ہفتہ، 31 مئی، 2025

قرآن مجید اور مظاہر فطرت

 

قرآن مجید اور مظاہر فطرت

قرآن مجید ایک ہمہ گیر ضابطہ حیات ہے جو انسان کو اس کی تخلیق ، زندگی کے مقصد ، کائنات کی حقیقت اور خالق کائنات کے عرفان کی طرف رہنمائی فراہم کرتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نہ صرف ہدایت ، عبرت اور علم کا سر چشمہ بنایا ہے بلکہ اس میں کائنات کے بے شمار مظاہر فطرت کو بیان کر کے انسان کو غورو فکر کی دعوت دی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو مسلسل تدبر ، تفکر اور بصیرت کی دعوت دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات دن کی باہم بدلیوں میں نشانیاں ہیں عقلمندوں کے لیے‘‘۔ ( سورۃ آل عمران )۔
اس آیت میں اس بات کی واضح دلیل ہے کہ فطرت کے مظاہر میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نہ مٹنے والے نشانات موجود ہیں اور یہ نشانیاں ان لوگوں کے لیے جو عقل و شعور رکھتے ہیں اور کائنات کو صرف ظاہری آنکھ سے نہیں بلکہ دل کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آسمان ،چاند اور سورج اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مظہر ہیں جو اپنے مقررہ وقت پر طلوع و غروب ہوتے ہیں۔ سورۃ نوح میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :’’ کیا تم نہیں دیکھتے اللہ نے کیونکر سات آسمان بنائے ایک پر ایک۔ اور ان میں چاند کو روشن کیا اور سورج کو چراغ ‘‘۔ 
اس آیت مبارکہ میں مظاہر فطرت کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سات آسمان ایک کے اوپر ایک بنائے بغیر ستون کے اور سورج کو چراغ بنایا جو دنیا کو روشن کرتا ہے اور دنیا والے اس کی روشنی میں ایسے ہی دیکھتے ہیں جیسے رات کو چراغ کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے چاند کو نور قرار دیا۔ ستاروں کو نہ صرف آسمان کی زینت قرار دیا بلکہ انہیں راستہ معلوم کرنے کا ذریعہ بھی قرار دیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اور علامتیں اور ستارے سے وہ راہ پاتے ہیں ‘‘۔ ( سورۃ النحل :آیت ۱۶)۔
یہ سب اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کے مظاہر ہیں اور ان میں عقل رکھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں کہ یہ کائنات کا سارا نظام چلانے والی ہستی اللہ تعالیٰ ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ سورۃ النبا میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا ‘‘۔ اسی طرح سورۃ النحل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور زمین میں لنگر ڈال دیے کہ کہیں تمہیں لے کر نہ کانپے ‘‘۔ زمین کی ساخت ، اس کی کشش ثقل ، فصلوں کی نشونما ، پانی کا ذخیرہ ، معدنیا ت ، پہاڑ اور اس کا استحکام یہ سب اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں۔
سورۃ الروم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :’’اللہ ہے کہ بھیجتا ہے ہوائیں کہ ابھارتی ہیں بادل پھر اسے پھیلا دیتا ہے آسمان میں جیسا چاہے ‘‘۔ ہوا کا چلنا اور بارش کا برسنا یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ سورۃ النور میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’ اللہ بدلی کرتا ہے رات اور دن کی بیشک اس میں سمجھنے کا مقام ہے نگاہ والوں کو ‘‘۔
اسکے علاوہ یہ چرند پرند ، نباتات جمادات اور حیونات یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی چیز بے مقصد پیدا نہیں فرمائی۔ قرآن مجید میں مظاہر فطرت کا ذکر ایمان ، فکر اور علم کا منبع ہے۔یہ مظاہر انسان کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنے خالق کو پہچانے اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرے۔ جو شخص فطرت کے مظاہر پر غور کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کو پا لیتا ہے۔

حکمت کی بات - ہدایت کس کو ملے گی؟

Surah Saba (سُوۡرَةُ سَبَإ) Ayat 23-24.کیا ہم حیات دنیا کے دھوکے میں مب...

Surah Saba (سُوۡرَةُ سَبَإ) Ayat 22.کیا ہمارا رویہ مشرکانہ ہے

جمعہ، 30 مئی، 2025

جھوٹی گواہی کی مذمت

 

 جھوٹی گواہی کی مذمت

اللہ جل شانہ نے قرآن مجید فرقان حمید میں عدل و انصاف کو معاشرے کی بنیاد قرار دیا ہے۔ مگر عدل کے نظام میں جھوٹی گواہی شامل ہو جائے تو یہ عدل و انصاف کے لیے زہر قاتل ہے۔جھوٹی گواہی کی اسلام میں سختی سے مذمت کی گئی ہے۔ اہل ایمان کی صفات میں ایک صفت اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان کی ہے کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔(سورۃ الفرقان :آیت ۷۲)۔
سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :’’ اے ایمان والو انصاف پر خوب قائم ہو جائو، اللہ کے لیے گواہی دو چاہے اس میں تمہارا نقصان ہو یا ماں باپ کا یارشتہ داروں کا۔ جس پر گواہی دو وہ غنی ہو یا فقیر ہو بہر حال اللہ کو اس کا سب سے زیادہ اختیار ہے۔ تو خواہش کے پیچھے نہ جائو کہ حق سے الگ پڑو اور اگر تم ہیر پھیر کرو یا منہ پھیرو تو اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے ‘‘۔(آیت ۱۳۵)۔
یعنی ہمیشہ حق اور سچ کا ساتھ دینا چاہیے چاہے اس میں اپنا یا والدین یا رشتہ داروں کا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔کیونکہ اللہ سچا ہے اور سچ کو پسند فرماتا ہے اس لیے ہمیں اپنے نفس کی پیروی کرتے ہوئے جھوٹ کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ 
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑے گناہ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ، کسی جان کو قتل کرنا ، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹ بولنا یا پھر جھوٹی گواہی دینا۔ ( بخاری و مسلم )۔
ایک دن نبی کریم ﷺ  فجر کی نماز سے فارغ ہو کر پیچھے مڑے اور ارشاد فرمایا جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر کر دی گئی ہے۔تین بار نبی کریم ﷺ نے یہی ارشاد فرمایا اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے سورۃ الحج کی آیات کی تلاوت کی۔ترجمہ: ’’سوا اْن کے جن کی ممانعت تم پر پڑھی جاتی ہے تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات سے۔ ایک اللہ کے ہو کر اس کا شریک کسی کو نہ کرو ‘‘۔ 
ابن ماجہ کی روایت ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ جھوٹی گواہی دینے والے کے پائو ں سرک نہ سکیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے دوزخ واجب کر دے۔ جھوٹی گواہی دینے کے بے شمار نقصانات ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں امن و امان کی صورتحال خراب ہو تی ہے۔ حق دار کو اس کا حق نہیں ملتا اور عدل وانصاف کی فراہمی ختم ہو جاتی ہے۔ جو شخص جھوٹی گواہی دیتا ہے حقیقت میں وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دے رہا ہوتا ہے اور حق کے راستے سے ہٹ کر شیطان کے راستے پر گامزن ہوتا ہے۔ حق بات کو چھپانا اور باطل کا ساتھ دینا منافقین کا طرز عمل ہے۔ 
جھوٹی گواہی دینا ایک سنگین ترین جرم ہے جو معاشرتی ، اخلاقی اور روحانی ہر لحاظ سے تباہی کا سبب بنتی ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم خود بھی اس گناہ سے بچیں اور دوسروں کو بھی اس گناہ سے بچنے کی ترغیب دیں۔ اگر ہم حق اور سچ کا ساتھ دیں گے تو نہ صرف معاشرے میں امن قائم ہو گا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں بھی ہمارے اوپر نازل ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حق کے ساتھ کھڑا ہونے کی تو فیق دے۔ آمین !

حکمت کی بات - فاسق کو ہدایت نہیں ملتی؟

Surah Saba (سُوۡرَةُ سَبَإ) Ayat 20-21.کیا ہم نے آخرت کے مقابلے میں دنی...

Surah Saba (سُوۡرَةُ سَبَإ) Ayat 17-19.کیا ہمارا دعوے ایمان صرف زبانی ہے

جمعرات، 29 مئی، 2025

قرآن مجید کی روشنی میں بصیرت قلبی

 

قرآن مجید کی روشنی میں بصیرت قلبی

اللہ تعالیٰ نے انسان کو سر کی آنکھوں کے ساتھ ساتھ دل کی آنکھ بھی عطا کی ہے جسے بصیرت قلبی کہا جاتا ہے۔ یہ بصیرت انسان کو حق و باطل کے درمیان فرق کرنے کی تمیز عطا کرتی ہے اور وہ حقائق جنہیں عام آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا وہ دل کی آنکھ سے نمایاں ہو جاتے ہیں۔قرآن مجید میں متعدد بار قلبی بصیرت کا ذکر آیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’پھر کیوں قرآن پر غور نہیں کرتے کیا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں ‘‘۔ (سورۃ محمد :آیت ۲۴)۔
اس آیت میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اصل تدبر اور فہم قرآن کا تعلق دل کے ساتھ ہے۔اور جب دل پر تالا لگ جائے تو انسان حق کو کیسے پہچان سکتا ہے۔
قلبی بصیرت صرف ایک ذہنی فہم نہیں بلکہ ایک روحانی طاقت اور روشنی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کر دہ انعام ہوتا ہے۔ یہ وہ نور ہے جو انسان کو اندھیروں سے نکال کر روشنیوں میں لے آتا ہے یعنی کہ انسان کو سیدھی راہ دکھاتا ہے۔ جب انسان تقوی ، اخلاص اور اللہ تعالیٰ کی یاد کے ساتھ زندگی گزارتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کے دروازے کھول دیتا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اندھا وہ نہیں جس کی آنکھوں میں بینائی نہیں بلکہ حقیقی اندھا وہ ہے جس کے دل کی آنکھیں اندھی ہیں۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’تو کیا زمین میں نہ چلے کہ ان کے دل ہوں جن سے سمجھیں یا کان ہوں جن سے سنیں تو یہ کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں ‘‘۔ ( سورۃ الحج :آیت ۴۶)۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قلبی بصیرت کے اعلی ترین نمونے تھے۔ انکے دل ایمان ، تقوی اور اخلاص سے بھرے ہوئے تھے۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نبی کریم ؐ نے محدث قرار دیا۔یعنی ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق کی بات ڈال دی جاتی تھی۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فراست کو نبی کریم ؐ نے مومن کی فراست قرار دیا۔ نبی کریم ؐ نے علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو باب العلم قرار دیا۔ آپ کی بصیرت قلبی اس قدر گہری تھی کی مشکل ترین مسائل میں بھی آپ کی رائے کو حتمی قرار دیا جاتا تھا۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حیادار اورقلب سلیم کے مالک تھے آپ کی بصیرت کا یہ عالم تھا فرماتے ہیں اگر ہمارے دل پاک ہوں تو کبھی اللہ کے کلام سے سیر نہ ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا مومن کی فراست سے بچو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نور سے دیکھتا ہے ۔ بصیرت قلبی انہیں نصیب ہوتی ہے جن کی زبان اور دل ہر وقت ذ کر الٰہی میں مشغول رہتے ہیں اور وہ قدرت کے مظاہر پر غورکرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دلوں کا سکون اللہ تعالیٰ کے ذکر میں ہے۔ قلبی بصیرت اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو عطا فرماتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم تقوی ، ذکر ، قرآن کی تلاوت اور دعا کے ذریعے اپنے دلوں کو منور کریں۔

حکمت کی بات - کیا ہمارا آخرت پر یقین صفر ہے؟

Surah Saba (سُوۡرَةُ سَبَإ) Ayat 15-16 Part-02.کیا ہم رضائے الہی کے خلا...

Surah Saba (سُوۡرَةُ سَبَإ) Ayat 15-16 Part-01.کیا ہم نے ہدایت الہی سے ...

قرآن کی روشنی میں کامیابی کے اصول

 

قرآن کی روشنی میں کامیابی کے اصول

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید کو انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا۔جس میں ایک جامع اور مکمل دستور حیات موجود ہے جو نہ صرف عقائدو عبادات بلکہ اخلاق ، معاملات اور کامیاب زندگی کے اصول بھی سکھاتا ہے۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اس امید پر کہ تم پر رحم کیا جائے۔ اور دوڑو اپنے رب کی بخشش اور ایسی نعمت کی طرف، جس کی وسعت میں سب آسمان و زمین آجائیں، پرہیز گاروں کے لیے تیار رکھی ہے۔ وہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں خوشی میں اور رنج میں اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔ اور وہ کہ جب کوئی بے حیائی یا اپنی جانوں پر ظلم کریں اللہ کو یاد کر کے اپنے گناہوں کی معافی چاہیں۔ اور گناہ کون بخشے سوا اللہ کے۔ اور اپنے کیے پر جان بوجھ کر اڑ نہ جائیں۔ ایسوں کا بدلہ ان کے رب کی بخشش اور جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ہمیشہ ان میں رہیں اور (نیک) عمل کرنے والوں کا کیا ہی اچھا صلہ ہے ‘‘۔ ( سورۃ آل عمرآن :آیات ۱۲۳تا ۱۳۶)
سورۃ آل عمرآن کی ان آیات بینات میں اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں کامیابی کے اصول واضح فرما دیے ہیں جن پر ہم عمل پیرا ہو کر اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی صف میں شامل ہو سکتے ہیں۔ سب سے پہلے ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت و فرمانبرداری۔جب بندہ مومن اپنی زندگی کو احکام الٰہی اور سیرت نبوی ؐ پر عمل پیرا ہو کر گزارتا ہے تو وہ صراط مستقیم پر چل پڑتا ہے اور دنیا و اخرت میں کامیابی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ 
اس کے بعد ہے توبہ و استغفار کرنا۔انسان خطا کا پتلا ہے۔ جانے انجانے میں غلطی سر زد ہو جاتی ہے لیکن گناہ ہو جانے کے بعد توبہ کر لے اور اللہ تعالیٰ کی بخشش طلب کرے یہی وہ روحانی سکون ہے جو دل کو سکون دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے قریب کرتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ انہیں جنت عطا فرماتا ہے۔اس کے بعد کامیابی کا اصول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو کچھ عطا کیا ہے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرو خوشی اور غم دونوں صورتوں میں۔ جب غصہ آئے تو اس پر قابو رکھو۔غصہ کرنے سے نہ صر ف تعلق خراب ہوتا ہے بلکہ غصہ نیکیوں کو بھی ضائع کرتا ہے۔ اور لوگوں کو معاف کرنا، اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والا ہے اورمعا ف کرنے کو پسند فرماتا ہے۔ کامیاب لوگ نیک کام کرتے ہیں اور اس پر قائم رہتے ہیں۔
اس کے بعد وہ لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہیں یعنی اگر ان سے کوئی گناہ سر زد ہو جائے تو ا س پراڑ نہیں جاتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھک جاتے ہیں اور بخشش طلب کرتے ہیں۔
سورۃ آل عمرآن کی آیات ہمیں کامیابی کا ایک جامع خاکہ دیتی ہیں۔اگر ان اصولوں کو اپنا لیں یعنی اطاعت الٰہی ، اطاعت نبی ،توبہ ، درگزر ، انفاق ، غصے پر قابواور گناہوں پر اصرار نہ کرنا تو نہ صرف دنیا میں کامیابی ملے گی بلکہ آخرت میں بھی کامیابی نصیب ہو گی۔

منگل، 27 مئی، 2025

نفس اور قرآن

 

نفس اور قرآن

نفس کے معانی روح ، خون ، بدن ، عظمت ، ہمت کے ہیں۔ نفس انسان میں وہ مدرک بالحواس عنصر ہے ۔ جو جذبات ، احساسات اور سوچ کا مرکز ہے ۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف اشکال میں نفس کا ذکر آیا ہے ۔
سورۃ الانفطار میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اس دن کسی کو کسی کے لیے کچھ کرنے کا اختیار نہیں ہوگا‘‘ ۔ 
سورۃ البقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ہر جاندار کو اس کی وسعت جتنی تکلیف دی جاتی ہے ‘‘۔ سورۃ العنکبوت میں اللہ تبارک تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’ ہر نفس کو مو ت کا ذائقہ چکھنا ہے ‘‘۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور جو شخص اپنے رب کی بارگاہ میں پیش ہونے کا خوف رکھتا ہے اور نفس کو خواہشات سے روکتا ہے ۔ اس کا ٹھکانا یقینا جنت ہے ۔‘‘ 
قرآن مجید میں انسانی نفس کی تین اقسام کا تذکرہ کیا گیا ہے :(۱) نفس لوامہ ، (۲) نفس امارہ  اور (۳) نفس مطمئنہ ۔
(۱) نفس امارہ:  یہ نفس کی وہ قسم ہے جو انسان کو برائی کی ترغیب دیتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان ہوتا ہے ۔ یہ اسی کی ایک شکل ہے یا انسانی روح میں شامل شر کی مثل ہے ۔ جو رغبت برائی وجھوٹ پر آمادہ کرتا ہے ۔ سورۃ یوسف میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’ کیونکہ (انسانی ) نفس برائی پر اکساتا ہے مگر یہ کہ میرا رب رحم کرے ‘‘۔رسول اللہ ﷺ نے نفس امارہ سے پناہ مانگی ’’اے اللہ میں اس علم سے پناہ مانگتا ہو ں جو  فائدہ نہ دے اور اس دعا سے پناہ مانگتا ہوں جو سنی نہ جائے اور اس دل سے پناہ مانگتا ہوں جس میں اللہ کا خوف نہ ہو اور اس نفس سے بھی پناہ مانگتا ہو ں جو کبھی سیر نہ ہوتا ہو ۔ (ابن ماجہ)
(۲) : نفس لوامہ :نفس لوامہ نفس کی وہ قسم ہے جو انسان کو برائی کرنے پر ملامت کرے روکے اور روکاوٹ پیدا کرے یہ بمثل انسان کے ساتھ فرشتہ کے ہے ۔ یا انسانی روح میں شامل خیر کے ہے ۔ جو رغبت حق و بھلائی دیتا رہتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید مین ارشاد فرماتا ہے :’’ قسم کھاتا ہو ں ملامت کرنے والے نفس (زندہ ضمیر ) کی‘‘۔
(۳)نفس مطمئنہ :یہ نفس کی وہ قسم ہے جس میں انسان کو فعل حق کرنے اور فعل کے روکنے پر اطمینان ملتا ہے ۔ یہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا داعی ہے ۔ یہ گویا انسان کی جبلت کا خاصہ ہے اور ایمان کی علامت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تمہیں نیکی پر اطمینان ہو اور برائی پر کھٹکا تو ایمان کی علامت ہے۔ یہ نفس اطمینان نیکی کے ہو چکنے کا اشارہ ہے ۔ یہیں سے ہی ایمان و ایقان کی کیفیات کا تعارف ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’ اے اطمینان والی جان ۔ اپنے رب کی طرف اس حال میں واپس آکہ تو اس سے راضی ہووہ  تجھ سے راضی ہو ‘‘۔

حکمت کی بات - بیعت کے تقاضے

حکمت کی بات - کیا بیعت ضروری ہے؟

اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کے اوصاف

 

اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کے اوصاف

لفظ محبت قرآ ن و سنت میں اللہ تعالیٰ کے حق میں بھی وارد ہوا ہے اور مخلوق کے حق میں بھی وارد ہوا ہے۔ اسی طرح قرآن مجید میں محبین کے اوصاف بھی بیان کیے گئے ہیں اور ان لوگوں کی بھی صفات بیان کی گئی ہیں جو اللہ تعالیٰ سے محبت نہیں کرتے اور ان لوگوں کے بھی اوصاف بیان کیے گئے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
’’ اے محبوب ! تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جائو۔ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ‘‘۔(سورۃ آل عمران)۔
ایک جگہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے : ’’اے ایمان والو! تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا تو عنقریب اللہ ایسے لوگ لائے گا کہ وہ اللہ کے پیارے اور اللہ ان کا پیارا مسلمانوں پر نرم اور کافروں پر سخت۔ اللہ کی راہ میں لڑیں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا اندیشہ نہ کریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے ، اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔ (سورۃ المائدہ)۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ان بندوں کے بھی اوصاف بیان فرماتا ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’بیشک اللہ پسند کرتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور پسند رکھتا ہے ستھروں کو ‘‘۔ (سورۃ البقرۃ)۔
سورۃ آل عمران میں باری تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’ تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب !تم ان کے لیے نرم دل ہوئے اور اگر تند مزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہارے گرد سے پریشان ہو جاتے۔ تو تم انہیں معاف فرمائو اور ان کی شفاعت کرو اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔ اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کر لو تو اللہ پر بھروسہ کرو بیشک توکل والے اللہ کو پیارے ہیں ‘‘۔
ایک اور جگہ سورۃ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اور کتنے ہی انبیاء نے جہاد کیا ان کے ساتھ بہت خدا والے تھے ، تو نہ سست پڑے ان مصیبتوں سے جو اللہ کی راہ میں انہیں پہنچیں اور نہ کمزور ہوئے اور نہ دبے اور صبر والے اللہ کو محبوب ہیں ‘‘۔
ایک روایت میں ہے کہ یقینا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ فرائض کی ادائیگی کی وجہ سے میرے قریب ہو جاتا ہے ، اور میرا بندہ ہمیشہ نوافل ادا کرتا رہتا ہے تو وہ نوافل کی وجہ سے میرا محبوب بن جاتا ہے تو میں اس کی سماعت بن جاتا ہو ں جس سے وہ سنتا ہے اور میں اس کی بصارت بن جاتا ہوں جس سے وہ اشیائے کائنات کو دیکھتا ہے۔

اتوار، 25 مئی، 2025

تصوف قرآن کی روشنی میں

 

تصوف قرآن کی روشنی میں

تصوف اسلام کی روحانی تعلیمات کا وہ پہلو ہے جو انسان کو ظاہری عبادات کے ساتھ باطنی صفائی اور اخلاقی بہتری اور اللہ تعالیٰ کے قرب کی طرف لے کر جاتا ہے۔مخصوص لباس پہن لینے اور اپنے چہرے کو درویشی رنگ دینے کا نام تصوف نہیں بلکہ قرآن کی رو سے یہ صرف ایک طرز زندگی نہیں بلکہ مسلسل باطنی ارتقاء کا سفر ہے جس کی بنیاد قرآن مجید میں دل ، نیت ، اخلاص اور تعلق با للہ پر رکھی گئی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ بیشک وہی کامیاب ہوا جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا ‘‘۔(سورۃ الشمس )۔
اس آیت مبارکہ میں تصوف کا بنیادی نکتہ بیان کیا گیا ہے۔ تصوف نام ہے نفس کی اصلاح کا ، دل کی صفائی کا اور روح کی پاکیزگی کا۔ یہ عبادات کے ظاہر سے آگے بڑھ کر انسان کے باطن تک رسائی کی کوشش کرتا ہے۔ تصوف صرف وظائف اور چلوں کا نام نہیں بلکہ یہ تقوی ، صبر ، شکر ، اخلاص ،عاجزی اور محبت الہی جیسے اوصاف کی عملی تصویر ہے۔ تصوف انسان کا تعلق اس قدر مضبوط کر دیتا ہے جو صرف زبان سے نہیں بلکہ اس کے دل ، عمل،اور نیت سے بھی ظاہر ہو۔ سورۃالشعرا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ذکر آیا ہے جو آپ نے رب کے حضور کی۔’’ اے میرے رب مجھے حکمت عطا فرما اور مجھے ان سے ملا دے جو تیرے قرب خاص کے سزاوار ہیں ‘‘۔ اس آیت مبارکہ میں ایک سچے متصوف کی روحانی طلب کو بیان کیا گیا ہے وہ یہ کہ اللہ کی قربت ، حکمت اور صالحین کا ساتھ۔ تصوف کا اصل سر چشمہ اپنی زبان اور دل کو ہر وقت ذکر الٰہی سے معمور رکھنا ہے۔ کیونکہ ذکر الٰہی دلوں کو سکون فراہم کرتا ہے۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ دلوں کا سکون اللہ ہی کے ذکر میں ہے ‘‘۔ ( سورۃ الرعد )۔
تصوف کا ایک پہلو احسان بھی ہے۔ نبی کریم ؐ کا فرمان عالیشان ہے کہ اللہ تعالی کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر یہ نہ ہو تو کم از کم یہ یقین ضرور ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ یہی احسان تصوف کا دل ہے جو انسان کو ظاہر و باطن میں سچا ، مخلص بناتا ہے۔آج کا انسان مادہ پرستی کے اس دور میں روحانی پیاس کا شکار ہے۔ اللہ تعالیٰ خود نور ہے اور تصوف اسی نور کی تلاش کا نام ہے۔ تصوف ایک ایسی روشنی ہے جو دلوں کو منور کرتی ہے اور ایک ایسا سفر ہے جو انسان کو اس خالق کے ساتھ ملاتا ہے۔یہ ا یک ایسا علم جو انسان کو انسانیت سکھاتا ہے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تصوف کی حقیقی تعلیمات کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں تو معاشرے میں امن ، محبت ، رواداری اور روحانی سکون کو فروغ ملے گا۔ تصوف ایک ایسے طرز عمل کا نام ہے جس میں انسان کا لمحہ لمحہ یاد الہی میں گزرتا ہے اور دل و دماغ ، عمل ونیت سب رب کے رنگ میں رنگ جاتی ہے۔ تصوف ایک خاموش انقلاب ہے جو انسان کو ایک کامل انسان کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ بقول علامہ محمد اقبال :
یہ ذکر نیم شبی ، یہ مراقبے ، یہ سْرور 
تری خودی کے نگہبان نہیں تو کچھ بھی نہیں

حکمت کی بات - مُرشد کی ضرورت

Surah Al-Ahzab (سُوۡرَةُ الاٴحزَاب) Ayat 72-73. کیا ہم نے امانت الہیہ کو...

Surah Al-Ahzab (سُوۡرَةُ الاٴحزَاب) Ayat 70-71 Part-02. کیا ہم دوزخی بنن...

قرآن مجید کے ظاہری اور باطنی آداب(۲)

 

 قرآن مجید کے ظاہری اور باطنی آداب(۲)

باطنی آداب میں  سب سے پہلا ادب خلوص نیت ہے کہ جب بھی قرآن مجید کی تلاوت کی جائے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کی جائے اوراس میں ریا کاری اور دکھلاوا نہ ہو کہ لوگ مجھے قاری کہیں۔ قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی پر یقین رکھے۔جب قرآن مجید کی تلاوت کی جارہی ہو تو دل و دماغ میں کوئی اور خیال نہ ہو اور قرآن مجید کو محض زبان سے پڑھنے کی بجائے دل کو بھی کلام الٰہی کے ساتھ جوڑے۔جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب قرآن پڑھو تو روئو اوراگر رو نہیں سکتے تو رونے والی شکل بنا لو۔ 
قرآن مجید کے آداب میں سے ہے کہ ظاہر کے ساتھ ساتھ انسان کا باطن بھی پاک ہوناچاہیے۔ کیونکہ جب تک انسان کا باطن پاک نہیں ہو گا اس کی برکات حاصل نہیں کر سکے گا۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ جس ذہن میں بْرے خیالات موجود ہوں اور انسان اس کی تلاوت کر کے فیض یاب ہو جائے۔ اس لیے ظاہری طہارت کے ساتھ ساتھ باطنی طہارت بھی ضروی ہے۔ 
جب قرآن مجید کی تلاوت کی جائے تو دل میں خشیت الٰہی ہو۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب تم قرآن میں جنت کا ذکر سنو تو اس کے طالب بنو اور جب جہنم کا ذکر سنو تو اس سے پناہ مانگو۔ 
جب تلاوت قرآن پاک کی جائے تو اس کے الفاظ پر غورو فکر کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کو سمجھے۔جہاں بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا ذکرآئے وہاں رک کر اس پر غور کیا جائے۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نماز میں کھڑے صبح تک سورۃ المائدہ کی اس آیت کو دہراتے رہے۔ترجمہ ’’اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے‘‘۔ 
جب انسا ن قرآن مجید کے الفاظ پر غورو تدبر کرتا ہے تو باطن میں معرفت کے چشمے پھوٹ جاتے ہیں۔لیکن اگر تلاوت قران مجید کے دوران ہمارے ذہن میں مختلف قسم کے وسوسے ہوں تو تلاوت قرآن کا حق ادا نہیں ہو گا۔ 
حضرت عامر بن قیس فرماتے ہیں کہ مجھے چھریوں سے چھلنی کر دیا جائے یہ مجھے زیادہ پسند ہے بجائے اس کے کہ نماز میں میرا ذہن وسوسوں میں گھرا ہو۔ (احیا علوم الدین )۔
قرآن مجید کے ظاہری اور باطنی آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس کی تلاوت کرنا اور اس پر عمل کرنا ہر مسلمان کی زندگی کا لازمی ستون ہونا چاہیے۔ظاہری آداب انسان کو ادب و احترام سکھاتے ہیں جبکہ باطنی آداب اسے روحانی بلندیوں تک پہنچا دیتے ہیں۔ آج امت مسلمہ کی زبو ں حالی کی ایک بڑی وجہ قرآن مجید پر غورو فکر کرنے کی بجائے صرف اس کی زبانی تلاوت کرنا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قرآن مجید کے ساتھ تعلق کو ادب ، تدبر اور عمل کے ذریعے زندہ کریں تاکہ دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کر سکیں۔

جمعہ، 23 مئی، 2025

قرآن مجید کے ظاہری اور باطنی آداب(۱)

 

قرآن مجید کے ظاہری اور باطنی آداب(۱)

قرآن مجید فرقان حمید ہدایت اور نور کا ذریعہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی کریم ؐپر نازل فرمایا۔ کلام پاک میں انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو کے لیے راہنمائی موجود ہے۔ قرآن مجید کا ادب و احترام کرنا ہمارے ایمان کا تقاضا ہے۔ قرآن مجید کے کچھ ظاہری اور باطنی آداب ہیں جن کواپناتے ہوئے ہم حقیقی طور پر اس کی برکات اور فوائد و ثمرات حاصل کر سکتے ہیں۔ ظاہری آداب میں سب سے پہلا ادب یہ ہے کہ ہم قرآن مجید کو بغیر وضو کے نہ چھوئیں۔جو بھی قرآن مجید کو ہاتھ لگا رہا ہے اس کا پاک صاف ہونا ضروری ہے۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اسے نہ چھوئیں مگر بغیر پاکی کے ‘‘۔ قرآن مجید کا دوسرا ادب یہ ہے کہ اس کی تلاوت ٹھہر ٹھہر کر کی جائے اور اسکے الفاظ پر غورو فکر اور تدبر کیا جائے۔ فرمان مصطفی ﷺ ہے کہ جس نے تین دن سے کم وقت میں قرآن پڑھا وہ اسے نہیں سمجھا۔ ( ترمذی )۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کسی شخص کو جلدی جلدی قرآن مجید پڑھتے دیکھا تو فرمایا :’’ یہ شخص نہ قرآن پڑھتا ہے اور نہ خاموش ہے ‘‘۔ 
(احیا علوم الدین )۔یعنی جس رفتار سے وہ قرآن پڑھ رہا ہے قرآن کی آیات تو پڑھتا جا رہا ہے لیکن یہ تلاوت نہیں ہو رہی اور خاموش بھی نہیں ہے۔ یعنی ایسی تلاوت جس میں قرآن مجید کے تلفظ کی صحیح ادائیگی نہ کی جائے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول نہیں۔
نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا :بیشک قرآن مجید غم سے لبریز نازل ہوا ہے سو جب تم میں سے کوئی قرآن پڑھے تو رویا کرے اور تم رو نہ سکو تو رونے والی حالت بنا لیا کرو۔ اور خوش الحانی سے اس کی تلاوت کرو ، پس جس نے حسن صورت اور نغمگی کے ساتھ قرآن کی تلاوت نہ کی وہ ہم میں سے نہیں۔( ابن ماجہ )۔
جب قرآن مجید کی تلاوت کی جائے تو اسے خاموشی کے ساتھ سننا بھی آداب قرآن میں سے ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو ‘‘۔( سورۃ الاعراف )۔
 ایک مرتبہ نبی کریم ﷺنے دیکھا کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرگوشی کے ساتھ تلاوت قرآن مجید کر رہے ہیں اور پھر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف تشریف لے گئے تو دیکھا کہ آپ  بلند آواز سے قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے۔ 
جب سیدنا صدیق اکبر اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنھم نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ نے پوچھا اے ابو بکر تم آہستہ آواز سے قرآن کی تلاوت کیوں کر رہے تھے ؟آپ نے عرض کی یارسول اللہؐ میں اسے سناتا ہوں جس سے مناجات کرتا ہو ں۔ پھر نبی کریم ؐنے سیدنا فاروق اعظمؓ سے بلند آواز میں تلاوت کرنے کی وجہ پوچھی تو آپ نے عرض کی یارسو ل اللہ ؐ میں اس لیے بلند آواز سے تلاوت کرتا ہوں کہ غافلوں کو سوئے ہوئے اٹھاتا ہوں اور شیطان بھگاتا ہو ں۔ اسکے بعد نبی کریم ؐنے ارشاد فرمایا کہ اے ابو بکر تم تھوڑی سی آواز کو بلند کر لو اور اے عمر تم اپنی آواز کو تھوڑی سی پست کر لو۔( ابو دائود )۔

Surah Al-Ahzab (سُوۡرَةُ الاٴحزَاب) Ayat 66-68.کیا نافرمان لوگ جہنم کا ...

Surah Al-Ahzab (سُوۡرَةُ الاٴحزَاب) Ayat 64-65.کیا ہمارا رویہ مومنانہ ہے

خشیت الٰہی (۲)

 

خشیت الٰہی (۲)

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں لوگو اللہ کی بارگاہ میں خوب رویا کرو۔ اگر رونا نہ آئے تو کم از کم رونے والی حالت بنا لیا کرو۔روایت میں ہے کہ جب سیدنا صدیق اکبر ؓ  قرآن مجید کی تلاو ت فرماتے تو مشرکوں کی عورتیں اور بیٹے کھڑے ہو جاتے اور اس پر تعجب کرتے اور ان کی طرف دیکھتے رہتے اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ خوف الٰہی میں بہت رونے والے آدمی تھے۔ آپ کو اپنی آنکھوں پر قابو نہ تھا۔ جب آپ قرآن پاک کی تلاوت کرتے تو یہ چیز قریش کے مشرک سرداروں کو مضطرب کر دیتی۔( بخاری )۔ 
احیا علوم الدین میں ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ایک پرندے کو دیکھ کر فرماتے ہیں اے پرندے کاش میں تیری طرح ہوتا انسان نہ ہوتا تا کہ مجھ سے حساب و کتاب نہ لیا جاتا۔
حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خشیت کا عالم یہ تھاکہ حضرت عبد اللہ بن شداد  فرماتے ہیں ایک مرتبہ میں نے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے پیچھے فجر کی نماز پڑھی جب آپ نے سورۃ یوسف کی یہ آیت تلاوت کی ترجمہ :’’ میں تو اپنی پریشانی و غم کی فریاد اللہ ہی سے کرتا ہوں۔" توآپ کی چیخ نکل گئی۔
 حضرت عبداللہ فرماتے ہیں میں نے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی چیخ اور ہچکی بندھنے کی آواز سنی حالانکہ میں آخری صف میں کھڑا تھا۔( مصنف عبد الرزاق)۔
حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خشیت کا یہ عالم تھاکہ آپ راتیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آہ و زاری کر کے گزارتے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گزر جب بھی کسی قبر کے پاس سے ہوتا تو دھاڑیں مار مار کر روتے۔ آپ کا غلام بیان کرتا ہے کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ جب بھی کسی قبر کے پاس سے گزرتے تو اس قدر روتے کہ آپ رضی اللہ عنہ کی داڑھی مبارک تر ہو جاتی۔(مسند احمد)۔
حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خشیت کا عالم یہ تھاکہ جب اللہ تعالیٰ کے حضور نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو خشیت الٰہی سے آپ رضی اللہ عنہ کے اوپر لرزہ طاری ہو جاتا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ رات کا زیادہ حصہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور نماز میں گزارتے اور بہت کم آرام فرماتے تھے۔ اپنی ریش مبارک پکڑ لیتے اور بیمار شخص کی طرح لوٹ پوٹ ہوتے اور انتہائی غمگین آدمی کی طرح روتے یہاں تک کہ صبح ہو جاتی۔( طبقات الکبری)۔
اگر ہم اپنی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ہم نے خشیت الٰہی کو صرف الفاظ تک محدود کر دیا ہے۔زبان پر ذکر الٰہی تو ہے پر دل میں خوف خدا نہیں ،بازاروں میں دھوکہ ،نا انصافی ، جھوٹ ،معاشرے میں ظلم اور عبادات میں ریاکاری۔ یہ سب خشیت الٰہی کے فقدان کی علامات ہیں۔خشیت الٰہی ایمان کی روح ہے جو انسان کو ظاہری و باطنی گناہوں سے بچاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے راستے پر گامزن کرتی ہے۔ آج امت مسلمہ کے زوال کی وجہ خشیت الہی سے دوری ہے۔ جب تک دلوں میں اللہ تعالیٰ خوف واپس نہیں آتا ہم اپنی اصلاح نہیں کر سکتے۔ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ خشیت الٰہی کو اپنے دل میں جگہ دے اپنے اعمال کا محاسبہ کرے اور اپنی زندگی کو اللہ کے احکام کے مطابق گزارے اسی میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔

بدھ، 21 مئی، 2025

خشیتِ الٰہی (۱)

 

خشیتِ الٰہی (۱)

اللہ تعالیٰ کی ذات کامل ہے اور وہ ہر عیب سے پاک ہے اور ساری کائنات کا خالق و مالک اور رازق ہے ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے تا کہ وہ اپنے افعال ، اقوال اور اعمال و کردار سے اللہ تعالی کی رضا حاصل کر سکے ۔ رضائے الٰہی کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ خشیتِ الٰہی ہے قران و حدیث میں متعدد مقامات پر خشیتِ الٰہی کو مومن کی صفت بیان کی ہے ۔ خشیتِ الٰہی کا مطلب ہے علم و معرفت کے ساتھ خوف ۔ یہ عام خوف سے مختلف ہے عام خوف وقتی یا ظاہری اسباب سے ہوتا ہے لیکن خشیت ایک دائمی کیفیت ہے جو اللہ تعالیٰ کے جلال ، عظمت ، قدرت ، علم ، عدل اور سزا کی معرفت کے نتیجے میں دل میں پیدا ہوتی ہے ۔ یہ خوف انسان کو گناہوں سے بچاتا ہے اورنیکی کی طرف راغب کرتا ہے ۔  دل سے خشیتِ الٰہی کا جانا روحانی طور پر برباد ہونے کے مترادف ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں بے شک اللہ عزت والا بخشنے والا ۔ ( سورۃ فاطر:آیت 28) اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ اہل علم ہی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور ان کا یہ خوف جہالت یا وہم پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ بصیرت، عقل اور ایمان کی روشنی پر مبنی ہوتا ہے ۔ 
سور ۃ آل عمران آیت 175 میں اللہ تعالی فرماتا ہے ’ اور مجھ سے ڈرو اگر تم مومن ہو‘۔ سورۃ المائدہ آیت نمبر 83 میں اللہ تعا لی ارشاد فرماتا ہے :’ اور جب سنتے ہیں وہ جو رسول کی طرف اترا تو ان کی آنکھیں دیکھو کہ آنسوئوں سے ابل رہی ہیں اس لیے کہ وہ حق کو پہچان گئے کہتے ہیں اے ہمارے رب ہم ایمان لائے تو ہمیں حق کے گواہوں میں لکھ لے‘۔
جو لوگ خشیتِ الٰہی میں گڑ گڑاتے ہیں پھر ان کو اجر کیا ملتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’ اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈر ے اس کے لیے دو جنتیں ہیں ‘۔ ( سورۃ الرحمن :آیت 46)
ایک مقام پر ارشاد فرمایا :’ اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا ۔ تو بے شک جنت ہی ٹھکانا ہے ‘۔( سورۃ النازعات) حضو نبی کریمﷺ محبوبِ الٰہی ہیں لیکن اس کے باوجود آپؐ کی خشیت کا عالم یہ ہے کہ آ پؐ فرماتے ہیں :خدا کی قسم مجھے اللہ تعالی کا لوگوں کی نسبت زیادہ علم ہے اور میں خدا سے ان کی نسبت زیادہ ڈرتا ہو ں ۔( بخاری و مسلم )
نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایک آدمی اپنے اوپر ظلم و زیادتی کرتا رہا ، جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ جب میں مر جائوں تو مجھے جلا دینا اور جب راکھ بن جائے تو اسے ہوا میں اڑا دینا ۔ اللہ کی قسم اگر میرے اللہ نے مجھے پکڑ لیا تو وہ مجھے ایسا عذاب دے گا جو کبھی کسی کو نہ دیا ہو گا۔ اس کے مرنے کے بعد ایسا ہی کیا گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے اس کی راکھ کو جمع کیا اور اپنے سامنے کھڑ اکیا اور پوچھاتمھیں یہ کرنے پر کس چیز نے  آمادہ کیا تو وہ عرض کرے گا اے اللہ تیرے خوف نے اس پر اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا۔( بخاری )

حکمت کی بات - یقین کے درجات

حکمت کی بات - بندگی آخر کیوں؟

حکمت کی بات - زندگی کا مقصد

Surah Al-Ahzab (سُوۡرَةُ الاٴحزَاب) Ayat 54. کیا ہم اللہ تعالی کی لعنت م...

Surah Al-Ahzab (سُوۡرَةُ الاٴحزَاب) Ayat 48-53. کیا مومن کے لئے مخالفانہ...

منگل، 20 مئی، 2025

امانتداری اور روزی میں برکت

 

امانتداری اور روزی میں برکت

جو بھی بندہ بد دیانتی ، دھوکا دہی یا پھر ملاوٹ کر کے کوئی چیز بیچتا ہے تو اس کا خیال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی روزی میں اضافہ کر رہا ہے لیکن کیا جھوٹ بولنے اور دھوکا دینے سے روزی میں برکت آتی ہے یا پھر سچ بول کر کوئی چیز بیچنے سے؟
یہ بات واضح ہے کہ روزی میں برکت بد دیانتی سے نہیں آتی بلکہ امانتداری سے آتی ہے۔ کسی کے پاس پیسے کچھ زیادہ ہونا یا پھر اناج کا زیادہ ہونا رزق میں برکت کی علامت نہیں۔ اگر کسی کے پاس بہت زیادہ پیسہ ہو اور وہ ہی پیسہ اس کے لیے وبال جان بن جا ئے اور اسے اپنے رب کی یاد سے غافل کر دے ، اس کی اولاد میں بگاڑ پیدا ہو جائے اور انسان کا سکون تباہ ہو جائے تو بظاہر جتنابھی پیسہ ہے وہ برکت سے محروم ہے۔ لیکن اسکے برعکس اگر بندے کے پاس پیسہ کم ہے اور وہ امن و سکون کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہے ، اس کی اولاد پیار اورمحبت کے ساتھ رہ رہی ہے اور وہ لوگوں کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی روزی میں برکت ڈال دی ہے۔ 
سورۃ الطلاق میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے (مشکلات سے نکلنے کی ) راہ پیدا فرماتا ہے اور اسے وہاں سے رزق عطا کرتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔ 
حضرت حکیم بن حزام  سے روایت ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا :خریدو فروخت کرنے والے اختیار رکھتے ہیں جب تک جدا نہ ہوں۔ پھر اگر انہوں نے سچ کہا اور عیب بیان کر دیا تو ان کی بیع میں برکت دی جائے گی اور اگر انہو ں نے عیب چھپایا اور جھوٹ بولا تو ان کی برکت ختم کر دی جائے گی۔ ( شرح السنۃ للبغوی )۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : بازار میں غلہ لانے والے کو رزق دیا جاتا ہے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے۔ ( سنن الکبری البہیقی )۔
حضور نبی کریم ﷺ کی اس حدیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے جب تک تاجر امانتداری پر قائم رہے گا اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے ساتھ رہے گی اور جب وہ بد دیانتی کرے گا تو اللہ تعالیٰ کی مدد سے محروم ہو جائے گا۔ 
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں دو شریکوں کا تیسراہوتا ہوں جب تک ان میں سے ایک اپنے دوسرے ساتھی کے ساتھ خیانت نہیں کرتا اور جب وہ خیانت کرتا ہے تو میں درمیان سے نکل جاتاہوں۔ ( سنن انی دائود)۔
حضور نبی کریم ﷺ کے ارشادات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ روزی میں برکت امانتداری سے ہوتی ہے، بد دیانتی سے نہیں۔

Surah Al-Ahzab (سُوۡرَةُ الاٴحزَاب) Ayat 45-47 Part-03. کیا بیعت غیر ضرو...

Surah Al-Ahzab Ayat 45-47 Part-02. کیا ہم اپنی زندگی اللہ کو بھول کر ی...

پیر، 19 مئی، 2025

اصلاح احوال (۲)

 

اصلاح احوال (۲)

اپنے احوال کی اصلاح کے لیے تقوی اختیار کرنا بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مال و دولت ، منصب و شہرت اور نام و نسب کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ لیکن ان سب چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے انسان اپنے خالق حقیقی کو ہی بھلا بیٹھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو متقی اورپرہیز گار ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اے لوگوہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے دیے کہ آپس میں پہچان رکھو ، بیشک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیز گار ہے بیشک اللہ جاننے والا خبر دار ہے ‘‘۔ ( سورۃ الحجرات )۔
انفاق فی سبیل اللہ بھی اصلاح احوال کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ انسان دنیاوی مال و دولت کو جمع کرنے میں ہر وقت لگا ہے اور اس کے حصول کے لیے جائز اور ناجائز دونوں ذرائع استعمال کر رہا ہے لیکن یہ سب کچھ فنا ہو جانے والا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’جو تمہارے پاس ہے فنا ہو جائے گا اور جو اللہ کے پاس ہے ہمیشہ رہنے والا ہے اور ضرور ہم صبر کرنے والوں کو ان کا وہ صلہ دیں گے جو ان کے سب سے اچھے کام کے قابل ہوں ‘‘۔ ( سورۃ النحل)۔
اس لیے انسان کو چاہیے دونوں ہاتھوں سے مال جمع کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ نے اسے جو کچھ دیا ہے اس میں سے راہ حق میں بھی خرچ کرے۔ یعنی غریبوں ،مسکینوں ، یتیموں اور محتاجوں کی مدد کرے۔ دنیا میں جتنے زیادہ انفاق فی سبیل اللہ کے کام کرے گا آخرت میں اللہ تعالیٰ اسی قدر زیادہ اجر و ثواب عطا فرمائے گا۔انسان کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے یعنی ، رشتہ داروں ، دوستوں اور پڑوسیوں سے دشمنی اور عداوت رکھنے کی بجائے شیطان سے دشمنی رکھے۔ شیطان سے دشمنی بھی اصلاح کا سبب بن سکتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے تو تم بھی اسے دشمن سمجھو وہ تو اپنے گروہ کو اسی لیے بلاتا ہے کہ دوزخیوںمیں ہوں ‘‘۔(سورۃ الفاطر ) یعنی اگر ہم شیطان کی پیروی کرتے ہوئے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے چکر میں آپس میں عداوت رکھیں گے تو گناہوں میں مبتلا ہو جائیں گے اس لیے ہمیں ان سے بچنے کے لیے شیطان کو اپنا ازلی دشمن سمجھنا ہو گا۔ 
حرص اور لالچ سے دور رہنا چاہیے اگر اس پر قابو نہ پایا جائے تو انسان کے اندر موجود لا متناہی خواہشات اسے مال و دولت کمانے کیلئے غلط راستے کی طرف گامزن کرتی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو اور جانتا ہے کہ کہاں ٹھہرے گا اور کہاں سپرد ہوگا سب کچھ ایک صاف بیان کرنے والی کتاب میں ہے ‘‘۔ ( سورۃ ھود)۔
اصلاح احوال کا سب سے بڑا ذریعہ توکل علی اللہ ہے۔ جب بندے کا اپنے رب پر بھروسہ مضبوط ہو جاتا ہے تو وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی بھی چیز بھروسہ کے قابل نہیں۔ ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ اپنے احوال کی اصلاح کرے ، خیر کے راستے کو اپناتے ہوئے دوسروں کیلئے آسانیاں پیدا کرے۔

اتوار، 18 مئی، 2025

Surah Al-Ahzab (سُوۡرَةُ الاٴحزَاب) Ayat 43-44. کیا ہم نے حاصل دنیا کو ا...

اصلاح احوال (۱)

 

اصلاح احوال (۱)

ہر دور میں انسان کو معاشرتی ، اخلاقی اور روحانی گراوٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن موجودہ دور میں ان بحرانوں نے جو شدت اور وسعت اختیار کی ہے اس نے صرف ایک فرد کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ پوری قوم اس سے متاثر ہوئی ہے۔ معاشرے میں بگاڑ ، اخلاقی گراوٹ ، بے حسی ، مادہ پرستی ، ظلم و ناانصافی اور بے راہ روی نے ایسا گھیرا ڈالا ہے کہ فلاح و بہبود کی راہیں ماندپڑ چکی ہیں۔ اصلاح احوال کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے انفرادی اور اجتماعی رویوں کو درست سمت میں لے کر چلے اور ان میں ایسی خوبیاں پیدا کرے جو نہ صر ف خود کوبلکہ پورے معاشرے کو ترقی ، سکون اور عدل کے راستے پر لے جا سکے۔ 
اصلاح احوال میں سب سے پہلی چیز ہے اچھی صحبت اور بہترین دوست کا انتخاب۔انسان جس ماحول میں رہتا ہے وہی اس کی شخصیت میں نظر آتا ہے اگرانسان بْرے لوگوں میں اٹھے بیٹھے گا تو وہ گناہوں میں مبتلا ہو جائے گا لیکن اس کے برعکس اگر دین دار اور اچھے لوگوں میں بیٹھے گا تو اس کو اپنے احوال کی اصلاح کا موقع ملے گا۔ دوست ایسا ہونا چاہیے جو دنیا و آخرت میں آپ کو نہ بھولے۔ دنیا اورآخرت میں کامیابی کے لیے ہمیں عمل صالح کے ساتھ دوستی کرنی چاہیے۔اللہ تعالیٰ کی یاد میں بہنے والا آنسو ، راتوں کو اٹھ کر اللہ کے حضور سر بسجود ہونا ، مخلوق خدا کی خدمت کرنا ، عبادات اور صدقہ و خیرات کے ساتھ دوستی لگانی چاہیے یہ ایسے دوست ہیں جو نہ صرف دنیا بلکہ آخرت میں بھی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔اپنے احوال کی اصلاح کے لیے دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنی خواہشات نفس کی پیروی نہ کر یں۔ انسان اپنی لامحدود خوہشات کا شکار ہو کر گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کو بھول کر اپنی خواہشات نفس کو ہی اپنا معبود سمجھنے لگ جاتا ہے۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ کیا تم نے اسے دیکھا جس نے اپنے جی کی خواہش کو اپنا خدا بنا لیا تو کیا تم اس کی نگہبانی کا ذمہ لو گے ‘‘۔ (سورۃ الفرقان )۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ سورۃ النازعات میں ارشاد فرماتے ہیں :’’ اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا۔ تو بیشک جنت ہی اس کا ٹھکانا ہے ‘‘۔ یعنی جس نے اپنی لامحدود خواہشات پر قابو پا لیا اور اپنے رب کو نہ بھولا تو پھر وہ اللہ کے فضل سے ضرور جنت میں داخل ہوگا۔
اصلاح احوال کا ایک ذریعہ اللہ تعالیٰ کی عطا پر راضی ہونا بھی ہے۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو دوسروں کے لیئے اللہ کی عطا پر حسد کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر مال کی کثرت پر حسد کرنا ، منصب ، عزت اور شہرت پر حسد کرنا یا پھر کسی کو اللہ تعالیٰ نے زیادہ علم سے نوازا ہے تو اس پر حسد کرنا۔انسان کو جو بھی نعمتیں میسر ہوتی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہو تی ہیں۔ ان پر حسد کرنا حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو نہ ماننا ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہو جائیں اور اپنی زبان پر کوئی شکوہ نہ لے کر آئیں۔

Surah Al-Ahzab (سُوۡرَةُ الاٴحزَاب) Ayt 38-42. کیا ہم نے اللہ تعالی کی ی...

Surah Al-Ahzab Ayat 36. کیا ہم احکامات الٰہی کے مطابق زندگی گزارنے کے ل...

ہفتہ، 17 مئی، 2025

اسلام میں بد گوئی اور فحش کلامی کی مذمت

 

 اسلام میں بد گوئی اور فحش کلامی کی مذمت

دین اسلام واحد مذہب ہے جو انسان کو ہر پہلو سے اخلاق حسنہ اپنانے کی تلقین کرتا ہے۔ دین اسلام کی بنیاد ہی اچھے اخلاق ، نرم لہجے اور پاکیزہ گفتگو پرہے۔بدگوئی ، فحش کلامی ، گالی گلوچ نہ صرف اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ یہ انسان کے اخلاقی زوال کی بھی علامات ہیں۔ 
قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں متعدد بار زبان کی حفاظت کی تلقین کی گئی ہے۔ سورۃالحجرات آیت نمبر ۱۱ میں اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کا تمسخر اڑانے سے منع فرمایا ہے۔ اور اسی طرح سورۃ البقرہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں سے اچھی بات کہو۔ ان آیات میں ایک دوسرے کا مذاق اڑانے ، طعنہ دینے اور فحش کلامی سے منع کیا گیا ہے۔ 
امام غزالی نے اپنی زبان کو آٹھ قسم کے گناہوں سے محفوظ رکھنے کی تلقین کی ہے۔ جھوٹ بولنے سے ، وعدہ خلافی کرنے سے ، غیبت کرنے سے ، جھگڑا کرنے ، خود ستائی ، لعن طعن ، دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے اور ٹھٹھے بازی کرنے سے۔ 
فحش کلامی صرف اخلاقی طور پر ناپسندیدہ نہیں بلکہ یہ معاشرتی بگاڑ کا سبب بھی بنتی ہے۔ جب کوئی انسان فحش کلامی کرتاہے تو نہ صرف وہ اپنی شخصیت کو گراتاہے بلکہ معاشرے میں بے حیائی اور فساد کو بھی فروغ دیتا ہے۔ 
حضرت ابو سعید خدری نے نبی کریمﷺ سے عرض کی یا رسو ل اللہ ﷺ مجھے کوئی نصیحت فرما دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو ساری بھلائی اسی میں ہے ، جہاد کو اپنے اوپر لازم کر لو کیونکہ یہ مسلمانوں کے لیے ریاضت ہے ، اپنی زبان کو اللہ تعالیٰ کے ذکراور قرآن مجید کی تلاوت سے مصروف رکھو کیونکہ یہ زمین پر نور کا سر چشمہ ہیں اور آسمان پر معروف ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے مزید ارشاد فرمایاکہ جب بھی زبان سے کچھ بولو تو اچھی بات بولو ورنہ خاموش رہو کیونکہ ایسا کرنے سے تمہیں شیطان پر غلبہ پانے اور دینی امور کو احسن طریقے سے ادا کرنے میں مدد ملے گی۔ ( المعجم الکبیر ، ابن حبان)۔
 نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو کوئی اس دنیا میں لوگوں کے وقار کی حفاظت کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے بدلے اس کے گناہ مٹا دے گا ، جو کوئی بھی دنیا میں لوگوں پرآنے والے غصے پر قابو پائے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے عذاب سے محفوظ رکھے گا۔ ( احیا علوم الدین )۔
ابو الیث سمر قندی فرماتے ہیں کہ صالحین اپنی زبان کو قابو میں رکھنے کے لیے دوسروں سے کی جانے والی گفتگو کا خود سے محاسبہ کرتے تھے۔ اسی طرح ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس سے پہلے کہ اس کا آخرت میں حساب ہو وہ دنیا میں ہی اپنا محاسبہ کرتا رہے۔ دنیا میں اپنا محاسبہ کر لینا آخرت میں حساب سے زیادہ آسان ہے۔ دنیا میں اپنی زبان پر قابو پالینا آخرت میں شرمندگی برداشت کرنے کی نسبت آسان ہے۔ (تنبۃ الغافلین )۔
آج کے دور میں سوشل میڈیا ، ڈراموں ، فلموں اور عام گفتگو میں فحش کلمات کا استعمال زیادہ ہوتا جا رہا ہے اور یہ مزاح کا حصہ بنتا جا رہا ہے جو کہ ایک خطر ناک رجحان ہے۔ ہمیں اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اپنی زبان کو بد گوئی اور فحش کلامی سے محفوظ رکھنا ہو گا۔

راہِ نجات کیا اُمتِ مُسلمہ اس وقت اللہ تعالٰی کی لعنت میں گرفتار ہے؟

جمعہ، 16 مئی، 2025

Surah Al-Ahzab Ayat 35 Part-03.کیا ہم اللہ تعالی کی رضا کو بھول کر زند...

Surah Al-Ahzab (سُوۡرَةُ الاٴحزَاب) Ayat 35 Part-02. کیا ہمارے دل ایمان ...

علامت ایمان قرآن کی روشنی میں

 

علامت ایمان قرآن کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک بلند مقصد کے لیے اس دنیا میں بھیجا ہے اور اسے نیکی اور بدی کاشعور دیا۔ اس شعور کی روشنی میں جب انسان سچے دل سے اس کو تسلیم کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک ہے اور نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اسے ایمان کہا جاتا ہے۔ ایمان وہ نور ہے جو دلوں کو جلا بخشتا ہے اور عمل کی دنیا میں انقلاب پیدا کرتا ہے۔ قرآن مجید میں اہل ایمان کی علامت کو مختلف مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’(اے محبوبؐ) تم فرما دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہاری پسند کے مکان۔ یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا ‘‘۔ ( سورۃ التوبہ :آیت ۲۴)۔اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات واضح کر دی کہ تمام تر قریبی رشتہ دار اور مال و متاع تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے زیادہ عزیز ہے تو پھر اپنے ایمان کی فکر کرو۔ یعنی کہ کامل ایمان کی یہی نشانی ہے کہ بندہ تمام رشتہ داروں اور مال و متاع سے بڑھ کر اللہ اور اس کے محبوب سے محبت کرے۔
کامل مومن کی یہ نشانی بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ہر حال میں بھروسہ کرتا ہے۔ کیونہ اسے اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ نفع و نقصان ، عزت و ذلت ، زندگی و موت کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں‘‘۔ ( سور ۃالانفال )۔
کامل مومن وہ ہوتا ہے جو خشوع خضوع کے ساتھ نماز کی پابندی کرے اور جب نماز کا وقت ہو تو ہر کام چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو جائے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’بیشک مراد کو پہنچے ایمان والے۔ جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں ‘‘۔( سورۃ المومنون)۔
ایمان والے کے دل میں ہر وقت خوف الٰہی ہوتا ہے اور جب اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس کا دل ڈر جاتاہے۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے۔اہل ایمان کا تعلق قرآن مجید سے مضبوط ہوتاہے اور وہ محض اس کی تلاوت نہیں کرتا بلکہ اس کی آیات پر عمل پیرا بھی ہوتا ہے۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ ایمان والے وہی ہیں کہ جب ان کویاد کیا جائے ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں ا ن کا ایمان ترقی پائے اور اپنیرب پر ہی بھروسہ کریں ‘‘۔( سورۃالانفال )۔
اہل ایمان کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ خدمت خلق میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور جو کچھ انہیں اللہ نے دیا ہے اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ اہل ایمان مشکلات اور مصائب میں گھبراتے نہیں اور نہ ہی کوئی شکوہ زبان پر لاتے ہیں بلکہ وہ اس پر صبر کرتے ہیں اور انہیں اس بات پر یقین ہوتاہے کہ بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اخلاق حسنہ ، معاف کرنا ، سچائی اور عہد وفا ، دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی فکر اور اجتماعی خیر خواہی کامل ایمان کی نشانیاں ہیں۔

Surah Al-Ahzab (سُوۡرَةُ الاٴحزَاب) Ayat 35 Part-01.کیا آج ہمیں آخرت سے ...

Surah Al-Ahzab (سُوۡرَةُ الاٴحزَاب) Ayat 31-34. کیا ہم سیدھے راستے سے بھ...

جمعرات، 15 مئی، 2025

ارشاد نبوی ؐ اور غصے پر کنٹرول

 

ارشاد نبوی ؐ اور غصے پر کنٹرول

غصہ کرنا انسان کی فطرت میں ہے۔لیکن اس کا بے جا اظہار نہ صرف انسان کی شخصیت کو متاثر کرتا ہے بلکہ رشتوں کو بھی کمزور کر دیتاہے۔ اسلام نے انسان کو اعتدال اور حلم کو اپناتے ہوئے عفو و در گزر کرنے کی تعلیم دی ہے اور یہ نبی کریم ؐ کی سنت مبارکہ بھی ہے۔نبی کریم ؐنے اپنی حیات طیبہ میں غصے پر کنٹرول کرنے کے عملی نمونے فراہم کیے۔ 
حضرت سلیمان رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کے میں نبی کریم ؐ کی بارگاہ میں حاضر تھا کہ دو آ دمی آپس میں جھگڑ پڑے۔ان میں سے ایک کا رنگ سرخ ہو گیا اور اس کی رگیں پھول گئیں۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ مجھے ایسا لفظ معلوم ہے اگر یہ شخص وہ پڑھے تو اسے جو کچھ محسوس ہوتا ہے وہ ختم ہو جائے گا۔ اگر وہ یہ کہے کہ ’’اعوذبا اللہ من الشیطان ‘‘ میں شیطان سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں"۔ تو اس کا غصہ ختم ہو جاتا ہے۔( بخاری )۔
جب انسان کو غصہ آتا ہے تو وہ خود پر اپنا کنٹرول کھو بیٹھتا ہے اور زبان سے ایسے الفاظ ادا ہو جاتے ہیں جو  ہمیں پچھتاوے کے سوا کچھ دیتے۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو وہ خاموش ہو جائے ‘‘۔( مسند احمد )۔
غصہ فتنہ فساد اور تمام برائیوں کی جڑ ہے اس لیے اسلام میں غصے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی یا رسول اللہ ؐ مجھے کوئی نصیحت کریں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ غصہ مت کیا کرو۔ اس شخص نے پھر عرض کیا یا رسول اللہؐ مجھے کوئی نصیحت کریں۔نبی کریم ﷺنے یہی فرمایا کہ غصہ مت کیا کرو۔اس کے بار بار عرض کرنے پر نبی کریم ﷺ نے یہی جواب دیا۔ (بخاری )۔
غصہ پی جانے والے کو قیامت کے دن اجر و ثواب سے نوازا جائے گا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ جو شخص غصہ کو پی جاتا ہے جبکہ اسے اس پر عمل کرنے کی طاقت ہوتی ہے، تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام انسانوں کے سامنے پکارے گا اور اللہ تعالیٰ اسے اپنی مرضی سے حور العین کا انتخاب کرنے کی آزادی دے گا‘‘۔ ( ابو دائود )۔
نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا :’’ جو شخص اپنے غصے پر قابو پا لیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی فرمائے گا اور جو اپنے غصے پر قابو پا لیتا ہے جبکہ وہ اس پر عمل کر نے کی طاقت رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ بروز قیامت اس کے دل کو امن سے بھر دے گا ‘‘۔( المعجم الاوسط)۔
ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ساری بہادری وہ ہوتی ہے، جب کسی شخص کو اتناغصہ آیاہو کہ اس کا چہرہ سرخ ہو جائے اور اس کی رگیں تن جائیں تو وہ اس غصے پر قابو پا لے۔( مسند احمد )۔

بدھ، 14 مئی، 2025

اسلام میں ناپ تول میں کمی کی مذمت

 

اسلام میں ناپ تول میں کمی کی مذمت

ناپ تول میں کمی ایک ایسا مسئلہ ہے جو بظاہر تو چھوٹا نظرآتا ہے لیکن درحقیقت یہ ایک وسیع تر اخلاقی زوال، دینی انحطاط اور معاشی بد دیانتی کا آئینہ دارہے۔ کسی قوم کی ترقی کا انحصار صرف ٹیکنالوجی پر نہیں ہوتا بلکہ اس کی بنیاد اخلاقیات ،انصاف ، دیانت اور امانت پر ہوتی ہے ۔ ناپ تول میں کمی ترقی کے اس بنیادی ڈھانچے کو کھوکھلا کر دیتی ہے جس کے منفی اثرات صرف ایک فرد تک محدود نہیں رہتے بلکہ پورے معاشرے کو لپیٹ میں لیتے ہیں ۔ 
سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر 35 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :اور ماپو تو پورا ماپو اور برابر ترازو سے تولو یہ بہتر ہے اور اس کا انجام اچھا ہے۔
اسلام میں ناپ تول پورا رکھنے کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے نام پر ایک سورۃ نازل فرمائی ۔سورۃ المطففین آیت نمبر 1 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :کم تولنے والوں کے لیے خرابی ہے وہ کہ جب اوروں سے ماپ لیں پورا لیں اور جب انہیں ماپ یا تول کر دیں کم کر دیں۔
اس آیت میں نہ صرف ناپ تول میں کمی کرنے والوں کو وعید سنائی گئی ہے بلکہ ان کے منافقانہ طرز عمل کی بھی مذمت کی گئی کہ جب وہ کسی سے مال لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں اور جب کسی کو کوئی چیز بیچتے ہیں تو اس میں کمی کر تے ہیں ۔ 
حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کی تباہی اور ان پر عذاب مسلط کرنے ایک وجہ ناپ تول میں کمی کرنا بھی ہے ۔
سورۃ المطففین میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : جب اوروں سے ماپ لیں پورا لیں اور جب انہیں ماپ یا تول کر دیں کم کردیں کیا ان لوگوں کو گمان نہیں کہ انہیں اٹھنا ہے ایک عظمت والے دن کے لیے جس دن سب لوگ رب العالمین کے حضور کھڑے ہو ں گے ۔
نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: جو قوم مال غنیمت میں چوری کرتی ہے اس کے دل میں دوسروں کا خوف ڈال دیا جاتا ہے ، جو قوم زنا میں مبتلا ہو جاتی ہے اس میں اموات کی کثرت ہو جاتی ہے ، جو قوم ناپ تول میں کمی شروع کر دے ان کا رزق بند کر دیا جاتا ہے ، جس قوم میں انصاف نہ ہو ان میں فساد بڑھ جاتا ہے اور جوقوم وعدے کی پاسداری نہیں کرتی ان پر دشمن غالب آجاتا ہے ۔(موطا امام مالک ) 
نبی کریمﷺ نے فرمایا: جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے وہ قحط مصائب و آلام اور بادشاہوں کے ظلم و ستم میں مبتلا کر دی جاتی ہے ۔( ابن ماجہ ) 
ناپ تول میں کمی ایک ایسا ناسور ہے جو ہماری دیانت ، معیشت اور اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے ۔اور لوگوں میں ہمارا اعتماد بھی خراب ہوتا ہے۔ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہو گا کہ ہم نے صرف عبادات کا نہیں بلکہ معاملات میں بھی دین دار بننا ہوگا ۔ ہمیں دیانتداری ، انصاف اور ایمانداری کو اپنا شعار بنانا ہو گا ۔

زبان کی حفاظت اور اس کے ثمرات(۱)

  زبان کی حفاظت اور اس کے ثمرات(۱) انسانی شخصیت کی خوبصورتی اور کمال میں زبان اورکلام کا بہت گہرا تعلق ہے۔ جس طرح زبان کے غلط استعمال سے معا...