عتکاف
اعتکاف ایک عظیم عبادت ہے جو ہر سال رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں کی جاتی ہے۔ اس عبادت کا مقصد اللہ تعالیٰ کی ر ضا حاصل کرنا ، دنیا وی مصروفیات سے کنارہ کش ہو کر ذکرو عبادت میں مشغول ہونا اور روحانی ترقی حاصل کرنا ہے۔
اعتکاف کے لغوی معنی اپنے آپ کو کسی شے پر روک رکھنے یا لازم کر لینے کے ہیں اور اصطلاح شریعت میں کسی مسجد کے اندر عبادت کی نیت سے اپنے قیام کو کسی مدت کے لیے لازم کر لینا اعتکاف کہلاتا ہے۔مشکوۃ شریف کی حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد آپ کی ازواج اعتکاف کرتی تھیں۔
حضرت ذالنون فرماتے ہیں کہ بھوک کی ریاضت میں مقامات کشف حاصل ہوتے ہیں اور فرمایا کہ میں چالیس اولیا کرام سے ملا ہوں سب نے یہ فرمایا کہ ہم درجہ ولایت پر عزت سے پہنچے اور اعتکاف عزت بھی ہے، گوشہ نشینی بھی ہے۔ لہٰذا اعتکاف کشف کے حصول کا کامیاب ذریعہ ہے اور مسجد کا قیام مزید قرب کا باعث ہے کیونکہ مکیں کا قرب جس طرح مکاں میں حاصل ہوتا ہے اس طرح اللہ تعالیٰ کا قرب خاص مسجد میں ملتا ہے۔
اعتکاف بیٹھنے والے کے لیے لازم ہے کہ اس کا کھانا پینا ، رہنا سہنا اور سونا جاگنا مسجد کے اندر ہی ہو اور بغیر کسی شرعی عذر کے مسجدسے باہر قدم نہ رکھے۔ لیکن لوگوں سے کوئی بات چیت کرنا ، کوئی چیز لینا اعتکاف کی حالت میں جائز ہے شرط یہ ہے کہ کوئی بھی بات احترام مسجد یا اعتکاف کے آداب کے خلاف نہ ہو۔
اعتکاف کرنے والے کو بہت زیادہ اجرو ثواب ملتا ہے اور اس کے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اعتکاف کرنے والا گویا اپنے تمام بدن اور تمام وقت کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے وقف کر دیتا ہے۔ دنیا کے جھگڑوں اور بہت سے گناہوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اعتکاف کی حالت میں اسے ہر وقت نماز کا ثواب ملتا ہے کیونکہ اعتکاف سے اصل مقصود یہی ہے کہ اعتکاف کرنے والا ہر وقت نماز اور جماعت کے اشتیاق میں بیٹھا رہے۔ اعتکاف کی حالت میں بندہ فرشتوں کی مشابہت پیدا کرتا ہے کہ ان کی طرح ہر وقت عبادت اورتسبیح و تقدیس میں رہتا ہے۔ مسجد اللہ تعالیٰ کا گھر ہے اس لیے اعتکاف کرنے والا اللہ تعالیٰ کے گھر میں اس کا مہمان ہوتا ہے۔
رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے۔ اس کی ابتدا بیس رمضان المبارک کی شام یعنی غروب آفتاب کے وقت ہوتی ہے اور عید کا چاند دیکھتے ہی اس کی مدت ختم ہو جاتی ہے۔
اعتکاف ایک عظیم عبادت ہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتی ہے۔ ہمیں اس بابرکت عمل کو سنت نبوی کے مطابق ادا کرنا چاہیے تا کہ دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل ہو۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں