اتوار، 30 جون، 2024

حسد(۲)

 

حسد(۲)

حسد کرنے کی چوتھی خرابی یہ ہے کہ حاسد کا دل اندھا ہو جاتا ہے اور اس کے ذہن میں اتنی صلاحیت بھی نہیں رہتی کہ یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو سمجھ سکے۔ حضرت سفیان بن سعید ثوری رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہمیشہ کے لیے خاموشی اختیار کر لو تم متقی بن جائوگے۔ اور دنیا کا لالچ ذہن سے نکال دو تم ہر قسم کے فتنوں سے محفوط ہو جائو گے۔ اور اگر تم لعن طعن نہ کرو گے تو لوگوں کی لعن طعن سے بچے رہو گے۔ اور حسد نہ کرو، تمہاری عقل و فہم تیز ہو جائے گی۔ 
حسد کی پانچویں خرابی یہ ہے کہ حاسد ذلت و رسوائی کا شکار رہتا ہے اور اسی حسد کی وجہ سے اپنی کسی مراد میں بھی کامیاب نہیں ہوتااور نہ ہی کسی دشمن پر غالب آ سکتا ہے۔ 
حضرت ابو عبد الرحمن بن علوان رضی اللہ تعالیٰ  فرماتے ہیں کہ بغض و کینہ رکھنے والا کامل دیندار نہیں ہو سکتا اور عیب لگانے والا خالص عبادت گزار نہیں ہو سکتا۔ اور چغل خور محفوظ نہیں رہتا اور حاسد مغضوب ہوتا ہے۔ یعنی اس کی مدد کے لیے کوئی نہیں آتا۔ 
اما م غزالی فرماتے ہیں کہ حسد دل کی بیماریوں میں سے ایک بہت بڑی بیماری ہے۔ اور اس کا علاج یہ ہے کہ انسان کو یہ بات سوچنی چاہیے کہ اس کے حسد کرنے سے کسی کی دولت یا نعمت کم نہیں ہو سکتی اور نہ ہی اس کے حسد کرنے سے اس کو کوئی نقصان ہو گا۔ حسد اگر کسی کا نقصان کرتا ہے تو خود حاسد اس کا شکار ہوتا ہے اور اس کے دین ،ایمان اور صحت میں خرابی پیدا کرتا ہے۔ کسی شخص کے بارے میں اپنے دل میں حسد رکھ کر اپنی صحت خراب کرنے اور نیکیوں کو تباہ کرنے سے بہتر ہے کہ اس حسد جیسی خطرناک بیماری سے نجات حاصل کی جائے۔ 
حاسد کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ جس شخص سے حسد کر رہاہے اسے اللہ تعالیٰ نے ان تمام نعمتو ں سے نوازا ہے اور حسد کرنا ایسا ہی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی تقسیم پر اعتراض کر رہا ہے۔ اور یہ خیال دل میں رکھے کہ اللہ تعالیٰ ہی ساری کائنات کا مالک و خالق ہے اور علیم او ر حکیم ہے۔ 
اللہ تعالیٰ جو شخص جس چیز کا اہل ہوتا ہے اسے وہی چیز عطا فرماتا ہے اور اگر میں اس قابل ہوتا تو اللہ تعالیٰ مجھے بھی ضرور یہ چیز عطا فرماتا۔ جب بندے کا دل اس طرف مائل ہو جائے اور اللہ کی رضا پر راضی ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اسے حسد سے محفوط فرماتا  ہے اور اسے اس بیماری سے نجات مل جاتی ہے۔

ہفتہ، 29 جون، 2024

Surah Ta-Ha (سُوۡرَةُ مَریَم) Ayat 01-08 Part-02 .کیا ہم نے اپنے رب کو پ...

Surah Ta-Ha (سُوۡرَةُ طٰه) Ayat 01-08 Part-01 .تزکیہ نفس کرلینا کس کے لئ...

حسد(۱)

 

حسد(۱)

حسد بہت بری چیز ہے اور یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکے نزدیک نا پسندیدہ عمل ہے۔ حسد انسان کی نیکیوں اور عبادت کو برباد کردیتا ہے اور انسان کو گناہوں کے لیے ابھارتا ہے۔ بہت سے ان پڑھ اور پڑھے لکھے لوگ اس بیماری میں مبتلا ہیں۔

حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے لکڑی آگ کو کھا جاتی ہے۔ معاشرے میں امیر ، غریب ہر طرح کے لوگ رہتے ہیں۔ جب کوئی بندہ کسی دوسرے کو کھاتا پیتا، خوش و خرم رہتا اور اچھے ماحول میں رہتا دیکھ کر آزردہ حال ہو جائے اور اللہ تعالیٰ سے اس کی نعمتوں کے ختم ہونے کی تمنا کرے تو وہ بندہ حاسد کہلاتا ہے۔ 
حسد بہت بڑ اگناہ ہے۔ کیونکہ جب کوئی بندہ حسد کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی دی گئی نعمتوں اور اس کی تقسیم پراعتراض کر رہا ہے۔ جو شخص حسد جیسی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے اور دوسروں کو دیکھ کر خود کو جلاتا رہتا ہے ایسے شخص کو زندگی میں سکون اور چین نصیب نہیں ہوتا۔ اور حسد کی وجہ سے انسان مختلف ذہنی و نفسیاتی اور جسمانی امراض کا شکار ہونے لگتا ہے۔ حسد بری چیز ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو حاسد کے شر سے پناہ مانگنے کی تلقین فرمائی ہے۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے : (اے اللہ میں پناہ چاہتا ہوں ) حسد والے کے شر سے جب وہ مجھے ملے۔ (سورۃ الفلق )۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم میں پہلے گزری ہوئی قوموں کی ایک بیماری سرایت کر گئی ہے اور وہ حسد اور بغض ہے۔ (ترمذی )۔
امام غزالی فرماتے ہیں کہ حسد سے پانچ خرابیاں پیدا ہوتی ہیں : 
۱: حسد عبادات کو تباہ اور فاسد کر دیتا ہے اس لیے حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا :حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے لکڑی آگ کو کھا جاتی ہے۔ ۲: حسد لوگوں کو گناہوں اور برائیوں میں مبتلا کردیتا ہے۔ 
حضرت ابو عبد اللہ وہب بن منبہ رحمۃ اللہ تعالی فرماتے ہیں حاسدکی تین نشانیاں ہیں جب پاس آتا ہے تو چاپلوسی کرتا ہے ، پیٹھ پیچھے غیبت کرتا ہے اور جب کسی کو نقصان یا کوئی مصیبت پہنچے تو اس پر خوش ہوتا ہے۔ حسد کرنے والا شخص بلا مقصد غم اور بے چینی میں مبتلا رہتا ہے اور بہت سارے گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
 حضرت ابن سماک رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے مظلوم کے ساتھ زیادہ مشابہت رکھنے والا حاسد سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں دیکھا ، حاسدہر وقت افسردہ اور حقیر رہتا ہے اور اس کی عقل حیران رہتی ہے اور حاسد ہمیشہ غم زدہ رہتا ہے۔

Surah Maryam (سُوۡرَةُ مَریَم) Ayat 96-98.کیا ہم پکے ہٹ دھرم لوگ ہیں

جمعہ، 28 جون، 2024

حرص و لالچ اور کنجوسی

 

حرص و لالچ اور کنجوسی

حرص و لالچ انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ ہر انسان حرص و لالچ میں مبتلا ہے جس کی وجہ سے وہ بے شمار مصائب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔یہ ایک ایسی بیماری ہے کہ جب انسان اس میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس کے دل میں مزید کی تمنا بڑھتی چلی جاتی ہے۔ حضورنبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : انسان کے پاس اگر دو بڑے میدان سونے کے انباروں سے بھر جائیں پھر بھی اس میں تیسرے کی تمنا رہے گی جب تک کہ وہ منوں مٹی کے نیچے نہیں پہنچ جاتا۔ 
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : آدمی بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن اس کی دو چیزیں ہمیشہ جوان رہتی ہیں ایک مال کی حرص اور دوسری عمر کی حرص ( بخاری ) 
حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : مرتبے کے لحاظ سے قیامت کے روز سب انسانوں سے بد تر وہ ہو گا جس نے دوسرے کی دنیا کی خاطر اپنی آخرت خراب کر لی۔ (ابن ماجہ ) 
اگر انسان یہ بات ذہن نشین کر لے کہ جو چیز ہماری قسمت میں لکھی جا چکی ہے وہ عمر ہو یا دولت وہ مل کر ہی رہنی ہے وہ بدل نہیں سکتی تو انسان حرص و لالچ سے بچ جائے گا۔ حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : آدمی کی نجات تین چیزوں میں ہے اول یہ کہ ظاہر اور باطن میں اللہ تعالی سے ڈرتا رہے دوسرا یہ کہ امیر ہو یا فقیر خرچ میں میانہ روی اختیار کرے اور تیسرا یہ کہ غم ہو یا خوشی ہر حال میں انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔ 
مزید ارشاد فرمایا : جو شخص میانہ روی اختیار کرتا ہے اللہ تعالی اسے دنیا سے بے نیاز کر دیتا ہے اور جو شخص فضول خرچی کرتا ہے اللہ اسے ددسروں کا محتاج بنا دیتا ہے اور فرمایا خرچ کرتے وقت تدبیر اور آہستگی سے کام لو یہ قدم آدھی روزی سے تعلق رکھتا ہے۔ 
حرص و لالچ اور مال جمع کرنے کی عادت ہی انسان کو کنجوس بنا دیتی ہے اور وہ ہر معاملے میں بخل اور کنجوسی سے کام لیتا ہے۔ کنجوسی بہت بری عادت ہے اس عادت میں مبتلا انسان دوسروں کا حق مارتا ہے اور اس میں انتہائی تنگ نظری پیدا ہونے لگتی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : سخی اللہ کے قریب ہے، جنت سے قریب ہے،انسانوں سے قریب ہے ، جہنم سے دور ہے اور فرمایا بخیل اللہ تعالی سے دور ہے ، جنت سے دور ہے ، انسانوں سے دور ہے ، جہنم سے قریب ہے اور جاہل سخی عبادت گزار بخیل سے زیادہ اللہ تعالی کو پیارا ہے ( مشکوة شریف)۔

جمعرات، 27 جون، 2024

Surah Maryam (سُوۡرَةُ مَریَم) Ayat 88-95 Part-01 .کیا ہم غیر اللہ کو پک...

Surah Maryam (سُوۡرَةُ مَریَم) Ayat 85-87 Part-03 .کیا ہماری شفاعت نہیں ...

اسلام کیا اور کیوں؟

حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ

 

   حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ

حضور نبی کریم ﷺ کے سارے صحابہ ہی بہت زیادہ شان و عظمت والے ہیں اور سارے صحابہ ہی حضور ﷺ سے بہت زیادہ عشق و محبت فرماتے تھے اور ہمیشہ دین اسلام اور آپ ﷺ پر جان قربان کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔تمام صحابہ کرام نے اپنی زندگیوں کو سیرت نبی کے مطابق گزارا اور حضور نبی کریم ﷺ کی ہر ایک ادا کو اپنایا۔ ان میں ایک جلیل القدر صحابی حضرت سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہیں۔ آپ حضور نبی کریم ﷺ سے بہت زیادہ پیار کرتے تھے اور اپنی خواہشات اور تمنائوں کو حضور ﷺ کے قدموں پر نچھاور کرتے تھے۔ حضور نبی کریم ﷺ بھی ان سے بہت زیادہ پیار فرماتے تھے۔ انہوں نے بہت سادہ زندگی بسر کی اور دل میں ہمیشہ خوف خدا رہا۔ 
جب حضورنبی کریم ﷺ کا وقت وصال قریب آیا تو آپ ﷺ نے حضرت ابو ذرغفاریؓ کو بلایا۔ جب وہ تشریف لائے آپ ﷺ بستر سے اٹھ نہ سکے۔ حضرت ابو ذر آپ ﷺ کی جانب جھکے اور اپنے دونوں ہاتھو ں کو بڑھا کر آپﷺ کو اپنے سینہ مبارک سے لگایا۔(مسند امام احمد)۔
ذریعہ معاش کے لیے ایک مرتبہ حضور ﷺ کی بارگاہ ناز میں حاضر ہو کر عرض کی مجھے کسی جگہ کا عامل بنا دیں۔ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : اے ابو ذر میں تمہیں کمزور پاتا ہوں۔ اور میں تمہارے لیے اس بات کو پسند کرتا ہوں جو مجھے اپنے لیے پسند ہے۔ ہر گز تم دو آدمیوں کے بھی کبھی امیر نہ بننا اور نہ کبھی یتیم کے مال کی تو لیت کرنا۔ (طبقات ابن سعد ) 
حضور نبی کریم ﷺ نے آپ کو ’’اصدق‘‘ کے لقب سے نوازا۔ وہ عملی زندگی میں سیرت نبوی ﷺ کا چلتا پھرتا نمونہ تھے۔ ایک بار کسی نے انہیں عرب کے بدئوں جیسے کمبل سے جسم کو ڈھانپے دیکھا تو اس شخص نے پوچھا کہ آپ کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی کپڑا نہیں ؟ انہوں نے فرمایا اگر ہوتا تو میرے جسم پر ہوتا۔ اس شخص نے کہا کہ دو دن پہلے آپ نے اچھا لباس پہنا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا مجھ سے زیادہ کوئی ضرورت مند تھا اسے دے دیا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ کپڑے کی ضرورت تو آپ کو تھی۔ یہ سن کر انہوں نے فرمایا : خدا تجھے معاف کرے تو دنیا کو عزت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ کیا میرے جسم پر یہ کپڑا نہیں ہے۔ نماز کے لیے میرے پاس اور چادر بھی ہے میرے پاس دودھ دینے والی بکریاں بھی ہیں ، سواری کے لیے خچر ہے ، خدمت کے لیے غلام ہیں ، عیدین کے لیے میرے پاس جبا بھی ہے جو میری ضرورت سے زیادہ ہے۔ بھلا اس سے زیادہ مجھے اور کیا چاہیے میں ڈرتا ہو ں اس زائد جبا کا مجھ سے محاسبہ نہ ہو۔ (طبقات ابن سعد )

Surah Maryam (سُوۡرَةُ مَریَم) Ayat 85-87 Part-02 .کیا ہم مجرم ہیں

بدھ، 26 جون، 2024

تعلیم اور استاد کی اہمیت (۲)

 

تعلیم اور استاد کی اہمیت (۲)

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں جس نے مجھے ایک حرف بھی سکھایا وہ میرا استاد ہے۔انبیاءکرام علیہم السلام کے علاوہ جتنی بھی بڑی شخصیات گزری ہیں اللہ تعالی کی صلاحیتوں کے بعد استاد ہی کی مرہون منت ہیں۔ 
جب علامہ اقبال کو گورنمنٹ برطانیہ نے ”سر“ کا خطاب دینا چاہا تو آپ نے کہا کہ پہلے میرے استاد کو اعزازی خطاب دیا جائے۔ گورنمنٹ نے کہا انہوں نے کوئی بھی قابل ذکر کتاب نہیں لکھی جس پر آپ نے کہا جس استاد نے مجھ جیسا مفکر پیدا کیا ہے تو تصنیف کی کیا ضرور ت رہ جاتی ہے۔تو پھر آپ کے استاد کو شمس العلماءکا خطاب دیا گیا۔ 
طلبہ کی تعلیم و تربیت میں معلم کی اپنی شخصیت اور اس کے ذاتی اوصاف بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ طلبہ شعوری اورلاشعوری طور پر ان سے متاثر ہوتے ہیں اور یہ تاثر طلبہ کو زندگی بھر نمایا ں طور پر نظر آتا ہے۔ ایک معلم کو خوش لباس ، حلیم الطبع ، ہمدرد پابند وقت ، وسیع القلب اور علم دوست ہونا چاہیے۔ حضور نبی کریم ﷺکی شخصیت بڑی دلکش اور موثر تھی۔ جو بھی دیکھتا آپ کی طرف کھینچا چلا آتا تھا۔ آج کے معلم کو بھی حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ سے راہنمائی لینی چاہیے تا کہ بچے اس سے دور بھاگنے کی بجائے اس کے قریب ہوں۔ استاد کو کلاس میں بیہودہ زبان اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ جو استاد خود کلاس کے اندر اور باہرغیر مہذب گفتگو کرے گا تو اس نے اپنے طلبہ کی راہنمائی کیا کرنی ہے اس لیے استاد کو زبان کی پاکیزگی کا خیال رکھنا چاہیے۔ استاد کو پابندِ وقت ہونا چاہیے۔ وقت کی پابندی زندگی میں انتہائی ضروری ہے۔ جب استاد ہی کلاس میں لیٹ پہنچے گا اور وقت کی پابندی نہیں کرے گا تو طلبہ میں بھی وقت کی پابندی کی عادت پیدا نہیں ہو گی اور وہ بھی کلاس میں ہمیشہ لیٹ ہی پہنچیں گے۔ 
کلاس میں بچوں سے غلطیاں سر زد ہو جاتی ہیں اس لیے ایک اچھا معلم وہ ہی ہوتا ہے جو عفو و در گزر سے کام لے۔ ڈانٹنے والے اورغضب ناک لہجے والے کبھی بھی اچھے معلم نہیں بن سکتے۔ حضور نبی کریم ﷺ دوسروں کی دلداری کا بہت زیادہ خیال رکھا کرتے تھے ہمیشہ اپنے پرائے سب سے مسکرا کر ملا کرتے تھے۔ ایک اچھے معلم کو چاہیے کہ وہ کلاس میں سب بچوں کی دلداری کرے اور کلاس میں خوش اخلاق ، ملنسار اور خوش طبع رہے۔ ایک اچھا استاد وہ ہی ہوتا ہے جو کلاس میں مکمل تیاری کے ساتھ آئے اور کتابوں کے مطالعہ کا شوق رکھتا ہو اور کلاس میں دیانتداری کے ساتھ کام کرتا ہو۔ طلبہ اس معلم سے دیانتداری اور ایمانداری کا کیا سبق حاصل کریں گے جو خود ہی دیانتدار نہ ہو۔

Surah Maryam (سُوۡرَةُ مَریَم) Ayat 83-84 .کیا ہم نے حاصل دنیا کو اپنا م...

منگل، 25 جون، 2024

Surah Maryam (سُوۡرَةُ مَریَم) Ayat 81-82 Part-03.کیا ہم سب نفس امارہ ک...

تعلیم اور استاد کی اہمیت (۱)

 

تعلیم اور استاد کی اہمیت (۱)

تعلیم و تربیت کی تاریخ میں اسلام کے ظہور کے بعد جو اہمیت تعلیم و تربیت کو دی گئی اس کی مثال کہیں نہیں ملتی ۔ حضور نبی کریمﷺمعلم اعظم بن کر تشریف لائے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ آپؐ نے ایک مثالی معلم بن کر اس قوم کو بہترین اور مفید قوم بنایا جو اخلاقی اور قانونی لحاظ سے بالکل گری ہوئی قوم تھی۔ ایسی قوم جو جاہل ، جوئے بازاور سود خور تھی اور جن کے نزدیک زنا کوئی گناہ نہیں تھا۔ جو شراب کے عادی اور چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے قتل و غارت پر اتر آتے تھے۔ آپؐ نے ان کو عزت کا رکھوالا، با عصمت، خدا ترس اور صالح انسان بنادیا۔ ان کی سیرت اور کردار میں ایسی تبدیلی پیدا کی کہ آج تک ماہر نفسیات اپنے علم کے کمال کے با وجود تشریح کرنے سے قاصر ہیں ۔ 
حضور نبی کریمﷺ انسانی فطرت کو سب سے زیادہ سمجھتے تھے۔ آپؐ نے اپنے اعلیٰ اخلاق اور کردار سے عرب کے لوگوں کو ایسی تعلیم دی کہ ہمیشہ کے لیے ان کے دلوں میں اتر گئی اور اخلاق و اطوار کی ایسی بلندی پیدا کر گئی جس کی معراج تک پہنچنا کسی معلم کے بس کی بات نہیں۔
اسلام نے نہ صرف ہر مسلمان مر د و عورت پر علم حاصل کرنا فرض قرار دیا بلکہ اخوت اسلامی کا عملی سبق دے کر تعلیم اور تعلیم کے مقصدکو ایسی ہمہ گیری اور وسعت نظری بخشی جو دنیا کے کسی اور مذہب کی حاصل نہ ہو سکی۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس میں لوگوں کی افرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے مکمل رہنمائی موجود ہے۔ اسلام نے تعلیم کا جو مقصد بیان کیا ہے وہ جامع اور مکمل ہے اور سینکڑوں سال گزرنے کے باوجود بھی اسلام میں تعلیم کو بلند ترین مقصد قرار دیا جاتا ہے۔ جس تعلیم سے بچوں کی شخصیت میں نکھار پیدا نہ ہو اور انھیں کامیاب زندگی گزارنے کے لیے تیار نہ کیا جائے تو ایسی تعلیم کا کوئی فائدہ نہیں۔ تعلیم میں علم، معلم اور متعلم تینوں چیزیں ضروری ہیں۔کسان فصل حاصل کرنے کے لیے پہلے زمین کے ایک بہترین ٹکڑے کا انتخاب کرتا ہے اور بعد میں اس میں بیج اگا کر اچھی فصل حاصل کرتا ہے۔ ایک معمار اچھی بلڈنگ بنانے کے لیے اچھے مٹیریل کا انتخاب کرتا ہے۔ لیکن ایک استاد ہی ہے جسے جس طرح کا بھی شاگرد مل جائے اس کی شخصیت کو سمجھ کر اس کی رہنمائی کرتا ہے اور ذہنی نشوو نما کر کے ایک کامیاب شہری اور معاشرے کا مفید رکن بناتا ہے ۔ 
آپؐ استاد کی اہمیت بیان کرتے ہوئے آپؐ نے ارشاد فرمایا: تیرے تین باپ ہیں ایک وہ جس نے تجھے جنا ہے ، دوسرا وہ جس نے تجھے علم سکھایا اور تیسرا جس نے تجھے بیٹی دی ۔

Surah Maryam (سُوۡرَةُ مَریَم) Ayat 81-82 Part-02.کیا ہم زندگی ضائع کرنے...

Surah Maryam (سُوۡرَةُ مَریَم) Ayat 81-82 Part-01.کیا ہم ظاہر کے سامنے ج...

اتوار، 23 جون، 2024

Surah Maryam (سُوۡرَةُ مَریَم) Ayat 77-80 Pt-02.کیا دنیا ہی ہمارا مقصود...

Surah Maryam (سُوۡرَةُ مَریَم) Ayat 77-80 Part-01.کیا ہم عملی طور پر انک...

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ(۳)

 

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ(۳)

خشیتِ الٰہی سے بدن پر لرزا طاری رہتا ، جب کسی قبر کے پاس سے گزرتے تو بہت زیادہ روتے ۔ آپ ؓ فرمایا کرتے تھے کہ اگر مجھے یہ علم نہ ہو کہ مجھے جنت ملے گی یا دوزخ تو میں اس کا فیصلہ ہونے کے مقابلہ میں خاک ہو جانا پسند کروں ۔ ( تاریخ اسلام ) 
جب آپ ؓ مسند خلافت پر فائز ہوئے تو فرمایا : لوگو! چند روز جاہ و جلال پر مائل ہو کر شیطان کے چنگل میں نہ پھنسو اور اپنی زندگی اللہ تعالی کی خوشنودی کو حاصل کرنے میں بسر کرو ۔( تاریخ اسلام ) 
حضرت عثمان غنیؓ ہر کام میں حضور نبی کریمﷺ کی اتباع کو ملحوط خاطر رکھا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے پانی منگواکر وضو فرمایا اور مسکرائے۔ اپنے احباب سے پوچھا کہ تم جانتے ہو کہ میں کیوں مسکرایا ہو ں پھر خود ہی ارشادا فرمایا اس جگہ حضورﷺنے یوں ہی پانی منگوا کر وضو فرمایا اور بعد میں مسکرائے اور بعد میں صحابہ کرام سے عرض کی جانتے ہو میں کیوں مسکرایا ہوں ؟ صحابہؓ نے عرض کی اللہ اور اس کا رسولﷺ بہتر جانتے ہیں۔ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : جب آدمی وضو کرتا ہے ہاتھ دھوتا ہے توہاتھوں سے اور جب منہ دھوتا ہے تو منہ سے مسح کرنے سے سر اور پاﺅں دھونے سے پاﺅں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔ (مسند احمد)
آ  پؓشرم و حیا کے پیکر تھے۔ ایک مرتبہ حضور نبی کریمﷺ کی پنڈلی مبارک سے کپڑا ہٹا ہوا تھا۔ اسی حالت میں پتا چلا کہ عثمان غنیؓ تشریف لا رہے ہیں تو آپنے پنڈلی مبارک پر کپڑا ٹھیک کیا اور سیدھا بیٹھ گئے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کی : یا رسول اللہﷺ اس کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا، میرے عثمان کی حیا سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔ ( بخاری شریف ) 
آپؓ زہد و تقوی کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔ دن کو اکثر روزہ رکھا کرتے تھے اور رات عبادت و ریاضت میں گزار دیا کرتے تھے ۔ آپؓ نرم مزاج اور صبر و تحمل کے پیکر تھے ۔
حضرت عثمانؓ جامع القرا ٓن بھی ہیں اور شہید قرآن بھی۔ جب باغیوں نے حملہ کیا تو آپؓ قرآن مجیدکی تلاوت کر رہے تھے اور روزے کی حالت میں تھے ۔ آپؓ کے خون کے قطرے سورة البقرہ کی آیت مبارکہ پر گرے ۔ گویا کہ آپؓ کی شہادت کی گواہی قرآن مجید بھی دے گا ۔ آپ ؓ کا یوم شہادت 18ذوالحج ہے۔ آپ ؓ کے بارہ سالہ دور خلافت میں اہل اسلام نے بہت سی فتوحات حاصل کیں۔ آپؓ کے دور ہی میں کسریٰ کی حکومت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوا اور آرمینہ فتح ہوا ور اندلس پر حملوں کا آ غاز ہوا ۔

ہفتہ، 22 جون، 2024

Surah Maryam (سُوۡرَةُ مَریَم) Ayat 76.کیا ہم نے نیکی کے راستے پر چلنے س...

Surah Maryam (سُوۡرَةُ مَریَم) Ayat 75.کیا ہمارا حال بہت برا ہونے والا ہے

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ(۲)

 

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ(۲)

اور یہ بھی اعزاز اور مرتبہ بڑے کمال اور عظمت والا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺنے آپ کو دو مرتبہ بیعت کے شرف سے نوازا ایک مرتبہ بیعت اسلام جو سب کو نصیب ہوئی اور دوسری بیعت رضوان جب حدیبیہ کے مقام پر نبی کریم ﷺ نے آپ کو سفیر بنا کر مکہ مکرمہ بھیجا تو یہ خبر مشہور ہوئی کہ آپ کو شہید کر دیا گیا ہے لیکن دوسری طرف حضرت عثمان غنیؓ سفیربن کر کفار مکہ مکرمہ سے بات چیت کرنے پہنچے ہیں۔ عجیب صورتحال ہے۔ مکہ مکرمہ ہے خانہ کعبہ سامنے ہے ، مطاف بھی۔ حجر اسود بھی ، مقام ابراہیم بھی اور صفا مروہ کی بھی قربت ہے۔ آپ سے کہا جاتا ہے کہ رسول پاک اور آپ کے ساتھیوں کو آنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہاں اگر آپ طواف کرنا چاہیں ، نوافل ادا کرنا چاہیں تو آپ کو بیت اللہ میں داخلے کی اجازت ہے۔ آپ نے بڑا ایمان افروزجواب دیا کہ بے شک یہ عمل بڑا عالیشان ہے مگر جب تک میرے آقا محمد عربی زیارت کعبہ نہ کریں میں ہر گز طواف کعبہ نہیں کرو گا۔اس موقع پر آپ نے صحابہ کرام سے قصاص کے لیے بیعت لی۔ جب سب سے بیعت لے چکے تو آپ نے اپنے دست مبارک کو بلند کیا کہ میرا ایک ہاتھ میرا اور میرا دوسرا ہاتھ حضرت عثمان کا ہاتھ ہے میں اپنے ہاتھ کو عثمان کے ہاتھ کی بیعت کرتا ہوں۔
ارشاد باری تعالی ہے : محبوب جو تیرا ہاتھ ہے وہ میرا ہاتھ ہے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ عشرہ مبشر یعنی وہ دس صحابہ کرام جن کو نبی کریم ﷺ نے جنت کی بشارت دی میں شامل ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ بھی شرف حاصل ہے کہ آپ کو دو مرتبہ جنت کی بشارت دی گئی۔ ایک مرتبہ غزوہ تبوک میں مجاہدین اسلام کی مدد کرنے پرجب آپ نے ایک ہزار اونٹ ستر گھوڑے اورایک ہزار دینار اور کم از کم دس ہزار فوجیوں کے لیے سازو سامان فراہم کیا۔ 
 دوسری مرتبہ بئر رومہ خرید کر مدینہ منورہ کے اہل اسلام کے لیے وقف کرنے پر۔ مدینہ منورہ میں پینے کے میٹھے اور صاف پانی کا حصول مشکل تھا بئر رومہ میٹھے پانی کا کنواں تھا جس کا مالک یہودی تھا جو مسلمانوں کو پانی زیادہ قیمت پر دیتا تھا اور تنگ بھی کرتا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا کون ہے جو یہ کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ کنواں خرید کر وقف کر دیا۔ اب اس کنویں سے مسلمانوں کے ساتھ یہودی اور مدینہ منورہ کے رہنے والے بغیر قیمت ادا کیے پانی لے سکتے تھے۔

جمعہ، 21 جون، 2024

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ(۱)

 

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ(۱)

رسول پاکﷺ کے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین بڑی شان و مرتبت والے ہیں جن کو ظاہری زندگی میں نبی کریمﷺ کا دیدار اور صحبت نصیب ہوئی۔ ان خوش نصیب ہستیوں میں جلیل القدر صحابی خلیفہ ثالث امیر المو منین خلیفة المسلمین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ عام الفیل کے چھ سال بعد پیدا ہوئے۔ آپ کی نانی حضور کے والد ماجد کی حقیقی بہن تھیں اس طرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ رسول پاک کی پھوپھی زاد بہن کے بیٹے تھے۔آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا شمار ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ہوتا ہے جنہوں نے ابتدا ئے اسلام میں قبول اسلام کیا۔ جب حضور نبی کریم ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا تو آپ کی عمر ۳۳ برس تھی۔ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ آپ سے پہلے اسلام قبول کر چکے تھے۔ 
حضرت سیدنا صدیق اکبر اور سیدنا عثمان غنی بچپن سے ہی اچھے دوست تھے۔ ایک مرتبہ آپ حضرت ابو بکر صدیق ؓ سے ملاقات کیلئے تشریف لائے تو اسلام کے موضع پر گفتگو شروع ہو گئی۔ اللہ تعالی نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ میں ہدایت یابی کی صلاحیت پیدا فرما دی تھی۔ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی ترغیب اور دعوت سے آپ رضی اللہ تعالی عنہ حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ اللہ کے پیارے حبیب کی دو صاجزادیاں حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنھا یکے بعد دیگرے آپ کے نکاح میں آئیں اور آپ کا شرف کہ آپ ذوالنورین کہلائے۔
نور کی سرکار سے پایا دو شالہ نور کا 
ہو مبارک تم کو ذوالنورین جوڑا نور کا
آپ حافظ قرآن ، عالم قرآن ، جامع قرآن اور ناشر قرآن بھی تھے۔ اللہ تعالی نے آپ کو علم و حکمت کی بے شمار دولت سے مالا مال فرمایا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ آپ کی علمی عظمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : خدا کی قسم میں نہیں جانتا کہ میں آپ سے کیا کہوں ، مجھے کوئی بات ایسی معلوم نہیں جس سے آپ واقف نہیں اور نہ ہی ایسی کوئی بات بتا سکتا ہوں جس سے آپ بے خبر ہوں۔میں آپ سے کسی بات میں سبقت نہیں رکھتا ، نہ ہی میں نے تنہائی میں رسول کریمﷺ سے کوئی ایسا علم حاصل کیا ہے جو آپ تک پہنچاﺅں۔ آپ نے رسول اللہ کو اسی طرح دیکھا جیسے میں نے دیکھا ، آپ نے آپ کو ایسے ہی سنا جیسے ہم نے سنا ، آپ نے ان کی صحبت ایسی ہی پائی جیسے ہم نے پائی۔( نہج البلاغة) 
آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ خا ص اعزاز حاصل ہے کہ آپ نے دو مرتبہ ہجرت فرمائی ایک مرتبہ مکہ مکرمہ سے حبشہ کی طرف اور دوسری مرتبہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف۔

ہدایت کیوں اور کیسے؟

Surah Maryam (سُوۡرَةُ مَریَم) Ayat 72-74 .کیا ہم متقی نہیں بننا چاہتے

Surah Maryam (سُوۡرَةُ مَریَم) Ayat 70-71.جنت کا راستہ مشقت کا راستہ ہے

Surah Maryam (سُوۡرَةُ مَریَم) Ayat 66-69 .کیا ہم سرکشی میں حد سے بڑھ گئ...

Surah Maryam (سُوۡرَةُ مَریَم) Ayat 65 .کیا ہم نے غیر اللہ کو مقصود و مح...

جمعرات، 20 جون، 2024

عید قرباں اور صفائی ستھرائی

 

عید قرباں اور صفائی ستھرائی

طہارت و نظافت ایک بہت ہی عمدہ اور پسندیدہ عمل ہے۔ انسان کے لیے زیب و زینت کا باعث ہے۔ صفائی مہذب اورزندہ قوموں کی پہچان ہے۔صفائی اسلام اور مسلمانوں کا طرہ امتیاز ہے۔ صفائی ستھرائی اور پاکیزگی سے دل کو آسودگی و فرحت میسر ہوتی ہے۔ صفائی انسانی ذہن کو تازگی قلب و دماغ کو معطر رکھتی ہے۔ صفائی انسانی صحت کے لیے بھی بہت زیادہ ضروری اور معاون و مددگار ہے۔ اسلام میں صفائی کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اسلام نے صفائی کو نصف ایمان قراردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی پاکی و طہارت کو پسند فرماتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ بیشک اللہ پسند کرتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور پسند رکھتا ہے ستھروں کو ‘‘۔ ( سورۃ البقر ۃ ، آیت 222 )۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ پاک ہے ، پاکی کو پسند فرماتا ہے ، اللہ تعالیٰ ستھرا ہے اور ستھرائی کو پسند فرماتا ہے۔لہٰذا تم اپنے صحن صاف رکھو اور یہود سے مشابہت نہ کرو۔ ( ترمذی )۔ 
اس عید پر قربانی کے ساتھ ساتھ ہمیں صفائی ستھرائی کا بھی خوب خیال رکھنا ہے۔ ہماری حالت یہ ہے کہ ہم بہت زیادہ مہنگے جانور تو خرید لاتے ہیں مگر صفائی ستھرائی کا خیال بالکل بھی نہیں رکھتے۔ جانوروں کو لا کر بازاروں میں باندھ دیا جاتا ہے۔ جس سے ان کے گوبر کی وجہ سے گلی میں بد بو پھیل جاتی ہے اور آنے جانے والوں کے لیے اذیت کا باعث بنتی ہے۔ اگر جانور بازار میں نا بھی باندھے جائیں تو لوگ جانوروں کا بچا ہوا چارہ مناسب طریقے سے پھینکنے کی بجائے گلی محلوں میں پھینک دیتے ہیں جسکی وجہ سے گلی محلے میں تعفن اٹھنا شروع ہو جاتا ہے اور ماحول بد بودار ہو کر ہماری صحت کے لیے بھی نقصان دہ بن جاتا ہے۔ 
اس کے بعد جب لوگ عید کے دن قربانی کا جانور ذبح کرتے ہیں تو اس کے باقیات کو مناسب طریقے سے تلف کرنے کی بجائے ایسے ہی گلی میں پھینک دیتے ہیں جس سے بہت زیادہ تعفن اٹھتا ہے یہاں تک کہ سانس لینا بھی دشوار ہو جاتا ہے اور گلی محلے میں آنے جانے والوں کے لیے باعث اذیت بنتا ہے۔ اسلام تو ہمیں راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کا حکم دیتا ہے۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ راستے سے تکلیف دہ چیز مثلا ً کوئی کانٹا یا پتھر وغیرہ ہٹانا بھی صدقہ ہے۔ اور آج کے معاشرے میں گلی محلوں اور راستوں کو صاف رکھنے کی بجائے اپنے ہاتھوں سے خراب کرتے ہیں۔ اور یہ عمل بھی حقوق العباد کے خلاف ہے۔ آئیے اس عید کے موقع پر یہ عہد کریں کہ ہم اپنے گلی محلوں کو صاف ستھرا رکھیں گے اور جانوروں کی باقیات کو مناسب طریقے سے تلف کریں گے۔ اور حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی بھی کریں گے۔ اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

ہفتہ، 15 جون، 2024

قربانی کے مسائل (۱)

 

قربانی کے مسائل (۱)

مخصوص ایام میں رضائے الٰہی کے لیے جانور کو ذبح کرنا قربانی ہے۔ قربانی ہر عاقل ، بالغ ، مقیم ، آزاد اور صاحب نصاب مرد اور عورت پر فرض ہے۔ صاحب نصاب وہ شخص ہو گا جس کے پاس حاجات اصلیہ کے علاوہ ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے باون تولے چاندی یا اس کے برابر رقم موجود ہو۔ قربانی کے لیے صاحب نصاب ہونا شرط ہے خواہ اس پر سال گزرا ہو یا نہ گزرا ہو۔ اسلام میں قربانی کے لیے 10 ، 11 ،12 ذی الحجہ کے تین دن مختص کیے گئے ہیں ان تین ایام کے علاوہ کی جانے والی قربانی جائز نہیں۔ 
عید کی نماز سے قبل قربانی کرنا جائز نہیں۔ اگر کسی نے نماز عید سے پہلے قربانی کی تو وہ قربانی نہ ہو گی اس پر دوبارہ قربانی واجب ہے۔ ایسے دیہات جہاں عید کی نماز نہیں ہوتی وہاں نماز فجر کے بعد قربانی جائز ہے لیکن وہاں بھی قربانی سورج طلوع ہونے کے بعد کی جائے۔ 
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے نماز عید سے پہلے قربانی کی تو اس نے اپنے لیے کی۔ (یعنی گوشت کھانے کے لیے ) اور جس نے نماز بعد قربانی کی اس کی قربانی ہو گی اور اس نے مسلمانوں کے طریقے کو پا لیا۔(بخاری )۔ 
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : مجھے یوم الاضحی کا حکم دیا گیا اس دن کوخدا نے امت کے لیے عید بنایا۔ ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ میرے پاس فیحہ( ایسا جانور جو کسی دوسرے نے اسے لے دیا ہوکہ وہ کچھ دن اس کا دودھ دوہے اورپھر اسے مالک کو واپس کر دے) کے سوا کوئی جانور نہیں تو میں اس کی قربانی کر سکتا ہوں۔ آپ نے فرمایا نہیں۔ ہاں تم اپنے بال ناخن اور مونچھیں اور موئے زیر ناف کو مونڈو۔ اسی میں تمہاری قربانی ہو جائے گی یعنی جس کے پاس قربانی کی گنجائش نہ ہو اسے ان چیزوں کے کرنے سے قربانی کا ثواب مل جائے گا۔ (ابوداﺅد)اسی طرح سفر کی حالت میں قربانی واجب نہیں۔ اگر مسافر قربانی کر لیتا ہے تو اس کی قربانی ہو جائے گی۔اگر کوئی شخص اپنی طرف سے قربانی کر نے کے بعد اپنے فوت شدہ رشتہ داروں اور بزرگان دین کے ایصال ثواب کے لیے قربانی دینا چاہے تو یہ جائز ہے اور اچھا عمل ہے۔ اگر کوئی شخص حضورنبی کریم کی طرف سے قربانی دے تو یہ افضل اور سعادت کا باعث ہے۔ اللہ تعالی آپ کی نسبت کی وجہ سے اس کی قربانی کو بھی شرف قبولیت سے نوازے گا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ حضور نبی کریم ﷺ کی طرف سے قربانی کیا کرتے تھے۔

Surah Maryam (سُوۡرَةُ مَریَم) Ayat 59-60 Part-05.کیا ہم سچا مومن نہیں ب...

جمعہ، 14 جون، 2024

فضائل حج (۱)

 

    فضائل حج (۱)

ہر مسلمان کی یہ خواہش ہے کہ وہ زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ بیت اللہ اور روضہ رسول ﷺ کی زیارت کر لے۔ وہ لوگ بہت ہی زیادہ خوش نصیب ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی اور نبی کے در کی حاضری نصیب فرمائی ہے اوروہ فریضہ حج ادا کر رہے ہیں۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے حج کا فریضہ ادا کرنے کی استطاعت عطا فرمائی ہے وہ لوگ دنیا بھر سے مکہ مکرمہ کے مبارک سفر پر گامزن ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : 
’’ اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس کے گھر کا حج کرنا فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اور جو انکار کرے تو اللہ سارے جہان سے بے پرواہ ہے ‘‘۔ ( سورۃ آل عمران )۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں ، نماز قائم کرنا ، زکوۃ ادا کرنا ، حج کرنا اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔ (بخاری شریف )۔
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا : جس نے اس گھر (کعبہ ) کا حج کیا پس وہ نہ تو عورت کے قریب گیا اور نہ ہی کوئی گناہ کیا تو (تمام گناہوں سے پاک ہو کر ) اس طرح لوٹا جیسے اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا‘‘۔(بخاری شریف)۔ 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ سے عرض کیا گیا کہ کون سے اعمال اچھے ہیں ؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لانا۔ پوچھا گیا پھر کون سے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ عرض کی گئی پھر کون سا۔ فرمایا حج مبرور۔ ( بخاری شریف )۔
حج مبرور ایسا حج جس کے دوران بندہ کسی بھی قسم کے گناہ سے محفوظ رہے ، جو حج اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہو ، جس میں ریا کاری اور کسی بھی قسم کی شہرت مقصود نہ ہو اورایسا حج جس سے واپسی پر بندہ گناہوں سے بچ جائے اور نیکی کی طرف رجحان بڑھ جائے۔ 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک کے ان گناہوں کا کفارہ ہے جو ان دونوں کے درمیان ہوئے اور حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے۔( بخاری و مسلم شریف)۔ 
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا : حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں ، وہ اس سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول کرتا ہے اور اگر اس سے بخشش طلب کریں تو انہیں بخش دیتا ہے ‘‘۔

Surah Maryam Ayat 59-60 Part-03.کیا ہم نے اللہ تعالی کی حقیقی یاد سے من...

جمعرات، 13 جون، 2024

Surah Maryam Ayt 59-60 Part-02.کیا ہم نے اجتماعی طور پر ہدایت کے مقابلے ...

حج کے مقاصد (۲)

 

حج کے مقاصد (۲)

حج کے ذریعے احکام شریعت کی تعمیل ہوتی ہے۔ تلبیہ ، سعی ، رمی ، وقوف عرفہ ، مزدلفہ اور منیٰ میں مخصوص اوقات کے لحاظ سے اور احرام کی پابندی کے ذریعے انسان اپنا سر تسلیم خم کرتا ہے اور قولی اور فعلی طور پر اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کا عاجز بندہ ہے اور احکام شریعت کے سامنے اس کی کوئی اوقات نہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے جو نہ نفع دے سکتا ہے اور نہ ہی نقصان ، میں تجھے اس لیے بوسہ دے رہا ہو ں کہ تجھے حضور ﷺنے بوسہ دیا ہے۔(بخاری شریف)۔
 آپ کا یہ قول احکام شریعت کی پا بندی کی بہترین مثال ہے۔ حج انسان کی بخشش کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالی حاجی کے تما م گناہ بخش دیتا ہے شرط یہ ہے کہ بندہ حج کے دوران فسق و فجوراوراللہ تعالی کی نافرمانی سے بچے اور کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچائے۔ 
حج کے ذریعے سے مساوات انسانی کا درس ملتا ہے۔ حج کے موقع پردنیا بھر کے مسلمان چاہے وہ عربی ہوں یا عجمی ، امیر ہوں یاغریب ، حاکم ہو یا محکوم ، پیر ہو یا مرید ، استاد ہو یا شاگرد سب کے سب ایک ہی لباس ، ایک ہی حالت میں اور ایک ہی مقام پر جمع ہوتے ہیں اور ایک ہی آواز میں اللہ تعالی کو پکار رہے ہوتے ہیں۔ مساوات کی ایسی مثال دنیا کے کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔ 
حج اور اس کے علاوہ تمام اسلامی عبادات سے ہمیں نظم و ضبط کا درس ملتا ہے۔ نظم وضبط جیسے اوصاف مہذہب اور ترقی یافتہ قوموں کی پہچان ہوتے ہیں۔ حج کے موقع پر نظم و ضبط اور وقت کی پابندی کا شاندار مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے اور اس سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ اے مسلمانوں غفلت کی نیند سے جاگ جاﺅ اور جس حقیقی مقا م و مرتبہ کے تم حقدار ہو اسے پہچانواور اس کے حصول کے لیے کوشش کرو ورنہ تمہارا نام و نشان مٹ جائے گا اور دنیا تمہیں کچلتے ہوئے آگے نکل جائے گی۔ 
حج مسلمانو ں کاایک شاندار اجتماع ہے جس کے ذریعے دین اسلام کی شان و شوکت میں اضافہ ہوتا ہے اور مسلمانو ں کو آپس میں لڑانے کی جو کوشش کی جا رہی ہے دشمنان اسلام اجتماع حج کو دیکھ کر خوف زدہ ہو جاتے ہیں کہ یہ اتحاد یونہی قائم رہا تو اسلام کے خلاف کی جانے والی ساری سازشیں ناکام ہو جائیں گی اور دین حق اسی طرح روز پھلتا پھولتا رہے گا۔ اللہ تعالی ہم سب کو حج بیت اللہ کی سعادت زندگی میں بار بار نصیب فرمائے اور ہمیں اپنی زندگیاں احکام الٰہی کے مطابق بسر کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین۔

Surah Maryam (سُوۡرَةُ مَریَم) Ayat 59-60 Part-01.کیا ہماری نماز ضائع ہو...

Surah Maryam (سُوۡرَةُ مَریَم) Ayat 49-58 .کیا ہم اللہ تعالی کو مقصود وا...

بدھ، 12 جون، 2024

آج ہمیں ہدایت کیسے حاصل ہوگی؟

حج کے مقاصد (۱)

 

حج کے مقاصد (۱)

یا رب مصطفی تو مجھے حج پہ بلا
آ کے دیکھ لوں آنکھ سے کعبہ تیرا
حج ارکان اسلام میں سے پانچویں نمبر پر ہے۔ اس کے ذریعے قرب الٰہی نصیب ہوتا ہے۔ حج صرف طواف خانہ کعبہ،سعی ، وقوف عرفہ اور رمی وغیرہ کا نام نہیں بلکہ حج یہ ہے کہ بندہ مسلمان قدم قدم پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی سے بچے اور گناہوں سے بچ کر نیک اعمال بجا لائے۔ اس کے ساتھ احکام الٰہی کو تسلیم کرنے ، صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنے اور کمزور اور مساکین کا خیال رکھنے کا بھی درس ملتا ہے۔ 
حج کے دوران مسلمان اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہی اکیلا عبادت کے لائق ہے۔ حج کا مقصد مسلمانوں کے دلوں میں عقیدہ توحید کو مضبوط کرنا ہے کہ وہ کفر و شرک سے بچے رہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :” اور منادی پکارتا ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے سب لوگوں میں بڑے حج کے دن کہ اللہ اور اس کا رسول بیزار ہے ان مشرکو ں سے “ (سورة التوبہ )۔
طواف خانہ کعبہ ، سعی صفا و مروہ ، وقوف عرفات ، مزدلفہ اور منیٰ میں فرزندان اسلام یک زبان ہو کر یہ اعلان کرتے ہیں ” میں حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں ! تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں ! یقینا تمام تعریفیں ، نعمتیں اور بادشاہی تیرے ہی لیے ہے ! تیرا کوئی شریک نہیں۔ حج کا دوسرا مقصد امت مسلمہ کے درمیان اتحاد اور یگانت کی فضا قائم کرنا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان چاہے وہ مشرق سے ہوں یا مغرب سے ، جنوب سے ہوں یا شمال سے ان کے لیے یہ بات معنی نہیں رکھتی بلکہ وہ سب ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے : مسلمان آپس میں بھائی ہیں “۔ حج ایک ایسا موقع ہے جس پر دنیا بھر کے مسلمان بغیر کسی رنگ و نسل کے اتحاد امت کا شاندار منظر پیش کرتے ہیں۔ 
حج مسلمانوں میں تقوی و پرہیز گاری کا ذریعہ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی ہمارے مال و متاع کو نہیں دیکھتا کہ کون کتنا حج پر خرچ کر رہا ہے بلکہ اللہ تعالی ہماری نیتوں ، پرہیز گاری اور تقوی کو دیکھتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے ” اللہ کو ہر گز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ ہی خون۔ ہاں تمہاری پرہیز گاری اس تک با ریاب ہوتی ہے “۔ ( سورة الحج ) 
یعنی اگر حج کرنے والے کا مقصد محض دکھلاوا ہو۔ اور یہ کہ لوگ مجھے حاجی کہیں اور قربانی کا مقصد بھی دکھلاوا ہو تو اللہ تعالیٰ اس سے راضی نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ صرف اور صرف ہمارے اخلاص اور نیت کو دیکھتا ہے۔ صرف وہی عمل قابل قبول ہے جو صرف اللہ تعالی کی رضا کے لیے کیا جائے۔

منگل، 11 جون، 2024

حضور نبی ﷺ کا سفر حجۃ الوداع(۲)

 

حضور نبی ﷺ کا سفر حجۃ الوداع(۲)

جب یہ قافلہ ذولحلیفہ کے مقام پر پہنچا تو حضور نبی کریمﷺ نے سب کو رک جانے کا حکم فرمایا۔ سفر کا آغاز ہو چکا تھا اس لیے نمازعصر قصر ادا کی گئی ۔اور یہاں رات کو قیام فرمایا اور باقی نمازیں بھی اسی مقام پر ادا کی گئیں ذولحلیفہ ایک چشمہ ہے جو مدینہ طیبہ سے پانچ یا چھ میل کے فاصلے پر واقع ہے اہل مدینہ کے لیے یہ میقات کا مقام ہے یعنی جو شخص یہاں سے حج یا عمرے کے سفر کے لیے جائے گا اس پر لازم ہے کہ وہ اس مقام پر احرام باندھ کر آگے بڑھے ۔
اگلے روز ظہر کی نماز سے پہلے حضورﷺ نے غسل فرمایا نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد حج اور عمرہ دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھا پھر تلبیہ کہا :
لبیک اللھم لبیک  لبیک لا شریک لک لبیک  ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک
جب حضور نبی کریمﷺ یہ الفاظ اپنی زبان مبارکہ سے ادا فرماتے تو تا حد نگاہ پھیلا ہوا عشاقانِ مصطفیﷺ بھی ان الفاظ کو دہراتے تو دشت و جبل اور صحرا  اس آواز سے گونجنے لگ جاتے ۔ اس کے بعد حضور نبی کریمﷺ اپنی اونٹنی قصوی ٰ پر سوارہوئے اور پھر یہ تلبیہ پڑھی ۔ جب حضور نبی کریمﷺ کی سواری ناقہ کسی کھلے میدان میں پہنچتی تو پھر حضور نبی کریمﷺ نے بآواز بلند تلبیہ پڑھی اس کا مقصد یہ تھا کہ تمام لوگ ان کلمات کو اچھی طرح سیکھ لیں ۔ 
اس طرح یہ مبارک قافلہ اپنے سفر حج کی طرف رواں دواں رہا اور جہاں بھی کوئی ٹیلہ یا پہاڑی آتی تو اس پر چڑھتے اور اترتے وقت تین تین بار تسبیح پڑھتے اور جب نماز کا ٹائم ہو تا تو اپنی سواریوں سے اتر کا نماز ادا فرماتے ۔ مکہ مکرمہ پہنچنے کے بعد حضور نبی کریمﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ مسجد حرام میں تشرف لائے اور جب خانہ کعبہ پر نظر پڑھی تو فرمایا: اے اللہ اپنے گھر کے شرف کو ، اس کی عظمت کو ، اس کی ہیبت کو اور زیادہ بڑھا ۔ 
پھر حضور نبی کریمﷺ نے طواف شروع کیا پہلے حجر اسود کو بوسہ دیا اور جب طواف سے فارغ ہوئے تو مقام ابراہیم پر تشریف لا کر دو نفل طواف کے اداکیے اور یہ آیت تلاوت فرمائی، ’ مقام ابراہیم کو اپنا مصلی بنائو‘۔ نماز پڑھنے کے بعد حجر اسود کو بوسہ دیا پھر صفا اور مروا کی سعی کی سات چکر کرنے کے بعد احرام نہیں کھولا کیونکہ آپؐ قربانی کے جانورساتھ لائے تھے اس لیے قربانی کرنے سے پہلے احرام نہیں کھولا جاتا ۔ اس کے بعد آپؐ منی تشریف لے گئے اور نمازظہر اور عصر، مغرب اور عشاء منی میں پڑھیں۔ وہی رات بسر کی اور جب سورج طلوع ہو گیا تو عرفات تشریف لے گئے ۔

Surah Maryam (سُوۡرَةُ مَریَم) Ayat 48.کیا ہماری پکار کا محور صرف دنیا ہے

Surah Maryam (سُوۡرَةُ مَریَم) Ayat 41-48 .کیا ہم صرف اللہ تعالی کو پکار...

Surah Maryam (سُوۡرَةُ مَریَم) Ayat 41-44 Part-02.کیا ہم رحمان کے نافرما...

پیر، 10 جون، 2024

حضور نبی ؐ کا سفر حجۃ الوداع(۱)

 

حضور نبی ؐ کا سفر حجۃ الوداع(۱)

حضور نبی کریم ﷺ نے سن 10 ہجری کو آخری حج ادا فرمایا یہ حج مختلف ناموں سے مشہور ہے اسے حجۃ الوداع ، حجۃ التمام ، حجۃ البلاغ اور حجۃ الاسلام بھی کہا جاتا ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ سفر حج کے دوران جو خطبات ارشاد فرمائے اس میں مختلف جگہوں پر بتا دیا کہ ہو سکتا ہے اس مقام پر میری آپ سے دوبارہ ملاقات نہ ہو اس لیے اسے حجۃ الوداع کہا جاتا ہے۔ اسی موقع پر یہ آیت مبارکہ بھی نازل ہو ئی۔ 
ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہاری لیے اسلام کو دین پسند کیا۔
حضور نبی کریم ﷺ نے اس مبارک سفر کے دوران مختلف مقامات پر دین کا خلاصہ بیان فرمایا اس لیے اسے حجہ الاسلام کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ خطبہ کے دوران حضور نبی کریم ﷺ نے تمام صحابہ کرام سے یہ گواہی لی کہ میں نے اللہ تعالی کے احکام کی تبلیغ کا حق ادا کر دیاہے تو سب نے اس کی تصدق کی اس لیے اسے حجۃ البلا غ کہا جاتا ہے۔ 
حضور نبی کریم ﷺنے ارادہ فرمایا کہ اس حج میں زیادہ سے زیادہ لوگ شریک ہو ں تا کہ وہ مجھے حج کرتے ہوئے دیکھ لیں اور صحیح طریقہ سے سنت ابراہیمی کو زندہ کیا جا سکے اور زمانہ جاہلیت میں پروان چڑھنے والی روایات کو ختم کیا جا سکے۔ اس لیے اللہ کے محبوب ؐ کے حکم پر تمام بستیوں میں یہ اعلان کر دیا گیا کہ اس سال حج کے لیے جو لوگ جائیں گے اس قافلے کی قیادت خود حضور نبی کریم ﷺ فرمائیں گے۔ جب لوگوں کو اس بات کا علم ہوا کہ مکہ کا سفر ، طواف کعبہ ، ارکان حج کی ادائیگی محبوب بر حق کی معیت میں ادا ہو گی تو ہر شخص اسے اپنی خوش قسمتی سمجھنے لگا اور بڑے زور شور کے ساتھ سفر حج کی تیاری میں لگ گیا۔ 
اس قافلے میں جو لوگ مدینہ منورہ سے شریک ہوئے تھے ان سب کو حج ادا کرنے کا صحیح طریقہ بتا دیا گیا تھا اور جو لوگ راستے میں قافلے میں شامل ہو رہے تھے ہر وفد کے ایک رکن کو مناسک حج کی تعلیم دی جاتی تا کہ وہ دوسروں کو سکھائے اور زمانہ جاہلیت میں جو خرابیاں ان میں شامل ہو چکی تھیں ان کو ختم کیا جاسکے۔ جیسے جیسے حج کا مہینہ قریب آ رہا تھا لوگوں کے دلوں میں اس مبارک سفر اور وہ بھی حضور ﷺ کی سربراہی میں طے ہونا تھا اس کا شوق بڑھتا جا رہا تھا۔ 25 ذی قعدہ کو نماز ظہر مسجد نبوی ؐ میں ادا کرنے کے بعد حضور نبی کریم ﷺ نے سفر حج کا آغاز فرمایا اور تمام ازواج مطہرات کو بھی اس مبارک سفر میں شریک فرمایا۔

Surah Maryam (سُوۡرَةُ مَریَم) Ayat 38-40. کیا ہم صرف دنیا ہی کے طالب ہیں

اتوار، 9 جون، 2024

خطبہ حجة الوداع(۲)

 

خطبہ حجة الوداع(۲)

جان و مال کے تحفظ کے بارے میں آپ نے ارشاد فرمایا : تمہیں یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور تم سب آپس میں بھائی بھائی ہو کسی ادمی کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بھائی کی رضا مندی کے بغیر اس کے مال میں سے کوئی چیز لے۔ پس تم اپنے آپ پر ظلم نہ کرو۔ 
غلاموں کے بارے میں حضورﷺ نے ارشاد فرمایا : جو تم خود کھاتے ہو انہیں بھی کھلاﺅ جو خود پہنتے ہو انہیں بھی پہناﺅ اور اگران سے کوئی غلطی ہو جائے اور تم معاف کر نا پسند نہیں کرتے تو ان کو فروخت کر دو۔ اے اللہ کے بندو ان کو سزا نہ دو۔ 
امانت کی ادائیگی کے متعلق ارشاد فرمایا : اگر کسی کے پاس کوئی امانت ہو تو اسے چاہیے کہ جس کی امانت ہے اس کو صحیح سلامت وہ امانت لوٹا دے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے دور جاہلیت کے تمام انتقام کالعدم قرار دے دیے آپنے فرمایا : پہلا انتقام جسے میں کالعدم قرار دیتا ہوں میرے اپنے خاندان کا ہے۔ ربیعہ بن حارث کے دودھ پیتے بیٹے کا خون جسے بنو ھذیل نے قتل کر دیا تھا۔ 
حضور نبی کریم ﷺنے سود کی حرمت کا اعلان کیا تو سب سے پہلے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا سود جو لوگوں کے ذمہ ہے اسے کالعدم قرار دیا اور فرمایا میں اس کو اپنے پاﺅں کے نیچے روندتا ہوں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب مجرم خود ہی اپنے جرم کی سزا کاٹے گا۔ اب نہ باپ کا بدلہ بیٹے سے لیا جائے گا اور نہ ہی بیٹے کا بدلہ باپ سے لیا جائے گا۔ 
حقوق اللہ کی ادائیگی کے متعلق ارشاد فرمایا : اے لوگو اپنے رب کی عبادت کرو اور پانچ وقت کی نماز لازمی ادا کرو اور مہینے بھر کے روزے رکھو اور اللہ کے گھر کا حج کرو اور اپنے مال سے خوش دلی کے ساتھ زکوة دو۔ تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاﺅ گے۔ وراثت کے حق کے متعلق آپ نے ارشاد فرمایا : اے لوگوں اللہ تعالی نے ہر حق دار کو اس کا حق خود دے دیا ہے اب کوئی آدمی کسی وارث کے حق میں وصیت نہ کرے۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اے لوگوتم سے میرے متعلق اللہ تعالی سوال کرے گا تو کیا جواب دو گے ؟ لوگوں نے جواب دیاہم گواہی دیتے ہیں آپ نے احکام الہی ہم تک پہنچا دیے اور اپنا حق رسالت ادا کردیا ہے اور ہماری صحیح طرح خیر خواہی فرمائی ہے۔پھر آپ نے آسمان کی طرف شہادت کی انگلی کر کے تین مرتبہ فرمایا اے اللہ گواہ رہنا۔

Surah Maryam (سُوۡرَةُ مَریَم) Ayat 37.ہم نے کیا دنیا کے مفاد کو آخرت کے...

Surah Maryam (سُوۡرَةُ مَریَم) Ayat 36 Part-02.کیا ہم اللہ تعالی کے راست...

ہفتہ، 8 جون، 2024

خطبہ حجة الوداع(۱)

 

خطبہ حجة الوداع(۱)

میدان عرفات میں مسجد نمرہ کے پاس حضور نبی کریم ﷺ کاخیمہ نصب کیا گیا۔ جب سورج ڈھل گیا تو اپنی سواری قصویٰ کو طلب فرمایا اور اس پر سوار ہو کر آپ نے تاریخ ساز خطبہ ارشاد فرمایا جس کی مثال آج تک ملی ہے اور نہ ہی قیامت تک ملے گی۔ اس خطبہ کو چارٹر آف ہیومن رائیٹس بھی کہا جاتا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے زمانہ جاہلیت کے تمام رسم و رواج کو نیست و نابود کر دیا اور ان عزت و حرمت والے احکام کو برقرار رکھا جو تمام مذاہب میں حرمت والے تھے۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا :ا للہ تعالی کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اللہ نے اپناوعدہ پورا کیا اس نے اپنے بندے کی مدد فرمائی اور اکیلی اس کی ذات نے باطل کو مغلوب کیا۔ پھر فرمایا : لوگو ! میری بات اچھی طرح سن لو ، مجھے نہیں معلوم شاید اس دن کے بعد اس جگہ میری تمہاری ملاقات کبھی ہو سکے۔پھر فرمایا : لوگو! حج کے مسائل مجھ سے سیکھ لو۔ میں نہیں جانتا اس سال کے بعد میں دوسرا حج کرسکوں۔ ( سنن نسائی )۔
حضور نبی کریم ﷺ نے مساوات انسانی کا درس دیتے ہو ئے ارشاد فرمایا : اے لوگو ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا کیا اور ہم نے تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیز گار ہے۔ ( سورة الحجرات)۔ اسکے بعد آپ نے فرمایا : کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر اور کسی سفید کو کالے پر اور کالے کو سفید پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ فضیلت کا معیار صرف تقوی ہے۔ 
حقوق کی ادائیگی کے متعلق ارشاد فرمایا : اے گروہ قریش ایسا نہ ہو قیامت کے دن تم اپنی گردنوں پر دنیا کا بوجھ اٹھائے ہوئے آئے اور دوسرے لوگ آخرت کا سامان لے کر پہنچیں ، کیونکہ اللہ کی گرفت کے مقابلے میں میں تمہارے کچھ کام نہ آسکوں گا۔ حقوق نسواں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا اے لوگو اللہ تعالی سے ڈرتے رہا کرو۔ میں تمہیں اس بات کی وصیت کرتا ہوں کہ عورتوں کے ساتھ بھلائی کرو کیونکہ وہ تمہارے زیر سایہ ہیں، وہ اپنے بارے میں کسی بھی اختیار کی مالک نہیں اور تمہارے پاس اللہ کی طرف سے امانت ہیں۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : بیشک میں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا ہے اور میں تم میں ایسی دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں اگرتم انہیں مضبوطی سے تھام لو تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے وہ ہیں کتاب اللہ اور اس کے نبی کی سنت۔

جمعہ، 7 جون، 2024

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اوصاف(۲)

 

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اوصاف(۲)

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دوسرا وصف جو قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے وہ ہے ’’ بہت آہیں بھرنے والا ‘‘۔ آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی محبت اور خوف میں بہت زیادہ آنسو بہایا کرتے تھے۔ 
اما م غزالی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے توخوف خدا کے سبب اس قدرروتے کہ ایک میل تک آپ کے سینہ مبارک میں ہونے والی گڑ گڑاہٹ کی آواز سنی جا سکتی تھی۔ ( احیاء علوم الدین) 
منہاج العابدین میں ہے کہ جب آپ اللہ تعالیٰ کے خوف کے سبب روتے تو اس قدر روتے کہ اللہ تعالیٰ حضرت جبرائیل امین کو آپ کو حوصلہ دینے کے لیے بھیجتے۔ حضرت جبرائیل عرض کرتے اے ابراہیم کیا آپ نے کبھی ایسا دوست دیکھا ہے جو اپنے دوست کو عذاب دیتا ہو ؟ آپ یہ سن کر فرماتے اے جبرائیل جب میں اپنی طرف نگاہ کر کے دیکھتا ہوں تو میں یہ بھول جاتا ہوں کہ میں خلیل اللہ ہوں۔
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا :اللہ کی قسم جو میں جانتا ہوں اگر تم لوگ بھی جان لوتو بہت کم ہنسو اور کثرت سے روتے ہی رہو اور یقینا تم لوگ اللہ تعالیٰ سے فریادکرتے ہوئے میدانوں میں نکل جائو۔( المستدرک علی الصحیحین) 
اللہ تعالیٰ نے آپ کا تیسرا اوصاف بیان کرتے ہو ئے ’’منیب ‘ ‘ کہ کر پکارا یعنی سب کچھ چھوڑکر اسی کاہو جانا۔آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ محبت تھی۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے بہت سارا مال دیا ہوا تھا ایک دن آپ اپنے جانوروں کی دیکھ بھال میں مصروف تھے کہ ایک فرشتہ انسانی شکل میں غار میں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے لگ گیا آپ جا کر اس کے پاس بیٹھ گئے وہ کچھ دیر بعد خاموش ہو گیا تو آپ نے کہا مجھے پھر میرے محبوب کا ذکر سنائو۔ تو اس نے کہا پہلے میں اپنی مرضی سے ذکر کر رہا تھا اب تیرے کہنے پہ کروں گا مجھے کیا دو گے۔ آپ نے اپنی ساری بکریاں اس کو دے دیں۔ اس نے پھر اللہ تعالیٰ کا ذکر شروع کر دیا اور کچھ دیر بعد پھر خاموش ہو گیا۔ آپ نے کہا مجھے اور ذکر سنائو۔ فرشتے نے کہا اب مجھے کیا دو گے آپ نے اپنے سارے اونٹ اسے دے دیے۔ اس طرح باری باری آپ نے ذکر اللہ سننے کے لیے اپنا سارا مال گھر ، مویشی اس فرشتے کو دے دیے۔آپ نے پھر اسے ذکر سنانے کو کہا تو اس نے کہا اب مجھے کیا دو گے۔ تو آپ نے فرمایا مجھے رکھ لو مگر مجھے اللہ پاک کا ذکر سنائو۔ تو اس پر فرشتے نے کہا کہ آپ اللہ کے خلیل ہیں اور آپ کو ’’خلیل اللہ‘‘ کے لقب سے نوازا گیا۔

جمعرات، 6 جون، 2024

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اوصاف(۱)

 

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اوصاف(۱)

اللہ تعالی نے انسانوں کی راہنمائی کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاءکرام علیہم السلام مبعوث فرمائے اور ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی۔ حضور نبی کریم ﷺ کے بعد انبیاءمیں سب سے فضیلت والے نبی حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام ہیں آپ کو جد الانبیاءبھی کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے آپ کو بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں۔ 
اللہ تعالی نے حضور نبی کریمﷺ کو دین ابراہیم پر عمل کرنے کا حکم فرمایا اور آپ کی امت کو بھی دین ابراہیم پر عمل پیرا ہونے کا حکم فرمایا۔ ارشاد باری تعالی ہے :” تم فرماﺅ بیشک مجھے میرے رب نے سیدھی راہ دکھائی۔ ٹھیک دین ابراہیم کی ملت جو ہر باطل سے جدا تھے اور مشرک نہ تھے۔(سورة الا نعام )۔
اللہ تعالی اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ اس کا قرب چاہنے والے اس کے پیارے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسوہ کو اپنائیں۔ ارشاد باری تعالی ہے : ”تم فرماﺅ اللہ سچا ہے تو ابراہیم کے دین پر چلو جو ہر باطل سے جدا تھے اور شرک والوں میں نہ تھے۔ (سورة ال عمران )۔
اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بہت اعلی اوساف سے نوازا تھا جن کا ذکر اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بھی کیا۔ 
سورة ھود میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : ”بیشک ابراہیم تحمل والے بہت آہیں کرنے والے رجوع لانے والے ہیں “۔ 
حضرت ابراہیم علیہ السلام بہت زیادہ حلم والے تھے یعنی اپنے غصہ کو ضبط کر لیا کرتے تھے۔ اور یہ اللہ تعالی کے نیک اور ممتازبندوں کے اوصاف میں سے ہے کہ وہ اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے : سورة ال عمران میں اللہ تعالی ارشادفرماتا ہے : وہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں خوشی میں اور رنج میں اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے در گزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں “۔ 
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حلم کا اندازہ اس واقع سے لگایا جا سکتاہے کہ جب آپ نے اپنے گھر سے دعوت توحید کا آغاز کیا تو اپنے چچا کو پیا رسے والد کہ کر پکارا اور کہا کہ تم بتوں کی پوجا کیوں کرتے ہو جو نہ سنتے ہیں اور دیکھتے ہیں اور نہ ہی کچھ فائدہ دے سکتے ہیں۔ لیکن اس محبت بھرے انداز کے بدلے میں چچا نے غصے کا اظہار کیا۔ 
اور کہا۔ تو میرے معبودوں سے منہ پھیرتا ہے ؟ اے ابراہیم بیشک اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے پتھر ماروں گا۔( سورة مریم )۔ لیکن اس سخت لہجے میں بھی آپ نے بس اتنا کہا :ارشاد باری تعالی ہے : بس تجھے سلام ہے عنقریب میں تیرے لیے اپنے رب سے معافی مانگوں گا بیشک وہ مجھ پر بڑا مہربان ہے۔ (سورة مریم )

بدھ، 5 جون، 2024

Surah Al-Kahf (سُوۡرَةُ الکهف) Ayat 110 Part-09.کیا ہماری حالت بہت بگڑی ...

Surah Al-Kahf (سُوۡرَةُ الکهف) Ayat 110 Part-08.کیا ہم حقیقی مومن نہیں ہیں

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا درس توحید(۲)

 

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا درس توحید(۲)

حضرت ابرہیم علیہ السلام کی قوم نہ صرف بت پرستی کرتی تھی بلکہ نجوم پرستی کا بھی شکار تھی۔ اور وہ سورج ، چاند کے علاوہ تاروں کو بھی اپنا دیوتا مانتے تھے۔
 ارشاد باری تعالی ہے : پھر جب ان پر رات کا اندھیرا آیا توایک تارا دیکھا۔ بولے اسے میرا رب ٹھہراتے ہو۔ پھر جب وہ ڈوب گیا بولے مجھے خوش آتے ڈوبنے والے۔ پھر جب چاند کودیکھا بولے اسے میرا رب بتاتے ہو ، پھر جب وہ ڈوب گیا کہا اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ دیتا تو میں بھی انہیں گمراہوں میں ہوتا۔ پھر جب سورج جگمگاتا دیکھا تو کہا اسے میرا رب کہتے ہو یہ تو ان سب سے بڑ اہے پھر جب وہ ڈوب گیا کہا اے میری قوم میں بیزار ہوں ان چیزوں سے جنہیں تم شرک ٹھہراتے ہو۔ میں نے اپنا منہ اس طرف کیا جس نے آسمان اور زمین بنائے ایک اسی کا ہوں اور میں مشرکوں میں سے نہیں۔ (سورة الانعام ) 
جب سارے مشرک حضرت ابراہیم علیہ لسلام کے سامنے لا جواب ہو گئے تو آپ سے جھگڑا کرنے لگے اور آپ کو تکلیف دینے لگے۔ آپ نے نمرود سے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو پیدا کرتا ہے اور موت دیتا ہے۔ (نمرود ) نے کہا میں بھی زندہ کرتا ہوں اورمارتا ہوں۔ پھر حضرت ابرہیم علیہ السلام نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو سورج مشرق سے لاتا ہے تم مغرب سے لاﺅ۔ یہ بات سن کر نمرود لاجواب ہو گیا۔
 ارشاد باری تعالی ہے ” پس انکار کرنے والا کافر مبہوت ہو گیا “۔ 
ایک دن سارے مشرک ایک میلے میں گئے تو حضرت ابراہیم نے ان کے بتوں کو توڑ کر کلہاڑا ایک بڑے بت پر رکھ دیا۔
ارشاد باری تعالی ہے۔ انہیں توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا سوائے بڑے بت کے کہ شاید وہ اسکی طرف رجوع کریں “۔(سورة الانبیائ)۔
جب وہ واپس آئے تو انہیں نے کہا ہمارے بتوں کا یہ حال کس نے کیا۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا گیاتو آپ نے فرمایا : اپنے بڑے بت سے پوچھو اگر یہ بولتے ہیں۔ یہ سن کر وہ سب لاجواب ہو گئے۔ جب سارے آپ کے سامنے لاجواب ہو گئے اور حق جاننے کے باوجود قوم نے ہٹ دھرمی سے کام لینا شروع کر دیا۔ 
ارشاد باری تعالی ہے : اگر تم نے اپنے معبودوں کا انتقام لینا ہے تو کچھ کرو ان کو جلا دو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو۔ انہوں نے بہت ساری لکڑیا ں جمع کیں اور ایک وسیع میدان پر آگ جلا دی پھر آپ کو منجنیق میں رکھ کر آگ میں ڈال دیا گیا۔ اللہ تعالی نے آگ کو حکم دیا میرے ابراہیم علیہ السلام پر سلامتی والی ہو جا۔ آپ اس آزمائش میں بھی کامیاب ہوئے لیکن ان ساری مشکلات اور تکالیف کے باوجود دعوت توحید نہ چھوڑی۔

Surah Al-Kahf Ayat 110 Part-07.کیا ہم زندگی اللہ تعالی کو راضی کرنے کے ...

Surah Al-Kahf Ayat 110 Part-06.کیا ہم سب اللہ تعالی کی ملاقات کو بھلا ک...

ہمیں کیا اسلام پرعمل پیرا ہونے کی کوئی ضرورت ہے؟

منگل، 4 جون، 2024

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا درس توحید(۱)

 

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا درس توحید(۱)

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھیجے جو کہ اعلیٰ ترین صفات کے حامل اوراللہ تعالی کے بر گزیدہ بندے تھے ۔ ان ہستیوں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام انسانوں تک پہنچایا لوگوں کو دعوت تو حید دی اور اس کام میں بہت ساری مشکلات اور مصائب برداشت کیے ۔ 
حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ سب سے زیادہ آزمائشیں انبیا ء کرام علیہم السلام پر آئیں پھر ان لوگوں پر جو درجہ بدرجہ ان کے قریب تھے ۔ ( تفسیر ابن کثیر ) 
انبیاء کرام علیہم السلام میں حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی سیرت مبارکہ غیر معمولی طور پر قابل ذکر ہے ۔ اورآج مسلمان انھیں کی سیرت کے ایک اہم پہلو پر عمل کرتے ہو ئے اللہ تعالیٰ کے حضور قربانیاں پیش کرتے ہیں ۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور ابراہیم علیہ السلام کے دین سے کون رو گردانی کر سکتا ہے ؟سوائے ان کے جو نہایت نادان ہیں ۔ (سورۃ البقرۃ ) 
شکل و صورت میں حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام حضور نبی کریمﷺ کے مشابہ تھے۔ 
حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شکل و شباہت کا اندازہ اپنے ساتھی ( محمد ؐ) کو دیکھ کر کر لو۔ ( صحیح بخاری شریف ) 
نمرود نے ایک رات خواب دیکھا کہ ایک ستارہ ہے جس کے سامنے چاند اور سورج کی روشنی مانند پڑ گئی ہے نجومیوں نے اس کی تعبیر بتائی ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’انھوں نے اس سے کہا کہ تیرے شہر میں ایک بچہ پیدا ہو گا جو اہل زمین کے دین کو بدل دے گا اور اس کے ہاتھوں تیری ہلاکت اور بادشاہی کا زوال ہو گا‘۔ یہ سن کر نمرود نے بچوں کو قتل کرنے کا حکم دیا۔آپ نے دعوت توحید کا آغاز اپنے گھر سے کیا ۔’اے والد تو اس کی پوجا کیوں کرتا ہے جو نہ سنتا ہے اور نہ دیکھتا ہے اور نہ ہی کچھ تیرے کام آئے گا ‘۔ تو والد نے جواب دیا :’ کہا کہ کیا تو میرے معبودوں سے بے رغبت ہے ؟ اگر تو بازنہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا اور تو ہمیشہ کے لیے مجھ سے دور ہو جا‘۔
’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا :اچھا تم پر سلام میں آپ کے لیے اپنے پروردگار سے ہدایت کی دعا کروں گا، بے شک وہ مجھ پر نہایت مہربان ہے ۔ اور میں آپ لوگوں سے اور جن کو آپ اللہ کے سوا پکارتے ہو ان سے کنارہ کرتا ہوں اور اپنے پروردگار کو ہی پکاروں گا مجھے یقین ہے میں اپنے پروردگار کو پکار کر محروم نہیں ہوں گا ‘۔ ( سورۃ المریم )