غزوہ بدر (۲)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے نبی کریم ﷺ نے اصحاب بدر کے لیے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کی طرف توجہ فرمائی اور فرمایا جو عمل تم کرنا چاہتے ہو کرو بیشک تمہارے لیے جنت لازم ہو گئی ہے یا پھر اس طرح فرمایا میں نے تمہیں معاف فرما دیا ہے۔( متفق علیہ )۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت حاطب کا ایک غلام نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور حضرت حاطب کی شکایت کرتے ہوئے عرض کی یا رسول اللہ ؐ حاطب دوزخ میں داخل ہو جائے گا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم جھوٹ بولتے ہو وہ دوزخ میں داخل نہیں ہو گا کیونکہ وہ بدر اور حدیبیہ میں شریک تھا۔ ( مسلم ، ترمذی )۔
حضرت رافع بن خدیج ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے غزوہ بدر کے دن فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر کوئی مولود بچہ چالیس سال تک اہل دین کے ہاں دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرتا رہے اور اس دوران اللہ تعالیٰ اطاعت کی اور تمام گناہوں سے بچتا رہا یہاں تک کہ وہ عمر کے انتہائی آخری حصہ میں پہنچ گیا یا عمر کے اس حصے میں پہنچ گیا جس میں وہ سب کچھ جاننے کے بعد بھی کچھ نہیں جانتا تھا پھر بھی تم میں سے کوئی اصحاب بدر کی اس فضیلت والی رات کو نہیں پا سکتا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا بیشک جنہوں نے غزوہ بدر میں شرکت کی انہیں ان فرشتوں پر بھی فضیلت حاصل ہے جنہوں نے اس میں شرکت نہیں کی۔ ( طبرانی )۔
اس غزوہ میں جہاں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب فرمائی وہاں ہمیں اس سے کئی اسباق حاصل ہوتے ہیں۔ سب سے پہلا یہ کہ مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی لیکن ان کا اللہ تعالیٰ پر یقین مضبوط تھا اس لیے کامیابی کا انحصار تعداد پر نہیں بلکہ توکلِ اللہ ، اللہ تعالیٰ کی مدد اور سچے ایمان پر ہے۔ جنگ سے قبل نبی کریمﷺ نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ساری رات دعا مانگی اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کامیابی کے لیے محنت اور تدبیر کے ساتھ ساتھ دعا کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ صحابہ کرام نے نبی کریم ﷺ کی قیادت میں مکمل اتحاد اور اطاعت کا مظاہرہ کیا۔ اس سے ہمیں یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ کامیابی کے لیے قیادت پر اعتماد اور آپس میں اتحاد ضروری ہے۔ مسلمانوں نے ذاتی مفاد کو چھوڑ کر دین کی سر بلندی کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔ اس سے ہمیں دین کے لیے اخلاص اور قربانی دینے کا سبق حاصل ہوتا ہے۔ غزوہ بدر کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ جب کوئی قوم ایمان ، اتحاد اور قربانی کے جذبے سے میدان میں آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی مدد بھی اس میں شامل حال رہتی ہے اور اللہ تعالیٰ انہیں تعداد میں کم ہونے کے باوجود فتح عطا فرماتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں