اللہ تعالی کی طرف سے بہت ہی آسان فلاح کا راستہ سنیے اور عمل کیجئے تاکہ ہم سب فلاح پا لیں . ہر قسم کی تفرقہ بازی اور مسلکی اختلافات سے بالاتر آسان اور سلیس زبان میں
اتوار، 30 مارچ، 2025
صدقہ فطر
صدقہ فطر
فطر کے معنی روزہ کھولنے یا روزہ نہ رکھنے کے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر ایک صدقہ مقرر فرمایا ہے کہ رمضان المبارک کے ختم ہونے پر روزہ کھل جانے کی خوشی اور شکریہ کے طور پر ادا کرے اسے صدقہ فطر کہتے ہیں اور روزہ کھلنے کی خوشی منانے کا دن ہونے کی وجہ سے رمضان شریف کے بعد والا دن عید الفطر کہلاتا ہے۔
نصاب زکوۃ اور نصاب صدقہ فطر کی مقدار تو ایک ہی ہے لیکن زکوۃ کے نصاب اور صدقہ فطر کے نصاب میں فرق یہ ہے کہ زکوۃ فرض ہونے کے لیے سونا ، چاندی یا مال تجارت ہونا ضروری ہے اور صدقہ فطر واجب ہونے میں ان تینوں کی خصوصیت نہیں بلکہ اس کے نصاب میں ہر قسم کا مال حساب میں لیا جاتا ہے۔ اگرکسی شخص کے پاس اس کے استعمال کے کپڑوں سے زائد کپڑے رکھے ہوئے ہوں یا روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء میں کوئی زائد چیزیں ہوں یا کوئی مکان خالی پڑا ہو تو اس پر زکوۃ فرض نہیں مگر صدقہ فطر واجب ہے۔ صدقہ فطر کے مال پر سال بھر گزرنا لازم نہیں بلکہ وہ اسی دن بھی صاحب نصاب ہوا ہو تو پھر بھی صدقہ فطر واجب ہے۔
ہر شخص مال نصاب پر اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے صدقہ دینا واجب ہے لیکن نابالغوں کا اگر اپنا مال ہو تو ان کے مال میں سے ادا کرے۔ صدقہ فطر ادا کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ جس نے روزے رکھے ہیں وہ ہی صدقہ فطر ادا کرے گا بلکہ جس نے روزے نہیں رکھے اس پر صدقہ فطر واجب ہے۔ صدقہ فطر عید کے دن سے پہلے رمضان المبارک میں بھی دینا جائز ہے۔ عید کے دن عید کی نماز کے لیے جانے سے پہلے دینا بہتر ہے اور اگر نماز کے بعد ادا کرے تو یہ بھی جائز ہے۔ لیکن جب تک کوئی شخص صدقہ فطر ادانہ کرے گا تو وہ اس کے ذمہ واجب رہے گا چاہے کتنی ہی مدت کیوں نہ گزر جائے۔ جن لوگوں کو زکوۃ دینا جائز ہے ان لوگوں کو صدقہ فطر دینا بھی جائز ہے اور جن لوگوں کو زکوۃ نہیں دے سکتے ان لوگوں کو صدقہ فطر بھی نہیں دے سکتے۔ صدقہ فطر ایک آدمی کو بھی دے سکتے ہیں اور ایک سے زیادہ لوگوں میں بھی بانٹا جا سکتا ہے اسی طرح ایک سے زیادہ لوگ بھی ایک آدمی کو صدقہ فطر دے سکتے ہیں۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایاجب تک کوئی بندہ صدقہ فطر ادا نہیں کرتا اس وقت تک اس کے روزے زمین اور آسمان کے درمیان معلق رہتے ہیں۔ اس سال فی کس صدقہ فطر کی مقدار 240 روپے مقرر کی گئی ہے۔
صدقہ فطر ایک پاکیزہ عمل ہے جو مسلمانوں کو معاشرتی بھلائی اورمستحق افراد کی مدد کی ترغیب دیتا ہے۔ صدقہ فطر خوش دلی کے ساتھ وقت پر ادا کرنا چاہیے تا کہ حقیقی معنوں میں اس کے فوائد حاصل کیے جاسکیں۔
ہفتہ، 29 مارچ، 2025
شب قدر(2)
شب قدر(2)
ابن ماجہ کی حدیث ہے حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ جو شخص شب قدر سے محروم ہو گیا گویا پوری بھلائی سے محروم ہو گیا اور شب قدر کی خیر سے وہی محروم ہوتا ہے جو کامل محروم ہو۔ پہلی امتوں کی عمریں بہت زیادہ ہوتی تھیں لیکن امت محمدیہ کی عمر کم ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس امت پر احسان فرمایا کہ ایک رات ایسی دے دی جو کہ ہزار مہینوں سے افضل رات ہے تاکہ اس رات عبادت کر کے امت محمدیہ زیادہ سے زیادہ ثواب کما سکے۔
حضور نبی کریمﷺ کا معمول مبارک تھا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں شب قدر کی تلاش کے لیے خوب قیام فرماتے اور عبادت کرتے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضور نبی کریمﷺ سے عرض کی کہ میں اگرشب قدر کو پا لوں تو کیا دعا مانگوں۔ تو حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا اے عائشہ آپ یہ دعا مانگو
’’اللھم انک عفو تحب العفوفا عف عنی‘‘ اے اللہ تو معاف فرمانے والا ہے معافی دینے کو پسند کرتا ہے پس مجھے معاف فرما دے۔
شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں شب قدر کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ شب نہ زیادہ گرم ہوتی ہے اور نہ ہی زیادہ ٹھنڈی بلکہ درمیانی ہوتی ہے۔ اور اس کی صبح سورج طشت کی طرح مدھم ہوتی ہے جیسے اس کی کرنیں نہ ہوں۔ اہل دل ، اصحاب ریاضت اور اطاعت گذار ہیں ان کے لیے شب قدر کے عجائبات کھول دیے جاتے ہیں اور ان میں سے بھی ہر ایک کے لیے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے جن بندوں پر اس کے احوال اقسام اور قرب و بعد میں منازل کے اعتبار سے کھولنا چاہے۔ اس رات قیام اللیل کرنا ،تہجد ادا کرنا ،کثرت کے ساتھ تلاوت قرآن پاک کرنا ،کثرت کے ساتھ ذکرو اذکار کرنا اور نوافل ادا کرنا اور کثرت سے دورد و سلام پڑھنے سے بہت زیادہ برکت اور ثواب حاصل ہوتا ہے۔
لیلۃ القدر ایک بہت زیادہ برکت والی اور عظیم رات ہے۔ اس رات کو بے شمار اللہ تعالیٰ کی برکتیں اور رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ یہ رات امت مسلمہ کے لیے ایک عظیم تحفہ ہے جس میں عبادت کرنے، توبہ و استغفار کرنے سے گناہوں کی بخشش ہوتی ہے اور بے شمار نیکیاں حاصل ہوتی ہیں۔ ہمیں اس رات کو غفلت میں نہیں گزارنا چاہیے بلکہ اپنی ساری توجہ اللہ کی عبادت ، دعا ، توبہ و استغفار اور نیک اعمال پر دینی چاہیے تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مستحق ٹھہر سکیں اور اپنی مغفرت کرا سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس رات کی قدر کرنے اور اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
جمعہ، 28 مارچ، 2025
شب قدر(۱)
شب قدر(۱)
رب کے حضور آ ئوشب قدر آ گئی
سجدے میں سر جھکائوشب قدر آ گئی
آنسو بہا کے پڑھ کے نوافل اے مومنو
بخشش کا تحفہ پائو شب قدر آ گئی
لیلۃ القدر ایک مبارک اور بابرکت رات ہے جس کا ذکر قرآن مجید اور احادیث میں بڑی فضیلت کے ساتھ آیا ہے۔یہ رات رمضان المبارک کی آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک ہے۔ اسی رات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نازل فرمایا۔ اس رات کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس رات کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ایک پوری سورۃ نازل فرمائی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’بیشک ہم نے اسے (قرآن مجید کو) شب قدر میں اتارا۔ اور تم نے کیا جانا کیا ہے شب قدر۔شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور جبرائیل اترتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے۔ وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک۔‘‘(سورۃ القدر)
اس سورۃ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے لیلۃ القدر کو ہزار مہینوں سے افضل رات قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جو بندہ اس رات اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے عبادت کرے تو اسے تراسی سال اور چار ماہ کی عبادت کا ثواب ملے گا۔ ماہ رمضان میں شب قدر کو ہی اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل فرمایا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلے کی روشن باتیں ‘‘۔( سورۃ البقرہ )۔
جب ماہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو نبی کریم ﷺ اپنے اہل خانہ کو بیدار فرماتے اور اس عشرہ کی راتوں کو یاد الٰہی سے زندہ فرماتے۔حضور نبی کریم ﷺ نے شب قدر کو پانے کے لیے اس خاص اہتمام سے اپنی امت کی رہنمائی فرمائی کہ وہ بھی شب قدر کی برکات حاصل کرنے کے لیے آخری عشرہ خصوصا طاق راتوں میں زیادہ سے زیادہ عبادت کریں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : شب قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو جب کہ مہینہ ختم ہونے میں نو دن باقی ہوں ، یا سات دن باقی یا پانچ دن باقی۔ (بخاری شریف)۔حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے عبادت کے لیے کھڑا رہا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ (بخاری و مسلم )۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ، جب لیلۃ القدر کی رات آتی ہے تو جبرائیل امین فرشتوں کی جماعت میں اترتے ہیں اور کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر ذکر اللہ کرنے والے کے لیے دعا کرتے ہیں اور اس کو سلام کرتے ہیں۔( مکاشفۃ القلوب)۔
جمعرات، 27 مارچ، 2025
فضائل قرآن مجید (۲)
فضائل قرآن مجید (۲)
سورۃ فاطر میں اللہ تعالیٰ مزید ارشاد فرماتا ہے : پھر ہم نے اس کتاب کا ان کو وارث بنایا جنہیں ہم نے چن لیا تھا اپنے بندوں سے۔ پس ان میں سے بعض اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض میانہ رو ہیں اور بعض نیکیوں میں سبقت لے جانے والے ہیں اللہ کی توفیق سے۔ یہی بڑا فضل ہے۔
نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا : جو قرآن پڑھتا ہے اس کی مہارت رکھتا ہے وہ بزرگ نیکو کار کاتبین کے ساتھ ہے اور جو قرآن پڑھتا ہے اور اس میں اٹکتا ہے اور یہ اس پر دشوار ہے اس کے لیے دو اجر ہیں۔ (بخاری و مسلم شریف )۔رحمت دو عالم ؐ نے ارشاد فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ اس کتاب کی وجہ سے کئی قوموں کو رفعت بخشے گا اور کئی کو پست کرے گا۔ آپ نے ارشاد فرمایا : قرآن مجید کی تلاوت کرو۔ بیشک یہ قیامت کے دن اپنے ساتھیوں کی شفاعت کرنے والا ہو گا۔ ( مسلم شریف)۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : کہ حسد نہیں ہے مگر دو آدمیوں کے متعلق۔ایک تو وہ جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن عطا فرمایا پس وہ اس کے ساتھ رات کے حصوں میں اور دن کی طرفوں میں قیام کرتا ہے اور ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا ہے تو وہ اسے رات دن اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔ (بخاری و مسلم)۔
حضور نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا : اس مسلمان کی مثال جو قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے نارنگی جیسی ہے جس کی مہک بھی اچھی اور ذائقہ بھی اچھا۔ اس مسلمان کی مثال جو قرآن مجید کی تلاوت نہیں کرتا کھجور جیسی ہے اس کی مہک تو نہیں ہے مگر ذائقہ شیریں ہے۔ اس منافق کی مثال جو قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے پودینہ جیسی ہے۔ اس کی مہک اچھی ہے لیکن ذائقہ کڑوا ہے اور اس منافق کی مثال جو قرآن مجید کی تلاوت نہیں کرتا، اس کی مثال تمّے جیسی ہے جس کی کوئی مہک نہیں اور ذائقہ نہایت کڑواہے ( بخاری و مسلم شریف )۔
نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا : قرآن مجید ہر شے سے افضل ہے جس نے قرآن مجید کی تعظیم کی اس نے اللہ تعالیٰ کی تعظیم کی اور جس نے قرآن مجید کو حقیر جانا اس نے اللہ تعالیٰ کے حق کو حقیر جانا۔ حافظ قرآن ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت کی آغوش میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کی تعظیم کرنے والے ، اللہ تعالیٰ کے نور سے آراستہ ہیں جس نے انہیں دوست رکھا اس نے اللہ تعالیٰ کو دوست رکھا اور جس نے ان سے عداوت کی اس نے اللہ تعالیٰ کے حق کو حقیر جانا۔قرآن مجید کے بے شمار فضائل و برکات ہیں۔ اس کی تلاوت کرنے سے دلوں کوسکون حاصل ہوتا ہے۔ قرآن مجید قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے کی سفارش کرے گا۔ہمیں چاہیں کہ ہم باقاعدگی کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کریں اور اس کے ساتھ ساتھ اس کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس کے احکام کو اپنی زندگیوں میں لاگوکریں تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حقدار بن جائیں اور دنیا و آخرت میں کامیابی نصیب ہو جائے۔
بدھ، 26 مارچ، 2025
فضائلِ قرآن مجید (۱)
فضائلِ قرآن مجید (۱)
قرآنِ مجید اللہ تعالیٰ کی لاریب اور عظیم کتاب ہے جس میں تمام انسانیت کے لیے ہدایت و رہنمائی موجود ہے۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺکے قلبِ اطہر پر رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں نازل فرمایا ۔ جس طر ح نبی کریمﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری رسول اور نبی ہیں اسی طر ح قرآن مجیدبھی اللہ تعالیٰ کی آخری آسمانی کتاب ہے اور اس میں قیامت تک کے آنے والے انسانوں کے لیے ہدایت اور نور ہے ۔ قرآن مجید کے بے شمار فضائل ہیں جن میں سے چند ایک بیان کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں ۔
قرآن مجید پڑھنا سب عبادتوں سے افضل ہے اور خاص طور پر نماز میں کھڑے ہو کر قرآن مجیدکی تلاوت کرنا ۔ آپؐنے فرمایا میری امت کی عبادتوں میں افضل عبادت تلاوت قرآن مجید ہے ۔ حضرت ابو ذر غفاریؓ فرماتے ہیں، میں نے حضور نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی، یا رسول اللہﷺ، مجھے کچھ وصیت فرمائیں ۔ آپؐ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ سے تقویٰ اختیار کرو، یہ چیز تمھارے دین اور معاملات کو ٹھیک حالت میں رکھنے والی ہے۔ میں نے عرض کی، کچھ اور ارشاد فرمائیں تو آپؐ نے فرمایا، خود کو تلاوت قرآن مجید اور اللہ کے ذکر کا پابند بنا لو تو خدا تمھیں آسمانوںپر یاد کرے گا اور تاریکیوں میں یہ دونوں چیزیں تمھارے لیے روشنیوں کا کام کریں گی۔ (مشکوٰۃ شریف)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو رشدو ہدایت کا ذریعہ بھی بنایا اور اسے شفاء حاصل کرنے کا بھی ذریعہ قرار دیا ۔ سورۃ البقرۃ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں اور اس میں ہدایت ہے پرہیز گاروں کے لیے ‘۔قرآن مجید سے زندگی کے ہر شعبے کے لیے رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے ۔
ٰٓایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:اے لوگو !تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے نصیحت آچکی اور دلوں کی صحت اور ہدایت اور رحمت ایمان والوں کے لیے‘۔(سوۃ یونس )
جب مسلمان قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں تو اس سے دلوں کو سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے اور بندہ ذہنی طور پر بھی خود کو پرسکون محسوس کرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی تلاوت کرنے والوں ، نماز قائم کرنے والوں اور مال کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کو اجر عظیم کی خوشخبری سنائی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : بے شک جو اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور اس مال سے خرچ کرتے ہیں جو ہم نے ان کو دیا رازداری سے اور علانیہ وہ ایسی تجارت کے امید وار ہیں جو ہرگز نقصان والی نہیں ۔ (سورۃ فاطر)
قرآن مجید کی تلاوت کرنے سے بندہ شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہتا ہے ۔ اور گھر کو رحمت الٰہی اور برکت سے بھر دیتا ہے ۔حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس گھر میں سورۃ البقرۃ کی تلاوت کی جائے اس گھر میں شیطان داخل نہیں ہوتا ۔
منگل، 25 مارچ، 2025
عتکاف
عتکاف
اعتکاف ایک عظیم عبادت ہے جو ہر سال رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں کی جاتی ہے۔ اس عبادت کا مقصد اللہ تعالیٰ کی ر ضا حاصل کرنا ، دنیا وی مصروفیات سے کنارہ کش ہو کر ذکرو عبادت میں مشغول ہونا اور روحانی ترقی حاصل کرنا ہے۔
اعتکاف کے لغوی معنی اپنے آپ کو کسی شے پر روک رکھنے یا لازم کر لینے کے ہیں اور اصطلاح شریعت میں کسی مسجد کے اندر عبادت کی نیت سے اپنے قیام کو کسی مدت کے لیے لازم کر لینا اعتکاف کہلاتا ہے۔مشکوۃ شریف کی حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد آپ کی ازواج اعتکاف کرتی تھیں۔
حضرت ذالنون فرماتے ہیں کہ بھوک کی ریاضت میں مقامات کشف حاصل ہوتے ہیں اور فرمایا کہ میں چالیس اولیا کرام سے ملا ہوں سب نے یہ فرمایا کہ ہم درجہ ولایت پر عزت سے پہنچے اور اعتکاف عزت بھی ہے، گوشہ نشینی بھی ہے۔ لہٰذا اعتکاف کشف کے حصول کا کامیاب ذریعہ ہے اور مسجد کا قیام مزید قرب کا باعث ہے کیونکہ مکیں کا قرب جس طرح مکاں میں حاصل ہوتا ہے اس طرح اللہ تعالیٰ کا قرب خاص مسجد میں ملتا ہے۔
اعتکاف بیٹھنے والے کے لیے لازم ہے کہ اس کا کھانا پینا ، رہنا سہنا اور سونا جاگنا مسجد کے اندر ہی ہو اور بغیر کسی شرعی عذر کے مسجدسے باہر قدم نہ رکھے۔ لیکن لوگوں سے کوئی بات چیت کرنا ، کوئی چیز لینا اعتکاف کی حالت میں جائز ہے شرط یہ ہے کہ کوئی بھی بات احترام مسجد یا اعتکاف کے آداب کے خلاف نہ ہو۔
اعتکاف کرنے والے کو بہت زیادہ اجرو ثواب ملتا ہے اور اس کے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اعتکاف کرنے والا گویا اپنے تمام بدن اور تمام وقت کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے وقف کر دیتا ہے۔ دنیا کے جھگڑوں اور بہت سے گناہوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اعتکاف کی حالت میں اسے ہر وقت نماز کا ثواب ملتا ہے کیونکہ اعتکاف سے اصل مقصود یہی ہے کہ اعتکاف کرنے والا ہر وقت نماز اور جماعت کے اشتیاق میں بیٹھا رہے۔ اعتکاف کی حالت میں بندہ فرشتوں کی مشابہت پیدا کرتا ہے کہ ان کی طرح ہر وقت عبادت اورتسبیح و تقدیس میں رہتا ہے۔ مسجد اللہ تعالیٰ کا گھر ہے اس لیے اعتکاف کرنے والا اللہ تعالیٰ کے گھر میں اس کا مہمان ہوتا ہے۔
رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے۔ اس کی ابتدا بیس رمضان المبارک کی شام یعنی غروب آفتاب کے وقت ہوتی ہے اور عید کا چاند دیکھتے ہی اس کی مدت ختم ہو جاتی ہے۔
اعتکاف ایک عظیم عبادت ہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتی ہے۔ ہمیں اس بابرکت عمل کو سنت نبوی کے مطابق ادا کرنا چاہیے تا کہ دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل ہو۔
پیر، 24 مارچ، 2025
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (۲)
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (۲)
امام مسلم نے سہل بن سعدؓ سے روایت کیا کہ حضور ؐ نے غزوہ خیبر میں فرمایاکل میں جھنڈا اس کودونگا جس کے ہاتھ پر اللہ خیبر کو فتح فرمائے گاوہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کرتا ہے اور خدا اور رسولؐ بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔ لوگوں نے اس کشمکش میں رات گزاری کہ وہ نہ جانے خوش بخت کون ہوگا؟جسے صبح دست رسولؐ سے عَلم عطا ہوگا۔ صبح تمام لوگ رسولؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس طرح ہر ایک کے دل میں خواہش تھی کہ کاش یہ سعادت سرکارؐ مجھے بہرہ مند فرمائیں حضور ؐ نے فرمایا علیؓ کہاں ہے؟کہا گیا ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے۔تو نبی رحمتؐ نے انہیں بلا بھیجا۔ جب حضر ت علی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے تو حضور نبی مکر م ﷺنے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن لگایاجس سے ان کی ساری تکلیف دور ہوگئی اور آپ کی وہ آنکھ اس طرح ہو گئی گویا ا س میں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔حضور ؐ نے جھنڈا حضرت علی کے ہاتھ میں دیا آپ فتح کا عزم لیے قلعہ پر حملہ آور ہوئے۔ یہود کا سورما مرحب رجز پڑھتا چند سرداروں کے ہمراہ قلعہ سے باہر نکلا حضرت علی اس کی جانب بڑھے آپ نے جنگ کے دوران مرحب کو جہنم واصل کر دیا اور قلعہ کو فتح کر لیا۔
حضرت حبشی بن جنادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی کریم ﷺ نے فرمایا علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور میری طرف سے (عہد و پیمان میں)میرے اور علی کے سوا کوئی دوسرا ذمہ داری ادا نہیں کر سکتا۔ ( ترمذی ، ابن ماجہ )۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ؐ نے جب انصار اور مہاجرین میں بھائی چارہ قائم کیا تو حضرت علی نبی کریم ؐ کے پاس آئے اور عرض کی یار سول اللہ ؐ! آپ نے صحابہ کرام میں بھائی چارہ قائم فرما دیا ہے لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا۔ آپ نے فرمایا تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو۔ ( ترمذی )۔
اگرچہ آپ نادر شجاعت کے حامل تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ فقیرانہ احساس اور عجز و انکساری کا پیکر تھے۔ جنگ کی وحشت و بربریت کا جذبہ کبھی بھی آپ کے دل میں پیدا نہیں ہوا۔ آپ نے غازیانہ خلق عظیم کی بہترین دنیا میں مثال پیش کی۔ آپ نے کبھی ظلم و تعدی سے کام نہ لیا اور نہ ہی فخرو غرور کی کوئی بات آپ سے سرزد ہوئی بلکہ آپ نے اپنے طرز عمل سے حلم وحیا کی روایت کو عام کیا۔
کوفہ میں ایک بد بخت خارجی عبدالرحمن ابن ملجم نے حالت نماز میں آپ پر حملہ کیا جس سے آپ شدید زخمی ہو گئے اور اکیس رمضان المبارک جمعہ کی شب اسلام کا یہ بدر منیر ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت قیامت تک مسلمانوں کے لیے روشنی کا مینار ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔آمین۔
اتوار، 23 مارچ، 2025
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (1)
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (1)
امیر المومنین خلیفۃ المسلمین داماد رسول شیر خدا خلیفہ چہارم حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلامی تاریخ کی ایک عظیم المرتب شخصیت ہیں۔
آپؓ کی زندگی شجاعت ، علم ، تقویٰ اور عدل و انصاف کی اعلیٰ مثال ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے آپؓ کو باب العلم کا لقب عطا فرمایا۔نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ابتدائے اسلام کے انتہائی مشکل دور میں بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ آپؓ ہمیشہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ رہے۔
آپؓ کو یہ بھی شرف حاصل ہے کہ ہجرت کی رات نبی کریم ﷺ نے آپؓ کو اپنے بستر پر آرام کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ صبح لوگوں کی امانتیں واپس کر کے مدینہ منورہ آجانا۔ احادیث مبارکہ میں حضرت علیؓ کے بے شمار فضائل و مناقب ملتے ہیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ میں رکنے کا حکم فرمایا توحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اے علی تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمہاری میرے ساتھ وہی نسبت ہے جو حضرت ہارون علیہ السلام کی حضرت موسی علیہ السلام سے تھی البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ (متفق علیہ )۔
حضرت ام عطیہؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک لشکر بھیجا اس میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل تھے۔ آپؓ فرماتی ہیں میں نے نبی کریمﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ ہاتھ اٹھا کر دعا فرما رہے تھے کہ یا اللہ مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک میں علی کو واپس خیر و عافیت کے ساتھ نہ دیکھ لوں۔ ( ترمذی )۔
حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ابو بکرؓ پر رحم فرمائے انہوں نے اپنی بیٹی میرے نکاح میں دی اور مجھے دارالھجرہ لے کر آئے اور بلال کو بھی انہوں نے اپنے مال سے آزاد کرایا۔ اللہ تعالیٰ عمرؓ پر رحم فرمائے عمر ہمیشہ حق بات کرتے ہیں اگرچہ وہ کڑوی ہی ہو اسی لیے وہ اس حال میں ہیں کہ ان کے دوست کم ہیں۔ اللہ تعالیٰ عثمانؓ پر رحم فرمائے ان سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ علیؓ پر رحم فرمائے اور فرمایا اے اللہ علی جہاں کہیں بھی ہو حق اس کے ساتھ رہے۔ ( ترمذی )۔
حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی کریم ﷺ کے پاس ایک پرندے کا گوشت تھا آپ ﷺ نے دعا فرمائی یا اللہ اپنی مخلوق میں سے محبوب ترین شخص کو میرے پاس بھیج تاکہ وہ میرے ساتھ اس پرندے کا گوشت کھائے۔ چنانچہ حضرت علیؓ آئے اور انہوں نے نبی کریمﷺ کے ساتھ گوشت کھایا۔
ہفتہ، 22 مارچ، 2025
غزوہ بدر (۲)
غزوہ بدر (۲)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے نبی کریم ﷺ نے اصحاب بدر کے لیے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کی طرف توجہ فرمائی اور فرمایا جو عمل تم کرنا چاہتے ہو کرو بیشک تمہارے لیے جنت لازم ہو گئی ہے یا پھر اس طرح فرمایا میں نے تمہیں معاف فرما دیا ہے۔( متفق علیہ )۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت حاطب کا ایک غلام نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور حضرت حاطب کی شکایت کرتے ہوئے عرض کی یا رسول اللہ ؐ حاطب دوزخ میں داخل ہو جائے گا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم جھوٹ بولتے ہو وہ دوزخ میں داخل نہیں ہو گا کیونکہ وہ بدر اور حدیبیہ میں شریک تھا۔ ( مسلم ، ترمذی )۔
حضرت رافع بن خدیج ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے غزوہ بدر کے دن فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر کوئی مولود بچہ چالیس سال تک اہل دین کے ہاں دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرتا رہے اور اس دوران اللہ تعالیٰ اطاعت کی اور تمام گناہوں سے بچتا رہا یہاں تک کہ وہ عمر کے انتہائی آخری حصہ میں پہنچ گیا یا عمر کے اس حصے میں پہنچ گیا جس میں وہ سب کچھ جاننے کے بعد بھی کچھ نہیں جانتا تھا پھر بھی تم میں سے کوئی اصحاب بدر کی اس فضیلت والی رات کو نہیں پا سکتا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا بیشک جنہوں نے غزوہ بدر میں شرکت کی انہیں ان فرشتوں پر بھی فضیلت حاصل ہے جنہوں نے اس میں شرکت نہیں کی۔ ( طبرانی )۔
اس غزوہ میں جہاں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب فرمائی وہاں ہمیں اس سے کئی اسباق حاصل ہوتے ہیں۔ سب سے پہلا یہ کہ مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی لیکن ان کا اللہ تعالیٰ پر یقین مضبوط تھا اس لیے کامیابی کا انحصار تعداد پر نہیں بلکہ توکلِ اللہ ، اللہ تعالیٰ کی مدد اور سچے ایمان پر ہے۔ جنگ سے قبل نبی کریمﷺ نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ساری رات دعا مانگی اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کامیابی کے لیے محنت اور تدبیر کے ساتھ ساتھ دعا کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺ کی قیادت میں مکمل اتحاد اور اطاعت کا مظاہرہ کیا۔ اس سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ کامیابی کے لیے قیادت پر اعتماد اور آپس میں اتحاد ضروری ہے۔ مسلمانوں نے ذاتی مفاد کو چھوڑ کر دین کی سر بلندی کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔ اس سے ہمیں دین کے لیے اخلاص اور قربانی دینے کا سبق حاصل ہوتا ہے۔ غزوہ بدر کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ جب کوئی قوم ایمان ، اتحاد اور قربانی کے جذبے سے میدان میں آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی مدد بھی اس میں شامل حال رہتی ہے اور اللہ تعالیٰ انہیں تعداد میں کم ہونے کے باوجود فتح عطا فرماتا ہے۔
جمعہ، 21 مارچ، 2025
غزوہ بدر (۱)
غزوہ بدر (۱)
غزوہ بدر اسلامی تاریخ کا پہلا معرکہ ہے جس میں حق اور باطل کا آمنا سامنا ہوا۔یہ معرکہ 17 رمضان المبارک دو ہجری کو مدینہ منورہ کے قریب بدر کے مقام پر ہوا اور اس جنگ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو شاندار فتح نصیب فرمائی۔
غزوہ بدر پیش آنے کی وجہ یہ تھی کہ جب نبی کریم ﷺ نے مکہ مکرمہ میں اسلام کی تبلیغ کا آغازکیا تو قریش نے مسلمانوں کی شدید مخالفت کی اور مسلمانوں کو طرح طرح کی تکالیف دیں۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مدینہ منورہ ہجرت کی اجازت دے دی لیکن اس کے باوجود قریش مکہ کی دشمنی کم نہ ہوئی۔ نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں کے خلاف سازشوں کو روکنے کے لیے قریش کے تجارتی قافلوں پر نظر رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اسی دوران ابوسفیان کا تجارتی قافلہ شام سے مکہ واپس آرہا تھا جسے مسلمانوں نے روکنے کی کوشش کی تو ابو سفیان نے اہل مکہ سے مدد مانگی جس پر قریش نے ایک ہزار سپاہی ابو سفیان کی مدد کے لیے بھیجے۔اس معرکہ میں مسلمانوں کی تعداد صرف تین سو تیرہ تھی اور 6 زریں ، 8 تلواریں ، اونٹ اور 2 گھوڑے تھے۔ اسلام کا پرچم مصعب بن عمیر ، عقاب جھنڈا حضرت علی اور دوسرا جھنڈا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہم کو عطا ہوا جبکہ کفار مکہ کے پاس ایک ہزار سپاہی ،سو گھوڑے اور چھ سو زریں تھیں۔ سترہ رمضان المبارک کو مسلمانوں اور کفار مکہ کے درمیان جنگ کا آغاز ہوا۔ جس میں قریش کی طرف سے عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ میدان میں اترے ان کے مقابلے کے لیے مسلمانوں کی طرف سے حضرت حمزہ، حضرت علی اور حضرت عبیدہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میدان میں اترے اور تینوں کافروں کو واصل جہنم کیا۔ اس کے بعد جنگ کا باقاعدہ آغاز ہوا اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی۔ اس فتح کے بعد مسلمانوں کو تقویت ملی اور ان کے حوصلے بڑھ گئے۔ اور قریش مکہ کا غرور خاک میں مل گیا۔ غزوہ بدر میں یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہمیشہ حق کے ساتھ ہوتی ہے۔
اس جنگ میں ابو جہل بھی واصل جہنم ہوا۔ رسول کریم ﷺ نے حکم دیا کہ کوئی جاکر ابو جہل کی خبر لائے اس کا کیا انجام ہوا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودگئے تو انہوں نے دیکھا کہ ابو جہل دم توڑ رہا ہے۔ آپ نے اس کا سر کاٹ کر آپ کے قدموں میں رکھ دیا۔ حضور ؐ نے تین مرتبہ فر مایا اے اللہ تیرا شکر ہے۔ اسکے بعد حضور نبی کریم ؐ سر بسجود ہو ئے اور پھر فرمایا کہ ہر امت میں ایک فرعون ہوتا ہے اس امت کا فرعو ن ابو جہل تھا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ؐ بھی اس جنگ میں شریک تھے اور سب سے سخت جنگ کرنے والے آپ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس حق و باطل کے معرکہ میں مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی۔
جمعرات، 20 مارچ، 2025
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی کریمﷺ کی زوجہ محترمہ اور اسلام کی عظیم المرتبت خواتین میں سے ایک ہیں۔ آپ کی زندگی تقویٰ، علم، حکمت اور دین کی خدمت سے بھرپور تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے شمار فضائل اور اعلیٰ خصوصیات سے نوازا جس کی وجہ سے آپ کا مقام ومرتبہ بہت بلند ہے۔ آپؓ کا نام عائشہ، کنیت ام عبد اللہ اور صدیقہ، حبیبۃ الرسول اور ام المؤمنین القاب ہیں۔ آپ ؓ کے والد گرامی مسلمانوں کے پہلے خلیفہ حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ ہیں۔ آپؓ واحد صحابیہ ہیں جن کی پاکی کی گواہی قرآن مجید نے دی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: بے شک جو لوگ بہتان لے کر آئے وہ تم سے ایک گروہ ہے تم اسے اپنے لیے بُرا نہ سمجھو بلکہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔(سورۃ النور)
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا علمی مقام بہت بلند ہے۔ آپؓ سے مروی احادیث کی تعداد2210 ہے اسی وجہ سے آپ’ فقیہہ الامہ‘ کہا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنی علمی مسائل پوچھنے کے لیے آپؓ کے پاس تشریف لاتے تھے۔ احادیث مبارکہ میں آپؓ کے بے شمار فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ہی سے مروی ہے کہ ایک روز نبی کریمﷺ نے فرمایا، اے عائشہ، یہ جبرائیل تمھیں سلام کہتے ہیں ۔ آپ فرماتی ہیں کہ میں نے جواب دیا ان پر بھی سلام ہو اور اللہ کی رحمت اور برکات ہوں۔ لیکن آپؐ یعنی نبی کریمﷺ جو کچھ دیکھ سکتے ہیں وہ میں نہیں دیکھ سکتی۔ (متفق علیہ)
حضرت عروہ بن زبیر ؓ سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس اللہ کے رزق میں سے جو بھی چیز آتی وہ اس کو اپنے پاس نہ روکے رکھتیں بلکہ اسی وقت اس کا صدقہ فرما دیتیں۔ (بخاری)
حضرت ابو موسیٰ ؓبیان کرتے ہیں کہ جب بھی ہم صحابہ کرام ؓ کے لیے کوئی حدیث مشکل ہو جاتی تو ہم ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے اس بارے میں پوچھتے تو ان کے ہاں اس حدیث کا صحیح علم پا لیتے۔(ترمذی) امام طبرانی روایت کرتے ہیں کہ حضرت زہری ؓ فرماتے ہیں، نبی کریمﷺ نے فرمایا، اگر امہات المؤمنین سمیت امت کی تمام عورتوں کے علم کو جمع کیا جائے تو حضرت عائشہؓ کا علم ان سب سے زیادہ ہے۔
حضرت عائشہ ؓ عبادت و زہد میں بے مثال تھیں آپ ؓ اکثر روزے رکھتیں راتوں میں تہجد ادا کرتیں اور صدقہ خیرات میں بھی سب سے آ گے رہتیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وصال17 رمضان المبارک کو ہوا۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ علم ، تقویٰ ، سخاوت ، فہم و فراست اور نبی کریمﷺ کی محبت میں منفرد مقام رکھتی ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی زندگی ہر مسلمان کے لیے مشعل راہ ہے او ر قیامت تک آپؓ کی علمی و دینی خدمات کو یاد رکھا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
بدھ، 19 مارچ، 2025
منگل، 18 مارچ، 2025
ماہ رمضان المبارک میں قبولیت کے لمحات
ماہ رمضان المبارک میں قبولیت کے لمحات
ماہ رمضان المبارک برکتوں رحمتوں اور مغفرت کا مہینہ ہے ۔ اس ماہ مقدس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر خاص فضل و کرم فرماتا ہے اور دعا کی قبولیت کے دروازے کھول دیتا ہے ۔ ماہ رمضان کی ہر ساعت ، ہر گھڑی ہی با برکت ہے لیکن کچھ لمحات ایسے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی پکار کو خاص طور پر سنتا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اور اے محبوب جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں تو میں نزدیک ہو ں دعا قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے توانہیں چاہیے میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں کہ کہیں راہ پائیں ‘‘۔( سورۃ البقرۃ )
اس آیت مبارکہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی پکار کو سنتا ہے اور اس کی دعا کو قبول فرماتا ہے ۔ سحری کا وقت انتہائی با برکت وقت ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر خاص فضل و کرم فرماتا ہے ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ رات کے آخری تہائی حصے میں آسمان دنیا پر اپنی شا یان شان تشریف فرماہوتا ہے اور فرماتا ہے کہ ہے کوئی جو مجھ سے دعا مانگے میں اس کی دعا قبول کروںگا،ہے کوئی جو مجھ کچھ مانگے میں اسے عطا کروں گا اور پھر فرماتا ہے، ہے کوئی جومجھ سے مغفرت طلب کرے میں اسے بخش دوں ۔
افطاری کے وقت بھی دعا کی قبولیت کا ایک خاص موقع ہے ۔حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تین لوگوں کی دعا کو رد نہیں فرماتا: اپنی اولاد کے حق میں کی گئی والد کی دعا ، افطار کے وقت کی جانے والی روزہ دار کی دعا اور مسافر کی دعا ۔یہ قبولیت کا خاص وقت ہوتا ہے ۔بندہ سارا دن اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے سارا دن بھوکا پیاسا رہنے کے بعد جب دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندے پر خاص فضل و کرم فرماتا ہے ۔
رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف بیٹھنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے ۔ معتکف دنیا وی معاملات سے کٹ کر خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف ہو جاتا ہے ۔ یہ ایک بہترین موقع ہوتا ہے جب بندہ خلوت میں اللہ تعالیٰ سے مناجات کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر اپنا خاص فضل و کرم فرماتے ہوئے اس کی دعا کو قبول فرماتا ہے ۔
شب قدر میں کی جانے والی دعا کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے شرف قبولیت عطا فرماتا ہے ۔یہ رات ہزار مہینوں سے افضل رات ہے ۔اس رات کو فرشتے نازل ہوتے ہیں ۔نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص اس رات کو عبادت میں گزارے اس کے پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں ۔ ماہ رمضان کا ہر لمحہ رحمت اور قبولیت کا لمحہ ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان لمحات کو ضائع نہ کریں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ کی معافی مانگیں اور آئندہ نیک عمل کرنے کا عہد کریں ۔ یہ ماہ مقدس اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کا مہینہ ہے ۔جب ہم اس ماہ مقدس میں اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑا کر اپنی مناجات پیش کریں گے تو اللہ تعالیٰ ضرور اپنا فضل و کرم فرمائے گا ۔
پیر، 17 مارچ، 2025
روزہ: صبر ، تقوی اور عبادت کی روح
روزہ: صبر ، تقوی اور عبادت کی روح
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسان کو روحانی ، اخلاقی ، اور جسمانی طور پر سنوارنے کے اصول فراہم کرتا ہے۔ روزہ ایک ایسی عظیم عبادت ہے جو انسان کے صبر ، تقوی اور روحانی بالیدگی کاذریعہ بنتی ہے۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو صبر ، تقوی اور عبادت کی روح کو پروان چڑھاتی ہے۔ روزہ صرف بھوک پیاس کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مکمل تربیتی عمل ہے جو انسان کی شخصیت کو نکھارتا ہے۔مشکلات اور آزمائشوں میں ثابت قدم رہنے کا نام صبر ہے۔ روزہ اس صبر کی عملی مشق ہے۔ روزہ دار کو فجر سے لے کر طلوع آفتاب تک اپنی بھوک اور پیاس پر قابو رکھنا پڑتا ہے۔ عام طور پر انسان دن بھر کچھ نہ کچھ کھاتا رہتا ہے لیکن روزہ کی حالت میں بندہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنی خواہشات کو قابو میں رکھتا ہے اور یہ صبر کی انتہا ہے۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ روزہ صبر کا نصف ہے۔( مسند احمد )۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ‘‘۔ ( سورۃ البقرہ)۔
ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’ صابروں ہی کو ان کا ثواب بھرپور دیا جائے گا ‘‘۔ ( سورۃ الزمر )۔
تقوی کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اس کے احکامات کو مکمل طور پر اپناکر ہر اس چیز سے خود کو بچائے رکھنا جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتی ہو۔ روزہ انسان کو متقی و پرہیز گار بنانے کا اہم ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جائو ‘‘۔ (سور ۃ البقرہ)۔
روزہ صرف بھوک پیاس برداشت کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ انسان کو جھوٹ ، چغلی ، غیبت ، بد عنوانی ، حسد اور بد کلامی جیسے ہر بْرے عمل سے روکے رکھتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ‘‘۔
عبادت کا مقصد صرف ظاہری اعمال کی انجام دہی نہیں بلکہ عبادت کا حقیقی مقصد اللہ تعالیٰ سے بندے کا تعلق مضبوط کرنا ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو سکے۔روزہ بندے کو باطنی اور روحانی دونوں لحاظ سے پاکیزہ بناتا ہے۔ روزہ دار اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنی خواہشات کو چھوڑ دیتا ہے اور جب اس میں اخلاص بھی شامل ہو جائے تو عبادت کی حقیقی روح بیدار ہوتی ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔
روزہ دار کا دل اللہ تعالیٰ کی محبت اور خوف سے معمور ہوتا ہے جو اس کی روحانی قوت میں اضافہ کرتا ہے۔ جب روزہ دار بھوک اور پیاس کو محسوس کرتا ہے تو اس کے دل میں غریبوں کے لیے ہمدردی پیدا ہوتی ہے جو کہ قرب الٰہی کا ایک ذریعہ ہے۔
اتوار، 16 مارچ، 2025
مسلمان کی حاجت روائی کی فضیلت
مسلمان کی حاجت روائی کی فضیلت
مسلمان کو چاہیے ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی مد د کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی معاونت کرو۔ (سورۃ المائدہ )۔
حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ جو شخص کسی مسلمان بھائی کی مدد اور فائدے کے لیے قدم اٹھاتا ہے ، اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے ایسی مخلوق کو پیدافرمایا ہے جن کا کام لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ انہیں عذاب نہیں کرے گا جب قیامت کا دن ہو گا ان کے لیے نور کے منبر رکھے جائیں گے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے گفتگو کر رہے ہوں گے حالانکہ لوگ ابھی حساب میں ہوں گے۔
نبی کریم ﷺنے اشاد فرمایا :جو کسی مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے چاہے اس کی حاجت پوری ہو یا نہ ہو، اللہ تعالیٰ کوشش کرنے والے کے اگلے پچھلے سب گناہوں کو بخش دیتا ہے اور اس کے لیے دو باتیں لکھ دی جاتی ہیں جہنم سے رہائی اور منافقت سے برائت۔
حلیہ میں ابو نعیم نقل کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص کسی مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرتاہے میں اس کے میزان کے قریب کھڑا ہوں گا۔ اگر اس کی نیکیاں زیادہ ہوئیں تو ٹھیک ورنہ میں اس کی شفاعت کروں گا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب کوئی شخص مسلمان بھائی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ ہر قدم کے بدلے اس کے نامہ اعمال میں ستر نیکیاں لکھ دیتا ہے اور ستر گناہ معاف کر دیتا ہے۔ اگر وہ حاجت اس کے ہاتھوں پوری ہو جائے تو وہ گناہوں سے ایسے پاک ہو جاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے آیا تھا اور اگر اسی دوران اس کی موت واقع ہو جائے تو بلا حساب جنت میں جائے گا۔
حضرت ابن عباس رضی تعالیٰ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے انعامات ہیں جو ان لوگوں کے لیے مخصوص ہیں جو لوگوں کی حاجت روائی کرتے رہتے ہیں اور جب وہ یہ طریقہ چھوڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ وہ انعامات دوسروں کو منتقل کر دیتا ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو کسی مسلمان کی پریشانی کو دور کرے گا اللہ تعالی قیامت کی پریشانیوں میں سے اس کی ایک پریشانی دور فرمائے گا۔ ( مسلم شریف)۔
جمعہ، 14 مارچ، 2025
فضائل و مناقب سیدہ خدیجۃ الکبرٰی ؓ(۱)
فضائل و مناقب سیدہ خدیجۃ الکبرٰی ؓ(۱)
طیبہ طاہرہ عابدہ حضرت سیدہ خدیجۃ الکبرٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہا اسلام کی وہ عظیم ہستی ہیں جنہیں ام المومنین کے بلند مرتبہ پر فائز ہونے کا شرف حاصل ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نہ صرف حضور سیدنا رحمۃ اللعالمینؐ کی پہلی زوجہ ہونے کا شرف حاصل ہے بلکہ آپ حضورنبی کریم ﷺکی سب سے بڑی مددگار اور رفیق بھی تھیں۔ حضرت خدیجہؓ قریش کے معزز اور مالدار گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ آپؓ کے والد کا نام خویلد بن اسد تھا اور آپ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدۃ تھا۔ سیدہ خدیجہ ؓ کو ان کے شرف اور اعلی مقام کی وجہ سے اہل مکہ ’’سیدۃ النساء قریش ‘‘ کے لقب سے پکارتے تھے۔ اور حضور نبی کریم ؐنے آپ کو ’’ افضل النساء اھل الجنۃ ‘‘ کا لقب دیا۔
حضرت سیدہ خدیجۃ الکبرٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہا شرافت ، نیکی ، دیانتداری ، سخاوت ، بلند اخلاق ، مال و دولت ، کردار ، ہمدردی اور لوگوں کے ساتھ خیر خواہی، ہر لحاظ سے کامل اور اکمل خاتون تھیں۔ آپ کا تجارتی کاروبار نہایت وسیع تھا اور آپ اپنی ایمانداری کی وجہ سے اہل مکہ میں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھیں۔
حضرت خدیجہؓ کی زندگی کا سب سے مبارک لمحہ وہ تھا جب حضور نبی کریم ﷺ نے آپ سے نکاح فرمایا۔ حضرت خدیجہؓ نے حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک مثالی ازدواجی زندگی گزاری اور حضور نبی کریم ؐ کی مدد گار اور خیرخواہ رہیں۔ آپ نے ہر مشکل وقت میں نبی کریمؐ کا ساتھ دیا اور اپنا مال و دولت اسلام کی خدمت میں پیش کر دیا۔
حضرت خدیجۃ الکبرٰ ی ؓ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ آپ نے سب سے پہلے حضور نبی کریم ؐ کی نبوت و رسالت کی تصدیق کی اورعورتوں میں سب سے پہلے نبی کریم ؐ پر ایمان لائیں۔ جب نبی کریمﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ پر عجیب سی کیفیت طاری ہو گئی۔ جب آپﷺ پہنچے تو حضرت خدیجہؓ نے انتہائی احسن انداز سے نبی کریم ؐ کو تسلی دی۔ آپ نے نبی کریم ؐ کی اعلیٰ صفات کا تذکرہ کیا اور عرض کی آپ سب سے عمدہ اخلاق والے ہیں ، آپ رشتے جوڑتے ہیں ، ہمیشہ سچ بولتے ہیں ، دکھی لوگوں کے دکھ بانٹے ہیں ، غریبوں اور نادار لوگوں کی مدد فرماتے ہیں اورمہمان نوازی فرماتے ہیں۔ آپ نے فرمایا آپ کا اللہ ہر گز آپ کو رسوا نہیں کرے گا۔ (بخاری شریف)۔
بے شمار احادیث مبارکہ ایسی ہیں جن میں حضرت سیدہ خدیجۃ الکبرٰی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فضائل ومناقب ملتے ہیں۔ایک مرتبہ حضور نبی کریم ؐے حضرت خدیجہ ؓ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا : وہ مجھ پر ایمان لائیں جب اوروں نے کفر اختیار کیا ،آپ نے میری تصدیق کی جب اوروں نے مجھے جھٹلایا ، انہوں نے مجھے اپنے مال میں شریک کیا جب اوروں نے مجھے کسب مال سے روکا۔ خدا نے مجھے ان کے بطن سے اولاد دی جب کہ کسی دوسری بیوی سے نہیں ہوئی۔
جمعرات، 13 مارچ، 2025
زکوٰۃکے آداب اور معاشرتی فوائد (۲)
زکوٰۃکے آداب اور معاشرتی فوائد (۲)
زکوٰۃ ادا کرنے سے مال کی محبت کم ہوتی ہے اور ایثار و قربانی اور دوسروں کے لیے بھلائی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ زکوٰۃ دینے سے صاحب استطاعت افراد کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کے پاس جو بھی مال و متاع ہے، یہ ان کی محنت کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ اللہ تعالی کی عطاکردہ نعمت ہے جس میں دوسروں کا بھی حق ہے۔ یہ احساس غریبوں کے ساتھ ہمدردی اور رحم دلی کے جذبات کو فروغ دیتا ہے۔ اور اس سے باہمی اتحاد ، محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم ہوتی ہے۔
زکوٰۃ ادا کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ بے روز گاری کا خاتمہ ممکن ہے۔ زکوٰۃ صرف کھانا کھلانے یا پھر بنیادی ضروریات تک محدود نہیں بلکہ زکوٰۃ کے ذریعے سے معاشرے کے نادار لوگوں کو چھوٹے کاروبار کے لیے سرمایہ بھی فراہم کیا جا سکتا ہے۔ زکوٰۃ کا مقصد صرف فوری مدد کرنا نہیں بلکہ ایسے مواقع پید اکرنا ہے جن سے مستحقین اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں اور وہ مستقل بنیادوں پر خود کفیل ہو جائیں۔ جب غریب افراد کی ضروریات پوری نہیں ہوں گی تو وہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کوئی بھی غلط راستہ اختیار کر سکتا ہے۔ زکوٰۃ کے مال کے ذریعے سے اگر مستحقین کی مدد کی جائے تو وہ اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کسی بھی غلط راستے پر نہیں چلیں گے۔
اگر زکوٰۃ معاشرے کے کسی ایسے فرد کو دی جائے جو قرض کے نیچے دبا ہو تو وہ اس سے اپنا قرض ادا کر کے ایک نئی اور خوشحال زندگی کا آغاز کر سکتا ہے۔ زکوٰۃ نہ صرف دنیا میں برکت اور کامیابی کا ذریعہ ہے بلکہ آخرت میں بھی نجات کا ایک اہم سبب ہے۔ صدقہ و زکوۃ دینے سے نہ صرف مال پاک ہوتا ہے بلکہ انسان کے گناہ بھی معاف کیے جاتے ہیں اور نیکیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
زکوٰۃ نہ صرف ایک مالی فریضہ ہے بلکہ یہ ایک مکمل اسلامی نظام ہے۔ جو کسی بھی فرد ، معاشرے اور معیشت پر گہرا اثر چھوڑتی ہے۔ زکوٰۃ ادا کرنے کے فوائد دنیاوی فلاح و بہبود سے لے کر آخرت کی فکر تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لیے ہر صاحب نصاب کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالی اور اس کے رسولؐ کے حکم کو مانتے ہوئے زکوۃ ادا کرے۔جس سے نہ صرف اس کا مال پاک ہو گا بلکہ معاشرے میں عدل و انصاف ، مساوات اور خوشحالی کا ماحول بھی پیدا ہوتا ہے۔ اگر زکوٰۃ کے نظام کو حقیقی طور پر نافذ کیا جائے تو اس سے ایک مستحکم فلاحی ریاست کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے جہاں معاشرے کا ہر فرد ایک خوشحال اور پرسکون زندگی بسر کر سکتا ہے۔ زکوۃ کے آداب کو ملحوظ خاطر رکھنا اور اس کی حکمتوں کو سمجھنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے تا کہ یہ عبادت صرف ایک رسمی فریضہ نہ رہے بلکہ ایک روحانی اور سماجی ترقی کا ذریعہ بن سکے۔
بدھ، 12 مارچ، 2025
زکوٰۃکے آداب اور معاشرتی فوائد (۱)
زکوٰۃکے آداب اور معاشرتی فوائد (۱)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسان کی روحانی ، اخلاقی اور سماجی تربیت کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتا ہے ۔ زکوٰۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے ۔ یہ صرف ایک مالی فریضہ نہیں بلکہ ایک ایسا عمل ہے جو بندے کے اخلاق، نیت اور اللہ تعالی کے ساتھ تعلق کو مضبوط کرتا ہے ۔ زکوٰۃ صرف مال کی ادائیگی کا نام نہیں بلکہ ایک ایسا منصفانہ نظام ہے جو دولت کی مساوی تقسیم اور سماجی عدل کو یقینی بناتا ہے ۔ زکوٰۃ ادا کرتے وقت چند آداب کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے ۔
۱:سب سے پہلے خلوص نیت : زکوٰۃ ادا کرتے وقت صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو ۔اگر زکوٰۃ دیتے وقت ریا کاری ، دکھاوے یا پھر شہرت کی نیت ہو تو زکوٰۃ ادا کرنے کا ثواب ضائع ہو جائے ۔ ۲: زکوٰۃ ہمیشہ حلال مال سے ادا کرنی چاہیے حرام مال سے دی ہوئی زکوٰۃ سے ،مال پاک نہیں ہوتا اور بجائے ثواب کمانے کے انسان گناہ کا مرتکب ہوتا ہے ۔ ۳: زکوٰۃ دیتے وقت اس بات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ زکوٰۃ صحیح حق دار تک پہنچ جائے ۔ ۴: زکوٰۃ دینے کے بعد احسان نہ جتایا جائے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : اے ایمان والو اپنی خیرات کو احسان جتا کر اورتکلیف دے کر برباد نہ کرو ۔
زکوٰۃ ادا کرنے کے بے شمار معاشرتی فوائد ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
زکوٰۃ ادا کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ معاشرے میں غربت کا خاتمہ ہو تا ہے ۔ غریب اور نادار لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری ہوتی ہیں ۔ جب صاحب استطاعت افراد اپنے مال کی زکوٰۃ کو مستحقین تک پہنچائیں گے تو غریب لوگوں کی مشکلات کم ہوں گی اور ایک حقیقی فلاحی ریاست کا قیام عمل میں آئے گا جس میں کوئی شخص بھی بھوکا نہیں سوئے گا ۔
زکوٰۃ ادا کرنے کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ معاشرے میں دولت صرف چند ہاتھوں میں محدود نہیں رہتی بلکہ یہ مختلف طبقات میں گردش کرتی رہتی ہے ۔اس طرح دولت کی غیر مساوی تقسیم سے پیدا ہونے والے سماجی مسائل کا خاتمہ ممکن ہوتا ہے اور ایک متوازی معیشت تشکیل پاتی ہے ۔
جب امیر لوگ اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں تو اس سے پیسہ گردش میں آتا ہے جس سے معیشت مضبوط ہوتی ہے کاروبار ترقی کرتا ہے اور بے روز گاری کا خاتمہ ہوتا ہے ۔ زکوٰۃ اسلامی معیشت کا ایک لازمی جزو ہے جو دولت کی منصفانہ تقسیم ، غربت کے خاتمے اور مالی استحکام میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے ۔
جب امیر لوگ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں تو غریب لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے محبت پیدا ہوتی ہے اور ایک دوسرے کے لیے خیر خوہی کا جذبہ پید اہوتا ہے ۔ جب انسان اپنی دولت کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو اسی حقیقی خوشی اور دلی سکون حاصل ہوتا ہے جو اسے دنیا کی کسی اور چیز سے حاصل نہیں ہوتا ۔
منگل، 11 مارچ، 2025
رمضان ، غربت اور امراء ا کردار
رمضان ، غربت اور امراء ا کردار
رمضان المبارک نیکیوں کا موسم بہار ہے یہ با برکت مہینہ تزکیہ نفس ، صبر و قناعت اور ایثار و قربانی کا درس دیتا ہے۔روزہ صرف بھوک اور پیاس برداشت کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ نفس کی پاکیزگی ، دل کی صفائی اور دوسروں کے درد کو محسوس کرنے کی عملی تربیت ہے۔اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ رمضان المبارک میں غریبوں کے لیے آزمائش ہوتی ہے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہوتی ہے دوکاندار اشیاء خوردو نوش کی قیمتوں میں اضافہ کر دیتے ہیں اور غریب آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن دوسری طرف امراء رمضان المبارک میں طرح طرح کی افطار پارٹیاں کرنے ، مہنگے کھانے اور مہنگے ترین ملبوسات پر اپنا پیسہ لگا رہے ہوتے ہیں۔ یہ سارے معاملات ہمیں اس بات کو سوچنے کا موقع ہی نہیں دیتے کہ ہمارے ارد گرد کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں افطاری کے لیے کھجور اور پانی کے سوا کچھ میسر نہیں ہوتا۔
اللہ تعالیٰ نے اس لیے زکوۃ کو فرض قرار دیا تا کہ پیسہ صرف چند ہاتھوں میں ہی گردش نہ کرے بلکہ معاشرے کے غریب لوگوں تک بھی پیسہ پہنچ سکے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نماز کے ساتھ کئی مقامات پر زکوٰۃ کا بھی ذکر فرمایا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو ‘‘۔ ( سورۃ البقرہ )
سورۃ المنافقون میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :’’ اور جو کچھ ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے زکوٰۃ دو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کو موت آ جائے ‘‘۔
نبی کریم ﷺ نے بھی زکوٰۃ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے جب حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا والی بنا کر بھیجا تو انہیں فرمایا :’’ انہیں بتائو کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے مالدار سے لی جائے اور ان کے غریبوں میں تقسیم کی جائے گی ‘‘۔
اسلامی تعلیمات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ معاشرے کا مالدار طبقہ غربا کی مدد کرے۔ زکوٰۃ و صدقات اور خیرات کے ذریعے اپنے ارگرد بسنے والے لوگوں کی مدد کریں۔ جہاں ہم بڑی بڑی افطار پارٹیوں کا اہتما م کرتے ہیں وہی ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کیا ہمارے کسی ہمسائے کے گھر کھانے کے لیے دو وقت کی روٹی بھی ہے یا نہیں۔ رمضان المبارک سے ہمیں صبر ، شکر اور دوسروں کی مدد کرنے کا درس ملتا ہے۔ اگر ہم دوسروں کے درد کو محسوس نہیں کر سکتے ، بھوکوں کا پیٹ نہیں بھر سکتے اور اپنے اردگرد بسنے والے لوگوں کا خیال نہیں کر سکتے تو روزہ صرف بھوک اور پیاس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امراء اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے غریب طبقے کی مدد کریں۔
پیر، 10 مارچ، 2025
زکوٰۃ کی فرضیت قرآن و حدیث کی روشنی میں(۲)
زکوٰۃ کی فرضیت قرآن و حدیث کی روشنی میں(۲)
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نبی کریم ؐ نے جب یمن بھیجا تو فرمایا انہیں بتائو کہ اللہ نے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے لے کر ان کے غریبو ں میں تقسیم کی جائے گی۔
زکوٰۃ نہ دینے والوں کے لیے وعید : جو لوگ اپنے مال کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے اور اسے جمع کر کے رکھتے ہیں ان کے لیے قرآن و حدیث میں سخت وعید ہے۔ سورۃ التوبہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’اور وہ لوگ جو سونے اور چاندی کو جمع کر کے رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو۔ جس دن وہ (مال ) جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا ، پھر اس سے ان کی پیشانیوں ، پہلوئوں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا (اور ان سے کہا جائے گا ) یہ وہ مال ہے جسے تم نے اپنے لیے جمع کیے رکھا سو اب اپنے اس مال کا مزا چھکو ، جسے (بڑی چاہت سے) جمع کر کے رکھتے تھے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو وہ اس کی زکوٰۃ ادا نہ کرے وہ مال قیامت کے دن گنجا سانپ بنا دیا جائے گا ، اس کی آنکھوں پر دو سیاہ نقطے ہوں گے ، اس سانپ کو اس کے گلے میں طوق بنادیا جائے گا پھر وہ اس شخص کو اپنے جبڑو ں سے پکڑے گا پھر کہے گا میں تیرا مال ہو ں ، میں تیرا خزانہ ہوں۔اس کے بعد نبی کریم ﷺنے یہ آیت مبارکہ تلاوت کی۔
ترجمہ : اور جو لوگ اس چیز میں بخل کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں عطا کی ہے ( یعنی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے ) وہ ہرگز یہ گمان نہ کریں کہ وہ ان کے حق میں بہتر ہے بلکہ وہ ان کے حق میں بہت برا ہے ، عنقریب وہ مال جس میں انہوں نے بخل کیا قیامت کے دن انہیں اس کا طوق بنا کر ڈالا جائے گا۔ ( بخاری )۔
جو لوگ زکوٰۃ ادا نہیں کرتے نبی کریم ﷺ نے ان پر لعنت فرمائی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے نبی کریم ﷺنے سود کھانے والے ،سود کھلانے والے ، سود لکھنے والے اور صدقہ روکنے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ ( سنن نسائی )۔
جو قوم زکوٰۃ ادا نہیں کرتی اللہ تعالیٰ اسے قحط سالی اور فاقہ میں مبتلا کر دیتا ہے۔حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے نبی کریم ﷺنے فرمایا: جو قوم بھی زکوٰۃ ادا کرنے سے رکی ہے اسے اللہ تعالیٰ نے قحط سالی میں مبتلا کیا ہے۔ ( معجم الاوسط )۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ قیامت کے دن زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کا سخت حساب لیا جائے گا اور دردنا عذاب دیا جائے گا۔(المعجم الصغیر)۔
مندرجہ بالا تمام آیات و احادیث زکوٰۃ کی اہمیت ، اس کے فوائد اور زکوٰۃ نہ دینے والوں کا انجام واضح کرتی ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
زبان کی حفاظت اور اس کے ثمرات(۱)
زبان کی حفاظت اور اس کے ثمرات(۱) انسانی شخصیت کی خوبصورتی اور کمال میں زبان اورکلام کا بہت گہرا تعلق ہے۔ جس طرح زبان کے غلط استعمال سے معا...

-
معاشرتی حقوق (۱) اگر کسی قوم کے دل میں باہمی محبت و ایثار کی بجائے نفر ت و عداوت کے جذبات پرورش پا رہے ہوں وہ قوم کبھی بھی سیسہ پلائی د...
-
حضور ﷺ کی شان حضور ﷺ کی زبان سے (۱) حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ ن...
-
دنیا کی زندگی ،ایک امتحان (۱) اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک عظیم مقصد کے تحت پیدا فرمایا ہے۔دنیا کی یہ زندگی ایک کھیل تماشا نہیں بلکہ ایک سن...