اسلام میں حسد کی ممانعت(۱)
اللہ تعالیٰ بڑا بے نیاز اور غفورالرحیم ہے جس پر چاہتا ہے اپنی رحمتوں کی بارش کر دیتا ہے اور اس کا رزق کشادہ کر دیتا ہے اور یہ بندے پر اللہ تعالیٰ کا احسان اور کرم ہے جسے تسلیم کرنا ایمان کامل کا تقاضا ہے۔لیکن دوسروں پر اللہ تعالیٰ کی عنایات دیکھ کر دل میں یہ بات رکھنا کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں چیز اسے دی ہے مجھے کیوں نہیں اور کسی کی شان و شوکت اور شہرت کو دیکھ کر اس پر جلنا حسد کہلاتا ہے۔
حسد ایک خطر ناک بیماری ہے جو انسان کے باقی نیک اعمال کو بھی لے ڈوبتی ہے۔یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں انسان اللہ تعالیٰ کی عطا پر اعتراض کرتا ہے کہ فلاں چیز اسے ملی ہے مجھے کیوں نہیں ملی۔ اس لیے اسلام میں اسے بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ اپنے دل میں حسد پیدا نہ ہونے دے اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر قناعت کرے اور جس قدر ہو سکے اس کا شکر بجا لائے۔ قرآن و حدیث میں حسد کی سخت مذمت کی گئی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’یا لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا تو ہم نے ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور انہیں بڑا ملک دیا ‘‘۔ ( سورۃ النساء )۔
اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم ﷺ کو جو نبوت و رسالت عطا فرمائی اور آپ ؐ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جو نصرت اور غلبہ اور عزت عطا فرمائی اس کی وجہ سے یہ لوگ نبی کریم ﷺ اور اہل ایما ن سے حسد کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اہل یہود کے اس فعل کو جہالت اور حماقت قرار دیا۔ حسد ہی سب سے پہلا گناہ ہے جو آسمان میں شیطان سے سر زد ہوا۔اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کی تو فرشتوں کو کہا کہ وہ آپ کو سجدہ کریں لیکن شیطان نے سجدہ نہ کیا اور کہاکہ میں آگ سے بنا ہوں اور آدم علیہ السلام مٹی سے لہذا آگ مٹی سے افضل ہے اس لیے یہ فضیلت مجھے ملنی چاہیے تھی۔ شیطان نے آپ کی فضیلت کی وجہ سے آپ سے حسد کیا اور مردود کہلایا۔اور اسی حسد ہی کی وجہ شیطان انسانیت کا دشمن بن گیا۔ یہ حسد ہی تھا جس کی وجہ سے زمین پر سب سے پہلا گناہ قابیل سے سرزد ہوا اور اس نے حسد میں آ کر اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور انہیں پڑھ کر سنائو آدم کے دو بیٹوں کی سچی خبر جب دونوں نے ایک ایک نیاز پیش کی تو ایک کی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی۔ بولا قسم ہے میں تجھے قتل کر دوں گا۔ کہا اللہ اسی سے قبول کرتا ہے جسے ڈر ہے ‘‘۔ ( البقرۃ )۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں