بدھ، 5 جون، 2024

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا درس توحید(۲)

 

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا درس توحید(۲)

حضرت ابرہیم علیہ السلام کی قوم نہ صرف بت پرستی کرتی تھی بلکہ نجوم پرستی کا بھی شکار تھی۔ اور وہ سورج ، چاند کے علاوہ تاروں کو بھی اپنا دیوتا مانتے تھے۔
 ارشاد باری تعالی ہے : پھر جب ان پر رات کا اندھیرا آیا توایک تارا دیکھا۔ بولے اسے میرا رب ٹھہراتے ہو۔ پھر جب وہ ڈوب گیا بولے مجھے خوش آتے ڈوبنے والے۔ پھر جب چاند کودیکھا بولے اسے میرا رب بتاتے ہو ، پھر جب وہ ڈوب گیا کہا اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ دیتا تو میں بھی انہیں گمراہوں میں ہوتا۔ پھر جب سورج جگمگاتا دیکھا تو کہا اسے میرا رب کہتے ہو یہ تو ان سب سے بڑ اہے پھر جب وہ ڈوب گیا کہا اے میری قوم میں بیزار ہوں ان چیزوں سے جنہیں تم شرک ٹھہراتے ہو۔ میں نے اپنا منہ اس طرف کیا جس نے آسمان اور زمین بنائے ایک اسی کا ہوں اور میں مشرکوں میں سے نہیں۔ (سورة الانعام ) 
جب سارے مشرک حضرت ابراہیم علیہ لسلام کے سامنے لا جواب ہو گئے تو آپ سے جھگڑا کرنے لگے اور آپ کو تکلیف دینے لگے۔ آپ نے نمرود سے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو پیدا کرتا ہے اور موت دیتا ہے۔ (نمرود ) نے کہا میں بھی زندہ کرتا ہوں اورمارتا ہوں۔ پھر حضرت ابرہیم علیہ السلام نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو سورج مشرق سے لاتا ہے تم مغرب سے لاﺅ۔ یہ بات سن کر نمرود لاجواب ہو گیا۔
 ارشاد باری تعالی ہے ” پس انکار کرنے والا کافر مبہوت ہو گیا “۔ 
ایک دن سارے مشرک ایک میلے میں گئے تو حضرت ابراہیم نے ان کے بتوں کو توڑ کر کلہاڑا ایک بڑے بت پر رکھ دیا۔
ارشاد باری تعالی ہے۔ انہیں توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا سوائے بڑے بت کے کہ شاید وہ اسکی طرف رجوع کریں “۔(سورة الانبیائ)۔
جب وہ واپس آئے تو انہیں نے کہا ہمارے بتوں کا یہ حال کس نے کیا۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا گیاتو آپ نے فرمایا : اپنے بڑے بت سے پوچھو اگر یہ بولتے ہیں۔ یہ سن کر وہ سب لاجواب ہو گئے۔ جب سارے آپ کے سامنے لاجواب ہو گئے اور حق جاننے کے باوجود قوم نے ہٹ دھرمی سے کام لینا شروع کر دیا۔ 
ارشاد باری تعالی ہے : اگر تم نے اپنے معبودوں کا انتقام لینا ہے تو کچھ کرو ان کو جلا دو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو۔ انہوں نے بہت ساری لکڑیا ں جمع کیں اور ایک وسیع میدان پر آگ جلا دی پھر آپ کو منجنیق میں رکھ کر آگ میں ڈال دیا گیا۔ اللہ تعالی نے آگ کو حکم دیا میرے ابراہیم علیہ السلام پر سلامتی والی ہو جا۔ آپ اس آزمائش میں بھی کامیاب ہوئے لیکن ان ساری مشکلات اور تکالیف کے باوجود دعوت توحید نہ چھوڑی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں