قرآن مجید کے ظاہری اور باطنی آداب(۲)
باطنی آداب میں سب سے پہلا ادب خلوص نیت ہے کہ جب بھی قرآن مجید کی تلاوت کی جائے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کی جائے اوراس میں ریا کاری اور دکھلاوا نہ ہو کہ لوگ مجھے قاری کہیں۔ قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی پر یقین رکھے۔جب قرآن مجید کی تلاوت کی جارہی ہو تو دل و دماغ میں کوئی اور خیال نہ ہو اور قرآن مجید کو محض زبان سے پڑھنے کی بجائے دل کو بھی کلام الٰہی کے ساتھ جوڑے۔جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب قرآن پڑھو تو روئو اوراگر رو نہیں سکتے تو رونے والی شکل بنا لو۔
قرآن مجید کے آداب میں سے ہے کہ ظاہر کے ساتھ ساتھ انسان کا باطن بھی پاک ہوناچاہیے۔ کیونکہ جب تک انسان کا باطن پاک نہیں ہو گا اس کی برکات حاصل نہیں کر سکے گا۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ جس ذہن میں بْرے خیالات موجود ہوں اور انسان اس کی تلاوت کر کے فیض یاب ہو جائے۔ اس لیے ظاہری طہارت کے ساتھ ساتھ باطنی طہارت بھی ضروی ہے۔
جب قرآن مجید کی تلاوت کی جائے تو دل میں خشیت الٰہی ہو۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب تم قرآن میں جنت کا ذکر سنو تو اس کے طالب بنو اور جب جہنم کا ذکر سنو تو اس سے پناہ مانگو۔
جب تلاوت قرآن پاک کی جائے تو اس کے الفاظ پر غورو فکر کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کو سمجھے۔جہاں بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا ذکرآئے وہاں رک کر اس پر غور کیا جائے۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نماز میں کھڑے صبح تک سورۃ المائدہ کی اس آیت کو دہراتے رہے۔ترجمہ ’’اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے‘‘۔
جب انسا ن قرآن مجید کے الفاظ پر غورو تدبر کرتا ہے تو باطن میں معرفت کے چشمے پھوٹ جاتے ہیں۔لیکن اگر تلاوت قران مجید کے دوران ہمارے ذہن میں مختلف قسم کے وسوسے ہوں تو تلاوت قرآن کا حق ادا نہیں ہو گا۔
حضرت عامر بن قیس فرماتے ہیں کہ مجھے چھریوں سے چھلنی کر دیا جائے یہ مجھے زیادہ پسند ہے بجائے اس کے کہ نماز میں میرا ذہن وسوسوں میں گھرا ہو۔ (احیا علوم الدین )۔
قرآن مجید کے ظاہری اور باطنی آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس کی تلاوت کرنا اور اس پر عمل کرنا ہر مسلمان کی زندگی کا لازمی ستون ہونا چاہیے۔ظاہری آداب انسان کو ادب و احترام سکھاتے ہیں جبکہ باطنی آداب اسے روحانی بلندیوں تک پہنچا دیتے ہیں۔ آج امت مسلمہ کی زبو ں حالی کی ایک بڑی وجہ قرآن مجید پر غورو فکر کرنے کی بجائے صرف اس کی زبانی تلاوت کرنا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قرآن مجید کے ساتھ تعلق کو ادب ، تدبر اور عمل کے ذریعے زندہ کریں تاکہ دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کر سکیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں