اتوار، 18 مئی، 2025

اصلاح احوال (۱)

 

اصلاح احوال (۱)

ہر دور میں انسان کو معاشرتی ، اخلاقی اور روحانی گراوٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن موجودہ دور میں ان بحرانوں نے جو شدت اور وسعت اختیار کی ہے اس نے صرف ایک فرد کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ پوری قوم اس سے متاثر ہوئی ہے۔ معاشرے میں بگاڑ ، اخلاقی گراوٹ ، بے حسی ، مادہ پرستی ، ظلم و ناانصافی اور بے راہ روی نے ایسا گھیرا ڈالا ہے کہ فلاح و بہبود کی راہیں ماندپڑ چکی ہیں۔ اصلاح احوال کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے انفرادی اور اجتماعی رویوں کو درست سمت میں لے کر چلے اور ان میں ایسی خوبیاں پیدا کرے جو نہ صر ف خود کوبلکہ پورے معاشرے کو ترقی ، سکون اور عدل کے راستے پر لے جا سکے۔ 
اصلاح احوال میں سب سے پہلی چیز ہے اچھی صحبت اور بہترین دوست کا انتخاب۔انسان جس ماحول میں رہتا ہے وہی اس کی شخصیت میں نظر آتا ہے اگرانسان بْرے لوگوں میں اٹھے بیٹھے گا تو وہ گناہوں میں مبتلا ہو جائے گا لیکن اس کے برعکس اگر دین دار اور اچھے لوگوں میں بیٹھے گا تو اس کو اپنے احوال کی اصلاح کا موقع ملے گا۔ دوست ایسا ہونا چاہیے جو دنیا و آخرت میں آپ کو نہ بھولے۔ دنیا اورآخرت میں کامیابی کے لیے ہمیں عمل صالح کے ساتھ دوستی کرنی چاہیے۔اللہ تعالیٰ کی یاد میں بہنے والا آنسو ، راتوں کو اٹھ کر اللہ کے حضور سر بسجود ہونا ، مخلوق خدا کی خدمت کرنا ، عبادات اور صدقہ و خیرات کے ساتھ دوستی لگانی چاہیے یہ ایسے دوست ہیں جو نہ صرف دنیا بلکہ آخرت میں بھی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔اپنے احوال کی اصلاح کے لیے دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنی خواہشات نفس کی پیروی نہ کر یں۔ انسان اپنی لامحدود خوہشات کا شکار ہو کر گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کو بھول کر اپنی خواہشات نفس کو ہی اپنا معبود سمجھنے لگ جاتا ہے۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ کیا تم نے اسے دیکھا جس نے اپنے جی کی خواہش کو اپنا خدا بنا لیا تو کیا تم اس کی نگہبانی کا ذمہ لو گے ‘‘۔ (سورۃ الفرقان )۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ سورۃ النازعات میں ارشاد فرماتے ہیں :’’ اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا۔ تو بیشک جنت ہی اس کا ٹھکانا ہے ‘‘۔ یعنی جس نے اپنی لامحدود خواہشات پر قابو پا لیا اور اپنے رب کو نہ بھولا تو پھر وہ اللہ کے فضل سے ضرور جنت میں داخل ہوگا۔
اصلاح احوال کا ایک ذریعہ اللہ تعالیٰ کی عطا پر راضی ہونا بھی ہے۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو دوسروں کے لیئے اللہ کی عطا پر حسد کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر مال کی کثرت پر حسد کرنا ، منصب ، عزت اور شہرت پر حسد کرنا یا پھر کسی کو اللہ تعالیٰ نے زیادہ علم سے نوازا ہے تو اس پر حسد کرنا۔انسان کو جو بھی نعمتیں میسر ہوتی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہو تی ہیں۔ ان پر حسد کرنا حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو نہ ماننا ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہو جائیں اور اپنی زبان پر کوئی شکوہ نہ لے کر آئیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

زبان کی حفاظت اور اس کے ثمرات(۱)

  زبان کی حفاظت اور اس کے ثمرات(۱) انسانی شخصیت کی خوبصورتی اور کمال میں زبان اورکلام کا بہت گہرا تعلق ہے۔ جس طرح زبان کے غلط استعمال سے معا...