اللہ تعالی کی طرف سے بہت ہی آسان فلاح کا راستہ سنیے اور عمل کیجئے تاکہ ہم سب فلاح پا لیں . ہر قسم کی تفرقہ بازی اور مسلکی اختلافات سے بالاتر آسان اور سلیس زبان میں
پیر، 31 اکتوبر، 2022
سورۃ بقرہ کے مضامین (۱۴)
اتوار، 16 اکتوبر، 2022
ہفتہ، 15 اکتوبر، 2022
سخاوت حضور کی(۲)
سخاوت حضور کی(۲)
جمعہ، 14 اکتوبر، 2022
جمعرات، 13 اکتوبر، 2022
سخاوت حضور کی(۱)
سخاوت حضور کی(۱)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب انسانوں سے زیادہ سخی تھے ، ماہ رمضان میں جب جبرئیل امین آپ سے ملاقات کرتے تو اس وقت آپ کی شان سخاوت میں مزید اضافہ ہوجاتا ،حضرت جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات آپ سے ملاقات کرتے تھے اورآپ کے ساتھ قرآن کا دورکرتے تھے ان ایام میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوتے تھے جس سے ہر کسی کو نفع پہنچتا تھا ۔(صحیح بخاری )
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سب انسانوں سے زیادہ حسین تھے ، سب انسانوں سے زیادہ سخی تھے اورسب انسانوں سے زیادہ بہادر تھے۔(صحیح بخاری)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یمن سے ، رنگے ہوئے چمڑے میں کچھ سونا بھیجا ، اس سونے کو ابھی مٹی سے خالص نہیں کیا گیا تھا، آپ نے یہ سارا سونا ان چار اشخاص میں تقسیم کر دیا۔ عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس ، زید الخیل اورچوتھے علقمہ بن علاثہ تھے یا عامر بن طفیل رضی اللہ عنہم ۔(صحیح مسلم)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: انصار کے کچھ لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، آپ نے ان کو عطاکیا، انہوںنے پھر سوال کیا، آپ نے ان کو پھر عطافرمایا حتیٰ کہ آپ کے پاس جو مال تھا وہ ختم ہوگیا، پھر حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: میرے پاس جو مال بھی ہو گا وہ میں تم سے بچاکر ذخیرہ نہیں کروں گا۔(ہاں البتہ )جو شخص سوال کرنے سے بچنے کی کوشش کرے اللہ تعالیٰ اس کو سوال کرنے سے بچالیتا ہے اورجو اپنے غنی ہونے کا تأثر دے اللہ تعالیٰ اس کو غنی کردیتا ہے اورجو تکلف سے صبر کرنے کی کوشش کرے اللہ تعالیٰ اس کو صبر کی توفیق عطافرمادیتا ہے اور کسی شخص کو بھی صبر کی دولت سے بہتر دولت عطانہیں ہوئی۔(صحیح بخاری)
حضرت جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ حضور ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی حنین سے واپسی پر آپ کے ساتھ تھے، آپ کے ساتھ کچھ اورلوگ بھی تھے(اس اثنا ء میں )کچھ اعرابی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ چمٹ گئے اورآپ سے سوال کرنے لگے،انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیکر کے ایک درخت کی طرف جانے پر مجبور کیا اور آپ کی چادر مبارک اچک لی۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے اورفرمایا: میری چادر مجھے دے دو۔ اگر ان درختوں کے برابر جو پائے میرے پاس ہوں تو میں وہ سب تمہارے درمیان تقسیم کردوں اورتم مجھے نہ تو بخیل پائو نہ دروغ گواور نہ بزدل۔(صحیح بخاری)
بدھ، 12 اکتوبر، 2022
حضور علیہ والصلوٰۃ السلام اورایفائے عہد
حضور علیہ والصلوٰۃ السلام اورایفائے عہد
منگل، 11 اکتوبر، 2022
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حلم
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حلم
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صورت بھی تمام انسانوں سے زیادہ حسین تھی اورآپ کے اخلاق بھی سب انسانوں سے اچھے تھے ‘‘۔(صحیح بخاری)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں’’(میرے والد ماجد)حضرت عبداللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا۔ ان کے ذمہ (کافی)قرضہ تھا۔ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مددکی درخواست کی کہ آپ قرض خواہوں کوارشادفرمائیں کہ وہ کچھ قرض معاف کردیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرض خواہوں سے قرض معاف کرنے کی سفارش کی لیکن انہوں نے قرض معاف نہ کیا‘‘۔(صحیح بخاری)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، فرماتے ہیں: ایک شخص نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرض کی واپسی کا مطالبہ کیا اوراس مطالبے میں اس نے سختی کی، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسے اس کی گستاخی کی سزا دینے کاارادہ کیاتو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اسے چھوڑدو کیونکہ حقدار کو بات کرنے کا حق ہوتا ہے‘‘حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ اس شخص کو اونٹ خرید کر دے دو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یارسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم)! ہمیں اس کو دینے کے لیے جو اونٹ مل رہا ہے وہ اس کے اونٹ سے بہتر اورعمر میں بڑا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اسے وہی اونٹ خرید کر دے دوکیونکہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرض کی ادائیگی عمدگی سے کرتا ہے۔‘‘(صحیح بخاری)
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، فرماتے ہیں:غزوہ حنین کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو مال غنیمت کی تقسیم میں ترجیح دی، آپ نے اقرع بن حابس کو سواونٹ عطاکیے۔ عیینہ کو بھی اسی قدر مال عطاکیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روز کچھ سرکردہ عربوں کو مال عطافرمایا اورتقسیم میں ان کوترجیح دی۔ (یہ دیکھ کر)ایک آدمی نے کہا:یہ ایسی تقسیم ہے جس میں انصاف نہیں کیاگیا یا جس میں رضائے خداوندی کو پیش نظر نہیں رکھا گیا۔ راوی کہتے ہیں : میں نے اپنے دل میں تہیہ کیا کہ قسم بخدا میں ضرور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دوں گا۔ میں نے وہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کردی، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشادفرمایا :اگر اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصاف نہیں کریں گے توکون انصاف کرے گا؟ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے ، انہیں اس سے بھی زیادہ اذیت دی گئی لیکن انہوں نے صبرکیا۔(صحیح بخاری)
پیر، 10 اکتوبر، 2022
جمال مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم(۴)
جمال مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم(۴)
اتوار، 9 اکتوبر، 2022
جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم(۳)
جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم(۳)
خادم رسول حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حضرت حمید کے سوال پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات بیان کیے اورآخر میں جمال مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کابیان ان محبت بھر الفاظ میں کیا:’’نہ کسی ایسے ریشم کو چھونے کا اتفاق ہواہے جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ ملائم ہواورنہ ہی کوئی ایسی خوشبو سونگھی ہے جوحضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو سے زیادہ معطر ہو‘‘۔(صحیح بخاری)
حضرت ابوحجیفہ ؓ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قرب میں گزری ہوئی مقدس ساعتوں کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’نماز کے بعد لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اورانہوں نے سرورعالم ﷺکے دست انور کو پکڑ کر اپنے چہرے پر رکھا۔ آپ کا دست اقدس برف سے زیادہ خنک اورکستوری سے زیادہ خوشبودار تھا‘‘۔ (صحیح البخاری )حضرت جابربن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ، نمازفجر کے بعد اپنے کاشانہء اقدس کی طرف روانہ ہوئے ۔ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں چل دیا۔ راستے میں بچوں نے آپکی زیارت کا شرف حاصل کیا آپ ﷺ ایک ایک کرکے انکے رخساروں پر دست اقدس پھیرتے جارہے تھے ۔ آپ نے میرے رخساروں پر بھی دست اقدس پھیرا،میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست اقدس میں ایسی ٹھنڈک اورخوشبو کو محسوس کیا گویا آپ نے اپنے دست اقدس کو ابھی عطار کے صندوقچے سے نکالاہو۔(صحیح مسلم)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، فرماتے ہیں :’’حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام ہمارے گھر تشریف لائے اور ہمارے ہاں قیلولہ فرمایا، قیلولے کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسینہ آگیا، میری والدہ ایک شیشی لائیں اورحضور ﷺ کے عرق مبارک کو اس میں ڈالنا شروع کردیا۔ حضور ﷺ کی آنکھ کھل گئی ۔ آپ نے پوچھا: ام سلیم ! یہ کیا کررہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا : ’’یہ آپ کا پسینہ ہے ہم اس کو خوشبو میں ملائیں گے ۔آپ کا یہ پسینہ تمام خوشبوئوں سے زیادہ خوشبودار ہے‘‘۔(صحیح مسلم)
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ ،حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کے حسن کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز عشاء میں سورئہ والتین والزیتون پڑھتے ہوئے سنا ۔ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے زیادہ اچھی آواز کسی کی نہیں سنی‘‘۔(صحیح مسلم)
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ ارشادفرماتے ہیں: ’’میں جب حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے رخ انور کی زیارت کرتا تو مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے آپ نے سرمہ لگارکھا ہے حالانکہ آپ نے سرمہ استعمال نہیں کیا ہوتا تھا‘‘۔(جا مع الترمذی)
ہفتہ، 8 اکتوبر، 2022
جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم(۲)
جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم(۲)
حضرت ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی ایک حاضری کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے گویا آپ کی پنڈلیوں کی سفیدی مجھے اب بھی نظر آرہی ہے‘‘ ۔(صحیح بخاری)
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایام علالت میں آپ کے دیدار کی کیفیت کو ان الفاظ میں بیان کیاہے: ’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر ے کا پردہ اٹھایا اورکھڑے ہوکر ہماری طرف نظر فرمائی ، یوں محسوس ہوتا تھا، گویا آپ کا رخ انور قرآن حکیم کا ورق ہو‘‘۔(صحیح مسلم)حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت انبساط میں دیکھا تو اس کیفیت کو ان الفاظ میں بیان کیا:’’میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رخ انور کو چمکتے ہوئے دیکھا گویا اس پر سونے کا پانی چڑھایا گیا ہو‘‘۔(سنن نسائی)حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا محبت کی ایک یاد کو تازہ کرتے ہوئے فرماتی ہیں: ’’گویا مجھے حضور کی مانگ میں خوشبو کی چمک نظرآرہی ہے‘‘۔(صحیح بخاری)حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوایک ایسی رات میں دیکھا جب چاند کی چاندنی اپنے عروج پر تھی ، میں کبھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رخ انور کی طرف دیکھتا اورکبھی ماہ منیر کی طرف، اس رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم سرخ رنگ کے حلے میں ملبوس تھے، میری نظر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چاند سے زیادہ حسین تھے‘‘۔(جامع ترمذی)
جمعہ، 7 اکتوبر، 2022
جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم(۱)
جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم(۱)
حضرت سعید الجریری کا بیان ہے کہ حضرت ابوالطفیل رضی اللہ عنہ نے ان سے ذکر کیا کہ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہے۔ سعید نے عرض کی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تم نے کیسا پایا تو انہوں نے جواب دیا’’یعنی آپ کی رنگت سفیدتھی اورسفید بھی ایسی جس میں ملاحت اورخوبصورتی اپنے جوبن پر تھی‘‘۔(سنن ابی دائود)
حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی تدفین کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ایک پتھر اٹھا کر لانے کا حکم دیا ۔وہ صحابی اس پتھر کو نہ اٹھا سکے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خودتشریف لے گئے ، بازوئوں سے کپڑا پیچھے کیا اور پتھر کوخود اٹھالائے ، جس صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کو روایت کیا، اس کے الفاظ یہ ہیں :’’گویا میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بازوئوں کی سفیدی کو اب بھی دیکھ رہا ہوں‘‘۔ (سنن ابی دائود )
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے منبر پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے ہاتھوں کو بلند کیا، ایک صحابی نے اس کیفیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’پھر آپ نے اپنے ہاتھ بلند کیے حتیٰ کہ ہم نے آپ کی بغلوں کی سفیدی کا مشاہدہ کیا‘‘۔(سنن ابی دائود)
حضرت سعد رضی اللہ عنہ ، نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ،آپ کے دائیں بائیں سلام پھیرنے کی کیفیت کو وہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ’’میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دائیں بائیں سلام پھیرتے ہوئے دیکھتا حتی کہ مجھے آپ کے رخ انور کی سفیدی نظر آتی‘‘۔(صحیح مسلم)
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بھی آپ کے سلام پھیر نے کی کیفیت کو اسی سے ملتے جلتے الفاظ میں بیان کیا ہے ، فرماتے ہیں : ’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دائیں جانب سلام پھیرتے حتیٰ کہ آپ کے رخساروں کی سفیدی ظاہر ہوجاتی اور آپ بائیں جانب سلام پھیرتے حتیٰ کہ آپکے رخساروں کی سفیدی ظاہر ہوجاتی ‘‘۔(سنن النسائی)
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک بیان کررہے تھے کہ ایک صحابی نے عرض کیا:’’ آپ کا رخ انور تلوار کی طرح چمک دار تھا‘‘۔حضرت جابر بن سمر ہ رضی اللہ عنہ نے فوراً ان سے اختلاف کیااور فرمایا: ’’نہیں بلکہ آپ کا رخ انور شمس وقمر کی طرح روشن تھا‘‘۔(صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہ ؓ، حضور اکرم ﷺ کے جمال جہاں آراکا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے حسین ترکوئی چہر ہ نہیں دیکھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا گویا سورج آپکے رخ انور میں رواں دواں ہے‘‘۔(جامع ترمذی)
جمعرات، 6 اکتوبر، 2022
حضور اکرم اوردین کی حکیمانہ ترویج (۴)
حضور اکرم اوردین کی حکیمانہ ترویج (۴)
بدھ، 5 اکتوبر، 2022
حضور اکرم اوردین کی حکیمانہ ترویج (۳)
حضور اکرم اوردین کی حکیمانہ ترویج (۳)
منگل، 4 اکتوبر، 2022
بصیرت افروز رہنمائی
بصیرت افروز رہنمائی
حضرت عمرو بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ،فرماتے ہیں:بنو النفیر کے اموال ایسے تھے جو اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور غنیمت عطا فرمائے تھے،ان کے لیے مسلمانوں نے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے تھے ۔یہ اموال خالصتہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان اموال سے اپنے اہل خانہ کا ایک سال کا خرچ علیحدہ کر لیتے تھے اور جو مال بچتا تھااسے راہ خدا میں (کام آنے کے لیے)گھوڑے اور ہتھیار خریدنے کے لیے وقف کر دیتے تھے۔(جامع ترمذی)
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے،فرماتے ہیں کہ ایک انصاری شخص کے باغ میں ان کا کھجور کا ایک درخت تھا۔اس انصاری کے اہل خانہ بھی اس کے ساتھ (باغ میں )ہوتے تھے۔راوی کہتے ہیں،سمرہ اپنی کھجور کے درخت کے پاس جاتے تھے جس سے اس(انصاری)کو تکلیف ہوتی تھی اور یہ بات اس پر گراں گزرتی تھی ۔اس نے حضرت سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس درخت کو بیچ دیں انہوں نے انکار کر دیا۔انہوں نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس درخت کا تبادلہ کر لیں ۔انہوں نے اس سے بھی انکار کر دیا۔انصاری حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوااور آپ سے اس بات کا ذکر کیا۔آپ نے ان سے اس درخت کے تبادلہ کامتعلق ارشادفرمایاتو انہوں نے اس سے بھی معذرت کرلی۔آپ نے فرمایا،تم یہ درخت اس انصاری کو ہبہ کر دو،تمہیں اس کے بدلے میں اتنا اتنا دیا جائے گا ۔آپ نے ان کو تر غیب دی تو انہوں نے اس سے بھی معذرت کی ۔(اس پر)حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:تم ضرر رسانی کا ارادہ رکھتے ہو ۔پھر آپ نے اس انصاری سے فرمایا،جائو ،اس کے کھجور کے درخت کو کاٹ دو۔(سنن ابی دائود)
پیر، 3 اکتوبر، 2022
اتوار، 2 اکتوبر، 2022
حضور اکرم ﷺ اوردین کی حکیمانہ ترویج
حضور اکرم ﷺ اوردین کی حکیمانہ ترویج
حضور اکرم ﷺ ،اللہ رب العزت کے فرستادہ رسول ہیں، آپ ایک ایسے ماحول اور معاشرے میں تشریف لائے جس میں جاہلیت کی روایتیں مکمل طور پر راسخ ہوچکی تھیں ، صرف وہی معاشرہ نہیں پوری دنیا کے احوال پراگندہ ہوچکے تھے ، ایسے میں اللہ رب العزت کے احکام کو نافذ کرنا اورمعاشرے کو اس پر آمادہ کرناکوئی سہل کام نہیں تھا۔اللہ رب العزت نے اپنے رسول کو حکمت اوربصیرت سے بہرورفرمایا اورحضور نے بتدریج پورے ماحول کو بدل کر رکھ دیا۔آپکے تربیت یافتہ صحابہ کرام بھی اسی شعور اورتدبر کے حامل تھے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺنے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کا والی بناکر بھیجا اورفرمایا: آپ ایک ایسی قوم کے پاس جارہے ہیں جو اہل کتاب ہیں۔ تم سب سے پہلے ان کو اللہ تعالیٰ (پر ایمان اوراس )کی عبادت کی دعوت دو۔ جب وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئیں تو ان کو بتائو کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک دن اوررات میں، پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ اس حکم کی تعمیل کرلیں تو ان کو بتائو کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو ان کے مال دار لوگو ں سے وصول کرو اورلوگوں کے عمدہ ترین مال کو (بطور زکوٰۃ )وصول کرنے سے اجتناب کرو۔ (صحیح بخاری )حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے جس میں ان ہدایات کا ذکرہے جو حضور ﷺکسی امیرلشکرکو کسی مہم پر بھیجتے وقت دیا کرتے تھے۔اس حدیث پاک میں یہ الفاظ بھی ہیں: اگر وہ چاہیں کہ تم ان سے خدا اور خدا کے رسول کے عہد پر صلح کرو توانہیں خدا اور رسول خدا کی طرف سے عہد نہ دوبلکہ اپنے اور اپنے ساتھیوں کی طرف سے عہد دو۔ کیونکہ اگر تم اپنے اور اپنے ساتھیوں کے عہد کی خلاف ورزی کربیٹھو تو یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ تم خدا اور رسول خد ا کے عہد کو توڑو(یہ آپکی حکیمانہ پیش بندی ہے ناکہ عہد شکنی کی تحریک)اور اگر تم کسی قلعے کامحاصرہ کرو اور اہل قلعہ چاہیں کہ(وہ اس شرط پر ہتھیارپھینکنے کو تیار ہیں کہ)تم ان میں خدا کا حکم نافذ کرو گے تو تم انکی یہ شرط نہ مانوبلکہ ان کو اپنے حکم کے مطابق ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرو۔کیونکہ تم نہیں جانتے کہ تم ان میں خدا کے حکم کو نافذکر پائو گے یا نہیں۔(جامع ترمذی)حضرت وہب رحمۃ اللہ علیہ بیان فرما تے ہیں:میں نے حضرت جابرؓ سے قبیلہ بنوثقیف کی بیعت کے متعلق پوچھاتو حضرت جابرؓنے فرمایا:انہوں (بنو ثقیف)نے(اسلام قبول کرتے وقت )یہ شرط رکھی تھی کہ وہ نہ زکوٰۃدیں گے اور نہ جہاد کرینگے۔حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہا انہوں نے بعد میں حضور ﷺکو یہ فرماتے بھی سنا: جب وہ اسلام لے آئینگے تو (یقینا)زکوٰۃ بھی دینگے اور جہاد بھی کریں گے۔(سنن ابی دائود)
ہفتہ، 1 اکتوبر، 2022
فقر کی فضیلت
فقر کی فضیلت ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اور دور نہ کرو انہیں جو اپنے رب کو پکارتے ہیں۔صبح و شام اس کی رضا چاہتے ہیں۔ آ پ پر ان کے حساب سے ک...

-
معاشرتی حقوق (۱) اگر کسی قوم کے دل میں باہمی محبت و ایثار کی بجائے نفر ت و عداوت کے جذبات پرورش پا رہے ہوں وہ قوم کبھی بھی سیسہ پلائی د...
-
واقعہ کربلا اور شہادتِ امام حسین ؓ(۲) جب امام حسینؓ نے کوفہ روانہ ہونے کا ارادہ کیا توحضرت عبداللہ بن عباسؓ نے آپؓ کو روکا کہ آپ وہاں نہ...
-
دنیا میں جنت کا حصول دنیا میں عورت ماں کے روپ میں ایک ایسی عظیم ہستی ہے جس کی وجہ سے گھر میں برکت ہوتی ہے۔ ماں گھر کی زینت ہوتی ہے اور م...