پیر، 1 فروری، 2021

عفووحلم کے پیکر(۴)

 

عفووحلم کے پیکر(۴)

عبداللہ بن سلام ؓبیان فرماتے ہیں ، زید بن سعنہ یہود کا ایک جید عالم تھا، اس نے بتایا کہ نبی کریم ﷺ کی نبوت کی جتنی علامات ہماری کتابوں میں بیان کی گئی ہیں میں نے ان سب کا آپکی ذاتِ والا تبار میں مشاہدہ کرلیا۔مگر دو علامات ایسی تھیں جسکے بارے میں آزمائش کرنا چاہتا تھا،(۱)ان کا حلم جہل سے سبقت لے جاتا ہے (۲)اُنکے سامنے جہالت اورحماقت کا جتنا اظہار کیاجائے اُنکے حلم میں اتنا ہی اضافہ ہوجاتا ہے۔

میں نے ایک حیلہ اختیار کیا ، آپ سے ایک خاص نوعیت کی کھجوروں کا سودا کیا ،قیمت نقد اداکردی اورکھجوروں کی وصولی کیلئے ایک تاریخ مقرر کردی، ابھی اس میعاد کو دودن باقی تھے کہ میں آپکے پاس پہنچا اوراپنی کھجوروں کا مطالبہ شروع کردیا، میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قمیض اورچادر کو زور سے پکڑلیا اوربڑا غضب ناک چہرہ بناکر آپکی طرف دیکھنا شروع کیا، میں نے کہا:اے محمد(ﷺ)!کیا تم میرا حق ادانہیں کرو گے، اے عبدالمطلب کی اولاد بخدا تم بہت ٹال مٹول کرنیوالے ہو،مجھے تمہاری اس عادت کا پہلے بھی تجربہ ہے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے میری یہ حرکت دیکھی تو بڑے برافروختہ ہوکر کہنے لگے : ’’اے اللہ کے دشمن !تم اللہ تعالیٰ کے رسول کے بارے میں میری موجودگی میں یہ یاوہ گوئی کررہے ہو،تمہیں شرم نہیں آتی‘‘۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس گفتگو کو بڑے سکو ن وتحمل سے سنتے رہے اورمسکراتے رہے پھر آپ نے حضرت عمر سے فرمایا :اے عمر !جو بات تم نے اسے کہی ہے ،مجھے تو اس سے بہتر بات کی توقع تھی تمہیں چاہیے تھا کہ مجھے کہتے کہ میں حسن خوبی سے اسکی کھجوریں اسکے حوالے کردوں اوراسے کہتے کہ وہ اپنے حق کا مطالبہ ذرا شائستگی سے کرے، عمر جائواور اس کا حق اسکے حوالے کردواورجتنا اس کا حق ہے اس سے بیس صا ع (ایک پیمانہ) کھجوریں زیادہ اداکروکیونکہ تم نے اسے خوفزدہ کیا ہے تاکہ اس کا بدلہ بھی ہوجائیگااوراسکی دلجوئی بھی ہوجائے ۔ حضرت عمر ؓمجھے اپنے ساتھ لے گئے اورحکم کی تعمیل کرتے ہوئے میری کھجوریں بھی میرے حوالے کردیں اوربیس صاع مجھے زیادہ بھی دے دیے، میں نے حضرت عمر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:اے عمر! حضور اکرم ﷺکی حقانیت کی جتنی علامتیں ہماری کتابوں میں موجود تھیں میں نے ان سب کا مشاہدہ آپکی ذات میں کرلیا تھا،مگر دونشانیاں ایسی تھیں جنھیں میں ابھی آزما ء نہیں پایا تھااب میں نے انھیں بھی دیکھ لیا ہے، اے عمر !آج میں آپکو گواہ بناتا ہوں کہ میں اس بات پر راضی ہوگیا ہوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ میرا رب ہو ، اسلام میرا دین ہواور محمد مصطفی ﷺ میرے نبی ہوں۔(ابونعیم، بیہقی،مجمع الزوائد)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں