غزوہ بدر (۱)
غزوہ بدر اسلامی تاریخ کا پہلا معرکہ ہے جس میں حق اور باطل کا آمنا سامنا ہوا۔یہ معرکہ 17 رمضان المبارک دو ہجری کو مدینہ منورہ کے قریب بدر کے مقام پر ہوا اور اس جنگ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو شاندار فتح نصیب فرمائی۔
غزوہ بدر پیش آنے کی وجہ یہ تھی کہ جب نبی کریم ﷺ نے مکہ مکرمہ میں اسلام کی تبلیغ کا آغازکیا تو قریش نے مسلمانوں کی شدید مخالفت کی اور مسلمانوں کو طرح طرح کی تکالیف دیں۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مدینہ منورہ ہجرت کی اجازت دے دی لیکن اس کے باوجود قریش مکہ کی دشمنی کم نہ ہوئی۔ نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں کے خلاف سازشوں کو روکنے کے لیے قریش کے تجارتی قافلوں پر نظر رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اسی دوران ابوسفیان کا تجارتی قافلہ شام سے مکہ واپس آرہا تھا جسے مسلمانوں نے روکنے کی کوشش کی تو ابو سفیان نے اہل مکہ سے مدد مانگی جس پر قریش نے ایک ہزار سپاہی ابو سفیان کی مدد کے لیے بھیجے۔اس معرکہ میں مسلمانوں کی تعداد صرف تین سو تیرہ تھی اور 6 زریں ، 8 تلواریں ، اونٹ اور 2 گھوڑے تھے۔ اسلام کا پرچم مصعب بن عمیر ، عقاب جھنڈا حضرت علی اور دوسرا جھنڈا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہم کو عطا ہوا جبکہ کفار مکہ کے پاس ایک ہزار سپاہی ،سو گھوڑے اور چھ سو زریں تھیں۔ سترہ رمضان المبارک کو مسلمانوں اور کفار مکہ کے درمیان جنگ کا آغاز ہوا۔ جس میں قریش کی طرف سے عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ میدان میں اترے ان کے مقابلے کے لیے مسلمانوں کی طرف سے حضرت حمزہ، حضرت علی اور حضرت عبیدہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میدان میں اترے اور تینوں کافروں کو واصل جہنم کیا۔ اس کے بعد جنگ کا باقاعدہ آغاز ہوا اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی۔ اس فتح کے بعد مسلمانوں کو تقویت ملی اور ان کے حوصلے بڑھ گئے۔ اور قریش مکہ کا غرور خاک میں مل گیا۔ غزوہ بدر میں یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہمیشہ حق کے ساتھ ہوتی ہے۔
اس جنگ میں ابو جہل بھی واصل جہنم ہوا۔ رسول کریم ﷺ نے حکم دیا کہ کوئی جاکر ابو جہل کی خبر لائے اس کا کیا انجام ہوا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودگئے تو انہوں نے دیکھا کہ ابو جہل دم توڑ رہا ہے۔ آپ نے اس کا سر کاٹ کر آپ کے قدموں میں رکھ دیا۔ حضور ؐ نے تین مرتبہ فر مایا اے اللہ تیرا شکر ہے۔ اسکے بعد حضور نبی کریم ؐ سر بسجود ہو ئے اور پھر فرمایا کہ ہر امت میں ایک فرعون ہوتا ہے اس امت کا فرعو ن ابو جہل تھا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ؐ بھی اس جنگ میں شریک تھے اور سب سے سخت جنگ کرنے والے آپ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس حق و باطل کے معرکہ میں مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں