ہفتہ، 17 اگست، 2024

حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہا (۲)

 

حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالی عنہا (۲)

حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ بھی شرف حاصل ہے کہ آپ اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمان ہوئیں۔ اس لیے آپ کو السابقون الاولون ہونے کا شرف حاصل ہے۔ مکہ میں اس دور میں اسلام قبول کرنا اور اس کا اعلان کرنا خود کو مصائب میں مبتلا کرنے کے مترادف تھا۔ غزوہ احد کے وقت آپ کافی معمر تھیں لیکن آپ نے گھر میں بیٹھے رہنا گوارہ نہ کیا۔ آپ باقی خواتین کے ساتھ شامل رہیں جو مجاہدین کو پانی پلاتی تھیں اور مریضوں کا خیال رکھتی تھیں۔ اسکے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا غزوہ خیبر میں بھی شامل ہوئیں اور وہاں بھی مجاہدین کو پانی پلانے اور ان کی مرہم پٹی کرنے کے فرائض سر انجام دیے۔
حضرت زیدبن حارثہ سے نکاح کے بعد آپ کے بطن مبارک سے حضرت اسامہ بن زید کی پیدائش ہوئی۔ حضرت اسامہ اپنے والد کی طرح حضور نبی کریم ﷺسے بہت زیادہ محبت فرماتے تھے۔ حضور نبی کریم ﷺکوبھی حضرت اسامہ سے بہت زیادہ انس تھا۔ ایک مرتبہ حضور نبی کریمﷺ کی گود میں ایک طرف امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیٹھے تھے اور دوسری طرف حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیٹھے تھے۔
 آپ نے فرمایا اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما۔ ( بخاری شریف)۔جنگ موتہ کے موقع پر جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہوتے ہوئے آپ نے لشکر اسلام کا سپہ سالار حضرت اسامہ بن زید کو مقرر کیا۔
حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حضور نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ بہت زیادہ عزیز تھی۔ آپ نے حضور نبی کریم ﷺ کی ولادت کے وقت دایہ کی خدمات سر انجا م دیں۔ جب حضرت حلیمہ سعدیہ حضور نبی کریمﷺ کو ساتھ لے گئیں تو آپ نے خوب دل جمی سے حضرت آمنہ کی خدمت کی۔ حضرت عبد المطلب بھی آپ کو بہت زیادہ عزیز تھے۔ اس لیے باوجود کنیزہ کیانہیں ان کی خدمات اور عقیدت کی وجہ سے خاندان بنو ہاشم کا ایک فرد سمجھا جاتا تھا۔ 
حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا بہت ہی زیادہ بہادر اور شیر دل خاتون تھیں۔ غزوات میں حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ لشکرمیں شامل ہوتیں زخمیوں کو پانی پلاتیں ، مجروحین کی امداد کرتیں اور دیگر صحابیات کے ساتھ مل کر زخمیوں کی مرہم پٹی کرتیں۔ 
حضور نبی کریم ﷺ کے وصال فرمانے پر بہت زیادہ صدمہ پہنچا۔ آپ غم سے نڈھال ہو گئیں اور آپ کا رونا تھمتا ہی نہیں تھا۔ حضور نبی کریم آپ کو اْمی کہہ کر پکارتے تھے اس لیے دیگر صحابہ کرام رضوا ن اللہ علیہم اجمعین بھی آپ کی بہت زیادہ عزت وتوقیر کرتے تھے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں