا کیے بہت جن اور آدمی وہ دل رکھتے ہیں جن میں سمجھ نہیں اور وہ آنکھیں جن سے دیکھتے نہیں اور وہ کان جن سے سنتے نہیں۔ وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بڑھ کر گمراہ۔ وہی غفلت میں پڑے ہیں ‘‘۔ ( سورۃ لاعراف )۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو عبادت اور اطاعت کی حقیقت کو نہیں سمجھتے۔کیونکہ کہ ان کے ایسے دل ہیں جن کے ذریعے وہ راہ حق سے اعراض کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی آیات میں تدبر کرنے سے محروم ہو گئے۔ ان کی ایسی آنکھیں جن کے ساتھ وہ راہ حق کو نہیں دیکھتے اور ان کے ایسے کان ہیں جن کے ذریعے وہ حق کو نہیں سنتے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہی وہ لوگ ہیں جو غفلت میں پڑے ہیں اور ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
’’بیشک وہ جو ہمارے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی پسند کر بیٹھے اور اس پر مطمئن ہو گئے اور وہ جو ہماری آیتوں سے غفلت کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے ‘‘۔ (سورۃ یونس)۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کے سامنے اپنی عبادت واطاعت کے لیے بہت سی نشانیاں اور دلائل دیے تا کہ انسان غفلت کی نیند سے جاگ کر راہ حق پر آ جائے لیکن اس کے باوجود بہت سے لوگ ایسے ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں جو کچھ دیا ہے اس پر راضی ہو گئے ہیں اور آخرت کی فکر بھلا ئے بیٹھے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’لوگوں کا حساب نزدیک اور وہ غفلت میں منہ پھیرے ہیں۔جب ان کے رب کے پاس سے ان کی طرف کوئی نصیحت آتی ہے تو اسے نہیں سنتے مگر کھیلتے ہوئے ‘‘۔ ( سورۃ الانبیاء )۔
یعنی قیامت بہت قریب ہے اور انسان غفلت میں پڑا ہے اور یادالٰہی اور اطاعت و فرمانبرداری کی طرف اس کی توجہ نہیں۔
بدھ، 8 اکتوبر، 2025
پیروی اسوہ رسول ﷺکامیابی کاراستہ
پیروی اسوہ رسول ﷺکامیابی کاراستہ
اللہ تبارک تعالیٰ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر بھیجا تو اولاد آدم کو ساتھ یہ بات بھی بتا دی کہ میں تمہیں دنیا میں بے یا رو مدد گار نہیں چھوڑوں گا بلکہ تمہاری راہنمائی کا مکمل انتظام کروں گا۔ جو لوگ میری اطاعت کریں گے وہی دنیا و آخرت میں کامیاب ہو ں گے اور جو لوگ میری نا فرمانی کریں گے ان کے لیے سخت عذاب تیارکر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی راہنمائی کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اور رسل مبعوث فرمائے اور کئی آسمانی صحیفے اور کتابیں نازل کیں۔ انسانوں کی راہنمائی کے لیے انبیاء کا جو سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا تھا وہ حضور نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ پر ختم ہوا۔ تمام انبیاء کسی خاص علاقے یا پھر کسی خاص قوم کی طرف مبعوث فرمائے گئے اور ہر ایک نبی کی نبوت وقتی تھی لیکن حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت دائمی ہے۔ آپ ؐ تمام جہانوں کے لیے رحمۃ اللعالمین ہیں اور آپ ؐ پر نازل ہونے والی کتاب قرآن مجید آخری کتاب ہے اور آپ ؐ کا دین آخری دین ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر لحاظ سے ، ہر پہلو اور ہر حوالے سے ایک کامل ترین دین کی موجودگی میں اگر کوئی شخص ہدایت اور راہنمائی کے لیے کسی دوسرے دین کی طرف دیکھتا ہے تو اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کو ئی شخص دن کی روشنی میں چراغ جلا کر کھلے میدان کوئی چیز تلاش کرے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک پوری انسانیت کے لیے بغیر کسی رنگ و نسل و امتیاز کے ہر علاقے ، ہر قوم ، ہر حاکم و محکوم ، ہر امیر و غریب اور ہر چھوٹے اور بڑے کے لیے رسول اور رحمت کا پیکر ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کی ذات مقدسہ میں ہر انسان اور ہر خاص و عام کے لیے بہترین نمونہ موجود ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ لوگو! تم سب کے لیے اللہ کے رسول (ﷺ) کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے ‘‘۔
کوئی آدمی بیٹا ہے یا باپ ، بھائی ہے ، شوہر ہے ، دوست ہے ، پڑوسی ہے ، خطیب ہے ، معلم ہے ، تاجر ہے ، مزدورہے ، حاکم ہے یا محکوم ہے جو بھی ہے ان سب کے لیے حضور نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ میں راہنمائی موجودہے۔خواتین ، مائوں ، بہنوں ، بیٹیوں کے لیے حضرت خدیجۃ الکبری ، حضرت عائشہ ، حضرت فاطمۃ الزہرہ اور دوسری امہات المومنین کی زندگیوں میں بہترین نمونہ موجود ہے۔ اگر ہم دنیا و آخرت میں سر خرو ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں لازمی طور پر اسوہ رسول ؐ سے راہنمائی لینی پڑے گی اور اپنی زندگی اس کے مطابق گزارنا پڑے گی۔ اس کے بغیر نہ ہم دنیا میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور نہ ہی آخرت میں۔
منگل، 7 اکتوبر، 2025
مسلمان کی حاجت روائی کی فضیلت
مسلمان کی حاجت روائی کی فضیلت
مسلمان کو چاہیے ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی مد د کرے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی معاونت کرو ۔ (سورۃ المائدہ) حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص کسی مسلمان بھائی کی مدد اور فائدے کے لیے قدم اٹھاتا ہے ، اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا، اللہ تعالیٰ نے ایسی مخلوق کو پیدافرمایا ہے جن کا کام لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ انھیں عذاب نہیں کرے گا جب قیامت کا دن ہو گا ان کے لیے نور کے منبر رکھے جائیں گے وہ اللہ تعالیٰ سے گفتگو کر رہے ہوں گے حالانکہ لوگ ابھی حساب میں ہوں گے ۔ نبی کریمﷺ نے اشاد فرمایا: جو کسی مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے چاہے اس کی حاجت پوری ہو یا نہ ہو اللہ تعالیٰ کوشش کرنے والے کے اگلے پچھلے سب گناہوں کو بخش دیتا ہے اور اس کے لیے دو باتیں لکھ دی جاتی ہیں جہنم سے رہائی اور منافقت سے برات۔ حلیہ میں ابو نعیم نقل کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرتاہے میں اس کے میزان کے قریب کھڑا ہوں گا اگر اس کی نیکیاں زیادہ ہوئیں تو ٹھیک ورنہ میں اس کی شفاعت کرو ں گا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب کوئی شخص مسلمان بھائی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ ہر قدم کے بدلے اس کے نامہ اعمال میں ستر نیکیاں لکھ دیتا ہے اور ستر گناہ معاف کر دیتا ہے۔ اگر وہ حاجت اس کے ہاتھوں پوری ہو جائے تو وہ گناہوں سے ایسے پاک ہو جاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے آیا تھا اور اگر اسی دوران اس کی موت واقع ہو جائے تو بلا حساب جنت میں جائے گا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے انعامات ہیں جو ان لوگوں کے لیے مخصوص ہیں جو لوگوں کی حاجت روائی کرتے رہتے ہیں اور جب وہ یہ طریقہ چھوڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ وہ انعامات دوسروں کو منتقل کر دیتا ہے۔ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: جو کسی مسلمان کی پریشانی کو دور کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کی پریشانیوں میں سے اس کی ایک پریشانی دور فرمائے گا۔ (مسلم شریف)
پیر، 6 اکتوبر، 2025
توبہ اور استغفار کی کثرت
توبہ اور استغفار کی کثرت
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اور تم سب توبہ کرو اے ایمان والو !تا کہ تم کامیاب ہو جائو۔ (سورۃ النور)‘‘۔
سورۃ التحریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کی طرف توبہ کرو خالص توبہ‘‘۔
سورۃ ھود میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور یہ کہ اپنے رب سے بخشش مانگو ، پھر اس کی طرف پلٹ جائو۔
سورۃ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’جو لوگ متقی بنے ان کے لیے ان کے رب کے پاس باغات ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ اور نہایت پاک صاف بیویاں اور اللہ کی جانب سے عظیم خوشنودی ہے اور اللہ بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے۔ جو کہتے ہیں اے ہمارے رب بے شک ہم ایمان لے آئے ، سو ہمارے گناہ بخش دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔جو صبر کرنے والے اور سچ کہنے والے اورحکم ماننے والے اور خرچ کرنے والے اور رات کی آخری گھڑیوں میں بخشش مانگنے والے ہیں ‘‘۔
’’اپنے رب سے معافی مانگ لو یقینا وہ ہمیشہ سے بہت معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر برستی ہوئی بارش اتارے گا۔ اور وہ مالوں اور بیٹوں کے ساتھ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں باغات عطا کرے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کر دے گا‘‘۔ ( سورۃ نوح)۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ میں دن میں ستر مرتبہ سے زیادہ اللہ سے استغفار اور اس سے توبہ کرتا ہوں۔( بخاری )۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول خداؐ سے زیادہ کسی کو یہ کہتے ہوئے نہیں دیکھا ’’ استغفر اللہ و اتوب الیہ ‘‘ اے اللہ میں تجھ سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں۔ ( سنن نسائی )۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے لوگوں کو جمع کیا اور انہیں کہا : اے لوگوتم سب اللہ تعالیٰ سے توبہ کرو پس میں اللہ سے ایک دن میں سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔ ( نسائی )۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک مجلس میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سو باریہ کہنے کو شمار کرتے تھے ’’ رب اغفرلی وتب علی انک انت التواب الرحیم ‘‘ اے میرے رب مجھے بخش دے، میری توبہ قبول کر، تو ہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ ( ابو دائود )۔
حضرت عبد اللہ بن بسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما یا: خوش خبری ہے اس شخص کے لیے جو اپنے نامہ اعمال میں کثرت سے استغفار پائے۔
( ابن ماجہ ، سنن نسائی )۔
اتوار، 5 اکتوبر، 2025
غیب
غیب
اسلام میں غیبت ایک گناہ کبیرہ ہے۔ یہ ایک ایسی برائی ہے جس کی وجہ سے دوسری برائیاں بھی جنم لیتی ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکمل تفصیل کے ساتھ اپنے ارشادات میں مسلمانوں کو غیبت کے نقصانات سے آگاہ کیا اور اس سے بچنے کی تلقین فرمائی۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لوگو تمہیں معلوم ہے کہ غیبت کیا چیز ہے ؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے عرض کیا، اللہ تعالی اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔
آپ نے فرمایا کہ تمہارے اپنے بھائی کا تذکرہ اس طرح کرنا کہ اگر وہ یہ بات خود سن لیتا تو اس کو نا پسند کرتا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اگر وہ بات اس میں پائی جاتی ہو تو پھر؟۔ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر وہ بات اس میں موجود ہو تو تو نے اس کی غیبت کی اور اگر موجود نہ ہو تو پھر تو نے اس پر بہتان باندھا۔
اللہ تعالیٰ سورۃ الحمزہ میں ارشاد فرماتا ہے : ’’ خرابی اور تباہی ہے اس کے لیے جو لوگوں کے منہ پر عیب جوئی کرے اور پیٹھ پیچھے برائی کرے ‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں غیبت کرنے والے کو وعید سنائی ہے کہ جس شخص نے یہ کا م کیا اس کو ذلت اور درد ناک عذاب سے دو چار ہونا پڑے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں کوئی ایسا ہے جو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا۔ یہ تو تمہیں بہت ناگوار ہو گا۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو یقیناً اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والامہربان ہے ‘‘۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : غیبت بد کاری سے سخت تر ہے کیونکہ آدمی بدکاری کر کے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف فرما دیتا ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : بد کار شخص توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کو معاف فرما دیتا ہے اور غیبت کرنے والے کو اللہ تعالیٰ اس وقت تک معاف نہیں فرماتا جب تک وہ شخص معاف نہ کر دے جس کی غیبت کی تھی۔
غیبت سے بچنے کے لیے زبان کی حفاظت بہت ضروری ہے۔ کیونکہ آدمی کی دنیاوی حیات اور اخروی حیات میں اس کی تباہی اور ہلاکت کا باعث چغلی ، بہتان طرازی اور غیبت جیسی لغزشیں ہوتی ہیں اور اس کی وجہ زبان پہ قابونہ ہو نا ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو خصلتیں پشت پر ہلکی اور میزان پر بھاری ہیں ایک طویل خاموشی اور دوسری حسنِ خلق۔
ہفتہ، 4 اکتوبر، 2025
بہترین شخص
بہترین شخص
خیر خواہی ایک ایسا عمل ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے تمام اخلاق کی بنیاد رضائے الٰہی ہی ہے۔ مخلوق کے لیے اپنے دل میں ہمدردی اور خیر خواہی رکھنا ایک سنہری اصول ہے۔
حضور نبیء کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے اور اللہ تعالی کے نزدیک محبوب وہ ہے جو اس کنبے کے ساتھ اچھا سلوک کرے ‘‘۔ (مشکوۃ شریف)۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری زندگی اللہ کی مخلوق کی خیر اور بھلائی چاہی۔ آپ ؐ کا مقصد حیات لوگوں کو نفع پہنچانا اور فیضیاب کرنا تھا۔آپ ؐ نے ارشاد فرمایا : لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جو انسانوں کو نفع پہنچاتا ہے۔
فرمان مصطفی ﷺ ہے : اللہ تعالی تمام معاملات میں نرمی پسند کرتا ہے۔( بخاری شریف)۔
ہمیں ذاتی مفاد اور غرض کے بغیر لوگوں کو نفع پہنچانا چاہیے۔ رشتہ داروں سے بھی بھلائی کریں اور دوسرے حاجت مندوں سے بھی۔ اور جانوروں کے ساتھ بھی بھلائی کریں۔ بد سلوکی اور دوسروں کو نقصان پہنچانا ایک نا پسندیدہ عمل ہے اور آپ ؐ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن رتبے کے لحاظ سے وہ بد ترین شخص ہو گا جس کے شر کی وجہ سے لوگ اسے چھوڑ دیں۔ (بخاری شریف)۔
ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ خیر خواہی کرے۔ دوسروں کے ساتھ مہربانی ، لطف و عنایت ، نرم دلی اور خیر خواہی ایک اعلی انسان کی صفات ہیں۔ بوڑھوں ، یتیموں ، بیوائوں، بچوں اور مفلوک الحال لوگوں کے ساتھ خیر خواہی اور ان کا خیال رکھنا ہمارا فرض ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے : ’’ وہ تنگدستی کے باوجود دوسرے مسلمان بھائیوں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں۔‘‘( سورۃ الحشر )۔
حضرت ابو جہم بن حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ جنگ یرموک کے میدان میں اپنے زخمی بھائی کی تلاش میں نکلے جب پانی لے کر بھائی کے پاس پہنچے اور اسے پانی پلانے ہی لگے تھے کہ دوسرے زخمی کے کراہنے کی آواز آئی تو زخمی بھائی نے اپنے بھائی سے کہاکہ پہلے اسے پانی پلائیں۔ جب صحابی پانی لے کر اس کے پاس پہنچے تو تیسرے زخمی کی آواز آئی تو صحابی نے کہا کہ پہلے اسے پلائیں۔ جب صحابی پانی لے کر تیسرے صحابی کے پاس پہنچے تو وہ شہیدہو چکے تھے۔ واپس دوسرے کے پاس آئے تو وہ بھی شہیدہو چکے تھے پھر جب اپنے بھائی کے پاس پہنچے تو وہ بھی شہادت کا جام پی چکے تھے۔ یہ تھا صحابہ کرام کا اپنے بھائیوں کے لیے جذبہ ایثار۔
آپؐ نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہ ہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے کرتا ہے۔
جمعہ، 3 اکتوبر، 2025
دنیا سے بے رغبتی
دنیا سے بے رغبتی
اللہ تعالیٰ نے بندوں کو دنیا میں اپنی بندگی کے لیے بھیجا ۔ لیکن بندہ اپنا اصل مقصد چھوڑ کر دنیا کی ظاہری رنگینیوں میں مبتلا ہو جائے تو پھر اس میں اس کے لیے کوئی بھلائی نہیں کیونکہ دنیا کا مال نہایت قلیل اور ختم ہونے والا اور زوال پذیر ہے ۔اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اس کی کو ئی اہمیت نہیں اس لیے بندے کو چاہیے کہ وہ دنیا سے دل نہیں لگائے اور دنیا کی محبت کو اپنے دل سے نکال دے ۔
دانشوروں کا قول ہے کہ شریف وہ ہے جس کو دنیا کی محبت رنج و تکلیف میں نہ ڈالے کیونکہ دنیا کے مکروہات میں مبتلا ہو کر آدمی کسی کام کا نہیں رہتا بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ جس کو دنیا مل جائے اور وہ اس کو حاصل کرکے کے خوش ہو تو اس سے بڑا احمق کوئی نہیں ہے ۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : کیا کوئی ایسا شخص ہو سکتا ہے کہ وہ پانی پر چلے مگر اس کے پائو ں گیلے نہ ہوں ۔ صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا دنیا دار گناہوں سے نہیں بچ سکتا ۔
( بہیقی‘ شعب الایمان)
یعنی جو دنیا میں مبتلا ہو گیا اس کے لیے گناہوں سے بچنا ممکن نہیں ۔ اس لیے ضرورت سے زیادہ مال جو اللہ تعالیٰ کی یاد سے انسان کو غافل کر دے اور انسان کو متکبر بنا دے نقصان دہ ہے ۔
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے حلال دنیا (روزی)تلاش کی تا کہ گدا گری سے بچے ، اپنے گھر والوں کی خدمت اور پڑوسی کے ساتھ تعاون کرے وہ اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن اس حال میں ملے گا اس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہا ہو گا اور جس نے دنیا اس لیے طلب کی کہ وہ اپنا مال فخر ، تکبر اور دکھاوے کے لیے بڑھائے تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس سے سخت ناراض ہو گا ( مشکوۃ شریف) ۔
حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا: جب بندہ دنیا سے بے رغبتی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل میں حکمت کا چشمہ جاری کر دیتا ہے ۔ اس سے اس کی زبان میں گویائی عطا کرتا ہے اسے دنیا کے عیوب اس کی بیماریوں اور اس کے علاج سے آگاہ کر دیتا ہے ۔اور اسے دنیا سے سلامتی کے ساتھ جنت کی طرف لے جاتا ہے ۔( بہیقی ، شعب الایمان)
جمعرات، 2 اکتوبر، 2025
غصہ پینے کی فضیلت
غصہ پینے کی فضیلت
غصہ کرنا انتہائی بری عادت ہے۔ اس سے بہت سارے کام بگڑ جاتے ہیں اور انسان بہت سے قیمتی رشتوں کو کھو بیٹھتا ہے۔غصہ کرنے سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ جو لوگ اپنے غصہ پر قابو رکھتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پسند یدہ بندے قرار دیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’وہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں خوشی میں اور رنج میں اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے در گزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔ ( سورۃ آل عمران )۔
سورۃ الشوری میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’ اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی سے پرہیز کرتے ہیں اور جب غصہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں‘‘۔ ’’ اور برائی کا بدلہ اسی کی برابر برائی ہے تو جس نے معاف کیا اور کام سنوار لیا تو اس کا اجر اللہ پر ہے بیشک وہ دوست نہیں رکھتاظالموں کو ( سورۃ الشوری)۔
بخاری شریف میں ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا مجھے وصیت فرمائیں آپ نے فرمایاغصہ مت کیا کرو۔ اس نے پھر عرض کی یارسول اللہ ﷺ مجھے وصیت فرمائیں تو آپ ؐ نے پھر یہی فرمایا کہ غصہ مت کیا کرو۔ (بخاری شریف)۔
حضرت سیدنا ابو الدردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور ﷺ کی بارگاہ اقدس میں عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسا عمل ارشاد فرمائیں جو مجھے جنت میں لے جائے تو آپ ؐنے فرمایا غصہ نہ کرو ، تو تمہارے لیے جنت ہے۔ ( مجمع الزوائد)۔
بخاری شریف میں ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ طاقتور وہ نہیں جو پچھاڑ دے بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اپنا غصہ روک لے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے عذاب روک لے گا اور جس نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عذر پیش کیا اللہ تعالیٰ اس کا عذر قبول فرمائے گا۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس غصہ کے گھونٹ سے بہتر گھونٹ نہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطرپی لیا گیا۔ ( اشعۃ اللمعات )۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو غصہ پی جائے گا حالانکہ کہ وہ نافذ کرنے پر قدرت رکھتا تھا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے دل کو اپنی رضا سے معمور فرمائے گا۔ ( کنزالعمال)۔
غصہ پر قابو پانا ایمان کی پختگی ، صبر اور برداشت کی اعلی صفت ہے۔ یہ عمل انسان کو اللہ کے قریب کرتا ہے اور شیطان کے شر سے بچاتا ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں محبت اور امن کو فروغ ملتا ہے۔
بدھ، 1 اکتوبر، 2025
امر با المعروف و نہی عن المنکر
امر با المعروف و نہی عن المنکر
امت مسلمہ کی ایک باہم ذمہ داری امر باالمعروف و نہی عن المنکر بھی ہے۔ یعنی اچھائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ اس کا دائرہ ہر نیکی اور ہر برائی تک وسیع ہو گا جو عبادات،معاملات ، اخلاقیات اور ہر اچھائی تک پھیلاہوا ہے۔جس معاشرے میں نیکی کی دعوت نہ دی جائے اور برائی سے نہ روکا جائے اس معاشرہ میں برائی جنگل میں آگ کی طرح پھیلتی ہے۔ اس لیے امت مسلمہ کا خاصہ یہ ہی بتایا گیا ہے کہ وہ لوگ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’تم بہترین امت ہو جو لوگو ں کے واسطے ظاہرکیے گئے ہو۔ بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ‘‘۔(سورۃآل عمران)۔
امت مسلمہ خیر پھیلانے والی اور شر سے روکنے والی امت ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک نیکی کرنا ہر انسا ن کا حق ہے اور کوئی بھی برائی کرنا کسی بھی انسان کا حق نہیں ہے۔ کامیاب لوگوں کی یہ ہی علامت بتائی گئی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو خیر کی تلقین کرتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے کہ بھلائی کی طرف بلائے اور اچھی بات کا حکم دے اور بری سے منع کرے۔ اور یہی لوگ مراد کو پہنچے‘‘۔ (سورۃ آل عمران)۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ وہ ایک دو سرے کو حق اور صبر کی تلقین کرتے ہیں ‘‘۔امت مسلمہ کا ہر فرد اس بات کا پابند ہے کہ وہ اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق دوسروں کوخیر کی تلقین کرے اور اسے شر سے روکے ، ایسا نہ ہو کہ اس کا بیٹا یا اس کا کوئی ماتحت اس کا حکم نہ مانے تو ناراض ہو لیکن جب جب وہ ہی فرد اللہ کا حکم نہ مانے تو اسے پروا نہ ہو۔
حضرت عبید اللہ بن حصن رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین جب ایک دوسرے سے ملتے تو جب تک ان میں سے ایک دوسرے کو سورہ عصر پڑھ کر نہیں سنا دیتے تھے تو وہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے تھے۔اہل ایمان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ہر خیر میں ایک دوسرے سے تعاون کریں اور شر میں کبھی بھی کسی سے تعاون نہ کریں بلکہ اس کا ہاتھ روک لیں۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’تم نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو ، اللہ سے ڈرتے رہا کرو ، بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے ‘‘۔
امت مسلمہ کا شرف مشروط ہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے کیا گیا ہے۔ جو اس فریضہ کو سر انجام دے گا وہ خیر امت کے شرف کا مستحق ہو گا ورنہ اس مقام رفیع کو کھو بیٹھے گا۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
-
معاشرتی حقوق (۱) اگر کسی قوم کے دل میں باہمی محبت و ایثار کی بجائے نفر ت و عداوت کے جذبات پرورش پا رہے ہوں وہ قوم کبھی بھی سیسہ پلائی د...