جمعہ، 3 جنوری، 2025

Surah Al-Naml (سُوۡرَةُ النَّمل) Ayat 07-14 Part-01.کیا ہم اللہ تعالی کے...

Surah Al-Naml (سُوۡرَةُ النَّمل) Ayat 06 .کیا ہم قرآن پاک کی ضرورت محسوس...

امانتداری اور روزی میں برکت

 

امانتداری اور روزی میں برکت

جو بھی بندہ بد دیانتی ، دھوکا دہی یا پھر ملاوٹ کر کے کوئی چیز بیچتا ہے تو اس کا خیال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی روزی میں اضافہ کر رہا ہے لیکن کیا جھوٹ بولنے اور دھوکا دینے سے روزی میں برکت آتی ہے یا پھر سچ بول کر کوئی چیز بیچنے سے؟
یہ بات واضح ہے کہ روزی میں برکت بد دیانتی سے نہیں آتی بلکہ امانتداری سے آتی ہے۔ کسی کے پاس پیسے کچھ زیادہ ہونا یا پھر اناج کا زیادہ ہونا رزق میں برکت کی علامت نہیں۔ اگر کسی کے پاس بہت زیادہ پیسہ ہو اور وہ ہی پیسہ اس کے لیے وبال جان بن جا ئے اور اسے اپنے رب کی یاد سے غافل کر دے ، اس کی اولاد میں بگاڑ پیدا ہو جائے اور انسان کا سکون تباہ ہو جائے تو بظاہر جتنابھی پیسہ ہے وہ برکت سے محروم ہے۔ لیکن اسکے برعکس اگر بندے کے پاس پیسہ کم ہے اور وہ امن و سکون کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہے ، اس کی اولاد پیار اورمحبت کے ساتھ رہ رہی ہے اور وہ لوگوں کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی روزی میں برکت ڈال دی ہے۔ 
سورة الطلاق میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے (مشکلات سے نکلنے کی ) راہ پیدا فرماتا ہے اور اسے وہاں سے رزق عطا کرتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔ 
حضرت حکیم بن حزام سے روایت ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا :خریدو فروخت کرنے والے اختیار رکھتے ہیں جب تک جدا نہ ہوں۔ پھر اگر انہوں نے سچ کہا اور عیب بیان کر دیا تو ان کی بیع میں برکت دی جائے گی اور اگر انہو ں نے عیب چھپایا اور جھوٹ بولا تو ان کی برکت ختم کر دی جائے گی۔ ( شرح السنة للبغوی )۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : بازار میں غلہ لانے والے کو رزق دیا جاتا ہے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے۔ ( سنن الکبری البہیقی )۔
حضور نبی کریم ﷺ کی اس حدیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے جب تک تاجر امانتداری پر قائم رہے گا اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے ساتھ رہے گی اور جب وہ بد دیانتی کرے گا تو اللہ تعالیٰ کی مدد سے محروم ہو جائے گا۔ 
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں دو شریکوں کا تیسراہوتا ہوں جب تک ان میں سے ایک اپنے دوسرے ساتھی کے ساتھ خیانت نہیں کرتا اور جب وہ خیانت کرتا ہے تو میں درمیان سے نکل جاتاہوں۔ ( سنن انی داﺅد)۔
حضور نبی کریم ﷺ کے ارشادات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ روزی میں برکت امانتداری سے ہوتی ہے، بد دیانتی سے نہیں۔

اصل اسلام کیا ہے؟

ایمان باللہ کی حقیقت؟ || Emaan BilAllah ki Haqeeqat

جمعرات، 2 جنوری، 2025

Surah Al-Naml (سُوۡرَةُ النَّمل) Ayat 04-05 Part-02.کیا ہم نے نار جہنم ک...

Surah Al-Naml (سُوۡرَةُ النَّمل) Ayat 04-05 Part-01.کیا ہمارے دل حب دنیا...

شکر کے جذبہ کی حفاظت

 

شکر کے جذبہ کی حفاظت

حضورنبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:تم اس کو دیکھو جو تم سے نیچے ہے اور تم اس کو نہ دیکھو جو تم سے اوپر ہے کیونکہ اس طر ح تم اپنے اوپر اللہ تعالی کی نعمتوں کو کم نہیں سمجھو گے۔ ( مسند احمد)۔ 
ایک اور روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : دو صفتیں ایسی ہیں جو کسی انسان کے اندر ہوں تو اللہ تعالیٰ اس کو شکر کرنے والا اور صابر لکھ دیتا ہے ایک وہ جو دنیا کے معاملے میں اس کو دیکھے جو اس سے کم ہے اور پھر وہ اللہ تعالیٰ کا شکر کرے اس نعمت کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے اسے عنایت کی ہے۔ اور دوسرا وہ جو اپنے دین کے معاملے میں اس کو دیکھے جو اس سے اوپر ہے پھر وہ اس کی پیروی کرے۔ لیکن جو اپنی دنیا کے معاملے میں اس کو دیکھے جو اس سے اوپر ہو اور پھر وہ اس پر افسوس کرے جو اسے نہ ملا تو پھر وہ نہ شاکر لکھاجائے گا اور نہ ہی صابر۔ ( فتح الباری ) 
اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا بہت بڑی عبادت ہے۔ بندوں سے جو چیز زیادہ مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کو ایک عظیم منعم کے طور پردریافت کرے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے احساس کی وجہ سے اس کا سینہ بھرا ہو اور ہمیشہ اس کی روح سے شکر کرنا جاری رہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کو ایک ایسی ہستی کے طور پر پائے جو اس پر اپنی نعمتوں کی بارش کر رہا ہے اور بندے میں یہ شعور اتناپختہ ہو کہ اس کا سینہ اللہ تعالیٰ کاشکر ادا کر نے کے احساس سے خالی نہ ہو۔ اپنے آپ کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے کے طور پر تیاررکھنا آسان کام نہیں ہے۔ یہ اسی وقت ہی ممکن ہو سکتا جب بندہ اپنے دل میں کوئی ایسا خیال نہ آنے دے جس کی وجہ سے اس کا جذبہ شکر کم ہو۔ 
دنیا میں تمام لوگ مادی اعتبار سے برابر نہیں ہوتے۔ کو ئی امیر ہے تو کوئی غریب ، کوئی کمزور ہے تو کوئی طاقت ور۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فرق ایک خاص مصلحت کے تحت رکھا ہے۔ اگر بندہ اپنا موازنہ ایک ایسے شخص سے کرے جو اس سے اوپر ہے تووہ احساس کمتری کا شکار ہو گا اور اس کاشکر کرنے کا جذبہ کم ہو گا۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ ہمیشہ اپنے سے نیچے والے کو دیکھے تا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر بجا لاسکے اور اس کی نا شکری نہ کرے۔ شکر سب سے قیمتی متاع ہے جو بندہ اپنے رب کے سامنے پیش کر سکتا ہے۔با شعور اور عقل مند وہ ہی ہے جو ہر حال امیری ہو یا غریبی ، خوشی ہو یا پھر غمی ، خوشحالی ہو یا پھر تنگدستی، ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا رہے۔

ایمان کیا ہے؟ - Emaan Kya Hay

بدھ، 1 جنوری، 2025

Surah Al-Naml (سُوۡرَةُ النَّمل) Ayat 03.کیا ہم اپنے عمل سے یوم آخرت کو ...

Surah Al-Naml (سُوۡرَةُ النَّمل) Ayat 01-02 Part-03.ہم کیا نماز کے مقصد ...

رحمت الٰہی کا بھروسا اور گناہ

 

رحمت الٰہی کا بھروسا اور گناہ

انسان بسا اوقات اس وجہ سے گناہ کر لیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ رحمن اور رحیم ہے اور اللہ تعالیٰ ماں سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہم سے پیار کرتا ہے۔ وہ ہمیں معاف کر دے گا۔ بندہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بہانے گناہ کر لیتا ہے کہ جو خدا ہمیں ستر ماﺅں سے بڑھ کر پیار کرتا ہے وہ کیسے ہمیں دوزخ میں بھیجے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ بڑا غفورالرحیم ہے لیکن یہ ایک درست بات سے غلط نتیجہ نکالنا ہے اور یہ سوچ سوائے نفس کی تسکین کے اور کچھ نہیں۔ 
انسان کو جو کچھ بھی ملتا ہے یہ صرف اللہ تعالیٰ کی رحمت کے صدقے ہی ملتا ہے نا کہ کسی استحقاق کے بنا پر۔ اگر انسان ساری زندگی سجدے میں پڑا رہے تو بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت کا شکر ادا نہیں کر سکتا۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کسی کو اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔اور نہ ہی اسے دوزخ سے بچائے گا اور نہ ہی مجھے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ساتھ۔ ( کنز العمال )۔ 
اس حدیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسان اپنے اعمال کی وجہ سے جنت میں نہیں جائے گا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے طفیل ہی اسے جنت ملے گی۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انسان بے عملی اور گناہ کا راستہ اختیار کر لے۔ یہ بات قرآن اور سنت کی تعلیمات سے لا تعلقی کے سوا کچھ نہیں۔
 حضرت ابو ہریرہ ؓسے مروی ہے کہ حضورنبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : مجھے اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم گناہ نہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں لے جائےگا اور ایک ایسی قوم کو لائے گا جو گنا ہ کر کے توبہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں بخش دے گا۔ (ریاض الصالحین )۔
 یہ حدیث اللہ تعالیٰ کی رحمت کو بیان کرنے کے لیے اور گناہ گاروں کو مایوسی سے بچانے کے لیے تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہ ہوں۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اللہ تعالیٰ گنا ہ کرنے سے خوش ہوتا ہے بالکل غلط اور باطل سوچ ہے۔ ایسے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت کی آڑ میں گناہوں میں مبتلا ہو جانا بھی بالکل غلط سوچ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بہانے گناہوں میں مبتلا ہو جانے کی ایک بڑی وجہ حضور نبی کریم ﷺکے اسوہ حسنہ کو نہ اپنانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری رہنمائی کے لیے قرآن مجید نازل فرمایا اور اس کو عملی طور پر واضح کرنے کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مبعوث فرمایا۔ قرآن مجید کی تشریح کا پہلا ماخذ حدیث مبارکہ ہے۔ جب تک ہم اسوہ رسول پر عمل نہیں کریں گے، ایسے ہی شیطان کے وسوسوں کی وجہ سے گناہوں میں مبتلا ہوتے رہیں گے۔

دنیا کی محبت

زندگی کیسے گزاریں؟