جمعہ، 31 جنوری، 2025

توبہ اور استغفار کی فضیلت

 

توبہ اور استغفار کی فضیلت

قر آن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اور (یہ) ایسے لوگ ہیں کہ جب کوئی برائی کر بیٹھتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کا ذکر کرتے ہیں پھر اپنے گناہوں کی معا فی مانگتے ہیں ، اور اللہ کے سوا گناہوں کی بخشش کون کرتا ہے ، اور پھر جو گناہ وہ کر بیٹھتے تھے ان پر جان بوجھ کر اصرار بھی نہیں کرتے ‘‘۔
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اور (اے حبیب !) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے اور رسولﷺ بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر)ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے ‘‘۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اور اے لوگو! تم اپنے رب سے( گناہوں کی) بخشش مانگو پھر اس کی جناب میں( صدق دل سے) رجوع کرو ، وہ تم پر آسمان سے مو سلا دھار بارش بھیجے گااور تمہاری قوت پر قوت بڑھائے گا اور تم مجرم بنتے ہوئے اس سے رو گردانی نا کرنا ‘‘۔ 
احادیث مبارکہ میں بھی توبہ کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔
’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا:تم اس شخص کی خوشی سے متعلق کیا کہتے ہو جس کی اونٹنی کسی سنسان جنگل میں اپنی نکیل کی رسی کھینچتی ہوئی نکل جائے ، جس سر زمین میں کھانے پینے کی کوئی چیز نہ ہو اور اس اونٹنی پر اس کے کھانے پینے کی چیزیں لدی ہوں ، وہ شخص اس اونٹنی کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک جائے ،پھر وہ اونٹنی ایک درخت کے تنے کے پاس سے گزرے اور اس کی نکیل اس تنے میں اٹک جائے اور اس شخص کو وہ اونٹنی تنے میں اٹکی ہوئی مل جائے ، میں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ!وہ بہت خوش ہو گا ، حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : سنو ! بخدا ! اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی توبہ پر اس شخص کی سواری کے (ملنے کی ) بہ نسبت زیادہ خوشی ہوتی ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا : گناہ سے (سچی) توبہ کرنے ولا اس شخص کی مانند ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں ‘‘۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم گنا کرتے تھے کہ حضور نبی اکرم ﷺایک مجلس کے اندر سو مرتبہ کہا کرتے۔ اے رب ! مجھے بخش دے اور میری توبہ قبول فرما بے شک تو توبہ قبول کرنے والا ، رحم فرمانے والا ہے ‘‘۔

جمعرات، 30 جنوری، 2025

Surah Al-Qasas (سُوۡرَةُ القَصَص) Ayat 60 Part-02.کیا ہم دوزخ میں جانے ک...

Surah Al-Qasas (سُوۡرَةُ القَصَص) Ayat 60 Part-01.کیا ہمارے دل اللہ تعال...

والدین کے ساتھ حسن سلوک

 

 والدین کے ساتھ حسن سلوک

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ’’میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل زیادہ پسند ہے ؟ فرمایا : نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ میں نے عرض کیا اس کے بعد ؟ آپﷺ نے فرمایا والدین سے اچھا سلوک کرنا۔ میں نے پوچھا ، پھر کون سا عمل پسندیدہ ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جہاد فی سبیل اللہ ‘‘۔
ایک شخص نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا ’’میں آپ کے ہاتھ پر اللہ کی رضا جوئی میں ہجرت اور جہاد کی بیعت کرتا ہو ں۔ آپ نے پوچھا تیرے والدین میں سے کوئی زندہ ہے ؟ عرض کی دونوں زندہ ہیں۔آپ نے فرمایا جا اور جا کر ان کی خدمت کرو ‘‘۔
ایک آدمی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا : میں جہاد کی خواہش رکھتا ہو ں مگر چند مجبوریوں کی بنا ء پر معذور ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے ؟ عرض کی میری ماں زندہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگ کر ماں سے اچھا سلوک کرتا رہ تجھے حج ، عمرہ اور جہاد فی سبیل اللہ کا ثواب ملے گا۔
ایک آدمی نے حضور ﷺ سے جہاد کی تمنا ظاہر کی تو آپ ﷺ نے پوچھا تیری ماں زندہ ہے ؟ اس نے عرض کیا میری ماں زندہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ماں کے قدموں کو پکڑ جنت پا لے گا۔ 
حضور ﷺ نے فرمایا : جو درازی عمر اور فراخی رزق کی تمنا رکھتا ہو وہ والدین کے ساتھ اچھاسلوک کرے اور صلہ رحمی کرے۔ 
 حضور ﷺ نے فرمایا : اس کی ناک غبار آلود ہو ، اس کی ناک غبار آلود ہو، اس کی ناک غبار آلود ہو۔ عرض کیا گیا کس کی یا رسو ل اللہ ﷺ!آپ ﷺ نے فرمایا جس نے والدین کو یا کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا اور جنت میں نہ گیا یا انہوں نے اسے جنت میں داخل نہ کیا۔ 
 ایک مرتبہ حضورﷺ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا : آمین!آمین! آمین پھر فرمایا جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے عرض کی ، یا رسول اللہﷺ!جس نے اپنے والدین میں سے کسی ایک کو پایا اور اس سے اچھا سلوک نہ کیا اور مر گیا تو وہ جہنم میں گیا ،اللہ اسے بعید کرے آپﷺ آمین کہیں تو میں نے آمین کہی۔ پھر جبرائیل علیہ اسلام نے عرض کیا یارسول اللہﷺ جس شخص کے سامنے آپﷺ کا ذکر ہو اور اس نے آپﷺ پر درود نہ بھیجا اور مر گیا تو وہ جہنم میں گیا ، اللہ نے اسے اپنی رحمت سے بعید کر دیا ، کہیے آمین ! تو میں نے آمین کہی۔

زندگی کیسے گزاریں؟

بدھ، 29 جنوری، 2025

Surah Al-Qasas Ayat 58-59 .کیا ہم نے دنیا کی کامیابی کو اپنا مقصود حیات...

Surah Al-Qasas (سُوۡرَةُ القَصَص) Ayat 57 .کیا ہم خالص طالب دنیا ہیں

زندگی کو حلال طریقے سے کیسے گزاریں؟

تصور عبادت (۲)

 

 تصور عبادت (۲)

اسلام میں عبادت کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ چند مخصوص افعال میں احکام الٰہی کو بجا لایا جائے بلکہ اسلامی نقطہ نظر سے جس طرح نماز کی ادائیگی عبادت ہے اسی طرح ایمانداری اور اسلامی اصولوں کے مطابق تجارت کرنا بھی عبادت ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : امانت داری کے ساتھ تجارت کرنے والا قیامت کے دن انبیاء اور شہداکے ساتھ ہو گا۔ 
جس طرح روزے رکھنے ، حج کرنے اور زکوۃ ادا کرنے سے اللہ تعالیٰ کی محبت نصیب ہو تی ہے اسی طرح رزق حلال کمانے کے لیے محنت و مزدوری کرنا اور مشقت اٹھانا بھی عبادت ہے۔
 حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : مزدوری کرنے ولا اللہ تعالیٰ کا دوست ہے۔ حضور نبی کریم ﷺنے ایک مزدور کے ہاتھ کو بوسہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اس ہاتھ سے اللہ تعالیٰ اور اس کا رسولﷺمحبت کرتے ہیں۔ 
اسی طرح اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کسی کی حاجت پوری کرنا بھی عبادت ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب تک ایک بندہ کسی بندے کی مشکل حل کرنے میں لگا رہتا ہے اس وقت تک اللہ تعالیٰ اس کی مشکلیں آسان فرماتا رہتا ہے۔ شرک ایک بہت بڑا گناہ ہے اسکے ساتھ ساتھ جھوٹی گواہی دینا بھی بہت بڑا گناہ ہے۔ یہ نہیں کہ بندہ شرک سے تو بچے مگر جھوٹی گواہی دیتا پھرے۔ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ حضور ؐنے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں سب سے بڑے گناہ نہ بتائوں میں نے عرض کی جی ضرور یارسول اللہ ؐ :  آپ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اور والدین کی نا فرمانی کرنا۔ آپ ؐ ٹیک لگا کر تشریف فرما تھے پھر اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا خبر دار جھوٹی گواہی دینا بھی بہت سخت ترین گناہوں میں سے ہے۔(ریا ض الصالحین)۔
روزہ توڑنا گناہ ہے ایسے ہی کسی لالچ یاخوف کی وجہ سے کوئی بات چھپانا بھی گناہ ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : جس سے کوئی بات پوچھی گئی لیکن اس نے وہ بات چھپائی اسے قیامت کے دن آگ کی لگام دی جائے گی۔(ریا ض الصا لحین )۔ 
یعنی کہ اسلام میں عبادت کا تصور یہ نہیں کہ بندہ چند احکام کو تو بجا لائے اور باقی احکام کو چھوڑ دے۔ ایک بندہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کو نہ ماننے والا مجرم ہے ایسے ہی جو مسکین کو کھانا نہ کھلائے تو وہ بھی قیامت کے دن مجرم ہو گا۔

کیا ہم حرام زندگی گزار رہے ہیں؟

منگل، 28 جنوری، 2025

Surah Al-Qasas (سُوۡرَةُ القَصَص) Ayat 56 .اللہ تعالی کے راستے پر چلنا ہ...

Surah Al-Qasas (سُوۡرَةُ القَصَص) Ayat 51-55.کیا ہم نے مومنانہ صفات اپنا...

تصور عبادت (۱)

 

تصور عبادت (۱)

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کا مقصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :’’ میں نے جنّوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں ‘‘(سورۃ الذاریات)۔ یعنی کہ انسانی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ کی بندگی و عبادت کو بجا لانا ہے۔ انسان کو عبادت کے مفہوم کو سمجھنا چاہیے۔ اس کے ذہن میں اسلام کے تصور عبادت کا نقشہ موجود ہونا چاہیے۔ 
’’لغت میں عبادت کے معنی اس اطاعت کے ہیں جس میں خضوع پایا جاتا ہو ‘‘(لسان العرب )۔
 اما نوی فرماتے ہیں :’’ عبادت خضوع سے اطاعت کرنے کو کہتے ہیں ‘‘(شرح مسلم )۔ 
قرآن مجید فرقان حمید میں عبادت کا متضاد تکبر استعمال کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ سب جہنم میں داخل ہوں گے ‘‘( سورۃ المومن)۔
سورۃ النساء میں ارشاد فرمایا :’’ اور جسے اللہ کی عبادت سے عار ہو اور وہ تکبر کرے تو اللہ ان سب کو جلد ہی اپنے ہاں جمع کرے گا ‘‘۔ عبادت کا مفہوم خضوع اورتذلل ہے لیکن جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس میں محبت اور الفت کا عنصر بھی شامل ہونا چاہیے۔ عبادت الٰہی اس عاجزی اور خضوع کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی محبت و الفت میں ڈوب کر کی جائے۔ 
علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں : عبادت کے لغوی معنی پست ہونے کے ہیں اس لیے کہا جاتا ہے معبد راستہ اور معبد اونٹ اورشریعت میں اس سے مراد ایسی کیفیت ہے جس میں انتہائی محبت کے ساتھ بہت زیادہ خضوع اور خوف ہو‘‘(ابن کثیر)۔
اسلام میں عبادت کا تصور اپنے آپ کو ہر لمحہ اور ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کے سپر د کرنا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ چند مخصوص اوقات میں انسان اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکے اور باقی سب اوقات اپنے نفس اور خواہشات کی بندگی میں لگا رہے۔ یہ بالکل بھی عبادت کا اسلامی مفہوم نہیں ہے۔ اسلام میں عبادت کا تصور یہ ہے کہ زندگی کے ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کی بندگی کی جائے اور اسکی محبت میں ڈوب کر جو بھی کام ہو احکام الٰہی کے مطابق کیا جائے۔ اسلام دنیا کو چھوڑ دینے کو عبادت نہیں کہتا بلکہ دنیاوی کاموں میں مشغول ہو کر تمام معاملات کو احکام الٰہی کے مطابق سر انجام دے اور کوئی بھی قدم ان احکام کے خلاف نہ اٹھے تو اسے حقیقی عبادت کہا جائے گا۔ 
 ارشاد باری تعالیٰ ہے :جنتی دوزخیوں سے سوال کریں گے ’’تمہیں کون سی چیز دوزخ میں لے گئی وہ کہیں گے ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اورمسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے ‘‘۔ (سورۃ المدثر)۔

Surah Al-Qasas (سُوۡرَةُ القَصَص) Ayat 44-50 Part-02.کیا جزائے اعمال پر ...

پیر، 27 جنوری، 2025

Surah Al-Qasas Ayat 44-50 Pt-1کیا ہم اللہ تعالی اور اس کے رسولﷺ کی پکار ...

نماز وفا شناسی اور نصرت الٰہی کا ذریعہ(2)

 

نماز وفا شناسی اور نصرت الٰہی کا ذریعہ(2)

کوئی بھی شخص جب دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے تو وہ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ ’’میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ  اللہ کے بندے اور رسول ہیں ‘‘
انسان کی ساری طاقتوں اور قوتوں کا راز اپنے خا لق و مالک کے ساتھ وابستگی سے ہے۔ اگر انسان کی وابستگی اللہ تعالیٰ کی ذات سے ختم ہو جائے تو اس سے کمزور اور بے بس کو ئی نہیں اور اگر یہ وابستگی پختہ ہو جائے تو اس سے طاقتور کوئی شخص نہیں۔ بقول علامہ محمد اقبال :
اپنے رازق کو نہ پہچانے تو محتاج ملوک 
اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا دار اوجم۔
انسان جس قدر عاجزی و انکساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کا فقیر بنتا ہے اور اس کا رشتہ جس قدر اس کی ذات اقدس سے مضبوط ہوتا ہے ذات باری تعالیٰ اس کے لیئے اسی قدر قوی اور طاقتور بنتی جاتی ہے۔ نماز کی ادائیگی سے االلہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوتی ہے۔ جب بندہ ساری دنیا کو چھوڑ کر اور اپنی تمام تر پریشانیوں کو ترک کرکے خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کھڑ اہو کر کہتا ہے کہ اے اللہ میں تیری ہی عبادت کرتا ہوں اور تجھ سے ہی مدد چاہتا ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ کی عظمت و رفعت اور اس کی پاکی کو بیان کرتا ہے۔ جب بندہ بے بسی کی حالت میں پختہ یقین کے ساتھ االلہ تعالیٰ کو پکارتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی مدد اسے گرنے نہیں دیتی۔ اللہ تعالیٰ نے جب بنی اسرائیل پر بارہ نگران مقرر کیے تو انہیں فرمایا میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز ادا کرو۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’بیشک ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا اور ہم نے ان میں سے بارہ نگران مقرر فرمائے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا بیشک میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز قائم کرو ‘‘۔ (سورۃ المائدہ )۔
اہل ایمان کو صبر کرنے اور نماز کی ادائیگی سے ہی اللہ تعالیٰ کی مدد طلب کرنے کا حکم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد چاہو‘‘۔ (سورۃ البقرہ)۔
حضور نبی کریمﷺ کو جب بھی کبھی کوئی مشکل پیش آتی تو آپﷺ نماز ادا فرماتے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضور نبی کریم ﷺ کو کوئی سخت معاملہ پیش آتا تو آپﷺ فوری نماز کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے۔( ابودائود )۔
حضور نبی کریمﷺ کی یہ عادت کریمہ کہ جب بھی کوئی پریشانی آئے فوری نماز کی طرف متوجہ ہونا مسلمانوں کو اس بات کی ترغیب دینا ہے۔ نماز کمزوروں کی طاقت ، بے سہاروں کا سہارا ہے۔

اتوار، 26 جنوری، 2025

Surah Al-Qasas (سُوۡرَةُ القَصَص) Ayat 43 Part-03.آج دنیا کو ہدایت پہنچا...

Surah Al-Qasas (سُوۡرَةُ القَصَص) Ayat 43 Part-02.ذکر الہی کا حقیقی مفہوم

نماز وفا شناسی اور نصرت الٰہی کا ذریعہ(۱)

 

نماز وفا شناسی اور نصرت الٰہی کا ذریعہ(۱)

 انسان اپنے خالق و مالک سے اس بات کا عہد کرتا ہے کہ اے میرے مولا تو میرا معبود ہے میں ہمیشہ تیری اطاعت کروں گا اور اپنی گردن ہمیشہ تیرے سامنے ہی جھکائوں گا تیرے علاوہ کسی کے سامنے نہیں جھکاؤں گا۔ اور بندہ حضور نبی کریم ﷺ سے بھی عہد کرتا ہے کہ یارسول اللہؐ میں نے تیری غلامی اختیا ر کر لی ہے اب ہمیشہ تیری ہی اطاعت و فرمانبرداری کروں گااور آپ ؐ کی سیرت طیبہ کو اپنے لیے مشعل راہ بنائوں گا۔ لیکن جب انسان دنیا کی ظاہری رنگینیوں میں گم ہو جاتا ہے تو وہ اس عہد کو بھول جاتا ہے۔ نماز ہمیں اس عہد کو پوراکرنے کا درس دیتی ہے۔ جو انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر نماز کی ادائیگی کرتا ہے جب کسی غلط راستے پر نکلے گا تو وہ سوچے گا میں نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا ہے کہ میں تیرے احکام کے مطابق زندگی بسر کروں گا تو میں کس منہ سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کھڑا ہوں گا۔
جب بندہ اللہ اکبر کہتا ہے تو اس کا دل اسے غفلت کے خوابوں سے جگاتا ہے کہ تو نے اپنے خالق و مالک سے عہد کیا ہے، اس عہد کو پورا کرنا ہے۔ نماز اسی عہد کو پورا کرنے کا نام ہے اور نماز اللہ تعالیٰ کے وفا داروں اور بے وفائوں کے درمیان امتیاز کرتی ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ ہمارے اور ان کے درمیان تعلق کی بنا نماز ہے جس نے اسے چھوڑ دیا اس نے کفر کی روش اختیار کی ‘‘۔ ( ابن ماجہ )۔
دینی برادری میں داخل ہونے کے لیے نماز قائم کرنے کی شرط عائد کی گئی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز کے پابند ہوں اور زکوۃ دیں تب وہ تمہارے دین میں بھائی ہیں ‘‘۔ ( سورۃ التوبہ )۔
جب انسان اپنے مالک حقیقی کی بارگاہ میں کھڑا ہوتا ہے تو نماز اسے یاد دلاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کیا احکامات نازل فرمائے ہیں اور تو کس راستے پر چل رہا ہے تو بندہ نافرمانی کو ترک کر دیتا ہے اور اپنے عہد کو پورا کرنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ بیشک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے ‘‘۔( سورۃ العنکبوت )۔
 انصاری کی حضور نبی کریمﷺ کی بارگاہ میں شکایت کی گئی کہ یہ نماز بھی پڑھتا ہے اور گناہ سے بھی باز نہیں آتا۔
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا نماز ایک نہ ایک دن اسے برائی سے روک لے گی۔ کچھ دنوں بعد اس انصاری کی زندگی بدل گئی اس نے گناہوں سے توبہ کر لی تو حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا :میں نے تمہیں کہا تھا کہ اس کہ حالت بدل جائے گی۔

ہفتہ، 25 جنوری، 2025

Surah Al-Qasas (سُوۡرَةُ القَصَص) Ayat 40-42.کیا ہم نے ہدایت الہی سے منہ...

شخصیت کی تعمیر اور نماز (۲)

 

شخصیت کی تعمیر اور نماز (۲)

اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرنے کے بعد بندہ تلا وت قرآن مجید کرتا ہے۔ قرآن مجید کا ایک ایک لفظ دلوں پر اللہ تعالیٰ کی شان کبریائی کا نقش ثبت کر دیتا ہے۔ پھر بندہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جھک جاتا ہے اور اس بات کا اعلان کر تا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر عیب سے پاک ہے۔ اس کے بعد سر بسجود ہو کر اللہ تعالیٰ کی عظمت کا اعلان کرتا ہے۔ اس کے بعد بندہ تشہد میں بیٹھ جاتا ہے اور اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ اے میرے مولا میری ساری نمازیں اور نیک کام صرف تیرے لیے ہی ہیں ، اس کے بعد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر درود سلام پڑھتا ہے اور آخر میں اللہ تعالیٰ سے اپنے اور اپنی اولاد کے لیے دعا مانگتا ہے کہ ہمیں نماز قائم کرنے والا بنا ، اس کے بعد اپنے والدین اور تمام مومنوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں التجا کرتا ہے کہ یوم حساب اللہ تعالیٰ انہیں بخش دے۔ 
نماز بندے کو اللہ تعالیٰ کی عظمت کا درس دیتی ہے اور انسان کے اندر عاجزی و انکساری پیدا کرتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضری کا یقین پختہ کرتی ہے۔ اگر بندہ ان ساری باتو ں پر پختہ یقین کر لے تو بندہ اپنے ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کے احکام کو مانے اور مخلوق خدا کا خیر خواہ بن جائے۔ انسان کی شخصیت کو تعمیر کرنے کا یہی فریضہ نماز بہتر طریقے سے سر انجام دیتی ہے۔
 ارشاد باری تعالی ہے : بیشک انسان لالچی پیدا ہوا ہے جب اسے مصیبت پہنچے تو سخت گھبرا جاتا ہے اور جب اسے بھلائی پہنچے تو بہت زیادہ بخیل۔ مگر نمازی (ایسے نہیں ہوتے ) جو اپنی نماز کی پابندی کرتے ہیں۔ (سورۃ المعارج )۔
انسان اتنا نا شکرا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اسے نعمتوں سے نوازتا ہے تو سجدہ شکر کرنے کی بجائے تکبر کرنے لگ جاتا ہے اور جب اس پر کوئی مصیبت آ جائے تو صبر کرنے کی بجائے شور شرابا کرنا شروع کر دیتا ہے۔ لیکن نماز انسان کی شخصیت میں نکھار پیدا کرتی ہے نماز کی پابندی کرنے والے پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور جب اسے کو ئی نعمت ملتی ہے تو تکبر کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے۔ 
حضرت شعیب علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت دی اور ان کو غلط رسومات سے منع کیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کرو اور اس کی بندگی کا مقصد یہ ہے کہ اپنے تمام تر معاملات میں احکام الٰہی کی پیروی کرو۔ اور اپنی ساری زندگی احکام الہی کے مطابق بسر کرو اسی میں کامیابی ہے۔

زندگی کیا ہے؟

اللہ تعالی نے انسان کو زندگی کیوں عطا فرمائی ہے؟

جمعہ، 24 جنوری، 2025

Surah Al-Qasas (سُوۡرَةُ القَصَص) Ayat 38-39.کیا ہم نے مفاد دنیا کو مفاد...

Surah Al-Qasas (سُوۡرَةُ القَصَص) Ayat 37.کیا ہم صرف نام کے مسلمان ہیں

شخصیت کی تعمیر اور نماز (۱)

 

شخصیت کی تعمیر اور نماز (۱)

اللہ تعالیٰ نے انسان کو بھلائی اور شر کی دونوں صلاحتیں دی ہیں۔ شخصیت کی تعمیر سے مراد یہ ہے کہ انسان ان دونوں قوتوں میں اعتدال پیدا کرے۔ اگر انسان شر کو نقطعہ اعتدال پر مرتکز کر کے خیر کے تابع کر دے تو اس سے شر بھی خیر بن جاتا ہے انسان کی پوری زندگی بندگی بن جاتی ہے اور انسانی شخصیت کی تعمیر ہو جاتی ہے۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’پھر ہر نفس کو اس کی بد کرداری اور پرہیز گاری سمجھا دی گئی ہے بیشک وہ کامیاب ہو گیا جس نے اس کا تزکیہ کیا اور وہ یقینا ناکام ہوا جس نے اسے گناہوں سے آلودہ کیا ‘‘۔ (سورۃ الشمس)۔
انسان کو چاہیے کہ اپنی شخصیت کو تعمیر کرنے کے لیے حقوق و فرائض میں اعتدال سے کام لے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن اور حضور نبی کریم ﷺ کی احادیث کی روشنی میں حقوق اور فرائض کا تعین کر دیا ہے۔ ان پر عمل کرنے کے لیے پہلے ان کو سمجھا جائے کہ حقوق کیا ہیں اور فرائض کیا ہیں۔ اگر انسان کو اس بات پر پختہ یقین ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ میرے ہر عمل سے واقف ہے اور میں نے ایک دن اس کے سامنے اپنے سارے اعمال کا جواب دینا ہے اور اس کے بدلے میری سزا اور جز ا کا فیصلہ ہو نا ہے تو انسان اتنے ہی حقوق کی طلب کرے گا جتنے شریعت نے اس کے لیے مقرر کیے ہیں اور فرائض کی ادائیگی میں بھی سستی نہیں کرے گا۔ جب بندہ اپنے آپ کو شریعت کے مطابق ڈھالنے لیتا ہے تو اس کی شخصیت کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ 
نماز انسانی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ شروع سے لے کر آخر تک نماز میں اللہ تعالیٰ کی عظمتوں کو بیان کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے اذان جس میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اعلان کیا جاتا ہے ، توحید و رسالت کی گواہی دی جاتی ہے ، اس کے بعد لوگوں کو خیر اور بھلائی کی طرف دعوت دی جاتی ہے اور آخر میں پھر اللہ تعالیٰ کی عظمت کو بیان کیا جاتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں صرف وہ ہی عبادت کے لائق ہے۔ 
اذان سن کر جب بندہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دست بستہ کھڑا ہو جاتاہے اور اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتا ہے ، اس کی عظمت کا اقرار کرتا ہے ، شیطا ن کے شر سے پناہ مانگتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور رحیمی میں چھپ جاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے التجا کرتا ہے کہ ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ ایسے لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا نہ کہ ان لوگوں کے راستے پر جن سے تو ناراض ہوا۔

جمعرات، 23 جنوری، 2025

Surah Al-Qasas (سُوۡرَةُ القَصَص) Ayat 36.کیا ہم اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں

Surah Al-Qasas (سُوۡرَةُ القَصَص) Ayat 30-35.کیا ہم نافرمان قوم ہیں

سونے کے آداب - 2

 


سونے کے آداب

حضور نبی کریم ﷺ جب رات کے وقت اپنے بستر مبارک پر تشریف لاتے تو اپنے سیدھے ہاتھ کو اپنے رخسار مبارک کے نیچے رکھتے۔ ( بخاری شریف )۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول خد اﷺ رات کے وقت اپنے بستر پر تشریف لاتے تو آخری تین سورتیں سورۃ اخلاص، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس پڑھ کر اپنی ہتھیلوں کو جوڑ کر ان پر دم کرتے اور پھر اپنے ہاتھوں کو اپنے پورے بدن پر جہاں تک ممکن ہوتا پھیرتے پہلے اپنے سر مبارک سے شروع کرتے پھر رخ انور پر پھیرتے اور پھرباقی سارے بدن پر اور آپ ﷺ تین بار ایسا کرتے۔ ( بخاری شریف )۔
حضرت نوفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ نے انہیں فرمایا سور ۃ الکٰفرون پڑھ کر سویا کرو بے شک یہ سورۃ شرک سے برات دیتی ہے ( ابو دائود)۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ اس وقت تک نہیں سوتے تھے جب تک سورۃ السجدہ اور سورۃ الملک کی تلاوت نہیں فرما لیا کرتے تھے۔ ( الادب المفرد )۔ 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص بھی بستر پر سونے کے لیے لیٹا اور اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کیا، قیامت کے دن اس کے لیے باعث حسرت ہو گا اور جوکوئی کسی مجلس میں بیٹھا اور اللہ کا نام نہ لیا اس پر بھی قیامت کا دن اس کے لیے باعث حسرت ہو گا۔ ( ابودائود)۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ جب بستر مباک پر سونے کے لیے تشریف لے جاتے تو یوں فرماتے ’’ با سمک الھم اموت واحی‘‘( بخاری شریف ) 
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ انہوں نے چکی چلانے کی وجہ سے ہاتھوں میں ہونے والی تکلیف کا ذکرآپ ﷺ سے کیا اور آپ ﷺ سے عرض کی کہ ایک خادمہ رکھ دیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں خادم رکھنے سے بہتر عمل نہ بتائوں جب تم سونے کا ارادہ کرو اور اپنے بستر پر آجائو تو تینتیس بار سبحان اللہ ، تینتیس بار الحمد اللہ اور تینتیس بار اللہ اکبر کہا کرو۔ بیشک یہ عمل تمہارے لیے خادمہ رکھنے سے بہتر ہے۔ ( بخاری ، مسلم شریف )۔
حضرت طلحہ غفاری اسحاب صفہ میں سے ہیں آپ فرماتے ہیں میں رات کے آخری پہر میں مسجد میں سویا ہو اتھا کہ آپ ﷺآئے۔ آپ نے مجھے اپنے پائوں سے ہلایا۔ میں اپنے پیٹ کے بل سویا ہوا تھا اور مجھے کہا اٹھو اسطرح سونا اللہ تعالیٰ کو نا پسندہے۔ میں نے سر اٹھا یا آپ ﷺ میرے سرہانے کھڑے تھے۔ ( ابن ماجہ )۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ میرے پاس سے گزرے میں پیٹ کے بل یعنی الٹالیٹا ہو اتھا تو رسول خدا ﷺ نے اپنے پائو ں سے مجھے ہلایا اور کہا اے جنید بیشک اس طرح لیٹنا جہنم والوں کا انداز ہے۔(ابن ماجہ)۔

بدھ، 22 جنوری، 2025

Surah Al-Qasas (سُوۡرَةُ القَصَص) Ayat 17-28 .تقدیر کا لکھا پورا ہوتا ہے

سونے کے آداب (۱)

 

سونے کے آداب (۱)

ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور اس کی نشانیوں میں سے ہے تمہارا سونا رات کے وقت اور دن کے وقت تلاش کرنا اس کے فضل کو ، بلا شبہ اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو سنتے ہیں۔ ( سورۃ الروم )۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا:’’ اور ہم نے بنا دیا تمہاری نیند کو باعث آرام ‘‘۔ ( سورۃ النباء)۔
 حضرت جا بر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مطابق حضور ؐ نے فرمایا جب تم رات کے وقت سونے لگو تو چراغ بجھا دیا کرو اور دروازے بند کر دیا کرو۔ (بخاری )۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مطابق نبی کریم ﷺ نے فرمایا اپنے گھروں میں سوتے وقت جلتی ہوئی آگ نہ رہنے دو۔ (بخاری شریف)۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایاجب تم اپنے بستر پر آئو تو نماز کی طرح کا وضو کرو اور پھر سیدھی کروٹ لیٹ جائواور پھر یوں کہو’’ الھم اسلمت وجھی الیک وفوضت امری الیک‘‘ ( بخاری شریف)۔ 
رسول کریمﷺ نے سونے سے پہلے بستر کو تین بار جھاڑنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔ رسول خدا ؐ نے فرمایا : جب تم سے کوئی اپنے بستر پر سونے کے لیے آئے تو اپنے بستر کو تین بار اچھی طرح جھاڑ لے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ  نے فرمایاجب تم سے کوئی اپنے بستر پر سونے کے لیے آئے تو اپنے بستر کو اچھی طرح جھاڑ ے اور پھر اللہ تعالیٰ کا نام لے یعنی بسم اللہ پڑھے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے بعد اس کے بستر پر کون تھا۔ ( بخاری ، مسلم شریف)۔
 رسول کریم ﷺ کا طریقہ کار یہ تھا کہ آپ  جب تک قرآن مجید میں سے کچھ تلاوت نہیں فرما لیا کرتے تھے سوتے نہیں تھے۔ قرآن پاک پڑھ کر سونے سے انسان شیطان کی شرارتوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ جس میں ایک چور روز کچھ نہ کچھ چوری کر لیتا تھا۔ اور جب آپ نے اسے پکڑ کر حضور ﷺ کے سامنے پیش کرنے کا ارادہ فرمایا تو اس نے کہا کہ مجھے چھوڑ دیں میں آپ کو کچھ کلمات بتاتا ہوں جن کا اللہ تعالیٰ تمہیں بہت فائدہ دے گا۔جب تم اپنے بستر پر جائو تو آیۃ الکرسی پڑھ لیا کرو۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری حفاظت پر ایک فرشتہ مامور ہو جائے گا۔اور صبح تک شیطان بھی تمہارے پاس نہیں آئے گا۔ رسول پاک ﷺ نے فرمایا اس نے تم سے سچ کہا لیکن وہ خود بڑا جھوٹاہے۔ آپ نے کہا تم جانتے ہو تم تین راتیں کس سے باتیں کرتے رہے ہو ؟ میں نے عرض کی نہیں۔ آپ  نے فرمایاوہ شیطان ہی تھا۔ ( بخاری شریف)۔

منگل، 21 جنوری، 2025

Surah Al Qasas Ayat 10 16 1784

Surah Al-Qasas (سُوۡرَةُ القَصَص) Ayat 07-09 .کیا ہم زندگی اللہ تعالی کی...

تہجد کی فضیلت

 

تہجد کی فضیلت

فرائض کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والی نماز تہجد ہے۔ رات کو اٹھ کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری دینا یہ ایک ایسا عمل ہے جس کی وجہ سے انسان دنیا میں بڑے بڑے مرتبے حاصل کر لیتا ہے۔ رات کی تنہائی میں بندہ راحت اور آرام کو چھوڑ کر سردی اور گرمی کی شدت برداشت کر کے وضو کر کے جب  اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اقدس میں حاضرہوتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا قرب تلاش کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آتی ہے اور وہ اپنے بندوں کو اپنے قرب ولطف سے مالا مال فرما دیتا ہے۔ نماز تہجد پڑھنے سے دل کو سکون میسر آتا ہے دعائیں قبول ہوتی ہیں اور چہرہ منور ہو جاتا ہے۔
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے پوچھا گیا کہ تہجد پڑھنے والوں کا چہرہ اتنا حسین کیوں ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا جب وہ اپنے رب کے ساتھ خلوت اختیار کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر اپنے نور کا لباس چڑھا دیتا ہے۔رات کو اٹھ کر اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں حاضری دینا اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کا عمل ہے۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ ان کی کروٹیں جدا ہوتی ہیں خواب گاہوں سے اور اپنے رب کو پکارتے ہیں ڈرتے اور امیدکرتے اور ہمارے دیے ہوئے سے کچھ خیرات کرتے ہیں تو کسی جی کو نہیں معلوم جو آنکھ کی ٹھنڈک ان کے لیے چھپارکھی ہے صلہ ان کے کاموں کا۔( سورۃ سجدہ)۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : رمضان شریف کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینہ محرم کے ہیں اور فرضوں کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے۔ ( مسلم شریف )۔
 حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا جنت میں ایک بالا خانہ ہے جس کا باہر اندر سے اور اندر باہر سے نظر آتا ہے۔ حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی یا رسو ل اللہ ؐیہ کس کے لیے ہو گا۔ آپ ؐ نے فرمایا جو پا کیزہ گفتگو کرے اور (محتا جوں ) کو کھانا کھلائے اور کھڑے ہو کر عبادت میں رات گزارے جبکہ باقی لوگ سو رہے ہوں۔ 
حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا : قیامت کے دن شب بیداری کرنے والوں کی سواریاں براق ہوں گی اور ان کی رنگت یاقوت سرخ کی مانند ہو گی۔ اہل محشر پوچھیں گے باری تعالیٰ یہ کون لوگ ہیں۔ حکم ہو گا یہ وہی لوگ ہیں جو راتوں کو نیندچھوڑ کر میری عبادت میں مصروف رہتے تھے جبکہ تم لوگ سوتے تھے۔ یہ میرے محبوب ہیں یہ میرے محبوب ہیں۔ (انیس الواعظین)۔

عبادت کیوں اور کیسے؟

عبادت کیا اور کیوں؟

پیر، 20 جنوری، 2025

Surah Al-Qasas (سُوۡرَةُ القَصَص) Ayat 01-06.کیا ہم فرعون کے نقش قدم پر ...

Surah Al-Qasas (سُوۡرَةُ القَصَص) Ayat 01-02.کیا ہم متکبرین کی ٹولی میں ...

لاالہ الااللہ، سبحان اللہ اور الحمد للہ کی فضیلت

 

لاالہ الااللہ، سبحان اللہ اور الحمد للہ کی فضیلت

حضور نبی کریمﷺ ارشاد فرمایاکرتے تھے، بندہ جو بھی نیک عمل کرتا ہے اسے روز حشر ترازومیں تولا جائے گا لیکن ’لاالہ الااللہ‘ وہ مبارک کلمہ ہے کہ اگرایک پلڑے میں اسے رکھا جائے اور دوسرے پلڑے میں ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں رکھ دی جائیں تو وہ پلڑا جھک جائے گا جس میں کلمہ طیبہ ہو گا ۔ آپؐ نے فرمایا اگر ’لاالہ الااللہ‘ کہنے والاسچا ہوا تو اس کے سارے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اگر وہ زمین کے ذرات کے برابر بھی ہوں ۔
حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا، جس نے خلوص نیت کے ساتھ ’لاالہ الااللہ‘ پڑھا وہ جنت میں جائے گا ۔ صحیح میں ہے کہ جس نے یہ کلمہ پڑھا تو گویا اس نے حضرت اسما عیل علیہ السلام کی اولاد میں سے چار غلام آزاد کیے ۔
نبی مکرمﷺ نے ارشاد فرمایا، جس شخص نے دن میں ایک بار یہ کلمات پڑھے ’سبحا ن اللہ وبحمدہ‘ اس کے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اگرچہ وہ دریا کی جھاگ کے برابر بھی ہوں ۔ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا، جس نے ہر نماز کے بعد تینتیس بار ’سبحا ن اللہ وبحمدہ‘ اور تینتیس بار ’الحمدللہ‘ اور تینتیس بار ’اللہ اکبر‘ پڑھا پھر یہ کلمات پڑھ کر سو پورا کیا ’ لاالہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمدو ھو علی کل شئی قدیر‘ اس کے جملہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں اگردریا کی جھاگ کے برابر بھی ہوں ۔
ایک شخص حضور نبی کریمﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی، یا رسول اللہﷺ، دنیا مجھ سے روگرداں ہو گئی ہے ۔ افلاس اور فقرنے ڈیرے جما لیے ہیں ۔ دولت و ثروت کی فراوانی کیسے ہو سکتی ہے ۔ آپؐ نے فرمایا، تو ملائکہ کے اس ذکر اور مخلوق کی اس تسبیح کو کیوں بھول بیٹھا ہے جس کے طفیل ساری دنیا کو رزق دیا جاتا ہے۔ اس نے عرض کی، یا رسول اللہﷺ، وہ کون سا ذکرہے ؟ تو آپؐ نے فرمایا: ’سبحان اللہ العظیم‘’سبحان اللہ وبحمدہ‘،’استغفراللہ‘ہر روز صبح کی نماز سے پہلے پڑھا کرو ۔ نہ چاہتے ہو ئے بھی دنیا کا رخ تیری سمت ہو جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ ان کلمات میں سے ہر ہر کلمہ سے ایک فرشتہ پیدا فرمائے گا ۔ جو قیامت تک اللہ کی تسبیح بیان کرتا رہے گا اور اس کا ثواب تجھے ملتا رہے گا ۔
حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا: با قیات صالحات یہ کلمات ہیں ’سبحان اللہ و الحمد للہ ولا الہ الا اللہ و اللہ اکبر‘۔ آپؐنے فرمایا، مجھے یہ کلمات گردش آفتاب کے نیچے ہر شے سے پسندیدہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کو یہ کلمات انتہائی پیارے ہیں ۔

اتوار، 19 جنوری، 2025

Surah Al-Naml (سُوۡرَةُ النَّمل) Ayat 90-93 .ہدایت قبول کرنے کا فائدہ ہم...

Surah Al-Naml (سُوۡرَةُ النَّمل) Ayat 89 .نیکی اور برائی حقیقت میں کیا ہیں

نمازی کے اوصاف(۲)

 

نمازی کے اوصاف(۲)

انسان کو عبادت سے روکنے والی چیز نفس ہی ہے۔ نفس جتنا مغلوب ہوتا ہے عبادت اتنی سہل ہو جاتی ہے۔ جس وقت نفس فنا ہو جاتا ہے اس وقت عبادت غذا اور طبیعت ثانیہ بن جاتی ہے۔
عبد اللہ بن مبارک  فرماتے ہیں کہ میں نے ایک عبادت گزار خاتون کو دیکھا کہ نماز کی حالت میں اسے بچھو نے کافی ڈنک مارے مگر اس نے بالکل بھی محسوس نہ کیا۔ جب وہ عورت نماز سے فارغ ہوئی تو میں نے اس سے پوچھا کہ اماں آپ نے بچھو کو اپنے آپ سے ہٹایا کیو ں نہیں ؟ عورت نے کہا بیٹا تم ابھی بچے ہو یہ کیسے ممکن ہے کہ میں خدا کے کا م میں اپنا کام شروع کر دیتی۔ 
ابو الخیر اقطع کو پائوں میں پھوڑا نکل آیا۔ طبیبوں نے کہا کہ آپ کا پائوں کاٹنا پڑے گا۔ آپ نے انکار کر دیا۔ مریدین نے کہا کہ کیوں نہ نماز کی حالت میں آپ کا پائوں کاٹ دیا جائے۔ کیونکہ آپ کو نماز کی حالت میں بیرونی کوئی خبر نہیں ہوتی۔پھر نماز کی حالت میں آپ کا پائوں کاٹا گیا اور آپ کو محسوس تک نہ ہوا جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو پائوں کٹا ہوا تھا۔
مروی ہے کہ سیدنا صدیق اکبر ؓ جب رات کو نماز پڑھتے تو ہلکی آواز میں قرأت کرتے اور سیدنا فاروق اعظم بلند آواز سے قرأ ت فرماتے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ آپ آہستہ آواز سے قرأت کیوں کرتے ہیں فرمایا کہ حضور ﷺ جسے میں پکارتا ہوں وہ سب سن لیتا ہے بلند ہو یا پھر آہستہ۔
حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا تو فرمایا کہ سونے والوں کو بیدار کرتا ہوں اور شیطان کو دھتکارتا ہوں۔آپؐ نے فرمایا ابو بکر ؓ  تم ذرابلند آواز سے پڑھا کرو اور عمرؐ  تم ذرا آہستہ آواز میں پڑھا کرو۔ 
بعض فرائض ظاہری طور پر اور نوافل چھپ کر ادا کرتے ہیں اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ ریا سے بچا جا سکے۔ کیونکہ جب کوئی ریا کرتا ہے تو وہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اسی طرح وہ فرماتے ہیں کہ ہم اپنی عبادت و ریاضت کو اہمیت نہیں دیتے مگر لوگ تو یہ سب دیکھتے ہیں اور یہ ریا ہے۔ 
بعض مشائخ فرائض کے ساتھ نوافل بھی ظاہری طور پر ادا کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ریا باطل ہے اور عبادت حق۔ یہ مشکل ہے کہ ہم باطل کے خوف سے حق کو چھپا لیں پس دل سے ریا کو نکال دینا چاہیے اس کے بعد جہاں مرضی آئے انسان عبادت کرے۔(کشف المحجوب )۔

کیا آج کا مسلمان کلمہ طیبہ کا اقراری ہے؟

کیا ہر انسان خلیفۃ اللہ بن سکتا ہے؟

ہفتہ، 18 جنوری، 2025

Surah Al-Naml (سُوۡرَةُ النَّمل) Ayat 87-88 .کیا یوم آخرت پر ہمارا یقین ...

Surah Al-Naml (سُوۡرَةُ النَّمل) Ayat 86 .کیا ہم عملا دین اسلام کو چھوڑ ...

نمازی کے اوصاف(۱)

 

نمازی کے اوصاف(۱)

حضور نبی کریم ﷺنے فرمایانماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ حضور نبی کریم ﷺجب معراج سے واپس تشریف لائے تو دل مبارک ہر وقت اسی مقام معلی کے شوق اور آرزو میں لگا رہتا۔ آپ ؐ فرماتے اے بلال ؓ ہمیں نماز سے خوش کرو پس دراصل آپ کے لیے ہر نماز معراج اور قرب الہٰی کا موجب ہوتی تھی۔ لوگوں کی نگاہیں آپ کو نماز میں دیکھتی تھیں مگر صورت یہ تھی کہ جسم مبارک نماز میں دل نیاز میں اور باطن پرواز بارگاہ میں ہوتا۔ ادھر آپ کا تن مبارک سوزو گداز میں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ اسی طرح جسم ملک میں اور روح عالم ملکوت میں ہوتی۔ بظاہر وجود انسانی جسم ہوتا مگر روح مقام انس میں ہوتی۔ 
سچے کی نشانی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک فرشتہ مقرر کر دیتا ہے جو اسے نماز کے وقت نماز کے لیے ابھارتا ہے اور اگر وہ سو رہا ہوتو اسے بیدار کرتا ہے۔ سہل بن عبد اللہ ؓ میں یہ کیفیت بالکل ظاہر تھی۔ آپ اپنے دور میں کافی عمر رسیدہ تھے نماز کا وقت آتا تو ٹھیک ٹھاک ہو جاتے نماز ادا کر کے پھر بستر پر پڑے رہتے۔ ( کشف المحجوب )۔
ایک بزرگ کا قول ہے کہ ’’نماز پڑھنے والے کے لیے چار باتیں ضروری ہیں۔ اس کا نفس فنا ہو، خواہشات زائل ہوں ، باطن صاف ہو اوراسے مشاہدے میں کمال حاصل ہو۔ یعنی نماز اداکرنے والے کے لیے فنائے نفس کے بغیر چارہ نہیں اور نفس کی فنائیت ریاضت و ہمت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ جب ہمت مجتمع ہو جاتی ہے تو انسان کو نفس پر حکمرانی حاصل ہو جاتی ہے اس لیے کہ اس کا وجود تفرقہ سے ہے جمع کی عبارت کے تحت نہیں آسکتا۔ اور خواہشات کا زائل ہونا جلال خدا وندی کے اثبات کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ حق تعالی کا جلال غیر کے زائل ہونے کا موجب ہوتا ہے۔ اسی طرح باطن کی صفائی محبت کے بغیر نہیں ہوتی اور کمال مشاہدہ باطن کی صفائی کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔ کہا جاتا ہے کہ حسین بن منصورات دن میں چار سورکعات نماز بطور فریضے کے ادا فرمایا کرتے تھے لوگوں نے پوچھا اس قدر مرتبہ رکھنے کے باوجود آپ اتنی محنت کیوں کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ تمام رنج و راحت سے کیا واسطہ۔ خیال کرو۔ سستی و کاہلی کو بزرگی اور حرص کو طلب کا نام نہ دو۔ 
حضرت جنید نے بڑھاپے میں بھی اپنے جوانی والے اورادو وظائف میں سے کوئی چیز کم نہ کی لوگوں نے کہا حضور آپ بہت کمزور ہو گئے ہیں تو اورادو وظائف ذرا کم کر دیں۔ آپ نے فرمایا شروع میں ہم نے جو کچھ حاصل کیا انہی معمولات کی بنا پر حاصل کیا یہ مرتبہ پالینے کے بعد یہ کیسے ممکن ہے کہ میں انہیں چھوڑ دوں۔

کلمہ طیبہ کا مطلب؟

کلمہ طیبہ کی حقیقت؟

جمعہ، 17 جنوری، 2025

Surah Al-Naml (سُوۡرَةُ النَّمل) Ayat 84-85 .کیا ہم نے قرآن پاک کی ہدایت...

Surah Al-Naml (سُوۡرَةُ النَّمل) Ayat 82-84 .کیا ہم نے اپنے رب کی یاد سے...

نماز

 

نماز

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر نماز پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اور نماز قائم کرو اور زکوۃ دو‘‘۔
ایک اور مقام پر فرمایا :’’نماز اور زیر دستوں کا خیال رکھو‘‘۔
 لغت کے اعتبار سے ’’صلوٰۃ ‘‘ کے معنی ذکر اور فرمانبرداری کے ہیں اور فقہا کے نزدیک اس سے مراد معروف عبادت ہے۔ جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ پانچ وقت نماز مومنوں پر مقرر وقت میں فرض کی گئی ہے۔ نماز کی کچھ شرائط ہیں۔
 نماز کی شرائط میں سے پہلی شرط طہارت ہے۔ کپڑے ظاہری نجاست سے پاک ہوں اور بہ باطن وہ حلال کمائی سے کیے گئے ہوں۔ دوسری شرط یہ ہے کہ مکان پاک ہو۔ ظاہری گندگی سے بھی پاک ہو اور باطنا ًہر برائی اور معصیت سے پاک ہو۔ تیسری شرط یہ ہے کہ رخ قبلہ کی طرف ہو ظاہری قبلہ کعبہ ہے مگر باطنی قبلہ عرش معلی ہے جس سے مقصود مشاہدہ حقیقت ہے۔ چوتھی شرط بہ ظاہر قدرت کی صورت میں قیام مگر باطن قرب الٰہی کی جنت میں قیام مگر اس میں ظاہر طور پر شرعی وقت کا ہونا لیکن مقام حقیقت میں ہر وقت قیام مگر اس کے حضور ہونا۔ پانچویں شرط حضور کی بارگاہ میں نیت کا خالص ہونا اور چھٹی شرط ہیبت و فنا کے مقام میں تکبیر کہنا۔ جائے وصل میں قیام کرنا ،عظمت و ترتیل کے ساتھ قرات کرنا خشوع کے ساتھ رکوع کرنا اور عاجزی کے ساتھ سجدہ کرنا ، سکون کے ساتھ تشہد پڑھنا اور بشری صفات کے فناپر سلام پھیرنا ہے۔
 روایت میں آتا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ نماز داد فرماتے تو نماز کے وقت نبی کریم ﷺ کے سینہ مبارک سے ایسی آواز آتی جیسے آگ پر رکھی ہوئی دیگ سے آتی ہے۔(کشف المحجوب)۔
حضرت علی ؓ جب نماز پڑھتے تو آپ کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے جسم کے بال کپڑوں سے باہر نکل آتے اور فرماتے کہ اس امانت کو ادا کرنے کا وقت آ گیا ہے جسے اٹھانے سے زمین و آسمان نے بھی عجز کا اظہار کیا تھا۔ حاتم سے پوچھا گیا کہ آپ نماز کس طرح ادا فرماتے ہیں۔آپ نے فرمایا کہ جب نماز کا وقت ہوتا ہے تو میں ایک ظاہری وضو کرتا ہوں۔
 اور ایک باطنی وضو توبہ سے ، اس کے بعد مسجد میں آتا ہوں۔ خانہ کعبہ کو اپنے سامنے اور مقام ابراہیم کو دونوں ابروئوں کے درمیان رکھتا ہو ں، بہشت کو دائیں ، دوزخ کو بائیں ،پل صراط کو قدموں کے نیچے اور موت کے فرشتہ کو اپنے سامنے تصور کرتا ہوں ،اس کے بعد عظمت کے ساتھ تکبیر ، اعزاز کے ساتھ قیام ، ہیبت کے ساتھ قرات ، عاجزی و زاری کے ساتھ سجدہ اور تواضع انکساری کے ساتھ رکوع ،حلم و وقار کے ساتھ قعدہ اور شکر کے ساتھ سلام پھیرتا ہوں۔

دین میں استقامت کیسے آئے گی؟

جمعرات، 16 جنوری، 2025

Surah Al-Naml (سُوۡرَةُ النَّمل) Ayat 81.کیا ہم مادہ پرست لوگ ہیں

Surah Al-Naml (سُوۡرَةُ النَّمل) Ayat 79-80 .کیا ہمارے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں

امام ابو جعفر محمد باقررضی اللہ تعالیٰ عنہ

 

 امام ابو جعفر محمد باقررضی اللہ تعالیٰ عنہ

برہان ارباب مشاہدت امام ابو جعفر محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ابو عبد اللہ اور لقب باقر ہے۔ آپؓ علوم کی باریکیوں اور کتاب اللہ کے لطیف اشارات کے سلسلے میں معروف و مخصوص تھے۔ ایک مرتبہ ایک بادشاہ نے آپؓ کو شہید کرنے کے ارادہ سے اپنے دربار میں بلایا۔جب آپؓ تشریف لائے تو بادشاہ ادب سے کھڑا ہو گیا اور تعظیم کے ساتھ تحائف بھی پیش کیے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جانے کے بعدبادشاہ کے ملازم نے پوچھا کہ آپ اچانک سے اتنے بدل کیسے گئے۔ تو بادشاہ نے کہا کہ میں نے ان کے دائیں اور بائیں جانب دوشیر دیکھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اگر میں نے انہیں کچھ کہا تووہ مجھے ہلاک کر دیں گے۔ 
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک خادم کہتے ہیں کہ رات کو اپنے وظائف سے فارغ ہو کر آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب اللہ تعالیٰ سے مناجات کرتے اور فرماتے :اے میرے اللہ رات آ گئی ہے اور بادشاہوں کے تصرف کی حدیں ختم ہو گئی ہیں ، آسمان پر ستارے نکل آئے ہیں اور تمام مخلوق خوابوں میں کھو گئی ہے۔ آوازیں بند اور آنکھیں سو گئی ہیں لوگ بنو امیہ کے دروازوں میں چل دیے اور انہوں نے اپنی قیمتی چیزیں چھپا لیں اپنے دروازے بند کر دیے اور چوکیدار کھڑے کر دیے ہیں جن لوگوں کو ان سے ضرورتیں اور حاجتیں تھیں انہوں نے چھوڑ دی ہیں۔
اے اللہ تو زندہ و قائم رہنے والا ہے اور جاننے والا ہے۔ تو نیند سے پاک ہے جو شخص تیری ان صفات کے ساتھ تجھے یاد نہیں کرتا وہ تیری نعمتوں کا مستحق نہیں۔ اے میرے رب کوئی چیز تجھے دوسری چیز سے غافل نہیں کرتی اور نہ ہی شب و روز تیری بقا میں کوئی خلل پیدا کرسکتے ہیں۔ جو تجھے پکارے تیری رحمت کے دروازے اس کے لیے ہر وقت کھلے ہیں اور جو تیری ثنا کرے تیرے خزانے اس پر قربان ہیں۔
اے میرے مالک تو سائل کو خالی نہیں موڑتا ہے۔ اے اللہ میں موت ، قبر اور حساب و کتاب کو یاد کرتا ہوں تو میں اپنے دل کو دنیا سے کیسے خوش رکھ سکتا ہوں۔ مجھے روز محشر یاد ہے میں کس طرح دنیا کے اسباب سے سکون حاصل کر سکتا ہوں اور جب ملک الموت میرے سامنے ہے تو میں کیسے دنیا سے دل لگا سکتا ہوں۔ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ اے اللہ موت کے وقت ایسی راحت نصیب فرما کہ کسی قسم کی تکلیف نہ ہو اور حساب کتاب ایسا آسان فرما کہ جس میں عذاب کا کھٹکا نہ ہو۔ غلام کہتا ہے کہ آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رو رو کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ عرض کرتے رہتے۔

ہم کون ہیں؟

دنیا میں اللہ تعالی نے پیغمبروں کو کیوں بھجوایا؟

رسول کیوں بھجوائے گئے؟

بدھ، 15 جنوری، 2025

Surah Al-Naml (سُوۡرَةُ النَّمل) Ayat 77-78 .کیا ہم خواہشات دنیا کی آگ م...

Surah Al-Naml (سُوۡرَةُ النَّمل) Ayat 76 .آخر کیوں ہم نے قرآن پاک سے ہدا...

امام ابو جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ

 

امام ابو جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ

جمال طریقت زینت فقرو تصوف ابو محمد جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ انتہائی بلند حال اور نیک سیرت کے مالک تھے۔ ظاہر و باطن آراستہ و پیراستہ تھا اور تمام علوم میں آپ کے خوبصورت اشارات و اقوال ہیں۔ مشائخ کے نزدیک آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دقیق معانی اور حقائق کے سلسلے میں ممتاز و معروف ہیں۔ تصوف کی کتابوں میں آپ کا ایک فرمان موجود ہے کہ ’’ جسے اللہ کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے وہ اللہ کے سوا ہر چیز سے منہ موڑ لیتا ہے۔ یعنی جو عارف ہوتا ہے وہ غیر سے اپنا تعلق توڑلیتا ہے کیونکہ خدا کی معرفت غیر کا مکمل انکار چاہتی ہے اور غیر کا انکار ہی در حقیقت اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے۔ پس عارف مخلوق سے آزاد اور حق کے ساتھ واصل ہوتا ہے اس کے دل میں اتنی جگہ نہیں ہوتی کہ وہ اس میں غیر کی توجہ کو اپنے دل میں جگہ دے۔ 
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’عبادت توبہ کے بغیر درست نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے توبہ کو عبادت پر مقدم رکھا ہے ‘‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’توبہ والے عبادت والے ‘‘۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ توبہ آغاز ہے جبکہ بندگی انتہا و انجام۔اللہ تعالیٰ نے گنہگاروں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :’’ اور اللہ کی طرف توبہ کرو سب کے سب ‘‘۔
ایک دفعہ دائود طائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے رسول اللہﷺ کے فرزند، مجھے کچھ نصیحت کریں میرا دل سیاہ ہو چکا ہے۔ آپ نے فرمایا اے ابو سلیمان آپ اپنے زمانے کے بڑے عابد و زاہد ہیں آپ کو میری نصیحت کی کیا ضرورت ہے۔دائود طائی فرماتے ہیں حضور آپ کو اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق پر فضیلت عطا فرمائی ہے ساری مخلوق کو نصیحت کرنا آپ کا فرض ہے۔ 
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اے ابو سلیمان مجھے اس بات کا خوف ہے کہ کل بروز قیامت میرے جد امجد اس بات پر میرا دامن نہ پکڑ لیں کہ تو نے میری متابعت کا حق ادا کیوں نہیں کیا ؟ یہ معاملہ نسبت یا کسی دوسری چیز پر نہیں بلکہ صرف اللہ کے نزدیک حسن عمل پر منحصر ہے۔ یہ بات سن کر حضرت دائود طائی رونے لگے اور فرمایا اے میرے اللہ جس کا خمیر نبوت کے پانی سے گوندھا گیا ہے جس کے جد امجد نبی کریم ﷺہیں اور جس کی والدہ سیدہ کائنات سیدہ بتولؓ ہیں وہ اس حیرانی میں ہے تو دائود بے چارہ کون ہے جو اپنے آپ کو کسی قطار میں شمار کرے۔

منگل، 14 جنوری، 2025

Surah Al-Naml (سُوۡرَةُ النَّمل) Ayat 73 .کیا ہم نے تمام زندگی ناشکری می...

امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃ تعالیٰ علیہ (۲)

 

امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃ تعالیٰ علیہ (۲)

      کوفہ سے فراغت کے بعد آپ حرمین شریفین چلے گئے۔ جس زمانہ میں آپ مکہ معظمہ پہنچے درس و تدریس کا نہایت زور تھا۔ متعدد اساتذہ کی جو فن حدیث کے ماہر تھے اور اکثر صحابہ کرام  کے مستفیض ہوئے تھے ان کی الگ الگ درسگاہیں قائم تھیں۔ امام اعظم ابو حنیفہ نے دیگر احباب کے علاوہ حضرت عطار بن ابی رباح اور حضرت عکرمہ سے بھی علم احادیث حاصل کیا۔ اس کے بعد آپ  مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور حضرت امام باقر اور دیگر احباب کی خدمت و صحبت میں رہے اور اکتساب علم حاصل کیا۔
صاحب ردالمختار لکھتے ہیں کہ امام اعظم فن حدیث میں امام تھے۔ امام شافعی  فرماتے ہیں تمام لوگ فقہ میں امام اعظم کے پروردہ ہیں۔ تمام فقہاامام اعظم ابوحنیفہ کی عیال ہیں۔ حضرت امام مالک سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے امام ابو حنیفہ کو دیکھا تھا تو آپ نے ایک ستون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے ایک ایسا شخص پایا کہ اگر وہ اس ستون کو سونے کا ثابت کرنا چاہے تو اپنے علم کی زور سے وہ ایسا کر سکتے تھے۔ آپ صوم و صلوۃ کے پابند تھے اور اکثر عشاء کی نماز کے بعد عبادت میں مشغول ہو جاتے اور ساری ساری رات عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ جب آپ کوفہ پہنچے تو آپ نے لوگوں سے دریافت کیا کہ اس شہر میں سب سے زیادہ پارسا کون ہے تو سب کا ایک ہی جواب ہوتا امام اعظم سے بڑھ متقی کو ن ہو سکتا ہے۔
حضرت امام رازی روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ امام اعظم کہیں جا رہے تھے تو راستے میں پائوں کی ٹھوکر سے کیچڑ اچھل کر کسی کی دیوار پر چلا گیا۔آپ وہاں رک گئے اور سوچنے لگے کہ یہ کیچڑ تو صاف ہو جائے گا مگر اس کے ساتھ دیوار پر بھی خراشیں آئیں گی۔
 اتنے میں مکان کا مالک جو ایک یہودی تھا اور آپ کا مقروض بھی باہر آ گیا اور آپ کو دیکھ کر شرمندہ ہوا کہ آپ قرض مانگنے آئے ہیں۔ آپ نے اسے کہا کہ میں تمہار ا قرض معاف کر دوں گا اگر تم مجھے میرا قصور معاف کر دو۔ مجھ سے تمہارے گھر کی دیوار خراب ہو گئی ہے۔ یہودی آپ کے اخلاق سے متاثر ہوا اور فوراً حلقہ بگوش اسلام ہو گیا۔ آپ نے بغداد شریف کے ایک قید خانے میں وصال فرمایا۔آپ نے قید خانے میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ آپ کے شاگردامام محمد نے آپ سے قید خانے میں ہی علم حاصل کیا اور جید فقیہ بن کر نکلے۔ سن ۱۴۶ہجری کو خلیفہ منصور نے آپ کو قید کیا اور سن ۱۵۰ہجری آپ خالق حقیقی سے جا ملے۔

توکل علیٰ اللہ

پیر، 13 جنوری، 2025

Surah Al-Naml (سُوۡرَةُ النَّمل) Ayat 66 Part-03 .کیا آخرت پر ہمارا یقین...

امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (۱)

 

امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (۱)

رہنمائے دین و ملت شمع رشدو ہدایت پیکر زہد و تقویٰ و سخاوت مجسمۂ جرأ ت و شجاعت امام اعظم کا نام نعمان بن ثابت اور کنیت ابو حنیفہ تھی ۔ آپ کی ولادت 80 ہجری میں ایک تاجر گھرانے میں ہوئی۔ آپ کی توجہ خاندانی کاروبار کی طرف تھی لیکن خاندانی وجاہت و عزت ایسی تھی کہ بے علم بھی نہ رہے اور کچھ نہ کچھ سیکھتے رہتے تھے ۔ 
ایک مرتبہ امام اعظم بازار جا رہے تھے تو راستے میں امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ کے گھر کے سامنے سے گزر ہوا تو انھوں نے طالب علم سمجھ کر اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ کہاں جارہے ہو؟ امام اعظم نے جواب دیا کہ ایک سوداگر کے پاس جا رہا ہوں ۔ امام شعبی ؒ نے فرمایا کہ میرا مطلب ہے کہ تم کہاں پڑھتے ہو؟ آپ نے جواب دیا کہ میں کہیں نہیں پڑھتا۔ امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا کہ مجھے تیرے اندر قابلیت کے جوہر نظر آرہے ہیں تم علماء کی صحبت میں بیٹھا کرو ۔ 
امام شعبی کی بات امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں بیٹھ گئی اور تحصیل علم کا شوق پید ا ہوا ۔ جب آپ گھر واپس پہنچے تو آتے ہی والدہ کو ساری بات بتائی ۔ آپ کی والدہ پہلے ہی یہ شوق رکھتی تھیں اس لیے آپ کی والدہ یہ بات سن کر بہت خوش ہوئیں اور فوراً تحصیل علم کی اجازت دیدی ۔ 
امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ بچپن سے ہی بہت ذہین تھے آپ نے ابتدائی تعلیم گھر سے حاصل کی ۔آپ جید علماء کے محافل میں شریک ہوتے اور پوری طرح علم حاصل کرنے کی طرف متوجہ ہوگئے ۔ آپ نے کوفہ کے تمام بڑے بڑے جید علماء اور محدثین سے علم حاصل کیا ۔ آپ کا رجحان علم فقہ کی طرف زیادہ تھا اور یہی رغبت آپ کو حضرت امام حمادرحمۃ اللہ علیہ  کے پاس لے گئی ۔امام حماد رحمۃ اللہ علیہ کوفہ کے مشہور امام اور استاد تھے ۔امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پابندی کے ساتھ امام حماد رحمۃ اللہ علیہ  کے درس و تدریس میں شامل ہوتے اور دو سال تک پوری توجہ سے خوب اکتساب علم حاصل کیا اور مختصر عرصہ میں ہی ایک خاص مقام حاصل کر لیا اور استاد محترم اور طلبہ کی توجہ کا مرکز بن گئے ۔ 
ایک مرتبہ آپ کے استاد امام حماد ؒ کہیں کام سے گئے تو ان کی جگہ امام اعظم نے تقریباً 60 کے قریب فتاوٰی جاری کیے اور ان کی ایک ایک نقل اپنے پاس رکھ لی ۔ حضرت امام حمادرحمۃ اللہ علیہ جب واپس آئے تو امام اعظم نے وہ فتاوٰی جات اپنے استاد محترم کو دکھائے جن میں سے امام حماد نے 20 کی اصلاح کی اور 40 کو درست قرار دیا اور فرمایا کہ تمھارے جواب درست ہیں اور انتہائی خوشی کا اظہار کیا۔ علم فقہ حاصل کرنے کے بعد آپ علم حدیث کی طرف متوجہ ہوئے اور کوفہ کے تمام بڑے بڑے محدثین سے علم حدیث حاصل کیا ۔

صرف اللہ پر بھروسہ مگر کیسے ؟

کیا ہمارا آخرت پر یقین ہے؟

اتوار، 12 جنوری، 2025

Surah Al-Naml (سُوۡرَةُ النَّمل) Ayat 66 Part-02 .کیا ہم آخرت سے اندھے ہیں

Surah Al-Naml (سُوۡرَةُ النَّمل) Ayat 66 Part-01 .کیا ہم یوم آخرت کو بھل...

سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

 

سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حیدر کرار ، شیر خدا امیر المومنین سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت با سعادت بعثت نبویؐ سے دس سال پہلے ماہ رجب المرجب میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام فاطمہ بنت اسد تھا۔ آپ کا نام علی ، ابو تراب ، ابو الحسن کنیت اور حیدر کرار لقب تھا۔ خاندان ہاشمی سے تعلق تھا اور حضور نبی کریم ﷺ کے چچا زاد بھائی تھے۔ روایات کے مطابق حضرت ابو طالب معاشی طور پر کمزور تھے تو آپ کی پرورش کی ذمہ داری نبی کریم ﷺنے لی۔ سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور نبی کریم ﷺ کے دامن شفقت میں پرورش پائی۔ 
جب حضور نبی کریم ﷺ نے نبوت کا اعلان کیا تو بچوں میں سب سے پہلے ایمان لانے کا اعزاز بھی آپ کو حاصل ہے۔ جب نبی کریمؐ نے اعلانیہ تبلیغ کا آغاز کیا تو انتہائی مشکلات و مصائب کے با وجود آپ نبی کریم ؐ کے ساتھ کھڑے رہے اور ہر مشکل میں آپ کا ساتھ دیا۔جب نبی کریم ؐ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا ارادہ فرمایا تو آپ نے حضرت علیؓ کو لوگوں کی امانتوں کا امین بنایااور فرمایا کہ میرے بستر پر سو جائو اور صبح لوگوں کی امانتیں واپس دے کر مدینے آ جانا۔ 
نبی کریم ﷺنے اپنی لاڈلی بیٹی کا نکاح سیدنا علی المرتضی ؓ کے ساتھ کیا۔ آپ نے تمام اہم غزوات میں شرکت فرمائی اورغزوہ خیبر کے موقع پر آپ نے فرمایا تھا کہ میں صبح جھنڈا اس کے ہاتھ میں دوں گا جس کے ہاتھ میں اللہ نے فتح لکھی ہے پھر صبح آپ  نے جھنڈا حضرت علی کو عطا کیا اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر اس معاہدے کو لکھنے کا اعزاد بھی آپ کو حاصل ہے۔ 
 نبی مکرمؐ نے غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت علی ؓ  کو اپنا نائب مقرر فرمایاتوآپ نے عرض کی کہ آقاآپ مجھے عورتوں اوربچوں میں چھوڑیے جارہے ہیں۔حضور نے فرمایاکیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ میرے ساتھ تمہاری وہی نسبت ہے جوھارون کو موسیٰ سے تھی۔(بخاری ومسلم)۔سیدنا علی المرتضی کے اقوال ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چند اقول درج ذیل ہیں:
۱: آپ  فرماتے ہیں کہ گناہوں کی دنیامیں یہ سزا ہے کہ عبادت میں سستی اور رزق میں تنگی ہو جاتی ہے۔ ۲: کامل فقیہہ وہ ہوتا ہے جو لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ کرے اور نہ ہی گناہ کرنے کی ڈھیل دے۔ ۳: حلال کی خواہش اس شخص میں پیدا ہوتی ہے جوحرام کمائی چھوڑ دینے کی پوری پوری کوشش کرتا ہے۔ ۴: سیدنا علی المرتضی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق بہترین راہنما ہے۔ ۵: سب سے بڑی دولت عقل مندی اور سب سے بڑا افلاس حماقت ہے۔

فقر کی فضیلت

  فقر کی فضیلت ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اور دور نہ کرو انہیں جو اپنے رب کو پکارتے ہیں۔صبح و شام اس کی رضا چاہتے ہیں۔ آ پ پر ان کے حساب سے ک...