جمعہ، 28 فروری، 2025

استقبال رمضان

 

 استقبال رمضان

روزہ عبادت ، صبر کا پیغام ہے
یہ ماہ رمضان رب کا انعام ہے
رمضان المبارک کا مقدس مہینہ مسلمانوں کے لیے رحمت ، مغفرت اور جہنم سے نجات کا پیغام لے کر آتا ہے۔ ماہ رمضان اللہ تعالیٰ کی بے شمار برکتوں اور نعمتوں سے بھرپور مہینہ ہے۔ اس ماہ مقدس میں اللہ تعالیٰ کے بندے اپنے رب کو خوش کرنے کے لیے عبادت اور دیگر نیک اعمال کرنے میں مشغول ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو جکڑدیا جاتا ہے۔ (بخاری )۔
ماہ رمضان المبارک کی با برکت ساعتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کی آمد سے پہلے ہی ماہ مقدس کا استقبال کرنے کی تیاری کریں اور خود کو جسمانی ، ذہنی اور روحانی لحاظ سے تیار رکھیں۔ کسی بھی نیک کام کو کرنے کے لیے اخلاص کا ہونا بہت ضروری ہے جو عمل بغیر اخلاص کے کیاجائے اس کا کوئی اجر و ثواب نہیں ملتا۔ لہذا ہم رمضان کی آمد سے قبل ہی یہ نیت کریں کہ ہم خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے روزے رکھیں گے اور اس کی خوب عبادت کریں گے۔ 
ماہ مقدس سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مناجات پیش کریں اور اپنے گناہوں سے معافی مانگیں اور آئندہ گناہوں سے بچنے کا عہد کریں۔ ابھی سے ہی قرآن مجید کی تلاوت کا معمول بنائیں اور کو شش کریں کہ ما ہ رمضان میں قرآن مجید کو بمع ترجمہ و تفسیر پڑھیں۔ ماہ رمضان کی آمد سے قبل ہی خود کو نوافل اور ذکر و اذکار کا عادی بنائیں تا کہ ہم ماہ مقدس میں مزید فرائض کے ساتھ ساتھ نفلی عبادت اور ذکر و اذکار میں مشغول ہو سکیں۔ ماہ مقدس کی آمد سے پہلے مناسب غذا کا استعمال کریں اور اپنی صحت کا خیال رکھیں تا کہ ہم رمضان سے قبل یا ماہ مقدس میں بیمار نہ ہوں۔ اس بات کی نیت کریں کہ رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے قیام اللیل کریں گے ، دل کھول کر صدقہ و خیرات کریں گے اور اگر اللہ تعالیٰ نے ہمت و توفیق دی تو ان شاء اللہ اعتکاف بھی بیٹھیں گے۔ اور ماہ رمضان کے آخری عشرہ میں طاق راتوں میں شب قدر کی تلاش کریں گے۔ اگر ہم آج ہی ان نیک اعمال کی نیت کر لیں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ثواب ملے گا۔ رمضان المبارک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہے جو ہمیں اپنی زندگیوں کو سنوارنے اور آخرت کی تیاری کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس ماہ مقدس کا جتنا ہو سکے ادب و احترام کریں اور اسکی بابرکت ساعتوں سے بھرپور مستفید ہوں۔ اللہ پاک ہمیں ماہ مقدس کی برکتوں کو سمیٹنے کی تو فیق عطا فرمائے۔ آمین۔

جمعرات، 27 فروری، 2025

Surah Al-Ankaboot (سُوۡرَةُ العَنکبوت) Ayat 42-44.Have we been deceived ...

Surah Al-Ankaboot (سُوۡرَةُ العَنکبوت) Ayat 42.Are we living in the time...

وقت کی اہمیت(2)

 

وقت کی اہمیت(2)

وقت کی قدر کے متعلق نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بھی نصیحت فرمائی۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا پانچ چیزوں کو پانچ سے پہلے غنیمت جانو۔ جوانی کو بڑھاپے سے پہلے ، صحت کو بیماری سے پہلے ، خوشحالی کو تنگدستی سے پہلے ، فراغت کو مصروف ہونے سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جانو۔ جوانی کا وقت انسان کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ انسان جوانی میں اپنی عبادات اور روزمرہ کے کاموں کو اچھے طریقے سے سر انجام دے سکتا ہے اس کے برعکس بڑھاپے کے وقت انسان یہ کام جوانی کی طرح سر انجام نہیں دے سکتا۔ صحت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ جو کام انسان تندرستی میں کر سکتا ہے وہ بیماری کی حالت میں نہیں کر سکتا۔ خوشحالی میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے مال کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کریں تا کہ آخرت میں فائدہ حاصل کر سکیں کیونکہ پتہ نہیں کب تنگدستی آ جائے اور تم دوسروں کے دست نگر بن جائو۔ جب فراغت ملے تو اسے اچھے کاموں میں گزاریں اور فضول باتوں سے اجتناب کریں۔ اور موت برحق ہے اس لیے موت کا وقت آنے سے پہلے زندگی کی قدرکریں اور اللہ تعالیٰ کو راضی کر لیں۔ 
دنیا میں کامیاب ہونے والے انسانو ں کی کامیابی کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے وقت کی قدر کی اور اپنے تمام کاموں کو صحیح وقت پر سر انجام دیا تو انہوں نے بہت ساری کامیابیاں سمیٹیں اور وہ معاشرے کے کامیاب افراد بن کر ابھرے۔ اگر تعلیم کے میدان میں طالب علم ٹائم کی قدر کرتے ہوئے اپنا تمام تر دھیان اپنی تعلیم پر دے اور اپنے روزمرہ کے سبق کو وقت پر یاد کرے تو وہ کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ وقت کے بہترین استعمال کے لیے ہمیں چاہیے کہ ہم دن بھر کے کاموں کی منصوبہ بندی کر کے ان کی ایک فہرست تیار کریں۔ ضروری اور اہم کاموں کو پہلے سر انجام دیں۔ سستی اور کاہلی سے بچیں تا کہ اپنے کاموں کو صحیح وقت پر صحیح طریقے سے سر انجام دے سکیں۔ نماز کی پابندی ہمیں وقت کا پابند بناتی ہے ہمیں چاہیے کہ ہم نماز کی پابندی کریں تا کہ ہم وقت کے پابند ہو سکیں۔ غیر ضروری باتوں ، بے جا موبائل اور انٹر نیٹ کا استعمال نہ کریں۔ 
وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اس کا صحیح اور درست سمت میں استعمال ہی کامیابی کی کنجی ہے۔ جو قومیں وقت کی قدر کرتی ہیں وہ ترقی کی منازل کو طے کرتے ہوئے معاشرے میں اپنا ایک اونچا مقام بناتی ہیں۔ اس کے بر عکس جو قومیں وقت کی قدر نہیں کرتیں اور اس کا صحیح استعمال کرنے کی بجائے غلط کاموں میں مصروف رہتی ہیں وہ قومیں زوال کا شکار ہو کر معاشرے میں اپنا مقام کھو بیٹھتی ہیں۔

What's Behind the Religion of ISLAM?

Do we need Islam?

Why Islam?

Surah Al-Ankaboot (سُوۡرَةُ العَنکبوت) Ayat 41 Part-02.Have we made spid...

Surah Al-Ankaboot (سُوۡرَةُ العَنکبوت) Ayat 41 Part-01.Do we not trust A...

بدھ، 26 فروری، 2025

وقت کی اہمیت (۱)

 

 وقت کی اہمیت (۱)

وقت اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم نعمت ہے جسے کسی بھی دولت سے نہیں خریدا جا سکتا۔ یہ ایک ایسا خزانہ ہے جو ہر انسان کو ایک جیسا میسر نہیں آتا۔ مگر جو شخص وقت کا صحیح استعمال کرتا ہے وہی کامیابی کی منازل کو طے کرتا ہے۔ وقت کی پابندی اور اس کا بہترین استعمال ترقی کی بنیاد ہے جبکہ وقت کی قدر نہ کرنا اور اسے فالتو کاموں میں گزار دینا ناکامی کا سبب بنتا ہے۔ قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے وقت کی قدر و منزلت کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔
’’اور ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا پھر ہم نے رات کی نشانی کو تاریک بنایا اور ہم نے دن کی نشانی کو روشن بنایا تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کر سکو اور تاکہ تم برسوں کا شمار اور حساب معلوم کر سکو اور ہم نے ہر چیز کو پوری تفصیل سے واضح کر دیا ہے  (سورۃ بنی اسرائیل)۔
سورۃ یونس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :’’وہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ تم اس میں آرام کرو اور دن کو روشن بنایا۔ بیشک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو سنتے ہیں ‘‘۔ 
مندرجہ بالا آیات میں اللہ تعالیٰ نے وقت کو ترتیب دینے کی اہمیت کے متعلق ارشاد فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دن اور رات کی تقسیم کر کے فرمایا کہ تم رات کو آرام کر سکو اور دن کو حلال رزق کی تلاش میں نکلو۔ اللہ تعالیٰ نے وقت کی تقسیم فرما کر ہمارے لیے آسانی پیدا فرمائی ہے۔ اس میں ہمارے لیے پیغام ہے کہ ہم وقت کی قدر کرتے ہوئے اسے درست انداز میں ٹائم ٹیبل کے مطابق گزارنے کی کوشش کریں تا کہ ہمارا وقت ضائع نہ ہو۔ 
اللہ تعالیٰ نے نماز کو مقررہ وقت پر فرض کیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’بیشک نماز مومنوں پر مقررہ وقت میں فرض کی گئی ہے ‘‘۔ اب اگر ہم نماز کو وقت پہ ادا نہ کریں تو نماز قضا ہو جائے گی اور ہم نماز کے پورے اجر و ثواب سے محروم رہ جائیں گے۔ اسی طرح ہم اپنے روزمرہ کے کاموں کوصحیح وقت پر ٹائم ٹیبل کے مطابق سر انجام نہ دیں تو ہم جس کام سے جو فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ ہمیں حاصل نہیں ہو گا۔ 
اللہ تعالیٰ نے کام کے وقت کو بھی مقرر کیا ہے اور آرام کے وقت کو بھی اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا وقت بھی مقرر کیا ہے۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کریں گے تو زندگی میں پریشانیوں سے بچ جائیں گے۔ 
حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں انسان دھوکے میں رہتا ہے۔ ایک صحت اور دوسری فراغت (بخاری )۔

Surah Al-Ankaboot (سُوۡرَةُ العَنکبوت) Ayat 38.Are we walking on the pat...

منگل، 25 فروری، 2025

صبح خیزی کی برکات

 

صبح خیزی کی برکات

صبح خیزی یعنی سورج طلوع ہونے سے پہلے جاگنے کی عادت نہ صر ف ہماری صحت کے لیے مفید ہے بلکہ اس سے بہت سارے روحانی ، ذہنی اورجسمانی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ جو لوگ صبح جلد اٹھ جاتے ہیں وہ دوسروں کی نسبت زیادہ چا ق و چوبند ، کامیاب اور خوشحال ہوتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں بھی صبح جلدی جاگنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کرو سورج کے طلوع ہونے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے۔ (سورۃ طہٰ)۔قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ کی روشنی میں صبح کے وقت عبات کرنا اور ذکر الٰہی میں مشغول ہونا نہایت موزوں عمل ہے۔ 
حضور نبی کریم ﷺنے بھی صبح جلدی جاگنے کی ترغیب دیتے ہوئے دعا فرمائی : اے اللہ میری امت کے صبح کے وقت میں برکت عطا فرما (ابو دائود)۔
صبح جلدی اٹھنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہمیں فجر کی نماز ادا کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور دن کا آغاز اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں سے ہوتا ہے۔ نبی کریم ؐ کی احادیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ مجھے صبح کی دو سنتیں اس دنیا اور اس دنیا میں جو کچھ ہے سب سے زیادہ عزیز ہیں۔ صبح کے وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہونے سے دلوں کو سکون ملتا ہے اور بندہ دن بھر سکون اور اطمنان میں رہتا ہے۔ صبح جلدی جاگنے کے روحانی فوائد کے علاوہ بہت سارے جسمانی اور ذہنی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ صبح کی تازہ ہوا آلودگی سے پاک ہوتی ہے اور دماغی صلاحیتوں کو بڑھاتی ہے۔ صبح جلد اٹھنے والے لوگ دل کی بیماریوں ، موٹاپے اور ذہنی دبائو سے محفوظ رہتے ہیں۔ دنیا کے تمام کامیاب لوگ صبح جلدی اٹھنے کو اپنی کامیابی کا راز بتاتے ہیں اور جو صبح جلدی اٹھتے ہیں وہ لوگ زیادہ منظم ، کامیاب اور خوشحال زندگی گزارتے ہیں۔ صبح جلدی اٹھنے کے لیے ضروری ہے کہ رات کو جلدی سو جائیں۔ رات کو سونے سے پہلے موبائل اور ٹی وی کا استعمال کم کریں تا کہ رات کو بہتر طریقے سے نیند آسکے۔ فجر کی نماز کی پابندی کریں۔ اس طرح ہمیں صبح جلدی جاگنے کی عادت ہو جائے گی۔ صبح خیزی انسان کی زندگی میں برکت، کامیابی اور خوشحالی لاتی ہے۔ صبح جلدی اٹھنے سے نہ صرف روحانی فوائد حاصل ہوتے ہیں بلکہ بے شمارجسمانی اور ذہنی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم صبح جلدی اٹھنے کی عادت بنائیں تاکہ ہماری زندگی میں نظم و ضبط اور برکت پیدا ہوسکے اور ہم ایک صحت مند اور کامیاب زندگی گزار سکیں۔ 
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ارشاد فرماتی ہیں طلب معاش اور ضروریات کی تکمیل کیلئے صبح سویرے جلدی ااٹھو ، صبح خیزی برکت اور کامیابی ہے۔ (طبرانی معجم الاوسط)۔

After all, who is our only God? || آخر ہمارا اِلٰه وّاحِد کون؟

Surah Al-Ankaboot (سُوۡرَةُ العَنکبوت) Ayat 26-27.Have we strayed from t...

Surah Al-Ankaboot (سُوۡرَةُ العَنکبوت) Ayat 25.Do we deserve Allah's spe...

ہفتہ، 22 فروری، 2025

لاالہ الااللہ، سبحان اللہ اور الحمد للہ کی فضیلت

 

لاالہ الااللہ، سبحان اللہ اور الحمد للہ کی فضیلت

حضور نبی کریم ﷺ  ارشاد فرمایاکرتے تھے بندہ جو بھی نیک عمل کرتا ہے اسے روز حشر ترازومیں تولا جائے گا لیکن ’’لاالہ الااللہ ‘‘ وہ مبارک کلمہ ہے کہ اگرایک پلڑے میں اسے رکھا جائے اور دوسرے پلڑے میں ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں رکھ دی جائیں تو وہ پلڑا جھک جائے گا جس میں کلمہ طیبہ ہو گا۔ آپ ؐ نے فرمایا اگر ’’لاالہ الااللہ ‘‘ کہنے والاسچا ہوا تو اس کے سارے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں، اگر وہ زمین کے ذرات کے برابر بھی ہوں۔
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایاجس نے خلوص نیت کے ساتھ ’’لاالہ الااللہ ‘‘ پڑھا وہ جنت میں جائے گا۔ صحیح میں ہے کہ جس نے یہ کلمہ پڑھا تو گویا اس نے حضرت اسما عیل علیہ السلام کی اولاد میں سے چار غلام آزاد کیے۔
نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص نے دن میں ایک بار یہ کلمات پڑھے ’’ سبحا ن اللہ وبحمدہ ‘‘ اس کے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اگرچہ وہ دریا کی جھاگ کے برابر بھی ہوں۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایاجس نے ہر نماز کے بعد تینتیس بار ’’ سبحا ن اللہ وبحمدہ ‘‘ اور تینتیس بار ’’ الحمد اللہ ‘‘ اور تینتیس بار ’’اللہ اکبر ‘‘ پڑھا پھر یہ کلمات پڑھ کر سو پورا کیا ’’ لاالہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمدو ھو علی کل شئی قدیر ‘‘۔ اس کے جملہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں اگردریا کی جھاگ کے برابر بھی ہوں۔
ایک شخص حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ ؐدنیا مجھ سے روگرداں ہو گئی ہے۔ افلاس اور فقرنے ڈیرے جما لیے ہیں۔ دولت و ثروت کی فراوانی کیسے ہو سکتی ہے۔ آپ  نے فرمایا تو ملائکہ کے اس ذکر اور مخلوق کی اس تسبیح کو کیوں بھول بیٹھا ہے جس کے طفیل ساری دنیا کو رزق دیا جاتا ہے۔ اس نے عرض کی یا رسول اللہ ؐ وہ کون سا ذکرہے ؟ تو آپ نے فرمایا: ’’سبحان اللہ العظیم ‘‘’’ سبحان اللہ وبحمدہ ‘‘،’’استغفراللہ ‘‘ہر روز صبح کی نماز سے پہلے پڑھا کرو۔ نہ چاہتے ہو ئے بھی دنیا کا رخ تیری سمت ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کلمات میں سے ہر ہر کلمہ سے ایک فرشتہ پیدا فرمائے گا۔ جو قیامت تک اللہ کی تسبیح بیان کرتا رہے گا اور اس کا ثواب تجھے ملتا رہے گا۔
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: باقیات و صالحات یہ کلمات ہیں ’’ سبحان اللہ و الحمد للہ ولا الہ الا اللہ و اللہ اکبر ‘‘۔ آپؐنے فرمایا مجھے یہ کلمات گردش آفتاب کے نیچے ہر شے سے پسندیدہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو یہ کلمات انتہائی پیارے ہیں۔

Islam Kya hay? Kyoon hay?

Surah Al-Ankaboot (سُوۡرَةُ العَنکبوت) Ayat 18.Are We DISREGARDING the P...

جمعہ، 21 فروری، 2025

قیام اللیل فضائل وبرکات (۳)

 

قیام اللیل فضائل وبرکات (۳)

حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : لوگ قیامت کے دن ایک میدان میں جمع کیے جائیں گے اور ایک منادی اعلان کرے گا جن لوگوں کی کروٹیں بستروں پر نہ لگتی تھیں وہ کہاں ہیں وہ کھڑے ہو جائیں۔ ان کی تعداد بہت کم ہو گی اور جنت میں بغیرحساب کے داخل ہو جائیں گے اور پھر باقی لوگوں کا حساب کتاب شروع ہو جائے گا۔ ( بہیقی ، المستدرک )۔
یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے رات کو اپنے بستر سے اٹھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہو جاتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بغیر حساب کے جنت عطا فرمائے گا۔ 
حضرت فضیل بن عیاض ؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جب رات کو تجلی فرماتا ہے تو فرماتا ہے کہاں ہیں وہ جو دن میں میری محبت کا دعویٰ کرتے تھے ؟ کیا دوست اپنے دوست سے خلوت کرنا پسند نہیں کرتا، دیکھو میں صبح تک اپنے دوستوں کا منتظر ہوں کہ وہ میرے حضور مجھ سے گفتگو کریں۔ میں کل جنت میں اپنے دیدار سے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈا کروں گا۔ 
حضرت ابو سلیمان ؓ فرماتے ہیں کھیل کود میں مشغول لوگوں سے زیادہ لذت رات کو جاگنے والوں یعنی اللہ تعالیٰ کی رات کو عبادت کرنے والوں کو حاصل ہوتی ہے۔ اور انہیں ان کے اعمال کاثواب صرف شب بیداری کی لذت ہی کا دیا جائے تو یہ بھی اعمال سے زیادہ اجر ہے۔ آپ مزید فرماتے ہیں اگر رات نہ ہوتی تو میں دنیا میں رہنا پسند نہ کرتا۔ 
صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ دنیا میں کوئی وقت ایسا نہیں جو اہل جنت کے لیے مشابہ ہو البتہ مناجات کی شب وہ حلاوت جو عاجزی کرنے والوں کے دلوں کو ہوتی ہے وہ جنت کی نعمتوں کے مشابہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس وقت کوصرف ان لوگوں پر ظاہر فرمادیا جو شب بیدار ہیں تا کہ انہیں سکون حاصل ہو اور ان کے سوا دوسروں کو ا سکا علم نہیں۔ 
حضرت عمر فاروق ؓ  کا یہ حال تھا کہ قران میں جب قیام شب کے متعلق کی کوئی آیت دیکھتے تو غش کھا کر گر جاتے یہاں تک کہ کئی دن تک ان کی عیادت کی جاتی وہ اپنے ایام خلافت میں نہ رات کو سوتے اور نہ دن کو بلکہ انہیں کبھی بیٹھے بیٹھے غنودگی سی آجاتی تھی۔ آپ  فرماتے ہیں کہ میں رات کو سوتا ہوں تو اپنے آپ کو کھوتا ہوں اور مجھ سے اس بارے میں بھی باز پرس ہو گی۔ 
حضرت فضیل بن عیاضؓ فرماتے ہیں کہ جب رات ہوتی ہے تو اندھیرا چھانے پرمیں خوش ہوتا ہوں کہ اپنے رب کے ساتھ خلوت ہو گی اور جب فجر ہوتی ہے تو مجھے افسوس ہوتا ہے کہ اب لوگ آ جائیں گے۔

جمعرات، 20 فروری، 2025

Surah Al-Ankaboot Ayat 17 Part-02.Kya hum Allah TAllah ko bhula kar zin...

Surah Al-Ankaboot (سُوۡرَةُ العَنکبوت) Ayt 17 Pt-1.Kya hum Zindagi apni ...

Rabta kaisay bhaal rahay?

قیام اللیل فضائل و برکات (2)

 

   قیام اللیل فضائل و برکات (2)

سورۃ ق میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’اپنے رب کی تسبیح بیان کرو سورج چمکنے سے پہلے اور ڈوبنے سے پہلے۔ اور کچھ رات گئے اس کی تسبیح بیان کرو اور نمازوں کے بعد ‘‘۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے اور اپنے رب کی تسبیح کیجیے جب آپ کھڑے ہوں اور رات کے وقت میں بھی اس کی تسبیح بیان کیجیے جب ستارے چمکتے ہیں ‘‘۔ ( سورۃ الطور)۔
سورۃ الزمر میں اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کی صفات بیان فرماتا ہے جو راتوں کو قیام کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ کیا وہ جس نے فرمانبرداری میں رات کی گھڑیاں گزاریں سجود میں اور قیام میں آخرت سے ڈرتاہے اور اپنے رب کی رحمت کی آس لگائے کیا وہ نافرمانوں جیسا ہو جائے گا۔ تم فرمائو کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان نصیحت تو وہی مانتے ہیں جو عقل والے ہیں ‘‘۔ 
سورۃ الفرقان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کامل ایمان والوں کی خلوت و تنہائی کا حال یہ ہے کہ ان کی رات اللہ تعالیٰ کے لیے اپنے چہروں کے بل سجدہ کرتے اور اپنے قدموں پر قیام کرتے ہوئے گزرتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے’’اور وہ جو رات کاٹتے ہیں اپنے رب کے لیے سجدے اور قیام میں ‘‘۔
سُوۡرَةُ الذّاریَات میں اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے ’’ وہ رات میں کم سوتے۔ اور پچھلی رات استغفار کرتے ہیں۔
حضور نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کے حبیب تھے ، امام الانبیا ء تھے لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ راتوں کو جاگ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ کے پائوں مبارک میں ورم آ جاتے تھے۔ 
سورۃ المزمل میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’ بیشک تمہارا رب جانتا ہے کہ تم قیام کرتے ہو کبھی دو تہائی رات کے قریب کبھی آدھی رات کبھی تہائی اور ایک جماعت تمہارے ساتھ والی‘‘۔
سورۃ المزمل میں ہی اللہ تعالیٰ نبی کریم ﷺ کی تعریف کرتے ہوئے فرماتا ہے ’’اے جھرمٹ مارنے والے۔ رات میں قیام فرما سوا کچھ رات کے۔ آدھی رات یا اس سے کچھ کم کرو۔ یا اس پر کچھ بڑھائو اور خوب ٹھہر ٹھہر قرآن پڑھو ‘‘۔
مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: رات کو ایک ایسی ساعت بھی آتی ہے جس میں کوئی مسلمان اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی کوئی چیز بھی مانگے اللہ تعالیٰ اسے عطا فرماتا ہے اور یہ ساعت ہر رات آتی ہے۔ 
حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا رات کا قیام اپنے اوپر لازم کر لو یہ تم سے پہلے نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور تمہارے لیے قرب الٰہی کا باعث ہے۔ برائیوں کو مٹانے والا اور گناہوں سے روکنے والا ہے۔ (ترمذی )۔

Surah Al-Ankaboot Ayat 16.Kya hum amalun Allah TAllah ki bandagi say in...

بدھ، 19 فروری، 2025

Surah Al-Ankaboot Ayat 14-15.Kya hum Quran-e-Pak kay mutabiq zindagi gu...

قیام اللیل فضائل وبرکات (۱)

 

قیام اللیل فضائل وبرکات (۱)

رات کے کسی حصہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے نوافل اداکر نا ، ذکرو اذکار کرنا ، تلاوت قرآن کرنا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گڑگڑا کر اپنی مناجات پیش کرنا قیا م اللیل کہلاتا ہے۔ قرآن و حدیث میں قیام اللیل کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔بندہ اس وقت اٹھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہو جاتا ہے جب سارا عالم سو رہا ہوتا ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ ہی دیکھ رہا ہوتا ہے کہ میرا بندہ میری رضا کے لیے اپنے بستر سے اٹھ کر میری بارگاہ میں حاضر ہے۔ 
بندہ کبھی قیام میں اور کبھی رکوع و سجود میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عجز و انکساری کا اظہار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی یہ ادا بہت پسند ہے جب بندہ رات کو جاگ کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوتا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندے پر رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے اور انوارو تجلیات سے نوازتا ہے۔ جو بندہ رات کو خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے عبادت میں مصروف رہتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا برگزیدہ بندہ بن جاتا ہے اور سارا دن نفس اور شیطان کے شر سے بھی بچا رہتا ہے۔ 
سورۃ المزل میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’بیشک رات کا اٹھنا زیادہ دبائو ڈالتا ہے اور بات خوب سیدھی نکلتی ہے۔ بیشک دن میں تو تم کو بہت سے کام ہیں ‘‘۔ 
یعنی رات سونے کے بعد جاگ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہو جانا ، نوافل ادا کرنا ، قرآن مجید کی تلاوت کرنا دن کی عبادت کے مقابلے میں زبان اور دل کے درمیان زیادہ موافقت کا سبب ہے اور اس وقت قرآن مجید کی تلاوت کرنے اور سمجھنے میں زیادہ دل جمعی حاصل ہوتی ہے۔کیونکہ اس وقت سکون اور اطمینان ہوتا ہے ، شورو غل نہیں ہوتا اور کامل اخلاص نصیب ہوتا ہے اور بندہ ریا کاری سے بچ جاتا ہے۔ 
سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’نماز قائم رکھو سورج ڈھلنے سے رات کیاندھیرے تک اور صبح کا قرآن بیشک صبح کے قرآن میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ اور رات کے کچھ حصہ میں تہجد پڑھا کریں یہ خاص تمہارے لیے زیادہ قریب ہے ‘‘
اسی طرح سورۃ ھود میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اور نماز قائم رکھو دن کے دونوں کناروں اور رات کے کچھ حصوں میں بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں یہ نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں کو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور اپنے رب کو سراہتے ہوئے اس کی پاکی بیان کرو سورج چمکنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے اور رات کی گھڑیوں میں اس کی پاکی بیان کرو۔ ( سورۃ طہ)۔
سورۃ الروم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :اور اللہ کی تسبیح بیان کرو جب شام کرو اور جب صبح ہو۔ اور اسی کی تعریف ہے آسمانوں اور زمین میں اور کچھ دن رہے اور جب تمہیں دوپہر ہو۔

Hum Apna Yaqeen Kaisay barha saktay hain?

Mominana Zindagi Kyoon Aur Kaisay?

منگل، 18 فروری، 2025

Surah Al-Ankaboot (سُوۡرَةُ العَنکبوت) Ayat 13.Kya hum apnay opper bohat...

Surah Al-Ankaboot (سُوۡرَةُ العَنکبوت) Ayat 10-12.Kya hum munafiq loog h...

اعمال میں استقامت

 

اعمال میں استقامت

انسان کوئی بھی کام کرے تو اسے استقامت کے ساتھ کرے اگرچہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ نبی کریم ﷺ نے ہمیشہ عمل کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا دین سہل اور آسان ہے اور اگر کوئی بھی دین کو مشقت والا سمجھے گا تو دین اس پر غالب آجائے گا۔ پس تم افراط و تفریط سے بچو اور قریب تر رہو اور ہمیشہ عمل کرو اگرچہ کم ہو۔ اس کے ثواب پر خوش رہو۔ صبح و شام اور رات کے کچھ حصہ کی عبادت گزاری سے قوت حاصل کرو۔ ( بخاری)۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو میرے پاس ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی۔نبی کریم ﷺنے اس کے متعلق دریافت فرمایا تو میں نے عرض کی یہ فلاں عورت ہے اور حضرت عائشہؓ نے اس کی کثرت نماز کا تذکرہ کیا۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ ٹھہرو تم پر اتنا عمل لازم ہے جس کی تم طاقت رکھتی ہو۔ اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب ختم نہیں ہو گا یہاں تک کہ تم عبادت سے اکتا جائوگی اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ عمل پسندیدہ ہے جسے کرنے والا اسے ہمیشہ کرے۔ ( بخاری )۔ 
حضور نبی کریم ﷺنے نماز پڑھنے میں بھی استقامت کا حکم فرمایا۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے مروی ہے کہ جب کسی شخص کونمازکے دوران اونگھ آجائے تو سو جائے یہاں تک کہ اس کی نیند پوری ہو جائے کیونکہ اگر کوئی شخص غنودگی کی کیفیت میں نماز پڑھتا ہے تو ممکن ہے کہ وہ اپنی طرف سے استغفار کر رہا ہو لیکن حقیقت میں وہ خود کو برا بھلا کہہ رہا ہو۔ (مسلم )۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب کو ئی شخص رات کو نوافل پڑھ رہا ہو اور نیند کی شدت کی وجہ سے قرآن صحیح طرح سے نہ پڑھ سکے اور اسے یہ پتا نہ چلے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ ایسی حالت میں لیٹ جائے۔ ( مسلم )۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ مسجد میں تشریف لائے تو آپ ؐ نے دو ستونوں کے درمیان بندھی ہوئی رسی دیکھی تو فرمایا یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے لیے ہے۔ وہ نوافل ادا کرتی ہیں جب ان پر تھکن طاری ہوتی ہے تو وہ اسے پکڑ لیتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اسے کھول دو کوئی بھی شخص اس وقت تک نفلی نماز ادا کرے جب تک بغیر سستی کے پڑھ سکتا ہے اور جب تھکن سوار ہو تو بیٹھ جائے۔ 
حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے پوچھا گیا کہ نبی کریم ﷺ کا عمل کیسا تھا کیا آپ کے عمل کے لیے کوئی دن مخصوص تھا۔ تو حضرت عائشہ ؓ نے جوا ب دیا نہیں نبی کریم ﷺکا عمل مستقل ہوتا تھا۔ ( مسلم )۔

Surah Al-Ankaboot (سُوۡرَةُ العَنکبوت) Ayat 8-9Kya Humara Zindagi Guzarn...

Surah Al-Ankaboot (سُوۡرَةُ العَنکبوت) Ayat 07.Kya Akhirat par humara ya...

پیر، 17 فروری، 2025

ہمسائیوں کے حقوق

 

ہمسائیوں کے حقوق

انسان جہاں بھی رہتا ہو اگر اسے پڑوسی اچھا مل جائے تو بہت زیادہ خوش قسمتی کی بات ہے کیوں کہ اچھا ُپڑوسی مل جانا بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اچھا پڑوسی اپنے ہمسائیوں کا ہر وقت خیال رکھتا ہے اور ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوتا ہے ۔ حضور نبی کریمﷺ نے بھی ہمسائیوں کے حقوق کے متعلق متعدد بار تاکید فرمائی ہے ۔ 
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے نبی کریمﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بہتر ہمسایہ وہ ہے جو اپنے ہمسایے کے ساتھ اچھا سلوک کرے ۔ (ترمذی ) 
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالی اس شخص سے محبت کرتا ہے جس کا ہمسایہ اچھا نہ ہو اور وہ اس کو تکلیف پہنچاتاہو مگر یہ ثواب کی نیت سے اس کی ایذا رسانی پر صبر کرتا ہے ۔ (کنزالعمال ) 
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے نبی کریمﷺ نے فرمایا، قسم ہے اس کی جس کے قبضہ قدرت میں جان ہے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے پڑوسی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔( مسلم ) 
نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ جو یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسولﷺ اس سے محبت کرے تو اسے چاہیے کہ وہ سچ بولے ، جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو خیانت نہ کرے اور اپنے ہر پڑوسی سے حسن سلوک سے پیش آئے ۔ ( مشکوۃ المصابیح) 
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہی مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا، وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کا ہمسایہ اس کے شرسے محفوظ نہ ہو۔ ( مسند احمد )
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ہمسائیوں کی تین اقسام ہیں : ایک وہ ہمسایہ جس کا ایک حق ہے ، دوسرا وہ جس کے دو حق ہیں اور تیسرا وہ جس کے تین حق ہیں ۔ اگر ہمسایہ غیر مسلم ہو تو اس کا ایک حق ہے ، اگر ہمسایہ مسلمان ہو اور اس کے ساتھ خونی رشتہ نہ ہو تو اس کے دو حق ہیں اور اگر ہمسایہ مسلم بھی ہو اور رشتہ دار بھی تو اس کے تین حق ہیں ۔ ( کنز العمال ) 
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے نبی کریمﷺ نے نصیحت فرمائی، جب تم سالن بنائو تو اپنے ہمسایے کے خیال سے اس میں پانی زیادہ ڈال دو اور حسن اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس میں سے کچھ اپنے پڑوسیوںکو بھی دو۔ ( مسلم)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا، اے عائشہ، جب تمھارے پاس ہمسائیوں کا بچہ آئے تو اسے کچھ دے دو اس سے ہمسائیوں کے ساتھ محبت میں اضافہ ہو گا ۔ 

اتوار، 16 فروری، 2025

Surah Al-Ankaboot Ayat 06 Part-02.Kya Humain Jannat Jannay Ki Koi Tarap...

محتاجوں اور غرباء کے حقوق

 

محتاجوں اور غرباء کے حقوق

جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے مال و متاع سے نوازا ہے انہیں چاہیے کہ اپنے ارد گرد بسنے والے لوگوں کا بھی خیال رکھیں۔ اگر کوئی ضرورت مندہوتو اس کی مدد کریں۔ ما ل و متاع کی عطا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے یہ کسی بندے کا کمال نہیں ہوتا۔ اس لیے امراء کو چاہیے کہ اپنے مال میں سے محتاجوں اور غرباء کی مدد کریں۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور ان کے مال میں سائل اور محروم لوگوں کا حق مقرر ہے۔(سورۃ الذٰ ریٰت)۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ایک شخص لوگوں کو قرض دیتا تھا اور اپنے ماتحتوں سے کہتاتھا جب کوئی مقروض آئے تو اس سے درگزر کرنا۔ شاید اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہم سے بھی در گزر فرمائے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب وہ شخص مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے درگزر کیا۔ ( بخاری )۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالی اسے روز قیامت کی تکالیف سے نجات دے تو اسے چاہیے کہ وہ مقروض کو مہلت دے یا پھر معاف کر دے۔ (مسلم )۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کسی یتیم کے سر پر شفقت کے ساتھ پھیرتا ہے تو اس کے ہاتھ کے نیچے آنے والے بالوں کے برابر اللہ تعالیٰ اسے نیکیاں عطا فرمائے گا اور جس نے یتیم کے ساتھ حسن سلوک کیاتو میں اور وہ جنت میں اس طر ح قریب ہوں گے جیسے یہ دو انگلیاں پھر آپ نے درمیانی انگلی اور شہادت کی انگلی کو ملایا۔ (مسند احمد)۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے نبی کریم ﷺنے فرمایا بیوہ عورت اور مسکین کی مدد کی کوشش کرنے والا اس شخص کی طر ح ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتا ہے یا جو رات کو قیام کرتا ہے اور دن کو روزہ رکھتا ہے۔ ( بخاری )۔
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک غلام کہتا ہے کہ ایک رات آپ گشت پر تھے مدینہ سے تین میل دور ایک عورت کچھ پکا رہی تھی اوربچے رو رہے تھے۔ سیدنا فاروق اعظم ؓ نے بچوں کے رونے کی وجہ پوچھی تو عورت نے کہا کہ کافی دیر سے بھوکے ہیں بہلانے کے لیے چولہے پر پانی رکھا ہے۔ سیدنا فاروق اعظم فوری واپس گئے راشن خود اٹھا کر اس عورت کے گھر پہنچے۔ عورت نے آٹا گوندھا ، ہانڈی چڑہائی اور سیدنا فاروق اعظم ؓ خود آگ جلاتے۔ وہ عورت نہیں جانتی تھی کہ آپ امیر المومنین ہیں۔ اس نے دعا دی اور کہنے لگی کہ امیر المومنین ہونے قابل تم ہو، عمر نہیں۔

ہفتہ، 15 فروری، 2025

Surah Al-Ankaboot (سُوۡرَةُ العَنکبوت) Ayat 05.Do we not believe in heav...

Surah Al-Ankaboot (سُوۡرَةُ العَنکبوت) Ayat 06 Part-01.Are we doomed to ...

عدل اور احسان

 

عدل اور احسان

عدل کرنا ایک بہت اچھا اور بڑا عمل ہے لیکن اسلام نے اس سے بھی بڑھ کر احسان کی ترغیب دی ہے۔ عدل کا مطلب برابری ہے کسی کے ساتھ ایسا ہی رویہ رکھنا جیسا اس نے رکھا تھا اور احسان کا مطلب ہے کہ دوسرے شخص کی نسبت اس سے بڑھ کر سلوک کرنا۔ جس معاشرے میں عدل قائم ہو جائے وہاں امن و امان کی صورتحال نظر آتی ہے اور احسان کرنے سے لوگوں کے دلوں میں انسان کے عزت و وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے :اور اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے انصاف اور احسان کا (ہر ایک کے ساتھ)۔(سورۃ النحل)۔
عدل یہ ہے کہ جب آپ کو کوئی شخص کچھ دے تو آپ اس کے بدلے میں اتنا ہی اسے دیں اور احسان یہ ہے کہ جب آپکو کوئی کچھ دے توآپ اس سے بڑھ کر اسے کچھ دیں۔
سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے جب کوئی تمہیں کسی لفظ سے سلام کہے تو تم اسے اس سے بہتر الفاظ میں جواب میں کہو یا وہی کہہ دو۔ جب ہمیں کوئی نقصان پہنچائے یا پھر نقصان پہنچانے کی کوشش کرے اگر ہم اسے اس کے کیے کی سزا دینے کی بجائے معاف کر دیں تو یہ احسان ہے۔
 سورۃ الشورٰی میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے اور برائی کا بدلہ اسی کے برابر برائی ہے تو جس نے معاف کیا اور کام سنوارا تو اس کا اجر اللہ پر ہے۔ بیشک وہ دوست نہیں رکھتا ظالموں کو۔ 
مکہ مکرمہ کے لوگوں نے نبی کریم ﷺ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ، آپ کو نعوذ بااللہ ساحر اور مجنون کہا۔ آپ ؐ کو مکہ مکرمہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ آپ کے چچا حضرت حمزہؓ کو شہید کر کے ان کا کلیجہ چبایا گیا۔ لیکن جب نبی کریم ﷺ فاتح مکہ کی حیثیت سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم کیا سمجھتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں۔ کفار نے کہا کہ ہم آپ سے خیر کی امید کرتے ہیں کیونکہ آپ کریم بھائی ہیں اور کریم بھائی کے بیٹے ہیں۔
 نبی کریم ﷺ نے فرمایا جائو تم سب میری طرف سے آزاد ہو آج کسی سے بھی بدلہ نہیں لیا جائے گا۔ نبی کریم ﷺ نے ان کی دی ہوئی تکالیف کے بدلے میں انہیں معاف کر کے ان پراحسان کیا۔نبی کریم ﷺ کا حسن اخلاق دیکھ کر مکہ کے لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔ 
 نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے تعلق جوڑو اور جو تم سے برا سلوک کرے تم اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور حق بات کہو چاہے وہ تمہارے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ (کنز العمال )۔

Is today's Muslim completely misguided?

جمعہ، 14 فروری، 2025

اسلام اور عدل و انصاف

 

اسلام اور عدل و انصاف

کسی بھی معاشرے میں امن و سکون کے لیے عدل و انصاف کا ہونا بہت ضروری ہے ۔ عدل و انصاف کے بغیر کوئی بھی معاشرہ امن کا گہوارہ نہیں بن سکتا ۔ جس معاشرے میں عدل وانصاف ختم ہو جائے وہاں کے لوگ بے راہ روی کا شکا ر ہو جاتے ہیں اور جرائم میں اضافہ ہوتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :اور جب بات کہو تو انصاف کی کہو اگرچہ تمھارے رشتہ دار کا معاملہ ہی ہو۔ (سورۃ الانعام)
سورۃ المائدہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :اے ایمان والو، اللہ کے حکم پر خوب قائم ہو جائو انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کوکسی قوم کی عداوت اس پر نہ ابھارے کہ انصاف نہ کرو ، انصاف کرو وہ پرہیز گاری سے زیادہ قریب ہے ۔
نبی رحمت شافع محشرﷺ اور صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں سے ہمیں عدل و انصاف کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔
حضرت اُسید بن حضیر ؓ فرماتے ہیں کہ وہ ہنسی مذاق کرنے والے آدمی تھے ۔ ایک مرتبہ میں نبی کریمﷺکی بارگاہ میں لوگوں کو ہنسا رہا تھا کہ نبی کریمﷺ نے میری کمر میں چھڑی چبھو دی ۔ میں نے تکلیف کی شکایت کی تو نبی کریمﷺ نے فرمایا، تم بدلہ لے لو۔ انھوں نے کہا، یارسول اللہﷺ، آپؐ کے جسم مبارک پر قمیض ہے میرے جسم پر قمیض نہیں تھی ۔ نبی کریمﷺ نے اپنے جسم مبارک سے قمیض اٹھائی تو حضرت اُسید ؓ آپؐ سے لپٹ گئے اور عرض کی، یا رسول اللہﷺ، میرا یہی ارادہ تھا ۔(ابو ادائود)
حضرت فضیل بن عباس ؓ بیا ن کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ مرض کے ایام میں میرا ہاتھ پکڑ کر مسجد میں تشریف لائے اور ممبر پر بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی اور فرمایا :’اے لوگو، میں کبھی کسی کی پیٹھ پر کوئی کوڑا میرا ہے تو یہ میری پیٹھ حاضر ہے وہ مجھ سے بدلہ لے سکتا ہے اور اگر میں نے کبھی کسی کو برا بھلا کہا ہے تو میری آبرو حاضر ہے وہ مجھ سے انتقام لے لے اور اگر میں نے کسی کا مال لیا ہے تو یہ میرا مال حاضر ہے وہ اپنا حق لے لے۔
کوئی شخص یہ ہر گز نہ سوچے کہ بدلہ لینے کی وجہ سے اسے رسو ل خداﷺکی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ غور سے سن لو ناراض ہونا میرامزاج نہیں اور نہ ہی یہ میری شان کے لائق ہے ۔ خبر دار، تم میں مجھے سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جس کا اگر مجھ پر کوئی حق ہے تو وہ لے لے ۔ (معجم الاوسط)
ایک مرتبہ ایک یہودی اور منافق کے درمیان جھگڑا ہو گیا۔ یہودی نے کہا، نبی کریمﷺ سے فیصلہ کراتے ہیں لیکن منافق کا دل صاف نہیں تھا، اس نے کہا کہ تمھارے عالم کعب بن اشرف سے فیصلہ کراتے ہیں ۔ لیکن یہودی اس پر رضا مند نہ ہوا اور نبی کریمﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ۔ نبی کریمﷺ نے دونوں کی بات سن کر یہودی کے حق میں فیصلہ دیا ۔ (تفسیر قرطبی )

جمعرات، 13 فروری، 2025

Surah Al-Ankaboot (سُوۡرَةُ العَنکبوت) Ayat 04 Part-01.Have we been dece...

Surah Al-Ankaboot (سُوۡرَةُ العَنکبوت) Ayat 01-03 Part-04.Is Your Faith ...

ماہ شعبان اور شب برات(3)

 

 ماہ شعبان اور شب برات(3)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ شعبان کی پندرھویں رات میں کیا ہوتا ہے میں نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ آپ ہی فرمائیں۔آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ شعبان کے نصف رات یعنی پندرھویں شعبان کی رات کو اس سال جتنے پیدا ہونے والے ہیں وہ سب لکھ دیے جائیں گے اور جتنے مرنے والے ہیں وہ سب لکھ دیے جائیں گے اور اس رات بندوں کے اعمال اٹھائے جائیں گے اور اسی رات لوگوں کے لیے مقرر کردہ روزی اتاری جاتی ہے۔ (مشکوۃ )۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور سید عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا : نصف شعبان کی رات حضرت جبرائیل علیہ السلام میرے پاس تشریف لائے اور عرض کی اے اللہ کے رسول ﷺ اپنا سر اقدس آسمان کی طرف اٹھائیں۔ میں نے پوچھا یہ کیسی رات ہے تو جبرائیل امین نے عرض کی یہ ایک ایسی رات ہے اس رات اللہ تعالیٰ رحمت کے تین سو دروازے کھول دیتا ہے اور مشرک کے سوا سب کو بخش دیتا ہے اور ساحر،کاہن ، جادوں گروں اور زانیوں کو نہیں بخشتا۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب شعبان کی پندرھویں رات آجائے تو اس رات قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو کہ اللہ تعالیٰ غروب آفتاب سے آسمان دنیا پر تجلی فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے : ہے کوئی بخشش مانگنے والا میں اسے بخش دوں۔ ہے کوئی روزی مانگنے والا میں اسے رزق عطا کر دوں۔ہے کوئی اولاد مانگنے والا میں اسے اولاد عطا کر دوں۔ ہے کوئی مشکلات میں گھرا ہوا میں اسے عافیت دوں۔ ہے کوئی ایسا اور ہے کوئی ایسا اللہ تعالیٰ صبح صادق ہونے تک فرماتا رہتا ہے۔ 
حدیث شریف میں آتا ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشا د فرمایا: کہ شب برات کی عزت کرو اس رات جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو دوزخ سے آزاد فرما دیتا ہے اور جو تم میں سے پندرھویں شعبان کے دن روزہ رکھے تو اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: نصف شعبان کی رات اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر نظر رحمت فرماتا ہے سوائے مشرک اور اس شخص کے جو اپنے مسلمان بھائی سے بغض رکھے اسے چھوڑ کر اللہ تعالیٰ ساری مخلوق کو چھوڑ دیتا ہے۔اس با برکت اور فضیلت والی رات میں ہمیں چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ نوافل ادا کریں ، ذکر واذکارکریں اور نبی کریمﷺکی ذات اقدس پر کثرت سے درود پاک پڑھیں اور اپنی بخشش کا سامان جمع کریں۔

ماہ شعبان اور شب برات(۲)

 

ماہ شعبان اور شب برات(۲)

حضرت انسؓ فرماتے ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا ماہ رمضان کے لیے تم اپنے بدنوں کو شعبان کے روزوں سے پاک کر لیا کرو کیونکہ جو شعبان کے تین روزے رکھتا ہے اور پھر افطاری سے پہلے مجھ پر کثرت سے درود شریف پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ گناہ بخش دیتا ہے اور اس کی روزی میں برکت فرماتا ہے۔ اورمجھے جبرائیل علیہ السلام نے خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ماہ مقدس میں رحمت کے تین سو دروازے کھول دیتا ہے۔حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شعبان میں ایک روزہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو حضرت ایوب اور حضرت دائود علیہ السلام کا سا ثواب عطا فرماتا ہے اور اگر اس نے پورا مہینہ روزے رکھے تو اللہ تعالیٰ موت کی سختیوں کوآسان فرما دے گا اور قبر کی تاریکی ، منکر نکیر کی دہشت اس سے دور رکھے گا اور قیامت کے دن اس کے عیبوں پر بھی پردہ ڈالے گا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے قسم ہے اس روشن کتاب کی۔ بیشک ہم نے اسے اتارا برکت والی رات میں۔ اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام ہمارے حکم سے۔ بیشک ہم بھیجنے والے ہیں۔ ( سورۃ الدخان )۔
مفسرین کے مطابق اس آیت مبارکہ میں لیلۃ مبٰر کہ سے مراد شب برات  ہے۔ اس رات اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کا نزول فرماتا ہے۔
ماہ شعبان کی پندرھویں رات کو اللہ تعالیٰ اپنی شان کریمی کے طفیل رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے اور گناہ گاروں کی بخشش فرماتا ہے۔سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نصف شعبا ن کی شب آسمان سے دنیا پر تشریف فرماتا ہے اور اس رات مشرک اور بغض رکھنے والوں کے علاوہ سب کو بخشش دیا جاتا ہے۔ ( بہیقی )۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے نبی کریم ﷺ کو اپنے پاس نہ پایا تو میں آپ کو دیکھنے نکلی۔ آپ ؐجنت ا لبقیع میں تشریف فرما تھے۔آپ ؐ نے فرمایا اے عائشہ کیا تمہیں یہ خیال آیا کہ اللہ اور اس کا رسول ؐ تمہارا خیال نہیں رکھیںنگے۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کی یا رسول اللہ ؐمجھے یہ خیال آیا کہ شاید آپ کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا بلا شبہ اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں رات کو آسمان سے دنیا پر تشریف لاتا ہے اور بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔ (ترمذی )۔
حضرت عثمان بن العاص ؓ سے مروی نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب نصف شعبان یعنی شعبان کی پندرھویں رات آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک پکارنے والا پکارتا ہے ہے کوئی مغفرت طلب کرنے والا میں اس کی مغفرت کر دوں۔ ہے کوئی مانگنے والا میں اس کو عطا کر دوں۔ اس وقت جو شخص اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے اسے مل جاتا ہے۔ لیکن زانیہ اور مشرک کو کچھ نہیں ملے گا۔ ( بہیقی )۔

Gumrahi Kya Hay?

Gumrah Koon?

بدھ، 12 فروری، 2025

Surah Al-Ankaboot (سُوۡرَةُ العَنکبوت) Ayat 01-03 Part-03.Have we lost o...

Surah Al-Ankaboot Ayat 01-03 Part-02.Kya Humara Jeena Marna Sirf Dunya ...

ماہ شعبان اور شب برات(۱)

 

ماہ شعبان اور شب برات(۱)

شعبان المعظم کی پندرھویں رات شب برات کہلاتی ہے۔ یہ مہینہ حضور نبی کریم ﷺکو بہت محبوب تھا۔ لیلۃ القدر کے بعد شب برات سب سے افضل رات ہے۔ اس رات کو لیلۃ المبارکہ یعنی برکتوں والی رات بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس رات کو لیلۃ البرئۃ یعنی دوزخ سے چھٹکارے والی رات بھی کہا جاتا ہے۔ یہ رات لیلۃ الرحمہ یعنی رحمت والی رات بھی کہلاتی ہے۔ 
حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا: رمضان اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے۔ شعبان پاک کرنے والا ہے اور رمضان گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔ اما م سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے شعبان کے مہینہ کو اپنا مہینہ اس لیے کہا کہ آپ بغیر فرض کیے جانے کے اس مہینے میں کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے اور رمضان کو اللہ کا مہینہ اس لیے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اس ماہ مقدس میں روزے فرض کیے ہیں۔ اس میں روزے رکھنا اللہ تعالیٰ کا حق ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ رمضان المبارک کے علاوہ اس مبارک مہینے میں کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے آپؓ  فرماتی ہیں میں نے رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں حضور نبی کریم ﷺ کو مکمل روزے رکھتے نہیں دیکھا اور آپ کو شعبان کے علاوہ کسی مہینے میں کثرت سے روزے رکھتے نہیں دیکھا۔
حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ  فرماتے اے اللہ رجب اور شعبان کے مہینوں میں ہمارے لیے برکت نازل فرما اور ہمیں رمضان المبارک کے مہینے تک پہنچا۔ (مجمع الزوائد )۔
حضور نبی کریمﷺ سے عرض کی گئی کہ رمضان کے بعد کونسا روزہ افضل ہے تو آپ ؐ نے فرمایا شعبان کا روزہ۔ تعظیم رمضان کی وجہ سے۔ پھر عرض کی گئی کہ سب سے افضل صدقہ کونسا ہے تو آپ ؐ نے فرمایا رمضان میں صدقہ کرنا۔(الترغیب الترھیب )۔
حضرت اسامہ بن زید ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی یا رسول اللہؐ میں نے آپ کو شعبان کے سوا کسی اور مہینے میں اتنی کثرت سے روزے رکھتے نہیں دیکھا۔آپؐ نے فرمایا یہ رجب اور رمضان کے درمیان وہ مہینہ ہے جس سے لوگ غافل ہیں۔ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش کیے جائیں تو میں روزے سے ہوں۔(نفس صفدر)۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ سارا شعبان روزے رکھا کرتے تھے میں نے عرض کی یا رسول اللہؐ روزے رکھنے کے لیے آپ ؐ کو شعبان کا مہینہ زیادہ پسند ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس سال تمام فوت ہونے والے لوگوں کا فیصلہ اس مہینے میں فرماتا ہے میں چاہتا ہوں کہ جب میری اجل کا فیصلہ ہو تو میں روزے سے ہوں۔ ( نفس مصدر )۔

Are we humans or animals?

The beginning of real success

The journey to true success

منگل، 11 فروری، 2025

Surah Al-Ankaboot (سُوۡرَةُ العَنکبوت) Ayat 01-03 Part-01.Are we living ...

Surah Al-Qasas (سُوۡرَةُ القَصَص) Ayat 88.Is our purpose of life only to...

اللہ تعالیٰ کی مسکراہٹیں(۲)

 

اللہ تعالیٰ کی مسکراہٹیں(۲)

حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ‘ حضور نبی کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی مسکراہٹوں کا تذکرہ کرتے ہو ئے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ دو بندوںپر مسکراتا ہے‘ ایک وہ جس کے پاس اپنے دوستوں سے زیادہ خوبصورت گھوڑا ہو‘ ان کا دشمن سے سامنا ہو‘باقی سب وہ سب شکست کھا کر بھاگ جائیں لیکن وہ آدمی یہ سوچ کر میدان جہاد میں ڈٹ جائے کہ اگرا مارا گیا تو شہادت کے مرتبہ پر فائض ہو جائو ں گا تو اس بندے کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ مسکراتا ہے ۔ دوسرا وہ جو رات کو پچھلے پہر اپنے بستر سے اٹھے ، کوئی دوسرا اس کے عمل سے واقف نہ تھا ، اس نے اچھے طریقے سے وضو کیا ، نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس پر درود و سلام کا نذرانہ پیش کیا ، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی اور قرآن کریم کی تلاوت کی تو بندے کی اس ادا کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ مسکراتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دیکھو میرے بندے کو اسے میرے سوا کوئی نہیں دیکھ رہا ۔ (المعجم الکبیر ) 
حضرت اسماء بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت سعد بن معاذ کا جنازہ نکلا تو ان کی والدہ نے چیخ و پکار کی تو نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا تیرے آنسو تھم جانے چاہئیں اور تیرا غم ختم ہو جانا چاہیے کیونکہ تیرا بیٹا وہ پہلا انسان ہے جس پر اللہ تعالیٰ مسکرایا ہے اور جس کے لیے عرش کانپا ہے ۔ ( المعجم الکبیر ) 
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے‘ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام امتوں کو ایک کھلے میدان میں جمع کریگا جب اللہ تعالیٰ لوگوں میں فیصلہ فرمانا چاہے گا تو ہر قوم کے لیے اس کے معبودوں کو متشکل کر کے لایا جائے گا وہ اپنے معبودوں کے پیچھے چلیں گے یہاں تک کہ ان کے جھوٹے معبود انہیں دوزخ میں لے جائیں گے ۔ پھر ہمارا رب تشریف لائے گا اور ہم ایک بلند مقام پر ہوں گے اللہ تعالیٰ فرمائے گا تم کون ہو؟ ہم کہیں گے ہم مسلمان ہیں ‘اللہ تعالیٰ فرمائے گا کس کا انتظار ہے ؟ مسلمان کہیں گے کہ ہم اپنے رب کا انتظار کر رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تم کیسے پہچانو گے تو وہ کہیں گے ہم پہچان لیں گے کیونکہ ہمارے رب جیسا کوئی نہیں ۔ 
اللہ تعالیٰ مسکراتے ہوئے ہمارے اوپر تجلی فرمائے گا ۔ اے اہل اسلام تمہیں مبارک ہو ۔(مسند احمد) 
اسلام کی برکت سے اللہ تعالیٰ کا دیدار اس حال میں کیا کہ اللہ تعالیٰ مسکراتے ہوئے اپنا جلوہ دکھا رہا تھا ۔ ورنہ تمہارا انجام بھی یہود و نصاری جیسا ہی ہو نا تھا ۔  

How to achieve real success?

Surah Al-Qasas (سُوۡرَةُ القَصَص) Ayat 87.Have we adopted polytheistic a...

اتوار، 9 فروری، 2025

Surah Al-Qasas (سُوۡرَةُ القَصَص) Ayat 85.Guided OR Misguided?

اللہ تعالیٰ کی مسکراہٹیں(۱)

 

اللہ تعالیٰ کی مسکراہٹیں(۱)

جب بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر نیک اعمال کرتا ہے تو ان میں سے بعض اعمال ایسے ہیں جن پراللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق مسکراتاہے۔ اللہ تعالیٰ کے مسکرانے کی خبر حضور نبی کریم ﷺ نے دی ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ہی ہمیں اللہ تعالیٰ کے وجود کے بارے میں خبر دی اور آپ ؐکے فرمانے پر ہی ہم ذات باری تعالیٰ پر ایمان لے کر آئے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنا چاہیے بیشک مالک کائنات اپنی شان کے مطابق مسکراتا ہے۔ 
اللہ تعالیٰ کی مسکراہٹ کا تذکرہ بندوں کو نیک اعمال کی ترغیب دینے کے لیے کیا گیا تا کہ انسان ایسے نیک اعمال کرے جس پر اللہ تعالیٰ مسکرائے اور ان تمام اعمال سے کنارہ کشی کرے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب بنیں۔ قرب الٰہی کی سچی طلب رکھنے والے اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لیے کئی منازل طے کر جاتے ہیں۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ’’بیشک اللہ تعالیٰ بادلوں کو اٹھا تا ہے ، بہترین طریقے سے کلام فرماتا ہے اور حسین ترین ادا سے مسکراتا ہے۔ (کنزالعما ل)۔ 
حضرت نعیم بن ہمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی کریمﷺ سے عرض کی کون سے شہدا سب سے افضل ہیں؟ آپؐ نے فرمایا وہ شہدا جب ان کا دشمن سے مقابلہ ہو تو وہ اپنے چہروں کو نہیں پھیرتے یعنی میدان جنگ میں ڈٹ جاتے ہیں اور وہ لڑتے لڑتے شہادت کے مرتبہ پر فائض ہو جاتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو جنت کے بالا خانوں میں ہوں گے اور یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ مسکراتا ہے اور جب تیر ا رب دنیا میں کسی پر مسکراتا ہے تو اس پر کوئی حساب نہیں ہوتا۔( مسند احمد )۔
حضو ر نبی کریم ﷺکے اس فرمان عالیشان سے یہ بات واضح ہو جاتی کہ جو بندے میدان جہاد میں ڈٹ جاتے ہیں اور پیٹھ نہیں دکھاتے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان قربان کر دیتے ہیں تو بندے کی اس جرأت و بہادری کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ مسکراتا ہے۔ 
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس بندے پر مسکراتا ہے جب وہ صدقہ دینے کے لیے اپنا ہاتھ نکالتا ہے اور جس بندے پر اللہ تعالیٰ مسکرائے اس کی بخشش کر دی جاتی ہے۔ ( کنز العمال )۔ 
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین بندے ایسے ہیں جن کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ مسکراتا ہے ایک وہ آدمی جو رات کو پچھلے پہر اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لیے جاگتا ہے دوسرا وہ قوم جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کے لیے صف بندی کرتا ہے اور تیسرے وہ لوگ جو نماز کے لیے صفیں باندھتے ہیں۔ (اطراف المسند المعتلی )۔

WHAT IS The Purpose of Life in ISLAMIC Faith?

ہفتہ، 8 فروری، 2025

Surah Al-Qasas (سُوۡرَةُ القَصَص) Ayat 84.Are we on the way to heaven?

Surah Al-Qasas (سُوۡرَةُ القَصَص) Ayat 82-83.DO WE HAVE A TICKET TO HEAVEN?

دعا

 

دعا

ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق پوچھیں تو میں بالکل نزدیک ہوں۔ میں دعاکرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا مانگے۔ پس انہیں چاہیے میرے حکم کی تعمیل کریں اور مجھ پرایمان لائیں تا کہ وہ کہیں ہدایت پا جائیں۔ ( سورۃ البقرۃ )
سورۃ الاعراف میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور خوف اور طمع کرتے ہوئے اس کے حضور دعا کرو۔ یعنی اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور اس کے ہاں جومغفرت اور ثواب ہے اس میں طمع کرتے ہوئے۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی بھی چیز دعا سے مقدم نہیں اور اشرف العبادات دعا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے نہیں مانگتا وہ اس پر غضب کرتا ہے۔ 
حضرت ابو الدردا ء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایاکرتے تھے کہ مسلمان کی اپنے بھائی کے حق میں پس پشت دعا قبول ہے اس کے سر کے پاس فرشتہ مقرر ہے جب بھی وہ اپنے بھائی کے لیے دعا کرتا ہے تو وہ فرشتہ آمین کہتا ہے اور یہ کہ تیرے لیے بھی اسی کی مثل ہے۔ ( مسلم شریف) 
آپ ؐ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگو۔ بیشک اللہ تعالیٰ اسے پسند کرتا ہے کہ اس سے مانگا جائے۔آپ نے فرمایا کہ سب سے جلدی وہ دعا قبول ہوتی ہے جو کہ غائب کی غائب کے لیے ہو اور آپ نے ارشاد فرمایا جو شخص تمہارے ساتھ نیکی کرے تو بدلہ دو اور اگر بدلہ نہ دے پائو تو اس کے لیے دعا کرو حتی کہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ تم نے اس کا بدلہ چکا دیا ہے۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے : اپنے رب سے گڑ گڑاتے ہوئے اور آہستہ آہستہ دعا مانگو بیشک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ ( سورۃ الاعراف )۔
حضرت عمر ؓسے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ جب دعا کے لیے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تو انہیں نیچے نہیں کرتے تھے حتی کہ انہیں اپنے رخ انور پر پھیرتے (ترمذی)۔ 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ سے دعا کرو اس حال میں کہ تمہیں قبولیت کا یقین ہو۔ اور جان لو کہ وہ غافل غیر متوجہ قلب سے دعا قبول نہیں فرماتا۔ ( ترمذی ) 
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی پاک سے عمرہ کی اجازت طلب کی تو آپ  نے اجازت عطا فرمائی اور فرمایا اے بھائی ہمیں بھی اپنی دعا میں فراموش نہ کرنا۔ آپ نے  فرمایا کہ مجھے اس امر کی کوئی خوشی نہیں کہ اس کے بدلے مجھے ساری دنیا مل جائے۔

سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ(2)

   سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ عنہ(2) آپؓ کے اوصاف آپؓ کو رسول خدا ﷺ کے اوصاف سے عطا ہو ئے ہیں۔ آپؓ کا ضمیر اور عادات و خصائل سب پاک...