جمعرات، 15 اگست، 2024

امت مسلمہ کے اوصاف(۲)

 

امت مسلمہ کے اوصاف(۲)

جب کوئی شخص خلوص دل سے اسلام میں داخل ہوتا ہے تو حقیقتیں اس پر کھلتی چلی جاتی ہیں وہ نیکیوں سے محبت اور گناہوںسے نفرت کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ اگر اس سے کوئی غلطی ہو بھی جائے تو وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے اور اس وقت تک محاسبہ کرتا رہتا ہے جب تک وہ اپنی کی گئی غلطی کی سزا کو نہ بھگت لے ۔ بعض اوقات اگر کسی سے کوئی غلطی ہو جائے تو وہ اس کو چھپانے کے لیے مزید غلطیاں کرتا چلا جاتا ہے ۔لیکن اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اس پر نادم و شرمندہ ہوتے ہیں تواللہ تعالیٰ انہیں مزید عزتوں سے نوازتا ہے ۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور وہ لوگ جب کوئی کھلی برائی کر بیٹھیں یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھیں تو وہ اللہ کو یاد کر کے اپنے گناہوںکی معافی مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا گناہ بخشنے والا کون ہے ۔ اور وہ جانتے بوجھتے ہوئے اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے ۔یہ ہیں وہ لوگ کہ ان کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے اور ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ۔اور وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے “۔ 
( سورة آل عمران ) 
جب کوئی قوم اپنے نفس کا احتساب کرنا شروع کر دے اور اپنی غلطیوں پر اپنے ضمیر کو ملامت کریں تو دنیا کی کوئی طاقت اسے غالب آنے سے نہیں روک سکتی اور اسی وجہ سے ہی پہلے مسلم قوم عروج پر تھی ۔ جب مسلمانوں نے اپنے اوپر اس بات کو لازم کر لیا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کریں اور اپنی مرضی کو رضائے الہی پر مقدم نہیں رکھیں گے اور اپنی خواہشات کی پیروی نہیں کریں گے بلکہ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں گے تو اس وقت مسلمانوں کا عروج تھا لیکن جب امت مسلم نے احکام الٰہی اور طاعت رسول ﷺ کو ا پنی زندگیوں سے نکال دیا تو ان کا عروج زوال میں بدل گیا ۔ 
یہ لوگ امانتوں کی حفاظت کرتے تھے اور کبھی بھی امانت میں خیانت نہیں کرتے تھے ان لوگوں کی زندگی بددیانتی سے محفوظ تھی ۔ یہ ہی وجہ تھی کہ کفار مکہ اختلافات ہونے باوجود اپنی امانتیں حضور نبی کریم ﷺ کے پاس رکھوایا کرتے تھے ۔یہ لوگ اسی امین ہستی کی امانتوں کا مظہر تھے اور اسی صادق ہستی کی صداقتوں کے امین تھے ۔ 
یہ تھے امت مسلمہ کے اوصاف میں سے چند اوصاف جس کی وجہ سے مسلمانوں نے روم و فارس جیسی عزیم قوتوں کو بھی فتح کیا آج بھی مسلمان اپنے اندر ان اوصاف کو اپنا لیں تو یہ امت زوا ل کا سے نکل کر عروج کی بلندیوں کو چھو سکتی ہے ۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں