تصوف قرآن کی روشنی میں
تصوف اسلام کی روحانی تعلیمات کا وہ پہلو ہے جو انسان کو ظاہری عبادات کے ساتھ باطنی صفائی اور اخلاقی بہتری اور اللہ تعالیٰ کے قرب کی طرف لے کر جاتا ہے۔مخصوص لباس پہن لینے اور اپنے چہرے کو درویشی رنگ دینے کا نام تصوف نہیں بلکہ قرآن کی رو سے یہ صرف ایک طرز زندگی نہیں بلکہ مسلسل باطنی ارتقاء کا سفر ہے جس کی بنیاد قرآن مجید میں دل ، نیت ، اخلاص اور تعلق با للہ پر رکھی گئی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ بیشک وہی کامیاب ہوا جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا ‘‘۔(سورۃ الشمس )۔
اس آیت مبارکہ میں تصوف کا بنیادی نکتہ بیان کیا گیا ہے۔ تصوف نام ہے نفس کی اصلاح کا ، دل کی صفائی کا اور روح کی پاکیزگی کا۔ یہ عبادات کے ظاہر سے آگے بڑھ کر انسان کے باطن تک رسائی کی کوشش کرتا ہے۔ تصوف صرف وظائف اور چلوں کا نام نہیں بلکہ یہ تقوی ، صبر ، شکر ، اخلاص ،عاجزی اور محبت الہی جیسے اوصاف کی عملی تصویر ہے۔ تصوف انسان کا تعلق اس قدر مضبوط کر دیتا ہے جو صرف زبان سے نہیں بلکہ اس کے دل ، عمل،اور نیت سے بھی ظاہر ہو۔ سورۃالشعرا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ذکر آیا ہے جو آپ نے رب کے حضور کی۔’’ اے میرے رب مجھے حکمت عطا فرما اور مجھے ان سے ملا دے جو تیرے قرب خاص کے سزاوار ہیں ‘‘۔ اس آیت مبارکہ میں ایک سچے متصوف کی روحانی طلب کو بیان کیا گیا ہے وہ یہ کہ اللہ کی قربت ، حکمت اور صالحین کا ساتھ۔ تصوف کا اصل سر چشمہ اپنی زبان اور دل کو ہر وقت ذکر الٰہی سے معمور رکھنا ہے۔ کیونکہ ذکر الٰہی دلوں کو سکون فراہم کرتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ دلوں کا سکون اللہ ہی کے ذکر میں ہے ‘‘۔ ( سورۃ الرعد )۔
تصوف کا ایک پہلو احسان بھی ہے۔ نبی کریم ؐ کا فرمان عالیشان ہے کہ اللہ تعالی کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر یہ نہ ہو تو کم از کم یہ یقین ضرور ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ یہی احسان تصوف کا دل ہے جو انسان کو ظاہر و باطن میں سچا ، مخلص بناتا ہے۔آج کا انسان مادہ پرستی کے اس دور میں روحانی پیاس کا شکار ہے۔ اللہ تعالیٰ خود نور ہے اور تصوف اسی نور کی تلاش کا نام ہے۔ تصوف ایک ایسی روشنی ہے جو دلوں کو منور کرتی ہے اور ایک ایسا سفر ہے جو انسان کو اس خالق کے ساتھ ملاتا ہے۔یہ ا یک ایسا علم جو انسان کو انسانیت سکھاتا ہے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تصوف کی حقیقی تعلیمات کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں تو معاشرے میں امن ، محبت ، رواداری اور روحانی سکون کو فروغ ملے گا۔ تصوف ایک ایسے طرز عمل کا نام ہے جس میں انسان کا لمحہ لمحہ یاد الہی میں گزرتا ہے اور دل و دماغ ، عمل ونیت سب رب کے رنگ میں رنگ جاتی ہے۔ تصوف ایک خاموش انقلاب ہے جو انسان کو ایک کامل انسان کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ بقول علامہ محمد اقبال :
یہ ذکر نیم شبی ، یہ مراقبے ، یہ سْرور
تری خودی کے نگہبان نہیں تو کچھ بھی نہیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں