حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (۲)
امام مسلم نے سہل بن سعدؓ سے روایت کیا کہ حضور ؐ نے غزوہ خیبر میں فرمایاکل میں جھنڈا اس کودونگا جس کے ہاتھ پر اللہ خیبر کو فتح فرمائے گاوہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کرتا ہے اور خدا اور رسولؐ بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔ لوگوں نے اس کشمکش میں رات گزاری کہ وہ نہ جانے خوش بخت کون ہوگا؟جسے صبح دست رسولؐ سے عَلم عطا ہوگا۔ صبح تمام لوگ رسولؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس طرح ہر ایک کے دل میں خواہش تھی کہ کاش یہ سعادت سرکارؐ مجھے بہرہ مند فرمائیں حضور ؐ نے فرمایا علیؓ کہاں ہے؟کہا گیا ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے۔تو نبی رحمتؐ نے انہیں بلا بھیجا۔ جب حضر ت علی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے تو حضور نبی مکر م ﷺنے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن لگایاجس سے ان کی ساری تکلیف دور ہوگئی اور آپ کی وہ آنکھ اس طرح ہو گئی گویا ا س میں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔حضور ؐ نے جھنڈا حضرت علی کے ہاتھ میں دیا آپ فتح کا عزم لیے قلعہ پر حملہ آور ہوئے۔ یہود کا سورما مرحب رجز پڑھتا چند سرداروں کے ہمراہ قلعہ سے باہر نکلا حضرت علی اس کی جانب بڑھے آپ نے جنگ کے دوران مرحب کو جہنم واصل کر دیا اور قلعہ کو فتح کر لیا۔
حضرت حبشی بن جنادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی کریم ﷺ نے فرمایا علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور میری طرف سے (عہد و پیمان میں)میرے اور علی کے سوا کوئی دوسرا ذمہ داری ادا نہیں کر سکتا۔ ( ترمذی ، ابن ماجہ )۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ؐ نے جب انصار اور مہاجرین میں بھائی چارہ قائم کیا تو حضرت علی نبی کریم ؐ کے پاس آئے اور عرض کی یار سول اللہ ؐ! آپ نے صحابہ کرام میں بھائی چارہ قائم فرما دیا ہے لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا۔ آپ نے فرمایا تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو۔ ( ترمذی )۔
اگرچہ آپ نادر شجاعت کے حامل تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ فقیرانہ احساس اور عجز و انکساری کا پیکر تھے۔ جنگ کی وحشت و بربریت کا جذبہ کبھی بھی آپ کے دل میں پیدا نہیں ہوا۔ آپ نے غازیانہ خلق عظیم کی بہترین دنیا میں مثال پیش کی۔ آپ نے کبھی ظلم و تعدی سے کام نہ لیا اور نہ ہی فخرو غرور کی کوئی بات آپ سے سرزد ہوئی بلکہ آپ نے اپنے طرز عمل سے حلم وحیا کی روایت کو عام کیا۔
کوفہ میں ایک بد بخت خارجی عبدالرحمن ابن ملجم نے حالت نماز میں آپ پر حملہ کیا جس سے آپ شدید زخمی ہو گئے اور اکیس رمضان المبارک جمعہ کی شب اسلام کا یہ بدر منیر ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت قیامت تک مسلمانوں کے لیے روشنی کا مینار ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔آمین۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں