ہفتہ، 31 اگست، 2024

دعا کی قبولیت کے اوقات (2)

 

دعا کی قبولیت کے اوقات (2)

اللہ تعالیٰ نے لیلۃ القدر کو بڑی برکت اور فضیلت والا بنایا ہے اور اس رات کی عبادت کو ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے اور اسی رات میں اللہ تعالیٰ نے نزول قرآن فرمایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ بیشک ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔ اور آپ کیا سمجھے کہ شب قدر کیا ہے۔ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس رات فرشتے اور جبریل اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے نازل ہوتے ہیں۔ یہ رات طلوع فجر ہونے تک سلامتی ہے۔ (سورۃالقدر )۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے آپ فرماتی ہیں میں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی کہ اگر میں شب قدر کو پا لوں تو کیا پڑھوں : 
آپ ﷺ نے فرمایا تم یہ پڑھو۔ ’’ اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی ‘‘
رات کی عبادت کو اللہ تعالیٰ نے بڑی فضیلت عطا کی ہے۔ جب سارے لوگ سو رہے ہوں اور بندہ اپنے خالق حقیقی کے سامنے ہاتھ پھیلا کر دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو شرف قبولیت عطا فرماتا ہے۔اور فرض نمازوں کے بعد جب بندہ اپنے خالق و مالک کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو جلدی قبول فرماتا ہے۔ رسول خدا ﷺ سے عرض کی گئی یارسول اللہ ﷺ کونسی دعا جلدی قبول ہو جاتی ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :رات کے آخری حصے میں اور فرض نمازوں کے بعد کی جانے والی دعا۔ ( ترمذی )۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا : بیشک رات میں ایک وقت ایسا ہے جو بھی مسلمان اسے پالے اور اللہ تعالیٰ سے دنیا اور آخرت کے کسی کام میں خیر کا سوال کرے تو اللہ تعالیٰ اسے عطا فرماتا ہے اور یہ ساعت تمام رات میں کسی بھی وقت ہو سکتی ہے۔ ( مسلم )۔
جب بندہ اپنے کسی مسلمان بھائی کے لیے اس کی غیر موجودگی میں دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبول فرماتا ہے اور فرشتے اس شخص کے لیے ایسی ہی دعا کرتے ہیں جیسی وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے کر رہا ہوتا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جب کوئی مسلمان بندہ اپنے بھائی کے لیے اس کی غیر موجودگی میں دعا کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے تیرے لیے بھی اس کی مثل ہو۔ ( مسلم )۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب رات کو بندے کی آنکھ کھلے تو وہ یہ دعا پڑھے :
’’لاالہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ، لہ الملک ولہ الحمد ، وھو علی کل شئی قدیر ، الحمد للہ ، وسبحان اللہ
 ،ولا الہ الا اللہ ، واللہ اکبر، ولا حول ولا قوۃ الا بااللہ ‘‘ 
آپ ﷺ نے فرمایا اس کی دعا قبول کی جاتی ہے۔ پس اگر وہ وضو کرے اور نماز پڑھے تو اس کی نماز قبول کی جاتی ہے۔ ( بخاری )۔

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 46 .واقعی کیا ہم دل کے اندھے ہیں

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 41-45 .کیا آج ہم اللہ تعالی کے عذاب ...

جمعہ، 30 اگست، 2024

دعا کی قبولیت کے اوقات (۱)

 

دعا کی قبولیت کے اوقات (۱)

بندہ اپنے خالق حقیقی سے اس یقین کے ساتھ دعا مانگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو شرف قبولیت بخشے گا۔ اللہ تعالیٰ نے بعض اوقات کو بہت زیادہ فضیلت بخشی ہے۔ جب بندہ اللہ تعالیٰ سے ان اوقات میں دعا مانگتا ہے تو ان اوقات میں دعا کی قبولیت کی امید دوسرے اوقات کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے یوم عرفہ کے دن کو بہت زیادہ فضیلت بخشی ہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ گناہ گاروں کی بخشش فرماتا ہے اور ان پر اپنے لطف وکرم کی انتہا کر دیتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ جتنا عرفہ کے دن اپنے بندوں کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے اتنا کسی اور دن نہیں۔ اللہ تعالیٰ قریب ہوجاتا ہے اور ان کی وجہ سے فرشتوں پر فخر فرماتا ہے اور فرماتا ہے میرے ان بندوں نے کیا چاہا۔ ( ابن ماجہ ) 
یوم جمعہ کو اللہ تعالیٰ نے بہت زیادہ فضیلت اور عظمت بخشی ہے۔ جمعہ کے دن اور رات میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی قبولیت کی زیادہ امیدہے۔ حضور نبی کریمﷺ نے یوم جمعہ کو سید الایام فرمایا ہے۔
 حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی ہے اگر کوئی مسلمان بندہ نماز کی حالت میں اس کو پالے اور کوئی چیز اللہ تعالیٰ سے مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز ضرور عطا فرمائے گا۔ آپؐ نے ہاتھ کے اشارے سے فرمایا کہ وہ ساعت بہت تھوڑی سی ہے۔ ( بخاری شریف )۔
جب بندہ سجدہ کی حالت میں اپنے رب کو پکارتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبول فرماتا ہے۔ سجدہ کی حالت میں بندہ اپنے رب کے بہت زیادہ قریب ہوتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : بندہ اپنے رب کے زیادہ قریب سجدہ کی حالت میں ہوتا ہے اس لیے حالت سجدہ میں کثرت سے دعا مانگو۔ ( مسلم )۔
اذان اور اقامت کے وقت دعا کی قبولیت کی زیادہ امید ہوتی ہے۔ موذن اذان میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور نبی کریم ﷺکی رسالت کی گواہی دیتا ہے۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : دو بندوں کی دعا رد نہیں کی جاتی یا بہت کم رد کی جاتی ہے۔اذان کے وقت دعا اور جہاد کے وقت دعا جب لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا ہوں۔ ( ابو دائود )۔ 
 حضرت انس ؓ فرماتے ہیں رسول خدا ؐ نے فرمایا بیشک اذان اور اقامت کے درمیان دعا رد نہیں ہوتی پس اس وقت دعاکیا کرو۔ ( مسند احمد )۔

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 38 .کیا ہم خائن اور ناشکرے نہیں ہیں

جمعرات، 29 اگست، 2024

جن کی دعا قبول ہوتی ہے (2)

 

جن کی دعا قبول ہوتی ہے (2)

بیمار کی دعا کو اللہ تعالیٰ شرف قبولیت عطا فرماتا ہے۔حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی مریض کے پاس جائے تو اس سے مصافحہ کرے اور اپنا ہاتھ اس کی پیشانی پر رکھے ، اس کا حال پوچھے اس کی عمر درازی کے لیے دعا کرے اور اس سے اپنے لیے دعا کرائے کیونکہ مریض کی دعا فرشتوں کی دعا کی طرح ہے۔ ( شعب الایمان )۔
جو بندہ اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرتا ہے ان کا خیال کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبول فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کے ساتھ والدین کے ساتھ نیکی کرنے کو ملایا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ”میرا بھی اور اپنے والدین کا بھی شکر ادا کرو ، میری طرف ہی لوٹنا ہے “۔ ( سورة لقمان )۔
حضرت اسیر بن جابر ؓ فرماتے ہیں کہ سیدنا فاروق اعظم کے پاس جب اہل یمن سے لوگ آتے تو ان سے پوچھتے کیا تم میں اویس بن عامرہے ؟ ایک دن آپ کو حضرت اویسؓ مل گئے آپ نے پوچھا آپ اویس بن عامر ہیں انہوں نے کہا ہاں ، حضرت عمر ؓنے پوچھا آپ قرن سے ہیں اور آپ کو برص کی بیماری تھی جس کا ایک درہم کے برابر نشان باقی ہے اور کیا آپ کی والدہ ہیں انہوں نے سب کے جواب میں ہاں کہا۔ 
حضرت عمرؓ نے کہا میں نے یہ سب حضور نبی کریم ﷺ سے سنا ہے۔حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ آپ اپنی والدہ کے ساتھ نیکی کرتے ہیں اور جب کسی چیز پر اللہ کی قسم کھا لے تو اللہ ضرور پوری کرتا ہے۔ حضور ﷺنے فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی اسے ملے تو اپنے لیے دعا کروانا۔ آپ نے حضرت عمرؓ کے لیے دعا کی۔ آپ جانے لگے تو حضرت عمرؓ نے پوچھا کہاں جا رہے ہیں ، کہامیں کوفہ جا رہا ہوں۔
 حضرت عمر ؓنے کہا میں کوفہ کے عامل کے نام آپ کے لیے خط لکھ دوں تو حضرت اویس قرنیؓنے فرمایا میں خاک نشین لوگوں میں رہنا پسند کرتا ہوں۔ 
دوسرے سال کوفہ سے ایک آدمی حضرت عمرؓ کے پاس آیا تو آپ نے حضرت اویسؓ کے متعلق پوچھا اس شخص نے کہا میں اسے کم سامان کے ساتھ شکستہ گھر میں چھوڑ آیا ہوں۔ حضرت عمرؓ نے اس شخص کو حضور نبی کریمﷺ کا سارا فرمان سنایا جب وہ شخص کوفہ واپس گیا تو حضرت اویسؓ سے دعا کی درخواست کی تو آپ نے کہا تم ابھی نیک سفر سے آئے ہو۔ تین بار آپ نے یہی فرمایا۔ حضرت اویس ؓ نے پوچھا تم حضرت عمر سے ملے ہو اس نے کہا جی۔ تو آپ نے اس کے لیے دعا کی اور وہاں سے چلے گئے۔ حضرت اویسؓ کو یہ مقام اپنی والدہ کی خدمت کرنے کی وجہ سے حاصل ہو ا۔ (مسلم)۔

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 37 .کیا ہم نے زندگی صرف دنیا کے لئے ...

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 36 .کیا ہم راستہ بھٹک چکے ہیں

بدھ، 28 اگست، 2024

جن کی دعا قبول ہوتی ہے (۱)

 

جن کی دعا قبول ہوتی ہے (۱)

انسان جب پریشانیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اس پریشانی کے عالم میں اسے کہیں سے مدد کی کوئی امید نظر نہیں آتی اور وہ بے حد مجبور ہو جاتا ہے۔ لیکن تب بھی ایک ایسا دروازہ ہے جو کھلا ہوتا ہے اور بندے کی نظر اس پر جم جاتی ہے وہ دروازہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ہے ۔
 اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر بے یارو مدد گار کو سہارا دیتی ہے ۔ جب بندہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی پکار کو سنتا ہے ۔ جب کوئی مجبور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو اپنی رحمت سے شرف قبولیت عطا فرماتا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’بتائو جب بے قرار اس کو پکارتا ہے تو اس کی دعا کو کون قبول کرتا ہے اور کون تکلیف کو دور کرتا ہے اور تم کو زمین پر پہلوں کا قائم مقام بناتا ہے کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے تم لوگ بہت کم نصیحت قبول کرتے ہو ‘‘۔( سورۃ النمل ) 
ماں باپ اور مسافر کی دعا اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔ ماں باپ اپنی اولاد سے بے حد پیار کرتے ہیں جس میں خلوص شامل ہوتا ہے ۔ جب والدین اپنی اوالاد کے لیے دعا مانگتے ہیں تو خالص نیت کے ساتھ مانگتے ہیں ۔ والد کی دعا اپنی اولادکے حق میں اللہ تعالیٰ قبو ل فرماتا ہے ۔ اسی طرح جو بندہ مسافر ہووہ اپنی منزل کی طرف گامزن ہو اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو بھی قبول فرماتا ہے ۔
 حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرماما : تین دعائوں کی قبولیت میں کوئی شک نہیں :مظلوم کی دعا ، والدکی اپنے بچوں کے حق میں کی گئی دعا اور مسافر کی دعا ۔ (ابن ماجہ) 
جب بندہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلتا ہے اور اپنی جان کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کر دیتا ہے ۔ اور وہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے جہاد کر رہا ہو تو اللہ تعالیٰ اس مجاہد کی دعا کو قبول فرماتا ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے، حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا : پانچ دعائیں قبول ہوتی ہیں : مظلوم کی دعا حتیٰ کہ وہ انتقام لے لے ، حج کرنے والے کی دعا حتیٰ کہ وہ واپس آ جائے ، مجاہدکی دعا وہ جہاد سے لوٹ آئے ، بیمار کی دعا حتیٰ کہ وہ صحت یاب ہو جائے اور بھائی کی اپنے بھائی کے لیے اس کی غیر موجوددگی میں کی گئی دعا ۔ 
جب کوئی مظلوم کسی کے خلاف دعا کرتا ہے تو وہ دعا بہت جلد قبول ہو جاتی ہے۔ حضور نبی کریمﷺ نے جب معاذ بن جبل ؓ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو فرمایا مظلوم کی بد دعا سے بچو کیونکہ مظلوم کی بد دعا اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ۔ ( بخاری )

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 35 .کیا ہم نے اپنے آپ کو بڑا تصور کر...

منگل، 27 اگست، 2024

Surah Al-Haj Ayat 32-34 .کیا ہم اللہ تعالی کے حکم سامنے اپنا سر جھکانے ک...

دعا قبول نہ ہونے کی وجوہات (۲)

 

دعا قبول نہ ہونے کی وجوہات (۲)

بندہ جب بھی اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کے لیے ہاتھوں کو بلند کرے تو پورے عزم اور وثوق کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرے ورنہ اس کی دعا قبول نہیں ہو گی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی دعا کرتے وقت ہر گز یہ نہ کہے یا اللہ اگر تو چاہے تو میری مغفرت فرما، یا اللہ اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم فرما اسے چاہیے کہ پورے عزم کے ساتھ دعا کرے کیونکہ اللہ پر کوئی جبر کرنے والا نہیں ہے۔ (بخاری)۔
جب بھی دعا مانگیں تو اس یقین کے ساتھ دعا مانگیں کہ اللہ تعالیٰ بڑا غفورالرحیم ہے۔ وہ میری دعائوں کو لازمی قبول فرمانے والا ہے۔ اگر دعا کرتے وقت پختہ یقین نہیں ہو گا اور دعا غافل دل سے کرے گا تو وہ قبول نہیں ہو گی۔
 حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ سے اس حال میں دعا کرو کہ تمہیں اپنی دعا کی قبولیت کا یقین ہو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ غافل اور لاپرواہ دل کی دعا قبول نہیں کرتا۔ (ترمذی ) 
اللہ تعالیٰ نے حرام کھانے سے منع فرمایا ہے۔ جو شخص حرام کھائے گا اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبول نہیں کریگا۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک چیز کے سوا کسی اور چیز کو پسند نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہی حکم دیا ہے جو اس نے اپنے رسولوں کو دیا تھا اور فرمایا، اے رسولو پاک چیزیں کھائو اور نیک کام کرو، میں تمہارے کاموں سے باخبر ہوں۔اور فرمایا اے مسلمانوہماری دی ہوئی پاک چیزوں سے پاک چیزیں کھائو۔ اور پھر آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر کرتا ہے اس کے بال گرد آلود ہیں وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے یارب ، یارب۔ اس کا کھانا حرام ہو ، اس کا پینا حرام ہو ، اس کا لباس حرام ہو اور اس کی پرورش حرام سے ہوئی ہو تو اس کی دعا کیسے قبول ہو۔ ( مسلم ) 
بندہ جس طرح کا گمان اللہ تعالیٰ کے ساتھ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ ویسا ہی معاملہ فرماتا ہے اس لیے دعا کرتے وقت یہ گمان رکھنا چاہیے کہ میری دعا قبول ہو گی۔ اسکے علاوہ دعا کے ساتھ ساتھ اپنی کوششوں کو بھی جاری رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت کو خود نہ بدل لیں۔ (سورۃ الرعد)
جب بندہ اخلاص کے ساتھ دعا کرے ، رزق حلال کھائے ، دعا کی قبولیت کا یقین رکھے ، اللہ تعالی سے نیک گمان رکھے ، نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے اور جھوٹ نہ بولے گناہوں سے بچے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اس کی دعا ضرور قبول فرمائے گا۔

پیر، 26 اگست، 2024

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 25-31.کیا ہمارے اندر مشرکانہ صفات مو...

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 23-24 Part-02 .کیا ہم نے جنت نہ جانے...

دعا قبول نہ ہونے کی وجوہات (۱)

 

دعا قبول نہ ہونے کی وجوہات (۱)

ہم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں لیکن ہماری دعائیں درجہ قبولیت کو نہیں پہنچتیں۔ جب ہماری دعائیں درجہ قبولیت کو نہ پہنچیں اور ہماری التجائیں بے اثر ہو جائیں تو پھر ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم سے ایسی کیا غلطی سر زد ہو گئی ہے جس کی وجہ سے ہماری دعائیں قبول نہیں ہو رہیں۔ 
انسان کوئی بھی نیک کام کرے اس میں خلوص کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اور وہ کام خالص اللہ تعالی کی رضا کی خاطر کیا جائے تو پھر ہی اس پر اجر ملتا ہے۔ اسی طرح دعا مانگتے ہوئے بھی خلوص شرط ہے۔ جب ہماری دعائوں میں اخلاص نہیں ہو گا تو وہ قبول نہیں ہوں گی۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’سو تم اللہ کی عبادت کرو ، اخلاص کے ساتھ اس کی اطاعت کرتے ہوئے خواہ کافروں کو برا لگے ‘‘۔ (سورۃ غافر )۔
 حدیث مبارکہ میں دعا کو عبادت قرار دیا گیا ہے اس لیے اس میں بھی خلوص ضروری ہے۔ بعض اوقات ہم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں تو ہماری دعا قبول نہیں ہوتی تو ہمیں یہ دیکھنا چاہیے اللہ تعالیٰ نے کوئی مصیبت اس سے دور کر دی ہے۔ یعنی جو ہم نے اللہ تعالیٰ سے مانگا وہ نہیں ملا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے اس دعا کی وجہ سے آنے والی یا جو مصیبت آ چکی تھی اسے دور کر دیا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی بہتر جانتا ہے کہ اس کے بندوں کے لیے کیا بہتر ہے اور کیا نہیں۔ 
 حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب بندہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتا ہے، اللہ تعالیٰ یا تو اس کی مانگی ہو چیز عطا فرمادیتا ہے یا اس سے اس کی مثل برائی کو دور کرتا ہے، جب تک وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے (ترمذی )۔ دعا کی قبولیت کی تین صورتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ وہ عطا کر دے جس کا سوال کیا گیا ہے ، یا پھر اس کی دعا کو آخرت کے لیے محفوظ کر لے یعنی اس کا اجر قیامت کے دن ملے گا اور یا پھر اس دعا کی وجہ سے اس کی کسی برائی کو دور کر دے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ابھی الفاظ منہ ہی ہوں اور دعا قبول ہو جائے۔ حضورﷺ نے دعا میں جلدی کرنے سے منع فر مایا ہے۔حضور ﷺ نے فرمایا جب تک تم میں سے کوئی شخص قبولیت کی جلدی نہیں کرتا اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔وہ کہتا ہے کہ میں نے دعا کی میری دعا قبول نہیں ہوئی۔ ( بخاری ) 
جب معاشرے میں برائی عام ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ دعا قبول نہیں فرماتا۔ حضور ﷺ نے فرمایا نیکیوں کا حکم دو اور برائیوں سے منع کرو اس سے پہلے کہ تم لوگ دعا کرو اور تمہاری دعائیں قبول نہ ہوں۔ ( ابن ماجہ)۔

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 23-24 Part-01 .کیا ہم راستہ بھٹک گئے...

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 19-22 .کیا ظالم جنت میں نہیں جائیں گے

ہفتہ، 24 اگست، 2024

حضرت داتا گنج بخش کی تعلیمات (۳)

 

حضرت داتا گنج بخش کی تعلیمات (۳)

کوئی بھی کام کرنے سے پہلے خلوص نیت کا ہونا ضروری ہے۔ انسان کوچاہیے کہ اپنے دل کو نفسانی اغراض و مقاصد سے پاک کر ے کیونکہ جس دینی کام میں انسان کی ذاتی خواہشات شامل ہوں اس کام سے برکت ختم ہو جاتی ہے اور دل راستی و دیانت کی راہ سے نکل کر مختلف قسم کی زنجیروں میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اور اگر نفسانی اغراض و مقاصد پورے ہو جائیں تو ہلاکت ہی ہلاکت اور آفت ہی آفت ہے۔ نفس کا دوسرا حال یہ ہے کہ اس کی کوئی مراد پوری نہ ہو اور یہ محفوظ صورت ہے مگر اس کے لیے جو غرض بد کو پہلے ہی دور کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے جنت کی بشارت دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اور جس نے اپنی نفسانی خواہشات کو روکا تو اس کا ٹھکانا جنت ہے ‘‘۔(سورۃا لنازعات )۔
انسان کو بھلائی اسی صورت میں حاصل ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے تمام دینی امور کا بدلہ صرف اور صرف اللہ سے چاہے اور نفسانی خواہشات سے اللہ تعالی کی پناہ مانگے۔ حضور داتا صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے خلوص نیت پر اس لیے اتنا زور دیا ہے کیونکہ کہ انسان کے تمام اعمال کا دارومدار اس کی نیت پر ہے۔ 
خلوص نیت کے بارے میں حضور داتا صاحب نے ایک مثال دے کر سمجھایا۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایک شخص روزہ رکھنے کی نیت کے بغیر بھوکا رہے تو اس کو کوئی اجر وثواب نہیں ملے گا اور اگر وہی شخص روزہ رکھنے کی نیت کے ساتھ بھوکا رہے تو اسے روزہ کا ثواب ملے گا۔
آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دور میں پیدا کیا ہے جب اہل زمانہ حظِ نفس اور حرص و ہوا کو شریعت بنا بیٹھے ہیں اور طلب جاہ اور تکبر کو عزت و علم سمجھ بیٹھے ہیں۔ ریاکاری اور نمائش کو خوف الہی ، بغض و حسد اور کینہ پروری کو حلم ، مجادلہ کو مناظرہ دین ، لڑائی جھگڑاکو غیرت ، نفاق کو زہد اور ہذیان اور بکواس کو معرفت اور ترک احکام شریعت کو عین طریقت سمجھ بیٹھے ہیں۔ جس کی وجہ حقیقی سالکین تھے۔ وہ ان دیدہ دلیروں سے الگ ہو گئے اور جنہیں طریقت و تصوف کا کچھ پتا نہیں تھا انہوں نے عوام پر غلبہ حاصل کر لیا۔
 نفسانی خواہشات کی پیروی کر کے انسان معرفت الہی کو حاصل نہیں کر سکتا۔ معرفت الٰہی میں سب سے بڑا حجاب اس کا اپنا نفس ہے جو انسان کو تمنائوں میں الجھا کر اور ذاتی خواہشات کے سمندر میں ڈبو کر اسے اللہ تعالیٰ کے راستے سے دور کر دیتا ہے۔ نفس کی پیروی ہی کی وجہ سے لوگ حقیقت کو چھوڑ کر بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس لیے حضور داتا صاحب نے اپنی ذاتی خوہشات کے پیچھے بھاگنے سے منع فرمایا اور احکام الٰہی کو اپنانے کی تبلیغ کی۔

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 15 Part-01.کیا ہمارا اپنے رب پر بھرو...

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 15-16 Part-02 .کیا ہم اپنے رب پر مک...

جمعہ، 23 اگست، 2024

حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات(۲)

 

حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات(۲)

رائے راجو جو لاہور کا گورنر تھا، نے آپ کا زہدو تقوی دیکھ کر اور آپ کے اخلاق سے متاثر ہو کر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیااور پھرساری زندگی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے آستانے پر بسر کردی اور شیخ ہندی کا لقب پایا۔
حضرت خواجہ نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ’’علماء زبان سے تبلیغ کرتے ہیں اور صوفیا ء عمل سے‘‘۔ کیونکہ جو بات زبان سے نکلنے کے بعد عمل سے بھی ظاہر ہو اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ بات دل سے اسی صورت میں نکلتی ہے جب دل کینہ ، حسد ،عداوت اور لالچ سے پاک ہو۔ اولیا کرام اور صوفیاء کرام پہلے مریدین کا تزکیہ نفس فرماتے اور ان کے دلوں کو برے اخلاق سے پاک کر کے ان کے دلوں میں ذکر الٰہی سے روشنی کر دیتے۔ 
داتاصاحب رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں ایسی دو باتوں کا ذکر کیا ہے جو مسلمان کو ہر بڑے کام سے پہلے کرنی چاہیے۔ اول استخارہ اور دوسرا خلوص نیت۔ استخارہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ سے مشورہ کرنے کو کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کا یہ معمول رہاہے کہ وہ ہر کام سے پہلے استخارہ کرتے ہیں۔ داتا صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں اس سے کام میں برکت ہوتی ہے اور بندہ اپنے معاملات کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیتا ہے۔
اللہ اگر توفیق نہ دے تو انسان کے بس کا کام نہیں۔ 
فیضان محبت عام تو ہے، عرفان محبت عام نہیں
داتا صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بندہ جو کام کرتا ہے اس میں بہتری اس کی کوشش یا تدبیر سے نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہر قدم پر ہوتی ہے۔ تدبیر کرنا اور کوشش کرنا اور اسباب کو اختیار کرنا اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہماری کوشش اور تدبیر حقیقی ہے بلکہ اصل میں موثر حقیقی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ بعض اوقات ہم کسی کام کو کرنے کے لیے دن رات کوشش کرتے ہیں لیکن وہ مکمل نہیں ہوتا لیکن بعض اوقات ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا اور ہمارا کام پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ کوئی بھی کام اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ استخارہ حقیقت میں قضائے الٰہی کو معلوم کرنے کی ایک صورت ہے۔ لہٰذا ہر اہم کام میں استخارہ کرنا چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کی خطا اور خلل سے محفوظ رکھے۔ 
ہر حال میں راضی بہ رضا ہو تو مزا دیکھ 
دنیا ہی میں بیٹھے ہوئے جنت کی فضا دیکھ۔

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 14 .کیا ہم یقینی طور پر جنت میں جائی...

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 11-13 Part-02.کیا ہم مادیت پرستی میں...

جمعرات، 22 اگست، 2024

حضرت داتا گنج بخش کی تعلیمات(۱)

 

حضرت داتا گنج بخش کی تعلیمات(۱)

حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا نام علی اور اْ ن کے والد کا نام عثمان تھا۔ اْن کا پورا نسب علی بن عثمان بن علی الجلابی ثم الہجویری الغزنوی ہے اور آپ کی کنیت ابو الحسن ہے۔ ’’حدائق الخفیہ‘‘ میں ہے کہ آپ کا شجرہ نسب حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتاہے۔آپ کا تمام گھرانہ زہد و تقوی کا گھرانا تھا۔ ’’سفینۃ الا ولیاء ‘‘ میں ہے کہ حضرت داتا گنج بخش کا تعلق افغانستان کے شہر غزنوی سے ہے۔ جلاب اور ہجویر غزنی کے دو محلے ہیں۔ آپ پہلے ایک محلے میں رہتے تھے پھر دوسرے محلے میں رہے اس لیے آپ کو کبھی جلابی اور کبھی ہجویری کہا جاتا ہے۔
ویسے تو داتا صاحب نے بہت سے مشائخ سے فیض پایا ہے۔لیکن حضرت ابو العباس السقانی کی نسبت سے آپ لکھتے ہیں کہ مجھے ان سے کمال انس تھا اور وہ بھی مجھ سے سچی شفقت فرماتے تھے۔بعض علوم میں وہ میرے استاد تھے۔ یہ بزرگ نہ صرف اہل تصوف کے بزرگان اجل میں سے تھے بلکہ مختلف اصولی اور فروعی علموں میں امام بھی تھے۔ علم باطن میں داتاصاحب نے شیخ ابو الفضل محمد بن حسن سے فیض پایا۔
حضرت داتا صاحب کا شمار ان بزرگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچایا۔داتا صاحب نے اپنی زندگی کے آخری سال لاہور میں گزارے۔ جب حضور داتا صاحب لاہور تشریف لائے تو لاہور میں کافی تعداد میں مسلمان موجود تھے۔ صوفیا کرام کی یہ عادت ہے کہ جس جگہ پر بیٹھ کر وہ دین کی تبلیغ کرتے ہیں وہاں ایک مسجد تعمیر کرواتے ہیں۔داتا صاحب نے جو مسجد تعمیر کی آپ نے اس کے اخراجات بھی خود ادا کیے۔ اور سنت رسول ﷺ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اس کی تعمیر میں بھی حصہ لیا۔
مسجد کی تعمیر کے بعد حضور داتا صاحب نے با قاعدہ طور پر تبلیغ کا آغاز کیا۔آپ دن رات زیادہ تر وقت قرآن و حدیث کے درس میں گزارتے۔ ذاتی مسائل اور پریشانیوں کے حل کے لیے غیر مسلم بھی آپ کے پاس تشریف لاتے۔ آپ ان کے ساتھ بڑی شفقت اور ہمدردی کے ساتھ پیش آتے جس سے غیر مسلم بہت زیادہ متاثر ہوتے۔ پھر آپ ان کو دین حق کی تبلیغ فرماتے۔ آپ کے اخلاق اور شرافت  سے بہت زیادہ متاثر ہوتے اور دین اسلام میں داخل ہو جاتے۔ 
داتا صاحب کی تبلیغ اور ان کے اخلاق کی وجہ سے برصغیر میں تیزی سے اسلام پھیلنا شروع ہو گیا۔ بہت ہی کم وقت میں بہت سارے جاہل عالم بن گئے اور جو فسق و فجور اور اخلاقی گراوٹ کا شکار تھے وہ راہ راست پر آ گئے۔ آپ پہلے لوگوں کے نفس کی اصلاح فرماتے اور حرص و ہوس میں مبتلا لوگوں کو آزاد کرواتے اور پھر اللہ تعالیٰ کا ذکر ان کے قلوب میں ڈال دیتے۔ 

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 11-13 Part-01.کیا ہم دنیا اور آخرت ...

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 09-10 .کیا ہم نے اخروی مفاد پر دنیاو...

اس وقت کیا ہم حالت ایمان میں ہیں؟ || Are We in a State of Faith Right Now

بدھ، 21 اگست، 2024

 

حضرت ام معبد رضی اللہ تعالی عنہا (۲)

    گردن چمک دار تھی۔ ریش مبارک گھنی تھی۔ جب وہ خاموش ہوتے تو پر وقا رہوتے۔ 
جب گفتگو فرماتے تو چہرہ پر نور اور با رونق ہو تا۔ شیریں گفتار۔ گفتگو واضح ہوتی نہ بے فائدہ ہوتی نہ بیہودہ۔ گفتگو گویا موتیوں کی لڑی ہے جس سے موتی جھڑ رہے ہوتے۔ دور سے دیکھنے پر سب سے زیادہ با رعب اور جمیل نظر آتے۔ اور قریب سے سب سے زیادہ شیریں اور حسین دکھائی دیتے۔قد درمیانہ تھا۔ نہ اتنا طویل کہ آنکھوں کو برا لگے اور نہ اتنا پست کہ آنکھیں حقیر سمجھنے لگیں۔
 آ پ دو شاخو ں کے درمیان ایک شاخ کی مانندتھے جو سب سے سر سبز و شاداب اور قدآور ہو۔ ان کے ایسے ساتھی جو ان کے گرد حلقہ بنائے ہوئے تھے۔ اگر آپ انہیں کچھ کہتے تو فوراًً اس کی تعمیل کرتے۔ اگر آپ انہیں حکم دیتے تو فوراًبجا لاتے۔ سب کے مخدوم۔ سب کے محترم۔ نہ وہ ترش رو تھے نہ ان کے فرمان کی مخالفت کی جاتی تھی۔ 
حضور نبی کریمﷺ کا حلیہ مبارک بیان کرتے ہوئے عقیدت و محبت مصطفے سے جگمگاتی ہوئی آنکھوں سے ستارے پھوٹ رہے ہوں۔ لفطو ں نے رنگ و خوشبو کا لبادہ اوڑھ لیا ہو۔ جلوہ حضو ر نے علم و عشق کے آفتاب کی کرنیں لٹا دی ہوں ۔ محققین نے حضرت ام معبد رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بیان کردہ حلیہ مبارک کو حضور نبی کریم ﷺ کی پہلی نعت قرار دیا۔
 حضور نبی کریم ﷺ کچھ دیر ٹھہر کر آپ کے گھر سے تشریف لے گئے لیکن آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لفظوں کی کہکشاں بکھیر دی۔
 تری خوش بختیاں اے ام معبد کوئی کیا جانے 
ترے الفاظ میں گم ہیں زمانے بھر کے فرزانے
جب حضرت ام معبد رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور نبی کریم ﷺکا حلیہ مبارک بیان کیا تو ان کے شوہر کہنے لگے یہ تو وہی صاحب قریش ہیں جس کا زمانہ دیوانہ ہے۔ میں ضرور جا کر ان سے ملوں گا۔
جب حضور نبی کریمﷺ مدینہ منورہ پہنچے تو وہاں کے درو دیوار خوشی سے جھوم رہے تھے ہر طرف توحید و رسالت کے اجالے اپنا نوربکھیر رہے تھے۔ حضرت ام معبد بھی اپنے خاوند کے ساتھ مدینہ منورہ میں حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ ناز میں حاضر ہوئیں اور دونوں دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔ اور یہ حضرت ام معبدرضی اللہ تعالیٰ عنہا کا سب سے بڑ ا اعزاز ہے کہ انہوں نے حضور کاحلیہ مبارک بیان کیا۔ 
حضرت ام معبد فرماتی ہیں وہ با برکت بکری جس کے تھنوں سے حضور نبی کریم ﷺ نے دودھ دوہا تھا وہ حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت تک ہمارے پاس رہی لیکن اس کے دودھ میں ذرا برابر بھی کمی نہیں آئی۔

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 05-07 Part-03.کیا ہم زندگی فضول گزار...

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 05-07 Part-02.کیا ہم متکبرین ہیں

منگل، 20 اگست، 2024

حضرت ام معبد رضی اللہ تعالی عنہا (۱)

 

حضرت ام معبد رضی اللہ تعالی عنہا (۱)

حضور نبی کریمﷺ جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو ساتھ لے کر مدینہ طیبہ ہجرت کے لیے سفر پر روانہ ہوئے تو راستے میں غار ثور میں تین دن قیام کیا ۔ ابھی سفر بہت لمبا تھا اور گرمی کی شدت بہت زیادہ تھی ۔ سفر کے دوران پیاس محسوس ہوئی تو راستے میں ایک مقام نظر آیا تو حضورؐ نے فرمایا عرب کے لوگ مہمان نواز ہوتے ہیں ہمیں ان سے کچھ کھانے پینے کو مل جائے گا ۔ 
یہ گھر حضرت ام معبد رضی اللہ تعالی عنہا کا تھا جن کے مقدر کا ستارہ چمکا اور حضور نبی کریمﷺ نے اپنے مبارک قدم ان کی جھونپڑی میں رکھے ۔ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایاکہ ہمیں کھانے کو کچھ مل سکتا ہے تو ام معبد ؓ نے عرض کی کھانے کو تو اس وقت کچھ نہیں لیکن یہ ایک بکری ہے اس کا دودھ بہت کم ہے اس سے آپ کا گزاراہ نہیں ہو گا آپ چاہیں تو اسے ذبح کر سکتے ہیں۔
آپؐنے پوچھا، کیا میں اس کا دود ھ دوھ سکتا ہوں؟ حضرت ام معبد ؓ نے کہا، جی ۔ آپؐ نے جب اپنے دست مبارک بکری کے تھنوں پر لگائے تو اس کے تھن دودھ سے بھر گئے ۔ حضور نبی کریمﷺ نے اس کا دودھ دوہا اور خود بھی پیا اور سیدنا صدیق اکبرؓ نے بھی پیا اور آپ کے غلام حضرت عبد اللہ بن اریقط نے بھی خوب سیر ہوکر پیا ۔ اور پھر برتن بھر کر حضرت ام معبدؓ کے حوالے کر کے وہاں سے تشریف لے گئے ۔ 
حضرت ام معبد ؓ بہت حیران ہوئیں کہ جو بکری دودھ نہیں دے سکتی تھی اس کے تھنوں سے دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں ۔ جب آپؓ کا خاوند گھرآیا تو سارامنظر دیکھ کر حیران رہ گیا اور ام معبد ؓ سے دریافت کیا تو آپؓ نے کہا ایک نوری مکھڑے والے ، کالی زلفوں والے تشریف لائے تھے یہ سب انھی کی برکت ہے ۔ آپؓ کے خاوند پہلے ہی حضور نبی کریمﷺ کے بارے میں سن چکے تھے۔ 
 اے ام معبد، تم خوش بخت ہو کہ تم نے انھیں دیکھا ہے ۔انھوں نے کہا مجھے بتائوں ان کا حلیہ مبارک کیسا تھا ۔حضرت ام معبدؓ کادل پہلے ہی محبت رسولؐ کا مرکز بن چکا تھا ۔آپ کے اندر طوفان اٹھ رہا تھا کہ کوئی پوچھے تو میں آنکھوں دیکھا حال بیان کروں۔آپؓ فرماتی ہیں :
میں نے ایک ایسی ہستی کو د دیکھا جس کا حسن نمایا ںتھا جس کی ساخت بڑی خوبصورت اور چہرہ ملیح تھا ۔ نہ رنگت کی زیادہ سفیدی اس کو زیادہ معیوب بنا رہی تھی اور نہ گردن اور سر کا پتلا ہونا اس میں نقص پیدا کر رہا تھا ۔بڑا حسین اور بہت خوبرو ۔آنکھیں سیاہ اور بڑی تھیں پلکیں لا بنی تھیں ۔ ان کی آواز گونج دار تھی ۔ سیاہ چشم، سر مگین، دونوں ابرو بار یک اور ملے ہوئے ۔

Shortclip - Who will go to heaven? - جنت میں کون لوگ جائیں گے؟

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 05-07 Part-01.کیا دنیا کی کامیابی اص...

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 03-04 . کیا ہم شیطان کے ساتھی ہیں

پیر، 19 اگست، 2024

ہم اور ہمارا مزاج(۲)

 

ہم اور ہمارا مزاج(۲)

حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : بیشک میں بھی مزاح کرتا ہوں  اور میں خوش طبعی میں اچھی بات ہی کہتا ہوں۔ ( معجم الاوسط)۔
لیکن لوگوں کا صرف اس لیے مزاح کرنا کہ وہ لوگوں کو ہنسائیں چاہے وہ جھوٹ ہی کیوں نہ بول رہے ہوں تو اس بارے میں حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ایک شخص کوئی بات کہتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے ہم مجلس لوگوں کو ہنسائے تو اس طرح وہ ثریا ستارے سے بھی زیادہ دور تک جہنم میں گرتا ہے۔ (مسند احمد )۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضورر نبی کریم ﷺ سے ایک شخص نے سواری مانگی تو آپؐ نے ارشاد فرمایا : ہم تمہیں اونٹنی کے بچے پر سوار کریں گے اس نے عرض کی میں اونٹنی کا بچہ کیا کروں گا تو آپ نے فرمایا اونٹ کواونٹنی ہی جنم دیتی ہے۔ ( ترمذی )۔
خوش مزاج انسان ہر کام میں جلد بازی نہیں کرتا۔ حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : جس نے توقف کیا تو اس نے اپنا مقصد پا لیا یا قریب ہے کہ وہ اسے پا لے گا اور جس نے جلدی کی تو اس نے خطا کی یا قریب ہے کہ وہ خطا کرے گا۔ ( معجم الکبیر )۔ 
لیکن کچھ ایسے کام ہیں جن میں جلدی کرنا ضروری ہے اور یہ شریعت میں لازم ہیں۔ نماز اور قضا نماز کی ادائیگی میں جلدی کرنا ، نماز جنازہ ادا کرنے میں ، زکوۃ کی ادائیگی میں جب واجب ہو جائے ، گناہوں سے توبہ کرنے میں ، نیک اعمال کرنے میں اورجب اولاد جوان ہو جائے تو ان کی شادی کرنے میں جلدی کرنی چاہیے۔ جو بندہ گھر میں اور باہر خوش مزاج ہوتا ہے اور دوسروں کے ساتھ اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آتا ہے تو اس کا فائدہ دوسروں کوبھی ہوتا ہے۔ اگر انسان ہمیشہ لوگوں کے ساتھ خوش مزاجی کے ساتھ پیش آئے اور ہمیشہ ایسا کرنے کی کوشش کرے تو رفتہ رفتہ اس کا مزاج ایسا ہو جاتا ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ اچھا برتائو کرے۔ جب کوئی شخص لوگوں کے ساتھ اچھی زبان اور اچھے کردار کے ساتھ برتائو کرتا ہے تو پہلے وہ خود اس سے لطف اندوزہوتا ہے کیونکہ خوش مزاجی لذت اور سکون کا باعث ہے اور خوش مزاجی سے برتائو کرنے والے کا دل ، ذہن اور وجود آرام و سکون کی حالت میں ہوتا ہے۔ اچھا مزاج اور اچھا اخلاق سبھی کو پسند ہے چاہے وہ خود دوسروں کے ساتھ برے مزاج کے ساتھ پیش آتا ہو۔ 
اپنے مزاج کی بہتری کے لیے کوشش کرنا اور اسے اچھا بنانا ایک بڑے انسان کا کام ہے۔ بچپن میں ملنے والا مزاج اور حالات وواقعات سے ملنے والا مزاج کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن جب بندہ اپنے اندر موجود سختی ، تلخی کو دیکھتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ تلخی ہی مجھے لوگوں سے دور کر رہی ہے تو وہ اپنے مزاج کی بہتری پر کام کرتا ہے۔

اتوار، 18 اگست، 2024

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 01-02 Part-02.کیا ہم واقعی صاحب ایما...

ہم اور ہمارا مزاج(۱)

 

ہم اور ہمارا مزاج(۱)

مزاج لوگوں سے برتاﺅ میں ہمارا وہ رویہ ہوتا ہے جس کے لیے ہمیں سوچنا نہیں پڑتا۔ عام طور پر بچپن میں بنا ہوا مزاج بعد میں بہت زیادہ تبدیل نہیں ہوتا لیکن جب انسان باشعور ہوتا ہے تو وہ اپنے مزاج میں بہتری لانے کی کوشش کرے تو اس میں بہتری آسکتی ہے شرط یہ ہے کہ وہ اس میں سنجیدہ ہو۔ خوش مزاج لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کا برا نہیں مناتے، اپنے غصے پر کنٹرول کرتے ہیں اور ہر حال میں خوش رہتے اور اپنے تمام معاملات کو خوش اسلوبی سے سر انجام دیتے ہیں۔ وہ سلیقہ مند ہوتے ہیں ان میں چڑ چڑا پن نہیں ہوتا۔ خوش مزاج لوگوں کی زندگی میں کوئی بھی مشکل آ جائے تو اس سے گھبراتے نہیں بلکہ اسے اپنی خوش مزاجی میں چھپا لیتے ہیں۔ 
اچھے مزاج والا شخص خوش طبیعت کا مالک ہوتا ہے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کر کے اپنے بڑے مقصد کی طرف بڑھتا ہے۔اور وہ ہر حال میں صبر سے کام لیتا ہے اور شکر کرتا ہے۔ اسکے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی ہے۔ خوش مزاج طبیعت کا مالک ماضی کے واقعات سے پریشان نہیں ہوتا اور مستقبل کے اندیشوں اور فکر مندیوں سے نجات پا لیتا ہے۔ خوش مزاج شخص ہر حال میں اللہ تعالی کی نعمتوں کو محسوس کرتا ہے اور ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہے جس سے اس کے مزاج میں نکھار آتا ہے۔ جو بندہ خوش مزاج ہوتا ہے اس کے ساتھ رہنے والے دوست و احباب بھی خوشی محسوس کرتے ہیں اور اس کے دیے ہوئے احترام سے لطف اندوز ہوکر اپنے آپ کو جذباتی طور پر بھی محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ 
کسی بھی شخص کے ساتھ اس طرح کا مذاق کر نا حرام ہے جس سے کسی شخص کو اذیت پہنچے۔ لیکن شریعت کے دائرے رہتے ہوئے کسی کو خوش کرنے کے لیے خوش طبعی کا اظہار کرنا سنت ہے۔ حضور نبی کریم ﷺسے کبھی کبھی خوش طبعی کرنا ثابت ہے اس لیے کبھی کبھی خوش طبعی کر لینا مستحب ہے۔ ( مراة المناجیح ) 
امام غزالی فرماتے ہیں اگر تم اس بات پر قادر ہو کہ جس پر حضور نبی کریم اور صحابہ کرام ؓقادر تھے کہ مزاح کرتے وقت صرف حق بات کہو۔ کسی کے دل کو اذیت نہ پہنچے اور حد سے نہ بڑھو اور کبھی کبھی مزاح کر لیا کرو تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن مزاح کو پیشہ بنا لینا بہت بڑی غلطی ہے۔ ( احیا ءالعلوم ) 
امام غزالی فرماتے ہیں، ایسا مزاح منع ہے جو حد سے زیادہ کیا جائے اور ہمیشہ اس میں مصروف رہا جائے۔ کیونکہ زیادہ مزاح کرنے میں یہ خرابی ہے کہ اس سے انسان زیادہ ہنستا ہے اور زیادہ ہنسنا انسان کے دل کو مردہ کر دیتا ہے۔ اور ہیبت وقار ختم ہو جاتا ہے۔

ہفتہ، 17 اگست، 2024

حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہا (۲)

 

حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہا (۲)

حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ بھی شرف حاصل ہے کہ آپ اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمان ہوئیں۔ اس لیے آپ کو السابقون الاولون ہونے کا شرف حاصل ہے۔ مکہ میں اس دور میں اسلام قبول کرنا اور اس کا اعلان کرنا خود کو مصائب میں مبتلا کرنے کے مترادف تھا۔ غزوہ احد کے وقت آپ کافی معمر تھیں لیکن آپ نے گھر میں بیٹھے رہنا گوارہ نہ کیا۔ آپ باقی خواتین کے ساتھ شامل رہیں جو مجاہدین کو پانی پلاتی تھیں اور مریضوں کا خیال رکھتی تھیں۔ اسکے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا غزوہ خیبر میں بھی شامل ہوئیں اور وہاں بھی مجاہدین کو پانی پلانے اور ان کی مرہم پٹی کرنے کے فرائض سر انجام دیے۔
حضرت زیدبن حارثہ سے نکاح کے بعد آپ کے بطن مبارک سے حضرت اسامہ بن زید کی پیدائش ہوئی۔ حضرت اسامہ اپنے والد کی طرح حضور نبی کریم ﷺسے بہت زیادہ محبت فرماتے تھے۔ حضور نبی کریم ﷺکوبھی حضرت اسامہ سے بہت زیادہ انس تھا۔ ایک مرتبہ حضور نبی کریمﷺ کی گود میں ایک طرف امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیٹھے تھے اور دوسری طرف حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیٹھے تھے۔
 آپ نے فرمایا اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما۔ ( بخاری شریف)۔جنگ موتہ کے موقع پر جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہوتے ہوئے آپ نے لشکر اسلام کا سپہ سالار حضرت اسامہ بن زید کو مقرر کیا۔
حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حضور نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ بہت زیادہ عزیز تھی۔ آپ نے حضور نبی کریم ﷺ کی ولادت کے وقت دایہ کی خدمات سر انجا م دیں۔ جب حضرت حلیمہ سعدیہ حضور نبی کریمﷺ کو ساتھ لے گئیں تو آپ نے خوب دل جمی سے حضرت آمنہ کی خدمت کی۔ حضرت عبد المطلب بھی آپ کو بہت زیادہ عزیز تھے۔ اس لیے باوجود کنیزہ کیانہیں ان کی خدمات اور عقیدت کی وجہ سے خاندان بنو ہاشم کا ایک فرد سمجھا جاتا تھا۔ 
حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا بہت ہی زیادہ بہادر اور شیر دل خاتون تھیں۔ غزوات میں حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ لشکرمیں شامل ہوتیں زخمیوں کو پانی پلاتیں ، مجروحین کی امداد کرتیں اور دیگر صحابیات کے ساتھ مل کر زخمیوں کی مرہم پٹی کرتیں۔ 
حضور نبی کریم ﷺ کے وصال فرمانے پر بہت زیادہ صدمہ پہنچا۔ آپ غم سے نڈھال ہو گئیں اور آپ کا رونا تھمتا ہی نہیں تھا۔ حضور نبی کریم آپ کو اْمی کہہ کر پکارتے تھے اس لیے دیگر صحابہ کرام رضوا ن اللہ علیہم اجمعین بھی آپ کی بہت زیادہ عزت وتوقیر کرتے تھے۔

Surah Al-Anbiya (سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء) Ayat 105-108.کیا ہم عملا غیر مسلم ہیں

Surah Al-Anbiya (سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء) Ayat 104.کیا دنیا پر حکومت لازم ہے...

جمعہ، 16 اگست، 2024

Shortvideo - Kya humain deen-e-islam ki koi zaroorat hay?

حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہا (۱)

 

حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہا (۱)

حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہا کو اللہ تعالی نے کئی اعزازات سے نوازا ہے ۔ لیکن جس اعزاز پر آپؓ بہت زیادہ فخر محسوس کیا کرتی تھیں وہ یہ تھا کہ آپ آپ کو امی کہہ کر پکارا کرتے تھے کیونکہ حضور نبی کریمﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت  آمنہؓ کی    وفات کے بعد حضرت ام ایمنؓ نے دل و جان سے حضور نبی کریمﷺ کی خدمت کی ۔ حضور نبی کریمﷺ اکثر انھیں دیکھ کر یہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ میری ماں ہیں ۔ حضرت ام ایمنؓ کو حضور نبی کریمﷺ پر بہت زیادہ ناز تھا ۔ آپ اکثر حضرت ام ایمنؓ کے مکان پر تشریف لے جا یا کرتے تھے ۔ 
حضرت ام ایمنؓ کا نام برکتہ تھا اور والدکا نام ثعلبہ بن عمرو تھا جو حبش کے رہنے والے تھے ۔ ام ایمن ؓ حضور نبی کریمﷺ کی ولادت سے پہلے سن شعور کو پہنچ چکی تھیں ۔ حضورﷺ کے والد ماجد حضرت عبد اللہ کی کنیز تھیں جب حضرت عبد اللہ کا انتقال ہواتو حضرت آمنہ ؓکی خدمت میں مصروف ہو گئیں ۔ 
حضور نبی کریمﷺ کچھ برس حضرت حلیمہ سعدیہؓ کے پاس پرورش پاتے رہے پھر انھوں نے آپ کوحضرت آمنہ کے پاس واپس چھوڑ دیا ۔ کچھ عرصہ بعد حضرت آمنہ حضرت ام ایمن کوساتھ لے کر مدینہ منورہ تشریف لائیں ۔وہاں کچھ ماہ قیام کے بعد جب واپس مکہ جانے لگے تو راستے میں حضرت آمنہ اچانک بیمار ہو گئیں اور ان کا انتقال ہو گیا ۔ حضرت ام یمن ؓ کو اس کا بہت زیادہ صدمہ پہنچا ۔ حضرت ام ایمن نے حضرت آمنہ کو وہاں دفنایا اور حضور ﷺکو ساتھ لے کر مکہ تشریف لے آئیں ۔ 
حضورﷺ کے دادا جان حضرت عبد المطلب نے حضرت ام ایمن ؓکو حضور نبی کریمﷺ کی پرورش اورخدمت کی ذمہ داری سونپ دی ۔ جب حضور نبی کریمﷺ جوان ہوئے تو وراثت میں حضرت ام ایمن ؓ کنیز کے طور پر آپ کے حصہ میں آئی لیکن آپ نے انھیں آزاد کر دیا۔
حضرت ام ایمن ؓکے شوہر کا نام عبید بن زید تھا ۔ جب آپ ؓ کے شوہر کا انتقال ہو ا تو آپؓ اپنے بیٹے ایمن کو ساتھ لے کر حضور نبی کریمﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں ۔ آپ نے ہر طرح سے ان کی دلجوئی فرمائی ۔ ایک دن صحابہ کرام ؓ کے مجمع میں حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا اگر کوئی شخص جنتی عورت سے نکاح کرنا چاپتا ہے تو وہ ام ایمن ؓ سے نکاح کرے ۔ آپکا یہ فرمان سن کر آپ کے بہت پیارے صحابی حضرت زید بن حارثہ ؓنے حضرت ام ایمن ؓ سے نکاح کر لیا ۔ 

جمعرات، 15 اگست، 2024

Surah Al-Anbiya (سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء) Ayat 101-103.کیا ہمارا جہنم جانا ی...

Surah Al-Anbiya (سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء) Ayat 98-100.کیا ہم یقینی طور پر جن...

امت مسلمہ کے اوصاف(۲)

 

امت مسلمہ کے اوصاف(۲)

جب کوئی شخص خلوص دل سے اسلام میں داخل ہوتا ہے تو حقیقتیں اس پر کھلتی چلی جاتی ہیں وہ نیکیوں سے محبت اور گناہوںسے نفرت کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ اگر اس سے کوئی غلطی ہو بھی جائے تو وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے اور اس وقت تک محاسبہ کرتا رہتا ہے جب تک وہ اپنی کی گئی غلطی کی سزا کو نہ بھگت لے ۔ بعض اوقات اگر کسی سے کوئی غلطی ہو جائے تو وہ اس کو چھپانے کے لیے مزید غلطیاں کرتا چلا جاتا ہے ۔لیکن اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اس پر نادم و شرمندہ ہوتے ہیں تواللہ تعالیٰ انہیں مزید عزتوں سے نوازتا ہے ۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور وہ لوگ جب کوئی کھلی برائی کر بیٹھیں یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھیں تو وہ اللہ کو یاد کر کے اپنے گناہوںکی معافی مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا گناہ بخشنے والا کون ہے ۔ اور وہ جانتے بوجھتے ہوئے اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے ۔یہ ہیں وہ لوگ کہ ان کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے اور ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ۔اور وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے “۔ 
( سورة آل عمران ) 
جب کوئی قوم اپنے نفس کا احتساب کرنا شروع کر دے اور اپنی غلطیوں پر اپنے ضمیر کو ملامت کریں تو دنیا کی کوئی طاقت اسے غالب آنے سے نہیں روک سکتی اور اسی وجہ سے ہی پہلے مسلم قوم عروج پر تھی ۔ جب مسلمانوں نے اپنے اوپر اس بات کو لازم کر لیا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کریں اور اپنی مرضی کو رضائے الہی پر مقدم نہیں رکھیں گے اور اپنی خواہشات کی پیروی نہیں کریں گے بلکہ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں گے تو اس وقت مسلمانوں کا عروج تھا لیکن جب امت مسلم نے احکام الٰہی اور طاعت رسول ﷺ کو ا پنی زندگیوں سے نکال دیا تو ان کا عروج زوال میں بدل گیا ۔ 
یہ لوگ امانتوں کی حفاظت کرتے تھے اور کبھی بھی امانت میں خیانت نہیں کرتے تھے ان لوگوں کی زندگی بددیانتی سے محفوظ تھی ۔ یہ ہی وجہ تھی کہ کفار مکہ اختلافات ہونے باوجود اپنی امانتیں حضور نبی کریم ﷺ کے پاس رکھوایا کرتے تھے ۔یہ لوگ اسی امین ہستی کی امانتوں کا مظہر تھے اور اسی صادق ہستی کی صداقتوں کے امین تھے ۔ 
یہ تھے امت مسلمہ کے اوصاف میں سے چند اوصاف جس کی وجہ سے مسلمانوں نے روم و فارس جیسی عزیم قوتوں کو بھی فتح کیا آج بھی مسلمان اپنے اندر ان اوصاف کو اپنا لیں تو یہ امت زوا ل کا سے نکل کر عروج کی بلندیوں کو چھو سکتی ہے ۔ 

Islam kya aur kyoon?

Surah Al-Anbiya (سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء) Ayat 95-97. کیا ہم اپنے اوپر ظلم ک...

Surah Al-Anbiya (سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء) Ayat 93-94.کیا دنیا ہی ہماری منزل ہے

بدھ، 14 اگست، 2024

امتِ مسلمہ کے اوصاف(۱)

 

امتِ مسلمہ کے اوصاف(۱)

ایک وقت تھا کہ امت مسلمہ عروج پر تھی پوری دنیا میں امت مسلہ نے اپنی دھاک بٹھائی ہوئی تھی۔ وہ کون سے اوصاف تھے اور وہ کون سے کمالات تھے جس کی وجہ سے مسلم امہ نے سینکڑوں سال اس دنیا پر حکومت کی۔ ان میں سے چند ایک اوصاف کا تذکرہ کرتے ہیں۔ 
امت مسلمہ کے عروج کی ایک وجہ یہ تھی کو و ہ باطل کے سامنے نہیں جھکتے تھے۔ ان کے تمام تعلقات کی بنیاد صرف اور صرف ایمان تھا۔ ان کے سامنے ایمان سے مقدم کوئی چیز نہیں تھی۔ وہ آپس کے باہمی اختلافات کی وجہ سے کبھی کسی باطل قوت سے معاہدہ نہیں کرتے تھے۔ آپس میں ان کے حالات جیسے بھی ہوتے وہ دشمن کو اپنا مشترکہ دشمن سمجھتے تھے۔ غزوہ بدر میں ایسا موقع آیا کہ بھائی بھائی کے مقابلے میں کھڑا ہے ، باپ بیٹے کے مقابلے میں کھڑا ہے اور ماموں اور بھتیجے ایک دوسرے کے سامنے تلوار لے کر کھڑے ہیں۔ 
مسلمان حق کے مقابلے میں کسی کو اہمیت نہیں دیتے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ”اے ایمان والو اپنے باپوں اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ بناﺅ۔ اگر وہ ایمان کے مقابلہ میں کفر کو پسند کریں۔ اور تم میں سے جو انہیں اپنا دوست بنائے گا تو ایسے ہی لوگ ظالم ہیں۔ ( سورة التوبہ )۔ 
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس آیت مبارکہ کی عملی تفسیر تھے۔ امت مسلمہ کے عروج کی دوسری وجہ آپس میں پیار اور محبت کے ساتھ رہنا تھی۔ وہ دشمن کے سامنے یک جاں ہو کر سینہ تان کر کھڑے ہو جاتے۔ اور جب مسلمان بھائی کو کوئی تکلیف پہنچتی تو سب اس کی مدد کرتے۔ ہجرت مدینہ کے موقع پر بھائی چارہ کی ایسی مثال قائم ہوئی جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی اور قیامت تک جس کی نظیر نہیں ملے گی۔ آپس میں محبت کا یہ عالم تھا کہ مہمان کو پیٹ بھر کھانا کھلانے کے لیے بچوں کو بھوکا سلا دیتے اور خود چراغ بجھا کر خالی منہ ہلاتے رہتے تا کہ مہمان کو یہ لگے کہ وہ بھی کھانا کھا رہا ہے۔ 
اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اس کی قدرتوں کا اقرار کرنا ہے عبادت کرنے سے بندے کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتاہے۔ جب بندہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہو جائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے نہیں گرا سکتی۔ 
عبادت ہی انسان کو اللہ تعالیٰ کا وفادار بناتی ہے۔ اگر انسان کی زندگی سے عبادت ختم ہو جائے تو اسے اپنی ذ ات پیاری ہو جاتی ہے۔ اور عبادت کی وجہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بے پناہ طاقتوں کا امین بنا دیا تھا۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے : ”تو انہیں رکوع و سجود کرتے ہوئے دیکھے گاوہ اللہ کے فضل اور اس کی رضا کے متلاشی ہیں۔