اسلام میں ناپ تول میں کمی کی مذمت
ناپ تول میں کمی ایک ایسا مسئلہ ہے جو بظاہر تو چھوٹا نظرآتا ہے لیکن درحقیقت یہ ایک وسیع تر اخلاقی زوال، دینی انحطاط اور معاشی بد دیانتی کا آئینہ دارہے۔ کسی قوم کی ترقی کا انحصار صرف ٹیکنالوجی پر نہیں ہوتا بلکہ اس کی بنیاد اخلاقیات ،انصاف ، دیانت اور امانت پر ہوتی ہے ۔ ناپ تول میں کمی ترقی کے اس بنیادی ڈھانچے کو کھوکھلا کر دیتی ہے جس کے منفی اثرات صرف ایک فرد تک محدود نہیں رہتے بلکہ پورے معاشرے کو لپیٹ میں لیتے ہیں ۔
سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر 35 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :اور ماپو تو پورا ماپو اور برابر ترازو سے تولو یہ بہتر ہے اور اس کا انجام اچھا ہے۔
اسلام میں ناپ تول پورا رکھنے کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے نام پر ایک سورۃ نازل فرمائی ۔سورۃ المطففین آیت نمبر 1 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :کم تولنے والوں کے لیے خرابی ہے وہ کہ جب اوروں سے ماپ لیں پورا لیں اور جب انہیں ماپ یا تول کر دیں کم کر دیں۔
اس آیت میں نہ صرف ناپ تول میں کمی کرنے والوں کو وعید سنائی گئی ہے بلکہ ان کے منافقانہ طرز عمل کی بھی مذمت کی گئی کہ جب وہ کسی سے مال لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں اور جب کسی کو کوئی چیز بیچتے ہیں تو اس میں کمی کر تے ہیں ۔
حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کی تباہی اور ان پر عذاب مسلط کرنے ایک وجہ ناپ تول میں کمی کرنا بھی ہے ۔
سورۃ المطففین میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : جب اوروں سے ماپ لیں پورا لیں اور جب انہیں ماپ یا تول کر دیں کم کردیں کیا ان لوگوں کو گمان نہیں کہ انہیں اٹھنا ہے ایک عظمت والے دن کے لیے جس دن سب لوگ رب العالمین کے حضور کھڑے ہو ں گے ۔
نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: جو قوم مال غنیمت میں چوری کرتی ہے اس کے دل میں دوسروں کا خوف ڈال دیا جاتا ہے ، جو قوم زنا میں مبتلا ہو جاتی ہے اس میں اموات کی کثرت ہو جاتی ہے ، جو قوم ناپ تول میں کمی شروع کر دے ان کا رزق بند کر دیا جاتا ہے ، جس قوم میں انصاف نہ ہو ان میں فساد بڑھ جاتا ہے اور جوقوم وعدے کی پاسداری نہیں کرتی ان پر دشمن غالب آجاتا ہے ۔(موطا امام مالک )
نبی کریمﷺ نے فرمایا: جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے وہ قحط مصائب و آلام اور بادشاہوں کے ظلم و ستم میں مبتلا کر دی جاتی ہے ۔( ابن ماجہ )
ناپ تول میں کمی ایک ایسا ناسور ہے جو ہماری دیانت ، معیشت اور اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے ۔اور لوگوں میں ہمارا اعتماد بھی خراب ہوتا ہے۔ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہو گا کہ ہم نے صرف عبادات کا نہیں بلکہ معاملات میں بھی دین دار بننا ہوگا ۔ ہمیں دیانتداری ، انصاف اور ایمانداری کو اپنا شعار بنانا ہو گا ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں