اللہ تعالی کی طرف سے بہت ہی آسان فلاح کا راستہ سنیے اور عمل کیجئے تاکہ ہم سب فلاح پا لیں . ہر قسم کی تفرقہ بازی اور مسلکی اختلافات سے بالاتر آسان اور سلیس زبان میں
منگل، 30 ستمبر، 2025
پیر، 29 ستمبر، 2025
اتوار، 28 ستمبر، 2025
حقیقت دین اور اصلاح معاشرہ
حقیقت دین اور اصلاح معاشرہ
قرآن کریم ایسے تمام معاملات کو جو معاشرتی اصلاح کا سبب بنتے ہیں ، انہیں دین سے جدا قرار نہیں دیتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا مظہر اور حقیقت دین کا عکس تمام قرار دیتا ہے ۔ اس حقیت کو بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ ان امور کا تارک دراصل روح ایمان سے بہرہ ہے ۔ نیکی کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :
ترجمہ : ’’نیکی یہ نہیں تم اپنا رخ مشرق یا مغرب کی طرف پھیرو،بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ ، یوم آخرت ، فرشتوں ، کتابوں اور تمام انبیا ء پر ایمان لائے اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنا مال قرابت داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، مسافروں ،مانگنے والوں اور غلامی سے آزاد ہونے والوں کو دے ، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے اور یہی لوگ اپنے وعدوں کو پورا کرنے والے ہوتے ہیں ۔ سختی اور تکلیف میں اور حالت جنگ میں ڈٹ جانے والے ہیں ۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی تقوی والے ہے ‘‘۔
اس آیت کریمہ میں دو چیزوں کی تلقین کی گئی ہے۔ ایک ایمان کی پختگی کی ہدایت اور دوسرا حقوق العباد کی ادائیگی اور مخلوق خدا سے احسان کا معاملہ کرنا۔ دراصل یہ دونوں چیزیں ہی معاشرے سے بگاڑ کو ختم کرنے کے لیے ریڑ ھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ایمان میں پختگی انسان کو صابر ، شاکر اور مثبت سوچ کا حامل بناتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں سے بھلائی معاشرے میں محبت و الفت کو فروغ دیتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ جب انسان کسی کے ساتھ نیکی اور احسان کا معاملہ کر رہا ہو گا تو وہ اس کی جان ، مال اور عزت کی طرف بری نظر سے نہیں دیکھے گا اور اسی چیز کا عملی مظاہرہ اصلاح معاشرہ کی صورت میں ہو گا ۔
قرآن مجید تو ایسے امور کو اصل دین اور مغز ایمان قرار دیتا ہے جس کا نتیجہ معاشرتی بگاڑ کا خاتمہ ہے ۔ اگرا مرا ، غربا کا حق نکالتے رہیں تو معاشرے میں کوئی انسان بھوکا نہ سوئے اور کسی غریب کا بچہ صرف اس لیے زندگی کی بازی نہ ہارے کہ اس کے پاس دوائی کے لیے پیسے نہیں ۔
قرآن مجید میں اہل جنت اور اہل دوزخ کے ایک مکالمے کا ذکر ہے ۔
ترجمہ :’’جنتی دوزخیوں سے پوچھیں گے تمہیں کون سی چیز دوزخ میں لے آئی ۔ وہ کہیں گے ہم نمازیں نہیں پڑھتے تھے اور مسکین کو کھانا نہیں کھلایا کرتے تھے ۔ اور ہم فضول بحثیں کرنے والوں کے ساتھ فضول بحثیں کیا کرتے تھے‘‘۔یہاں نماز کے ترک کرنے کے گناہ کے بعد جن گناہوں کا ذکر کیا گیا وہ غرباکے حقوق کی عدم ادائیگی اور بیہودہ گوئی کے گناہ ہیں ۔
ہفتہ، 27 ستمبر، 2025
اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے
اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے
ہر کام کا ایک جذبہ محرک ہوتا ہے جو اس کی انجام دہی میں سر گرمی پیدا کرتا ہے۔معاشرتی زندگی میں اسلام تلقین کرتا ہے کہ ہم اصلاحِ نیت کر لیں۔ یعنی انسان شعوری طور پر یہ بات ذہن نشین رکھے کہ یہ کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کر رہا ہو ں۔ہر فعل کی انجام دہی آسان ہو جائے گی اور اس میں سر گرمی بھی پیدا ہوگی۔ نیت کے معنی قصد ،ارادہ اور عزم کے ہیں۔ نیت دل کے ارادہ کو کہتے ہیں۔ حدیث مبارکہ میں نیت کی اہمیت کا تذکرہ ہے جو عمل کی بنیاد ہے۔ کوئی کام اپنے نتیجہ کے لحاظ سے اتنا اچھا یا برا نہیں ہوتا جتنا نیت کے لحا ظ سے ہو تا ہے۔ قرآن مجید میں نیت کا معاملہ بڑے نمایا ں طور پر بیان کیا گیا ہے اور جگہ جگہ اخلاص اور حسن نیت کی ہدایت فرمائی ہے۔اگر نیت درست اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہو تو چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی عظیم عبادت شمار ہوتا ہے۔ اور اگر نیت ریاکاری اور دنیاوی فائدے کی ہو تو بڑے سے بڑا عمل بھی بے وقعت رہ جاتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔’ ’ پس آپ اللہ کے لیے اطاعت کو خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں ‘‘۔ (سورۃ المؤمن)۔
سورۃ النسا ء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ جو شخص دنیاوی اجر کا ارادہ رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ کے پا س دنیا و آخرت دونوں کے بدلے ہیں اور اللہ تعالیٰ سننے والا اور دیکھنے والا ہے ‘‘
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے مدینہ کی ام قیس نامی عورت کو نکاح کا پیغام بھیجا تو اس نے کہا کہ تم اگر مدینہ آ جائو تو میں تم سے نکا ح کر لوں گی اور پھر جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ آئے تو وہ شخص بھی مسلمانوں کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ آگیا اور اس نے اس عورت سے نکاح کر لیا۔ چنانچہ صحابہ کرام اس شخص کو مہاجر ام قیس کہہ کر پکارتے تھے۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے ایسی ہجرت کو لغو اور بے کار قرار دیا۔کیو نکہ یہ ہجرت دنیاوی کام کے حصول کے لیے تھی۔ اس لیے ہجرت جو عظیم عبادت ہے نیت کی خرابی کے باعث اجر و ثواب سے محروم ہو گئی۔
نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا ’’مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے ‘‘ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا’’ جس نے دکھاوے کا روزہ رکھا یا نماز پڑھی یا دکھاوے کا صدقہ دیا وہ شرک ہے ‘‘
بندہ کوئی بھی عمل دنیا کے سامنے کتنا ہی خوش نما بنا لے لیکن اگر نیت خالص نہیں تو ایسے عمل کی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کوئی حیثیت نہیں۔
جمعہ، 26 ستمبر، 2025
حقوق العباد (۲)
حقوق العباد (۲)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی یا رسو ل اللہ ﷺ مجھے ایسا عمل بتائیں جس سے مجھے نفع حاصل ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمانوں کے راستہ سے تکلیف دینے والی چیز کو ہٹا دیا کرو۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص مسلمانوں کے راستے سے کسی ایسی چیز کو دور کر دیتا ہے جس سے انہیں تکلیف ہوتی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس کی نیکی لکھ دیتا ہے اور جس کے لیے نیکی لکھ دیتا اس کے لیے جنت کو واجب کر دیتا ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی طرف اس طرح کا اشارہ کرے جسے وہ پسند نہ کرتا ہو۔ آپ نے ارشاد فرمایا کسی مسلمان بھائی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی مسلمان کو خوفزدہ کرے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ مومن کی تکلیف کونا پسند فرماتا ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی نازل فرمائی کہ تم تواضع کرو اور ایک دوسرے پر فخر و تکبرنہ کرو ، اگر کوئی دوسرا تم سے تکبر سے پیش آئے تو برداشت کرو چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد فرمایا : ’’ در گزر اپنائیے ، نیکی کا حکم دیجیے اور جاہلوں سے منہ پھیر لیجیے۔ ( سورۃ الاعراف )۔
حضرت ابن ابی اوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر مسلمان سے تواضع سے پیش آتے اور بیوہ اورمسکین کے ساتھ چل کر ان کی حاجت روائی کرنے میں عار محسوس نہ فرماتے اور نہ ہی تکبر سے کام لیتے۔ یہ بھی حقوق العباد میں شامل ہے کہ لوگوں کی باتیں ایک دوسرے کو نہ بتلائے اور کسی کی بات کسی دوسرے کو نہ بتائے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : چغل خور جنت میں نہیں جائے گا۔خلیل بن احمد کا قول ہے جو تیرے سامنے دوسرے لوگوں کی چغلیاں کرتا ہے وہ تیری چغلیاں بھی دوسروں کے سامنے کرتا ہے اور جو تجھے دوسروں کی باتیں بتاتا ہے وہ تمہاری باتیں بھی دوسروں کو بتا تا ہو گا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا لیکن جب بات حدوداللہ کی ہوتی تو آپ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے بدلہ لیا کرتے تھے۔ حضور نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا صدقہ سے ما ل کم نہیں ہوتا ، عفو درگزر کرنے سے اللہ تعالیٰ انسان کی عزت بڑھاتا ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بلند مرتبہ عطا فرماتا ہے۔
جمعرات، 25 ستمبر، 2025
حقوق العباد (۱)
حقوق العباد (۱)
ہر انسان پر یہ بات لازم ہے کہ جب وہ دوسروں سے ملے تو اسے سلام کہے ، جب کوئی اسے دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کرے ، جب اسے چھینک آئے تو اس کا جواب دے ، جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے ، جب وہ مر جائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو ، اس کی غیر موجودگی میں اس کی غیبت نہ کرے اور اس کے لیے وہ کچھ ہی پسند کرے جو اپنے لیے کرتا ہے اور جو چیز اپنے لیے نا پسند کرتا ہے اسے دوسروں کے لیے بھی ناپسند کرے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : تجھ پر مسلمانوں کے چار حق ہیں ، ان کے نیک کی امداد کر، برے کے لیے مغفرت طلب کر، جو مر جائے اس کے لیے دعا مانگ اور تو بہ کرنے والے کے ساتھ محبت رکھ ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’وہ آپس میں رحم کرنے والے ہیں‘۔ اس کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ان کے نیک بروں کے لیے اور برے نیکوں کے لیے دعا کرتے ہیں ۔ جب کوئی گناہ گار شخص حضورﷺ کی امت کے نیک مرد کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے، اے اللہ، تو نے اسے جوبھلائی عطا کی ہے اس میں برکت دے اسے ثابت قدم رکھ اور ہمیں اس کی برکتیں عطا فرما۔ اور جب کوئی نیک شخص کسی گناہ گار کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے،اے اللہ، اسے ہدایت دے اس کی توبہ قبول فرما اور اس کی غلطیوں کو معاف فرما۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک دوسرے سے محبت کرنے اور باہم مشقت کرنے میں مسلمانوں کی مثال ایک جسم جیسی ہے ، جب جسم کا کوئی عضو تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم اس کے احساس اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمان ، مسلمان کے لیے دیوار کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کو تقویت دیتا ہے ۔ یہ بھی مسلمانوں کے حقوق میں شامل ہے کہ کوئی مسلمان اپنی زبان یا کسی فعل سے دوسرے مسلمان کو دکھ نہ پہنچائے۔ حضور نبی کریمﷺ نے لوگوں کو اچھی عادات اپنانے کے متعلق حکم فرمایا۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا، اگر تم یہ نہیں کر سکتے ہو تو لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھو یہ تمھارے لیے صدقہ ہے جو تم نے اپنی ذات کے لیے دیا ہے ۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: افضل مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں ۔
بدھ، 24 ستمبر، 2025
جام کوثر پینے والے خوش نصیب
جام کوثر پینے والے خوش نصیب
اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم ﷺ کو جن بے شمار کمالات و اوصاف اور نوازشات سے نوازا ہے ان میں سے ایک حوض کوثر کا عطا کرنا بھی ہے جس سے حضور نبی کریم ﷺ اپنے امتیوں کو جام بھر بھر کر پلائیں گے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺسے عرض کی یا رسول اللہؐ قیامت کے دن میری شفاعت فرمانا۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہاں میں تمہار ی شفاعت کروں گا۔آپ فرماتے ہیں میں نے عرض کی یا رسو ل اللہ ؐ میں آپ کو کہاں تلاش کرو ں؟ آپ نے فرمایا کہ سب سے پہلے مجھے پل صراط پرتلاش کرنا۔ میں نے عرض کیا اگر پل صراط پہ نہ ملیں تو پھر آپ نے فرمایا مجھے میزان پر تلاش کرنا۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺاگر آپ میزان پر بھی نہ ملیں تو کہا ں تلا ش کرو ں آپ نے فرمایا مجھے حوض کوثر پر تلاش کرنا۔ ان تین مقامات کے علاوہ میں کہیں اور نہیں ہوں گا۔ ( ترمذی )۔
اس حدیث مبارکہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن حضور نبی کریمﷺ میزان پر اپنے امتیوں کے اعمال کا وزن کرا رہے ہوں گے یاپھر پل صراط پر موجود ہوں گے اور جب امتی وہاں سے گزریں گے تو رب تعالیٰ سے امتی کی دعائیں مانگیں گے یا پھر حوض کوثر پر جام پلا پلا کر اپنے امتیوں کو سیراب کر رہے ہوں گے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے حوض کوثر کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ حوض کوثر کا پانی دودھ سے زیادہ سفید ، شہد سے زیادہ میٹھا ہوگا۔ اور جو ایک مرتبہ حوض کوثر کا جام پی لے گا پھر اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہاری بہتری کے لیے حوض کوثر پر پہلے سے ہی موجود ہوں گا جو بھی وہاں آئے گا وہ جام کوثرپیئے گا اور اس کے بعد اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی۔ (صحیح بخاری )۔
جو خوش نصیب حوض کوثر سے جام پیئے گا وہی کامیاب ہونے والا ہے۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ وعنہ سے مروی ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا :میں تمہاری بھلائی کے لیے پہلے ہی حوض کوثر پر موجود ہوں گا جو میرے پاس حوض کوثر پر آ گیا وہ کامیاب ہو گیا۔ گرمی محشر کی وجہ سے جب کلیجے منہ کو آ جائیں گے اور گرمی محشر کی وجہ سے جسم بھڑکے گا تو ہر اہل ایمان کی یہ خواہش ہو گی کہ اسے جام کوثر نصیب ہو۔ اللہ تعالیٰ نبی کریمﷺ کے توسل سے ہمیں نبی کریم ﷺ کے دست اقدس سے جام کوثر پینے کی توفیق عطا فرمائے۔
اس حدیث مبارکہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن حضور نبی کریمﷺ میزان پر اپنے امتیوں کے اعمال کا وزن کرا رہے ہوں گے یاپھر پل صراط پر موجود ہوں گے اور جب امتی وہاں سے گزریں گے تو رب تعالیٰ سے امتی کی دعائیں مانگیں گے یا پھر حوض کوثر پر جام پلا پلا کر اپنے امتیوں کو سیراب کر رہے ہوں گے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے حوض کوثر کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ حوض کوثر کا پانی دودھ سے زیادہ سفید ، شہد سے زیادہ میٹھا ہوگا۔ اور جو ایک مرتبہ حوض کوثر کا جام پی لے گا پھر اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہاری بہتری کے لیے حوض کوثر پر پہلے سے ہی موجود ہوں گا جو بھی وہاں آئے گا وہ جام کوثرپیئے گا اور اس کے بعد اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی۔ (صحیح بخاری )۔
جو خوش نصیب حوض کوثر سے جام پیئے گا وہی کامیاب ہونے والا ہے۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ وعنہ سے مروی ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا :میں تمہاری بھلائی کے لیے پہلے ہی حوض کوثر پر موجود ہوں گا جو میرے پاس حوض کوثر پر آ گیا وہ کامیاب ہو گیا۔ گرمی محشر کی وجہ سے جب کلیجے منہ کو آ جائیں گے اور گرمی محشر کی وجہ سے جسم بھڑکے گا تو ہر اہل ایمان کی یہ خواہش ہو گی کہ اسے جام کوثر نصیب ہو۔ اللہ تعالیٰ نبی کریمﷺ کے توسل سے ہمیں نبی کریم ﷺ کے دست اقدس سے جام کوثر پینے کی توفیق عطا فرمائے۔
منگل، 23 ستمبر، 2025
جھوٹی قسم کی مذمت
جھوٹی قسم کی مذمت
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے : جو شخص کسی مسلمان کے مال پر ناحق قسم کھائے وہ اللہ تعالی سے اس حالت میں ملاقات کرے گا کہ اللہ اس سے ناراض ہو گا۔ آپ فرماتے ہیں پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی۔
ارشادباری تعالیٰ ہے : بے شک وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے وعدے اور اپنی قسموں کے بدلے تھوڑا مال لیتے ہیں ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان سے نہ کلام کرے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ہی ان کو پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔(سورۃ آل عمران )۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جو شخص کسی مسلمان کا حق قسم کے ذریعے ہتھیالے ، اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے جہنم واجب کی اوراس پر جنت کو حرام کیا۔
ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ تھوڑا ہو ؟ آپؐ نے فرمایا اگرچہ وہ پیلو کی ایک شاخ ہی کیوں نہ ہو۔(مسند امام احمد )۔
حضرت ابو ذرؓسے مروی ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تین قسم کے آدمی وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام نہیں کرے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ آپ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ لوگ کون ہیں ؟ یہ تو ناکام و نا مرادہوئے ، آپ نے فرمایا : تکبر سے کپڑ ا لٹکانے والا،بہت زیادہ احسان جتانے والا اور جھوٹی قسم کے ذریعے سامان بیچنے والا۔( صحیح مسلم )۔
حضرت ابن عمر ؓسے مروی ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ نے انہیں باپ دادا کے نام کی قسم کھانے سے منع فرمایا ہے پس جس کے لیے قسم کھانا ضروری ہو وہ اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم کھائے یا خاموش رہے۔ ( صحیح بخاری )۔
حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص امانت کی قسم کھائے ، وہ ہم میں سے نہیں۔ ( ابی دائود )۔
حضرت بریدہ ؓسے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص قسم کھاتے ہوئے قسم کھائے کہ میں اسلام سے بری ہو ں پس اگر وہ جھوٹا ہے تو اسی طرح ہے جیسے اس نے کہا اور اگر سچا ہے تو اسلام کی طرف صحیح سالم واپس نہیں آئے گا۔ ( سنن ابی دائود )۔
پیر، 22 ستمبر، 2025
رشتہ داروں سے قطع تعلقی
رشتہ داروں سے قطع تعلقی
ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتہ داروں کا خیال رکھو۔ ( سورۃ النساء )۔
سورۃ محمد میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : پس قریب ہے کہ اگر تم منہ پھیر لو تو تم زمین میں فساد پھیلائواور رشتہ داروں سے تعلق توڑ دو۔ ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ، پس ان کو بہرہ اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے وعدے کو پورا کرتے ہیں اور پکا کیا ہوا وعدہ نہیں توڑتے اوروہ لوگ جو حکم خدا وندی کے مطابق صلہ رحمی کرتے ہیں اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور بڑے حساب کا خوف رکھتے ہیں۔ ( سورۃ الرعد )۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : رشتہ داروں سے تعلق توڑنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ ( بخاری )۔
جو اپنے کمزور رشتہ داروں سے تعلق توڑے اور ان کو چھوڑ دے ، ان پر تکبر کرے اور ان کے ساتھ نیکی اور بھلائی والا رویہ نہ رکھے حالانکہ وہ امیر ہے اور جو اس کے رشتہ دار ہیں وہ غریب ہیں تو وہ اس سزا کا مستحق ہو گا اور اگر وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کر لے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرے تو اللہ پاک بخشنے والا ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس شخص کے رشتہ دار کمزور ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرے بلکہ اپنا صدقہ دوسروں کو دے اللہ تعالی نہ تو اس کا صدقہ قبول کرے گا اور نہ ہی قیامت کے دن اس کی طرف نظر فرمائے گا۔
حضرت ابو ہر یرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے آپ حضور نبی کریم ﷺ کی حدیث سنانے بیٹھے تو فرمایا :میں ہر اس شخص کو جو رشتہ داروں سے تعلق توڑتا ہے مجبور کرتا ہوں وہ ہمارے پاس سے اٹھ جائے۔ ایک نوجوان اٹھا اور اپنی پھوپھی کے پاس گیا جس کے ساتھ کافی سالوں سے بول چال نہیں تھی اس سے صلح کر لی۔ پھوپھی نے پوچھا تجھے کس بات نے تعلق جوڑنے پر مجبور کیا۔ تو اس نوجوان نے کہا کہ میں حضرت ابو ہریرہؓ کی مجلس میں بیٹھا تھا تو انہوں نے فرمایا کہ میں ہر قطع تعلق کرنے والے سے کہتا ہو ں کہ وہ میری مجلس میں سے اٹھ جائے۔ پھوپھی نے کہا جا کے ا ن سے پوچھو کہ انہوں نے یہ بات کیوں کی۔ جب حضرت ابو ہریرہ ؓ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : بیشک ان لوگوں پر رحمت نازل نہیں ہوتی جن میں کوئی رشتہ داروں سے قطع تعلق رکھنے والا ہو۔ ( الترغیب الترہیب )۔
اتوار، 21 ستمبر، 2025
سود کی مذمت
سود کی مذمت
ارشاد باری تعالیٰ ہے : اے ایمان والو ! دو گنا در دو گنا سود نہ کھائو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو تا کہ تم کامیابی پائو۔( سورۃ آل عمران )۔
سورۃ البقرۃ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا، بیع بھی تو سودہی کے مانند ہے اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سود کو۔ جو جسے اس کے رب کے پا س سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے۔ جو پہلے لے چکا اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے اور جو اب ایسی حرکت کرے گا تو و ہ دوزخی ہے۔ وہ اس میں مدتوں رہیں گے۔ انہوں نے اس چیز کو حلا ل کہا جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا تھا۔ جب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لوگوں کو اٹھائے گا تو وہ تیز تیز چلیں گے۔ لیکن سود کھانے والوں کی یہ حالت ہو گی کہ وہ گریں گے پھر اٹھیں گے۔ کیونکہ ان لوگوں نے دنیا میں سود کھایا تھا جو حرام ہے اس لیے اللہ تعالیٰ ان کے پیٹوں کو بڑھا دے گا۔وہ بھاری ہو جائیں گے اور جب وہ اٹھنے کا ارادہ کریں گے تو گر جائیں گے۔
حضرت قتادہ ؓسے مروی ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : سود خور قیامت کے د ن پاگل کی صورت میں اٹھایا جائے گا اور یہ سود خوروں کی علامت ہو گی جس سے میدان محشر میں ان کی پہچان ہو گی۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مجھے معراج کرائی گئی تو میں ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ ان کے ہاتھوں کے سامنے تھے۔ ان میں ہر شخص کا پیٹ بہت بڑے مکان کی طرح تھا۔ ان کے پیٹو ں نے انہیں جھکایا ہوا تھا۔ وہ آل فرعو ن کے راستے پر جمع ہوئے اور آل فرعون صبح شام جہنم پر پیش کیے جاتے ہیں۔ وہ بھاگنے والے اونٹوں کی طرح آگے بڑھتے تھے نہ کچھ سنتے تھے نہ کچھ سمجھتے تھے۔ جب ان کو احساس ہوا تو وہ کھڑے ہوئے تو ان کے پیٹوں نے ان کو جھکا دیا اور وہ وہاں سے ہل نہ سکے اور آل فرعون نے ان کو گھیر لیا۔ وہ ان کو آگے پیچھے پھینکتے ہیں۔ یہ دنیا اورآخرت کے درمیان برزخ میں ان کاعذاب ہے۔ میں نے جبرائیل امین سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ دنیا میں سود کھاتے تھے۔
ہفتہ، 20 ستمبر، 2025
حضور نبی کریم ؐ کی دنیا سے بے رغبتی اور خشیت الٰہی
حضور نبی کریم ؐ کی دنیا سے بے رغبتی اور خشیت الٰہی
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیاوی عیش و عشرت کی بجائے آخرت کو ترجیح دی اور یہ سبق دیا کہ حقیقی کامیابی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے نہ کہ دنیاوی ما ل و دولت یا عیش و عشرت حاصل کرنا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’تم فرمائو کہ تم لوگ اس پر ایمان لائو یا نہ لائو بیشک وہ جنہیں اس کے اترنے سے پہلے علم ملا جب ان پر پڑھا جاتا ہے تو ٹھوڑی کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور کہتے ہیں پاکی ہے ہمارے رب کو بیشک ہمارے رب کا وعدہ پورا ہونا تھا۔ اورٹھوڑی کے بل گرتے ہیں روتے ہوئے اور یہ قرآن ان کے دل کا جھکنا بڑھاتا ہے‘‘۔ (بنی اسرائیل)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اہل بیت مدینہ منورہ آئے ہیں ، کبھی بھی لگاتار تین دن سیر ہو کر گندم کا کھانا نہیں کھایا۔ (متفق علیہ )
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا سے بے رغبتی کا عالم یہ تھا کہ آپ نے اپنے اہل خانہ کے لیے بھی سادگی کو پسند فرمایا۔کئی کئی روز گزر جاتے گھر میں چولہا نہ جلتا، کجھور اور پانی پر گزا را کیا جاتا۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کے ہاں کبھی جْو کی روٹی نہیں بچی یعنی کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو۔ (ترمذی ، مسند احمد )۔
حضرت عبد اللہ ا بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل کئی راتیں فاقہ سے رہتے۔ آپ کے گھر والوں کے پاس شام کا کھانا نہ ہوتا اور عام طور پر ان کا کھانا جْو کی روٹی ہوتی تھی۔ ( ترمذی ، ابن ماجہ )۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خشیت الٰہی کی وجہ سے راتوں میں قیام کرتے اور ساری ساری رات اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے یہاں تک کہ آپ ؐ کے قدم مبارک میں ورم پڑجاتے۔صحابہ کرام نے عرض کی یارسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ تو اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں اللہ تعالیٰ آپ ؐسے بے حد پیار فرماتا ہے تو پھر اتنی مشقت کیوں۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنو ں۔ یہ الفاظ آپ ؐ کی خشیت الٰہی اور اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی کی واضح دلیل ہے۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ایک کام کیا اور لوگوں کو بھی وہ کام کرنے کی اجازت عطا فرمائی لیکن لوگ اس کام سے دور ہو گئے۔ جب نبی کریم ﷺ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے ارشاد فرمایا: لوگو کیا ہو گیا ہے کہ اس کام سے بچتے ہو جومیں کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی قسم مجھے اللہ تعالیٰ کا لوگوں کی نسبت زیادہ علم ہے اور میں لوگوں کی نسبت زیادہ خشیت الٰہی رکھتا ہوں۔ ( متفق علیہ)۔
جمعہ، 19 ستمبر، 2025
حضور نبی کریم ﷺ کا لباس مبارک
حضور نبی کریم ﷺ کا لباس مبارک
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس مبارک کا انداز بھی سادگی ، پاکیزگی اور اعتدال کا حسین امتزاج تھا۔حضور نبی کریمﷺ سادہ لباس پسند فرماتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اے جھرمٹ مارنے والے ‘‘۔ ( سورۃ مزمل )۔
سورۃ مدثر میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :اے بالا پوش اوڑھنے والے۔ کھڑے ہو جائو پھر ڈر سنائو۔ اور اپنے رب ہی کی بڑائی بولو۔ اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام کپڑوں میں یمنی سبز چادر اوڑھنا زیادہ پسند تھا۔ ( متفق علیہ )۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑوں میں قمیص سب سے زیادہ پسند تھی۔ ( ترمذی ، ابو دائود )۔
حضرت ابو اسحاق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت براء رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قد مبارک متوسط تھا۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کو سرخ رنگ کے حلہ میں لپٹا ہوا دیکھا۔میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی شے کو حسین نہیں دیکھا۔ ( متفق علیہ )۔
حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ ہمارے پاس ایک موٹی چادر نکال لائیں جو یمن میں بنائی جاتی تھیں اور ایک ایسی چادر جو اون سے بنی ہوئی تھی۔ پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو کپڑوں میں وصال فرمایا تھا۔ ( متفق علیہ )۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو آپ سفید کپڑا اوڑھے استراحت فرما رہے تھے۔ ( بخاری )۔
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سفید کپڑے پہنا کرو کیوں کہ یہ زیادہ پاکیزہ اور عمدہ ہیں اور ان میں اپنے مْردوں کو کفن دیاکرو۔ (ابو دئود ، ترمذی )۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی ترغیب بھی دلائی کہ جب بھی کوئی نیا کپڑا پہنا جائے تو اللہ سے یہ دعا کریں۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ئی نیا کپڑا پہنتے تو پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے خواہ قمیص ہو یا امامہ ،پھر دعا کرتے :
ترجمہ : اے اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے یہ کپڑا پہنایا ، میں تجھ سے اس کی خیر اور جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے اس کی خیر کا سوال کرتا ہوں اور اس کے شر اور جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے اس کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔( ابو دئود ، ترمذی )۔
جمعرات، 18 ستمبر، 2025
تعمیر شخصیت اور قرآن
تعمیر شخصیت اور قرآن
قرآن مجید انسان کی روحانی ، فکری ، اخلاقی اور عملی زندگی کی راہنمائی کرتا ہے۔ یہ نہ صرف عقائد و عبادات کی وضاحت کرتا ہے بلکہ ایک مثالی شخصیت کی تعمیر کے اصول بھی وضح کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :
’’ اس لیے کہ غم نہ کھائو اس پر جو ہاتھ سے جائے اور نہ اترائو اس پر جو تم کو دیا اور اللہ کو نہیں پسند کوئی اترونا بڑائی مارنے والا ‘‘۔ ( سورۃ الحدید )۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کے دو پہلوئوں کی طرف رہنمائی فرمائی ہے کہ اگر تم کوئی چیز کھو دو تو اس پر غم نہ کرو اور نہ ہی خود کو اس میں کھوئے رکھو ضروری نہیں کہ تمہاری ہر خواہش پوری ہو اور جو چیز تم چاہتے ہو اسکے حاصل نہ ہونے کی صورت میں فطرت اور درست سمت پر رکھو۔ اور جو کچھ تمہیں حاصل ہو اسے اپنی محنت اور کوشش کا نتیجہ نہ سمجھو بلکہ اسے اللہ تعالی کی عطا سمجھو کیونکہ اللہ تعالی کو بڑائی اور تکبر پسند نہیں۔
سورۃآل عمران میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی شخصیت کے اصول بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :’’تو تم انہیں معاف فرمائو اور ان کی شفاعت کرو اور کاموں میں ان سے مشورہ لو اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کر لو تو اللہ پر بھروسہ رکھو بیشک توکل والے اللہ کو پیارے ہیں ‘‘۔
اس آیات مبارکہ میں بیان کیے گئے اصولوں پر عمل کیا جائے تو نہ صرف تعمیر شخصیت ہو گی بلکہ تعمیر معاشرہ بھی ہو گی۔ سب سے پہلے ہے در گزر کرنا۔ یعنی اگر کسی سے کوئی غلطی سر زد ہو جائے تو اسے معاف کر دینا چاہیے اس سے نہ صرف شخصیت کی تعمیر ہو گی بلکہ معاشرہ بھی امن کا گہوارہ بنے گا۔درگزر کرنا سنت رسول بھی ہے۔ اسی آیت میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے محبوب اگر تم ان سے سختی مزاجی سے پیش آتے تو یہ تم سے دور ہو جاتے۔ اس معلوم ہوتا ہے کہ قیادت میں نرم مزاجی اور در گزر کرنا ضروری ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو دوسرا اصول یہ بیان فرمایا کہ ان کے لیے دعا کرو۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہمیں دوسروں کے لیے دعا کرنی چاہیے۔
تیسرا کوئی بھی کام کرنے سے پہلے مشورہ کر لینا بھی سنت رسول ہے۔نبی کریم ﷺ اس کے باوجود کہ وحی الٰہی آپ کی راہنمائی کے لیے موجود تھی آپؐ صحابہ کرام ؓ سے مشورہ کر لیا کرتے تھے۔ توکل علی اللہ جب کوئی کام مشورہ اورغورو فکر کرنے کے بعد شروع کر لیا جائے تو پھر اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ کرنا چاہیے کیونکہ وہی حقیقی مدد گار ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں قرآن مجید تعمیر شخصیت کے لیے صدق وامانت ، عدل وانصاف ، صبر و استقامت ، علم کے حصول اور حسن سلوک کا درس دیتا ہے۔ قرآن مجید شخصیت کو سنوارنے اور نکھارنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔ آمین
’’ اس لیے کہ غم نہ کھائو اس پر جو ہاتھ سے جائے اور نہ اترائو اس پر جو تم کو دیا اور اللہ کو نہیں پسند کوئی اترونا بڑائی مارنے والا ‘‘۔ ( سورۃ الحدید )۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کے دو پہلوئوں کی طرف رہنمائی فرمائی ہے کہ اگر تم کوئی چیز کھو دو تو اس پر غم نہ کرو اور نہ ہی خود کو اس میں کھوئے رکھو ضروری نہیں کہ تمہاری ہر خواہش پوری ہو اور جو چیز تم چاہتے ہو اسکے حاصل نہ ہونے کی صورت میں فطرت اور درست سمت پر رکھو۔ اور جو کچھ تمہیں حاصل ہو اسے اپنی محنت اور کوشش کا نتیجہ نہ سمجھو بلکہ اسے اللہ تعالی کی عطا سمجھو کیونکہ اللہ تعالی کو بڑائی اور تکبر پسند نہیں۔
سورۃآل عمران میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی شخصیت کے اصول بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :’’تو تم انہیں معاف فرمائو اور ان کی شفاعت کرو اور کاموں میں ان سے مشورہ لو اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کر لو تو اللہ پر بھروسہ رکھو بیشک توکل والے اللہ کو پیارے ہیں ‘‘۔
اس آیات مبارکہ میں بیان کیے گئے اصولوں پر عمل کیا جائے تو نہ صرف تعمیر شخصیت ہو گی بلکہ تعمیر معاشرہ بھی ہو گی۔ سب سے پہلے ہے در گزر کرنا۔ یعنی اگر کسی سے کوئی غلطی سر زد ہو جائے تو اسے معاف کر دینا چاہیے اس سے نہ صرف شخصیت کی تعمیر ہو گی بلکہ معاشرہ بھی امن کا گہوارہ بنے گا۔درگزر کرنا سنت رسول بھی ہے۔ اسی آیت میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے محبوب اگر تم ان سے سختی مزاجی سے پیش آتے تو یہ تم سے دور ہو جاتے۔ اس معلوم ہوتا ہے کہ قیادت میں نرم مزاجی اور در گزر کرنا ضروری ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو دوسرا اصول یہ بیان فرمایا کہ ان کے لیے دعا کرو۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہمیں دوسروں کے لیے دعا کرنی چاہیے۔
تیسرا کوئی بھی کام کرنے سے پہلے مشورہ کر لینا بھی سنت رسول ہے۔نبی کریم ﷺ اس کے باوجود کہ وحی الٰہی آپ کی راہنمائی کے لیے موجود تھی آپؐ صحابہ کرام ؓ سے مشورہ کر لیا کرتے تھے۔ توکل علی اللہ جب کوئی کام مشورہ اورغورو فکر کرنے کے بعد شروع کر لیا جائے تو پھر اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ کرنا چاہیے کیونکہ وہی حقیقی مدد گار ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں قرآن مجید تعمیر شخصیت کے لیے صدق وامانت ، عدل وانصاف ، صبر و استقامت ، علم کے حصول اور حسن سلوک کا درس دیتا ہے۔ قرآن مجید شخصیت کو سنوارنے اور نکھارنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔ آمین
بدھ، 17 ستمبر، 2025
حضورﷺ کے چشمان مبارک
حضورﷺ کے چشمان مبارک
حضور نبی کریم ﷺ کی مقدس اور نورانی آنکھیں انتہائی خوشنما اور بہت ہی زیادہ خوبصورت تھیں۔ آنکھوں کی پتلی سیاہ تھی۔ سرمہ کے بغیر معلوم ہوتا تھا کہ سرمہ لگا ہوا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ کی بھنویں نہایت خوبصورت اور خمدار تھیں۔ دور سے دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دونوں گوشئہ ابرو ملے ہوئے ہیں مگرجب قریب آ کر دیکھتے تو ایک دوسرے سے جدا معلوم ہوتا تھا۔
حضور نبی کریم ﷺ کی آنکھیں ایسی ہیں جن کے لیے اندھیرا حجاب نہیں۔ جو ساری کائنات کو محیط اورسارے عالم کو مثل کف دست دیکھ رہی ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں حضور ﷺاندھیرے اور اجالے میں یکساں دیکھتے تھے۔ ( بہیقی )۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضور ﷺ رات کو بھی ایسے ہی دیکھتے تھے جس طرح دن کے اجالے میں۔(ایضا)۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح آگے دیکھتے تھے اسی طرح پیچھے دیکھتے تھے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھ سے پہلے رکوع اور سجدہ نہ کرو کیونکہ میں آگے اور پیچھے یکساں دیکھتا ہوں۔ ( مسلم شریف)۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک آنکھوں سے ہمارے دلوں کی حالت بھی پوشیدہ نہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سمجھتے ہو کہ میرا قبلہ یہ ہی ہے۔ خدا کی قسم ! تمہارے خشوع اوررکوع مجھ پر پوشیدہ نہیں ہیں۔
سر عرش پر تیری گزر دل فرش پر تیری نظر ملکوت و ملک میں کوئی شے نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں
حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں ایک انصاری اور ایک ثقفی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضورﷺ نے ثقفی سے فرمایا جو تم پوچھنا چاہتے ہو اگر تم کہو تو میں ہی بتا دوں کہ تم کیا سوال کرنا چاہتے ہو۔ثقفی نے عرض کی حضور یہ تو بڑی عجیب بات ہے کہ آپ میرے دل کے حالات بتائیں۔ آپ نے فرمایا تم نماز ، روزہ اور غسل جنابت کے مسائل پوچھنے آئے ہو۔ ثقفی نے عرض کی مجھے قسم ہے اس ذات مقدس کی جس نے آپ کو نبی بنا کر بھیجا ہے میں یہی پوچھنے آیا تھا۔ ( بہیقی)۔
حضرت عمر بن خطاب ارضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضورـﷺ نے ایک دن قیامت تک ہونے والے سارے حالات و واقعات بیان فرما دیے۔ ( مسلم شریف)۔ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں جس دن حبشہ میں نجاشی کا انتقال ہوا حضور ﷺ نے اسی دن ہمیں ان کے انتقال کی خبر سنائی۔ (بخاری شریف)۔
منگل، 16 ستمبر، 2025
حضور نبی کریمﷺ کی مسکراہٹ
حضور نبی کریمﷺ کی مسکراہٹ
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو سراپا رحمت وشفقت بنا کر بھیجا۔ نبی کریمﷺ کی حیات طیبہ کا ہر ایک پہلو انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
حضور نبی کریمﷺ کی خوش اخلاقی اور خوش طبعی ایمان والوں کے دلوں کو زندگی بخشتی ہے۔آپ ﷺ کی مسکراہٹ آپﷺ کے علیٰ اخلاق کی سب سے دلکش جھلک تھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’تو کیسی اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لیے نرم دل ہوئے اور اگر تند مزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہارے گر د سے پریشان ہوتے تو تم انہیں معاف فرمائو اور ان کی شفاعت کرو ‘‘۔ ( آل عمران)۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کبھی بھی حضور نبی کریم ﷺ کو قہقہ لگا کر ہنستے نہیں دیکھا کہ آپﷺ کا حلق مبارک نظر آئے ،آپ ﷺ صرف مسکراتے تھے ‘‘۔( متفق علیہ )۔
حضرت عبد اللہ بن حارث بن جزء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی مکرمﷺ سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔ ( ترمذی )۔
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر سلام عرض کیا۔ آپ ﷺ کا چہرہ انورخوشی سے جگمگا رہا تھا اور رسول خدا ﷺ جب بھی مسرور ہوتے تو آپ ﷺ کا چہرہ انور یوں نور بار ہو جاتا تھا جیسے وہ چاند کا ٹکڑا ہے۔ ہم آپﷺ کے چہرہ انور سے آپ ﷺ کی خوشی کا اندازہ لگالیا کرتے تھے۔ ( متفق علیہ )۔
حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول خدا ﷺ سے سواری کے لیے جانور مانگا ،آپ ﷺ نے مزاح فرمایا میں تجھے اونٹنی کے بچے پر سوار کروں گا۔ اس نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میں اونٹنی کے بچے کا کیا کروں گا ؟ سرور کائنات ﷺ نے فرمایا اونٹنیاں ہی تو اونٹ پیدا کرتی ہیں ہر اونٹ اونٹنی کا بچہ ہوتا ہے۔( ابو دائود ، ترمذی )۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی یا رسو ل اللہ ﷺ آپ ہم سے مزاح فرماتے ہیں ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ میں مزاح میں بھی سچی بات کے سوا کچھ نہیں بولتا۔ ( ترمذی )۔
حضرت جریر ؓ فرماتے ہیں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد سے نبی کریمﷺ نے مجھے ملنے سے کبھی نہیں روکا۔آپ ﷺ جب بھی مجھے دیکھتے تو آپ ﷺ تبسم فرماتے۔ میں نے آپ ﷺ سے عرض کی کہ میں جم کر گھوڑے پر نہیں بیٹھ سکتا۔ آپ ﷺنے اپنا دست اقدس میرے سینے پر مارا اور دعا فرمائی کہ اے اللہ اسے جما اور اسے ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنا دے۔( متفق علیہ )۔
مندرجہ بالا احادیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ مومن کا دل کشاد ہ ہونا چاہیے اور اس کے چہر ے پر مسکراہٹ ہونی چاہیے اور مزاح میں بھی کبھی جھوٹی بات نہیں کہنی چاہیے۔
پیر، 15 ستمبر، 2025
حضور نبی کریم ﷺ کا حسن کلام
حضور نبی کریم ﷺ کا حسن کلام
پیاری صورت ہنستا چہرہ منہ سے جھڑتے پھول
نور سراپا چاند سا چہرہ سب کا پیارا رسول ﷺ
اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم خاتم النبینﷺ کو ہر وصف میں کامل اور بے مثال بنایا۔ آپﷺ ذات اقدس، اخلاق ، کردار اور گفتار میں حسن کا پیکر تھے۔ جہاں آپ ﷺ کی مسکراہٹ ، نرم دلی اور حلم نے دنیا کو متاثر کیا وہیں آپ ﷺ کا انداز گفتگو بھی اپنی لطافت ، جامعیت اور تاثیر کی وجہ سے بے نظیر تھا۔آپﷺ کا کلا م دلوں کو نرم کرتا ، عقلوں کو روشنی بخشتا اور سننے والوں کے دل میں محبت اور اعتماد پیدا کرتا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اچھی بات کہنا اور در گزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد ستانا۔ اور اللہ بے پرواہ حلم والا ہے ‘‘۔ (البقرۃ)۔
سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اور میرے بندوں سے کہہ دو کہ وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو۔ بیشک شیطان ان کے درمیان فساد ڈال دیتا ہے۔ بیشک شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ اس انداز سے گفتگو فرماتے کہ اگر کوئی شخص الفاظ گننا چاہتا تو گن سکتا تھا۔( متفق علیہ)۔
ابو دائود اور ترمذی شریف میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ تمہاری مانند تیزی سے مسلسل کلام نہیں فرمایاکرتے تھے بلکہ آپﷺ اس طرح کلام فرماتے کہ کلام کے درمیان وقفہ ہوتا تھا اور پاس بیٹھنے والا اسے یا دکر لیتا تھا۔
حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول خداﷺ بلا ضرورت گفتگو نہ فرماتے۔آپ ﷺ طویل سکوت فرمانے والے تھے۔
آپ ﷺ کے کلام کا آغاز اور اس کا اختتام واضح ہوتا۔ حضور نبی کریم ﷺ کا کلام مختصر مگر جامع ہوتا اور ٹھہر ٹھہر کلام فرماتے تاکہ سننے والے سن کر سمجھ سکیں اور یاد کر لیں۔ الفاظ نہ ضرورت سے زیادہ ہوتے اور نہ اتنے مختصر کہ بات واضح نہ ہو۔آپ ﷺکا کلام نہ درشت ہوتا اور نہ حقارت آمیز۔(طبرانی ، بہیقی )۔
حضرت ام معبد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب آپ ﷺ خاموش ہوتے تو بارعب لگتے اور جب آپ ﷺ بولتے تو آپ ﷺ پْر وقار لگتے اور آپﷺ کا کلام موتیوں کے ہار کی مثل ہوتا۔(ابن عساکر )۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں رسو ل خدا ﷺ کے سامنے والے دندان مبارک کشادہ تھے۔ جب آپ ﷺ کلام فرماتے تو یوں نظر آتا گویا آپﷺکے سامنے والے دندان مبارک سے نور کی شعاعیں پھوٹ رہی ہیں۔ ( طبرانی ، دارمی )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کلام کو تین مرتبہ دہراتے تاکہ آپﷺ کو سننے والے اچھی طرح سمجھ لیں۔ ( بخاری ، ترمذی )۔
اتوار، 14 ستمبر، 2025
ہفتہ، 13 ستمبر، 2025
حضور نبی کریمﷺ کا حسن معاشرت(2)
حضور نبی کریمﷺ کا حسن معاشرت(2)
حضور نبی کریم ﷺ کا حسن معاشرت ساری دنیا سے اعلی و ارفع ہے۔حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو معاشرے میں رہنے کے آداب سکھائے۔ جن پر عمل کر کے کوئی بھی شخص معاشرے میں اپنی عزت و مقام کو بلند کر سکتا ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ کا حسن معاشرت انسانیت کو عدل ،محبت ، خیر خواہی اور حسن سلوک کے حقیقی مفاہیم سے روشناس کراتا ہے۔
بنی عامر قبیلہ کا ایک آدمی حضور نبی کریمﷺ کے پاس آیا اور باہر کھڑا ہو کر اجازت طلب کی کہ کیا میں اندر آ جائوں۔حضور نبی کریمﷺ نے اپنے خادم کو حکم دیا جائو اسے اذن طلب کرنے کا صحیح طریقہ بتائو۔ اسے کہو جب اجازت طلب کرو تو کہو السلام علیکم اور پھر اندر آنے کی اجازت مانگو۔ اس آدمی نے حضور ﷺ کا یہ جملہ سن لیا پھر اس نے کہا السلام علیکم۔ کیا میں اندر آ سکتا ہوں۔پھر آپﷺ نے اسے اندر آنے کی اجازت دی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اے ایمان والو نہ داخل ہوا کرو دوسروں کے گھروں میں اپنے گھروں کے علاوہ جب تک تم اجازت نہ لے لو اور سلام نہ کر لو ان گھروں میں رہنے والوں کو۔‘‘( سورۃ النور )۔
حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں ایک مرتبہ میں حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضرہوا اور دروازے پر دستک دی۔ آواز آئی کون میں نے کہا میں ہوں۔ حضور نبی کریم ﷺکو میرا یہ جواب پسند نہ آیا اور آپ ﷺ خود باہر تشریف لائے اور
مجھے بتایا جب پوچھا جائے کون ہے تو میں نہ کہو بلکہ اپنا نام بتائو۔ ( سبل الہدی )۔
حضور نبی کریم ﷺ جب کسی مجمع میں تشریف لے جاتے تو جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتے اور صحابہ کرام کو بھی یہی حکم فرماتے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ اپنے صحابہ کے درمیان بیٹھتے۔ جب کوئی ناواقف اعرابی آتا تو اسے یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ آپ ﷺ کہاں تشریف فرما ہیں۔ انہیں لوگوں سے پوچھنا پڑتاتھا۔ پھر ہم نے حضور نبی کریمﷺ سے اجازت طلب کی اور ایک چبوترہ بنا دیا تاکہ جب کوئی اعرابی آئے تو آپﷺ کو آسانی سے پہچان لے۔
حضور نبی کریم ﷺ جب چلتے تو پوری قوت کے ساتھ چلتے تھے اس میں سستی نہ ہوتی۔ حضور نبی کریم ﷺ جب چلا کرتے تو یوں محسوس ہوتا کہ بلندی سے نشیب کی طرف جارہے ہیں اور جب آپ ﷺ چلا کرتے تو قدم جما کر رکھتے جس سے پتہ چلتا کہ حضورﷺ جلدی میں نہیں ہیں۔ (سبل الہدی )۔
حضرت علیؓ فرماتے ہیں جب آپ ﷺ زمین پر چلتے تو پائوں زور کے ساتھ اٹھاتے جیسے مستعد اور مضبوط لوگوں کی چال ہے، یہ نہیں کہ چھوٹے چھوٹے قدم مغروروں یاعورتوں کی طرح رکھتے۔
جمعہ، 12 ستمبر، 2025
حضور نبی کریم ﷺ کا حسن معاشرت
حضور نبی کریم ﷺ کا حسن معاشرت
اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم ﷺ کو تمام خزانوں کا مالک بنایا ہے حضور نبی کریم ﷺ کی تواضع خود اختیار کردہ تھی ۔ایک مرتبہ ایک فرشتہ جبرائیل امین کی معیت میں حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی یارسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اختیار دیا ہے کہ آپ ایسے نبی بنیں جو بندہ ہے یا پھر بادشاہ بنیں ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے جبرائیل امین کی طرف دیکھا جبرائیل نے کہا کہ تواضع اختیار فرمائیں ۔
حضرت جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں نبی مکرم ﷺ کا یہ معمول مبارک تھا کہ جب گوشت پکاتے تو اہل خانہ کو حکم دیتے شوربا زیادہ بنانااور اپنے پڑوسیوں کی خیر گیری کرنا ۔ حضور نبی کریم ﷺ جب کھانا کھانے کا ارادہ فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو دھو لیتے ۔ حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی کریم ﷺ ایک بڑے برتن میں صحابہ کرام کے ساتھ کھانا تناول فرما رہے تھے ایک اعرابی نے اس سادگی کو دیکھا تو کہنے لگا یہ کس قسم کی نشست ہے تو حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ عزت والا بندہ بنایا ہے مجھے جابر اور مغرور نہیں بنایا ۔ اس کے بعد حضور نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام کو کھانا کھانے کا طریقہ بتایا کہ پہلے اطراف سے کھائو اس کے درمیان والی چوٹی یوں ہی رہنے دو اس میں تمہارے لیے برکت ڈالی جائے گی ۔ اسکے بعد آپ ﷺ نے کھانے کی اجازت دی ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں حضور نبی کریم ﷺ سخت گرم کھانے کا ناپسند فرماتے یہاں تک کہ اس کی شدت کم ہو جاتی ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نہ کھانے کی چیز میں پھونک مارتے اور نہ پینے کی چیز میں ۔صحابہ کرام نے حضور ﷺ کی بارگاہ میں عرض کی ہم کھاتے ہیں لیکن سیر نہیں ہوتے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا سب اکٹھے ہو کر کھایا کرو اور کھانا شروع کرتے وقت بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ لیا کرو ۔ اللہ تعالیٰ اس کھانے میں تمہارے لیے برکت ڈال دے گا ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب کھائو تو دائیں ہاتھ سے کھائو ۔ پیو تودائیں ہاتھ سے پیو ۔ اور کوئی چیز پکڑو تو دائیں ہاتھ سے لو اور دو تو دائیں ہاتھ سے دو کیونکہ شیطان کا طریقہ ہے کہ وہ اپنے بائیں ہاتھ سے کھاتا ہے ، پیتا ہے ، بائیں ہاتھ سے دیتا اور بائیں ہاتھ سے لیتا ہے ۔ ( سبل الہدی )
جمعرات، 11 ستمبر، 2025
بدھ، 10 ستمبر، 2025
اللہ تعالیٰ کا خوف
اللہ تعالیٰ کا خوف
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب میت کو چار پائی پر رکھ دیا جائے اور اسے مرد اپنے کندھوں پر اٹھا لیں اگر وہ نیک ہو تو کہتاہے کہ مجھے جلدی آ گے لے چلو اور اگر بد ہو تو کہتا ہے ہا ئے افسوس مجھے کہاں لے جا رہے ہو ۔ انسان کے سوا اس کی آواز کو ہر چیز سنتی ہے اور اگر اس کی آواز کو انسان سن لے تو بے ہوش ہو جائے ۔ ( بخاری )
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا سات شخصوں پر اللہ عرش کا سایہ فرمائے جس دن اس کے سایہ نہ ہو گا ان میں سے ایک شخص وہ ہو گا جس نے اللہ تعالی کو یاد کیا اور اللہ کے خوف سے اس کی آنکھوں سے آنسو گر پڑے ۔ ( بخاری )
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے رونے والا شخص جہنم میں اس وقت تک داخل نہیں ہو گا جب تک دودھ تھن میں واپس نہیں چلا جاتا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں انسان کے جسم پر لگنے والا غبار اور جہنم کا دھواں اکھٹے نہیں ہو سکتے ۔ ( ترمذی )
حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم سے جو لوگ پہلے گزر گئے یعنی بنی اسرائیل میں ایک شخص جھینہ تھا ۔ جو اپنے عمل کے متعلق برا گمان کرتا تھا ۔ وہ نباش یعنی کفن چور تھا اس نے گھر والوں سے کہا جب میں مر جائوں مجھے پکڑو گرمی کے دن میں سمندر میں بہا دینا ۔ انہوں نے ایسا ہی کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے اعضا کو جمع کیا پھر فرمایا جو تم نے کیا تمہیں اس کے لیے کس نے کہا ۔ اس نے کہا میں نے یہ سب کچھ صرف تیرے خوف کے سبب کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو بخش دیا ۔ حضرت سیدنا صدیق اکبر ؓ سے مروی ہے کہ یہ شخص بہت آخر میں جنت میں داخل ہوگا لہذا یہ آخری شخص ہو گا جسے جہنم سے نکالا جائے گا۔ ( بخاری )
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب کسی قبر کے پاس آتے تھے تو بہت زیادہ رویا کرتے تھے یہاں تک کہ ان کی داڑھی تر ہو جاتی تھی ۔ ان سے کہا گیا جب جنت اور جہنم کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو آپ نہیں روتے ؟ لیکن جب قبر کی وجہ سے روپڑتے ہیں ؟نہوں نے فرمایا نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا قبر آخرت کی پہلی منزل ہے جو شخص اس سے نجات پا گیا اس کے بعد والے مراحل اس سے زیادہ آسان ہوں گے ۔ جو شخص اس سے نجات نہ پا سکا اس کے بعد والے مراحل اس سے زیادہ مشکل ہوں گے ۔
حضرت عثمان ؓ فرماتے ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں نے جو بھی منظر دیکھے ہیں ان میں سے سب سے زیادہ خوفناک قبر ہے ۔ ( ابن ماجہ )
منگل، 9 ستمبر، 2025
ولادتِ سرور کونین ﷺ (۲)
ولادتِ سرور کونین ﷺ (۲)
حضور نبی کریم ﷺ کا خاندان نسب و شرافت میں تمام دنیا کے خاندانوں سے افضل و اعلی ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن کفار مکہ بھی اس کا انکار نہیں کرتے تھے۔ حضرت ابو سفیان نے جب وہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے بادشاہ روم کے سامنے اس بات کا اقرار کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ’’عالی خاندان ‘‘ ہیں۔ ( بخاری شریف)
اس وقت وہ آپ کے دشمن تھے اور چاہتے تھے کہ اگر ذرہ برابر بھی کوئی ایسی بات ملے جس سے آپ ؐکی ذات مبارکہ پر کوئی عیب لگا کر بادشاہ روم کی نظروں سے آپؐ کے وقار کو گرا دے۔مسلم شریف کی روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے ’’کنانہ ‘‘ کو برگزیدہ بنایا اور ’’کنانہ ‘‘ میں سے ’’قریش‘‘ کو اور قریش میں سے بنی ہاشم کو منتخب فرمایا۔ یعنی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان اس قدر بلند و بالا ہے کہ کوئی بھی حسب و نسب والا آپ کی مثل نہیں۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے وقت بے شمار معجزات رونما ہوئے۔پیدائش کے وقت آپؐ کی ناف مبارک کٹی ہوئی ، ختنے بھی ہوئے ہوئے اور آپ ؐ خوشبو میں بسے ہوئے تھے۔اللہ تعالیٰ نے اس رات سبھی کو بیٹے عطا کیے۔
حضرت عبد المطلب بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی تو اس وقت میں خانہ کعبہ میں تھا میں نے دیکھا کہ کعبہ معظمہ میں رکھے بت گِر پڑے۔ (السیرۃ النبویہ )۔
تیری آمد تھی کہ بیت اللہ نیچے کو جھکا
تیری ہیبت تھی کہ ہر بت تھر تھرا کر گرگیا
ہانی مخزومی بیان کرتے ہیں کہ جس رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی کسریٰ ایران کے محل لرز اٹھے اور اس کے چودہ کنگرے ٹوٹ گئے اور فارس کی آگ سرد ہو گئی جو ایک ہزار سال سے جل رہی تھی اور کبھی سرد نہیں ہوئی تھی۔ (دلائل النبوہ للبہیقی )۔
آپ ؐ کے والد ماجد آپ کی پیدائش سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ آپؐ کے دادا کو بلایا گیا جو خانہ کعبہ کے طواف میں مشغول تھے۔ جب آپ ؐ کے دادا کو آپ کی ولادت کی خبر دی گئی تو وہ خوشی سے جھوم اٹھے۔ آپ کے دادا خوشی خوشی گھرآئے آپ ؐ کو سینے سے لگایا اور پھر کعبہ میں لے جا کر خیر و برکت کی دعا کی اور ’’محمد ‘‘ نام رکھا۔(زرقانی )۔
جن کے آنے سے روشن ہوئے دو جہاں
ان کے قدموں کی برکت پہ لاکھوں سلام
امام جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت یقینا ہم پر اللہ تعالی کی سب سے بڑی نعمت ہے ۔
ولادتِ سرور کونین ﷺ (۱)
ولادتِ سرور کونین ﷺ (۱)
عید میلا دالنبی ؐ اسلامی تاریخ کا ایک مبارک اور نورانی دن ہے جو غلامانِ مصطفی ﷺ کے دلوں میں عشق و محبت ، عقیدت و احترام اور خوشی و مسرت کی لہر دوڑا دیتا ہے۔ یہ وہ عظیم اور برکت والا دن ہے جس دن سرور کائنات ، جانان ِ کائنات ، وجہہ تخلیق کائنات حضور نبی کریم خاتم النبین ؐ اس دنیا میں تشریف لائے اور شر ک و ظلمت میں ڈوبی ہو ئی انسانیت کو ہدایت کے نور سے منور فرمایا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایمان والوں پر احسان عظیم ہے کہ اس نے ہمیں اپنے پیارے محبوب کی امت میں پیدا فرمایا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مومنوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا ‘‘۔ ( سورۃ آل عمران )۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جب اللہ تعالی کا گھر تعمیر کیا تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی کہ اے اللہ نبی آخرالزمانﷺ کو ہماری نسل میں ظاہر فرما۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اے ہمارے رب اور ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیج جو ان پرتیری آیتوں کی تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انہیں خوب پاکیزہ فرما دے بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے ‘‘۔( سورۃ البقرۃ )۔
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں اللہ تعالیٰ کے ہاں لوح محفوظ میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم علیہ السلام ابھی مٹی میں تھے ،میں تم کو اس کی تاویل بتاتا ہوں۔ میں اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں جو انہوں نے اپنی قوم کو دی اور میں اپنی والدہ کا خواب ہوں جو انہوں نے دیکھا کہ ان سے ایک نور نکلا جس کے لیے شام کے محلات روشن ہو گئے۔ ( مسند احمد )۔
جب پورے عالم میں ہر طرف تاریکی چھائی ہوئی تھی ، آداب معاشرت بالکل ختم ہو چکے تھے ، غلاموں اور عورتوں کو بالکل بھی عزت کے قابل نہیں سمجھا جاتا تھا اور ہر طرف ظلم کا بازار گرم تھا تب اللہ تعالیٰ نے اپنا کرم فرمایا اور اپنے محبوب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرما کر ساری تاریکیوں کو روشنی میں بدل دیا۔ عورتوں اور غلاموں کو ان کا مقام مل گیا اور غریبوں اور یتیموں کو سہارا مل گیا ہر سْو نور ہی نور چھا گیا سب کے چہرے پر رونق بکھر آئی۔
ربیع الاول کو مکہ مکرمہ کی سر زمین پر دنیا بھر کے قبیلوں اور خاندانوں میں سب سے بہتر خاندان اور قبیلے میں جنا ب بی بی آمنہ رضی اللہ عنہاکے گھرصبح صادق آپ ؐ کی جلوہ گری ہو ئی۔
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام
سبسکرائب کریں در:
تبصرے (Atom)
-
معاشرتی حقوق (۱) اگر کسی قوم کے دل میں باہمی محبت و ایثار کی بجائے نفر ت و عداوت کے جذبات پرورش پا رہے ہوں وہ قوم کبھی بھی سیسہ پلائی د...