ہفتہ، 18 جنوری، 2025

نمازی کے اوصاف(۱)

 

نمازی کے اوصاف(۱)

حضور نبی کریم ﷺنے فرمایانماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ حضور نبی کریم ﷺجب معراج سے واپس تشریف لائے تو دل مبارک ہر وقت اسی مقام معلی کے شوق اور آرزو میں لگا رہتا۔ آپ ؐ فرماتے اے بلال ؓ ہمیں نماز سے خوش کرو پس دراصل آپ کے لیے ہر نماز معراج اور قرب الہٰی کا موجب ہوتی تھی۔ لوگوں کی نگاہیں آپ کو نماز میں دیکھتی تھیں مگر صورت یہ تھی کہ جسم مبارک نماز میں دل نیاز میں اور باطن پرواز بارگاہ میں ہوتا۔ ادھر آپ کا تن مبارک سوزو گداز میں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ اسی طرح جسم ملک میں اور روح عالم ملکوت میں ہوتی۔ بظاہر وجود انسانی جسم ہوتا مگر روح مقام انس میں ہوتی۔ 
سچے کی نشانی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک فرشتہ مقرر کر دیتا ہے جو اسے نماز کے وقت نماز کے لیے ابھارتا ہے اور اگر وہ سو رہا ہوتو اسے بیدار کرتا ہے۔ سہل بن عبد اللہ ؓ میں یہ کیفیت بالکل ظاہر تھی۔ آپ اپنے دور میں کافی عمر رسیدہ تھے نماز کا وقت آتا تو ٹھیک ٹھاک ہو جاتے نماز ادا کر کے پھر بستر پر پڑے رہتے۔ ( کشف المحجوب )۔
ایک بزرگ کا قول ہے کہ ’’نماز پڑھنے والے کے لیے چار باتیں ضروری ہیں۔ اس کا نفس فنا ہو، خواہشات زائل ہوں ، باطن صاف ہو اوراسے مشاہدے میں کمال حاصل ہو۔ یعنی نماز اداکرنے والے کے لیے فنائے نفس کے بغیر چارہ نہیں اور نفس کی فنائیت ریاضت و ہمت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ جب ہمت مجتمع ہو جاتی ہے تو انسان کو نفس پر حکمرانی حاصل ہو جاتی ہے اس لیے کہ اس کا وجود تفرقہ سے ہے جمع کی عبارت کے تحت نہیں آسکتا۔ اور خواہشات کا زائل ہونا جلال خدا وندی کے اثبات کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ حق تعالی کا جلال غیر کے زائل ہونے کا موجب ہوتا ہے۔ اسی طرح باطن کی صفائی محبت کے بغیر نہیں ہوتی اور کمال مشاہدہ باطن کی صفائی کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔ کہا جاتا ہے کہ حسین بن منصورات دن میں چار سورکعات نماز بطور فریضے کے ادا فرمایا کرتے تھے لوگوں نے پوچھا اس قدر مرتبہ رکھنے کے باوجود آپ اتنی محنت کیوں کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ تمام رنج و راحت سے کیا واسطہ۔ خیال کرو۔ سستی و کاہلی کو بزرگی اور حرص کو طلب کا نام نہ دو۔ 
حضرت جنید نے بڑھاپے میں بھی اپنے جوانی والے اورادو وظائف میں سے کوئی چیز کم نہ کی لوگوں نے کہا حضور آپ بہت کمزور ہو گئے ہیں تو اورادو وظائف ذرا کم کر دیں۔ آپ نے فرمایا شروع میں ہم نے جو کچھ حاصل کیا انہی معمولات کی بنا پر حاصل کیا یہ مرتبہ پالینے کے بعد یہ کیسے ممکن ہے کہ میں انہیں چھوڑ دوں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں