امام ابو جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
جمال طریقت زینت فقرو تصوف ابو محمد جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ انتہائی بلند حال اور نیک سیرت کے مالک تھے۔ ظاہر و باطن آراستہ و پیراستہ تھا اور تمام علوم میں آپ کے خوبصورت اشارات و اقوال ہیں۔ مشائخ کے نزدیک آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دقیق معانی اور حقائق کے سلسلے میں ممتاز و معروف ہیں۔ تصوف کی کتابوں میں آپ کا ایک فرمان موجود ہے کہ ’’ جسے اللہ کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے وہ اللہ کے سوا ہر چیز سے منہ موڑ لیتا ہے۔ یعنی جو عارف ہوتا ہے وہ غیر سے اپنا تعلق توڑلیتا ہے کیونکہ خدا کی معرفت غیر کا مکمل انکار چاہتی ہے اور غیر کا انکار ہی در حقیقت اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے۔ پس عارف مخلوق سے آزاد اور حق کے ساتھ واصل ہوتا ہے اس کے دل میں اتنی جگہ نہیں ہوتی کہ وہ اس میں غیر کی توجہ کو اپنے دل میں جگہ دے۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’عبادت توبہ کے بغیر درست نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے توبہ کو عبادت پر مقدم رکھا ہے ‘‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’توبہ والے عبادت والے ‘‘۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ توبہ آغاز ہے جبکہ بندگی انتہا و انجام۔اللہ تعالیٰ نے گنہگاروں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :’’ اور اللہ کی طرف توبہ کرو سب کے سب ‘‘۔
ایک دفعہ دائود طائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے رسول اللہﷺ کے فرزند، مجھے کچھ نصیحت کریں میرا دل سیاہ ہو چکا ہے۔ آپ نے فرمایا اے ابو سلیمان آپ اپنے زمانے کے بڑے عابد و زاہد ہیں آپ کو میری نصیحت کی کیا ضرورت ہے۔دائود طائی فرماتے ہیں حضور آپ کو اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق پر فضیلت عطا فرمائی ہے ساری مخلوق کو نصیحت کرنا آپ کا فرض ہے۔
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اے ابو سلیمان مجھے اس بات کا خوف ہے کہ کل بروز قیامت میرے جد امجد اس بات پر میرا دامن نہ پکڑ لیں کہ تو نے میری متابعت کا حق ادا کیوں نہیں کیا ؟ یہ معاملہ نسبت یا کسی دوسری چیز پر نہیں بلکہ صرف اللہ کے نزدیک حسن عمل پر منحصر ہے۔ یہ بات سن کر حضرت دائود طائی رونے لگے اور فرمایا اے میرے اللہ جس کا خمیر نبوت کے پانی سے گوندھا گیا ہے جس کے جد امجد نبی کریم ﷺہیں اور جس کی والدہ سیدہ کائنات سیدہ بتولؓ ہیں وہ اس حیرانی میں ہے تو دائود بے چارہ کون ہے جو اپنے آپ کو کسی قطار میں شمار کرے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں