ہفتہ، 5 اکتوبر، 2024

Surah Al-Mumenoon (سُوۡرَةُ المؤمنون) Ayat 109.کیا ہم نے صرف ظاہر کو اپن...

Surah Al-Mumenoon (سُوۡرَةُ المؤمنون) Ayat 108.کیا ہمیں دنیا کا پکا دھوک...

سیر ت النبی کے اہم پہلو (۳)

 

سیر ت النبی کے اہم پہلو (۳)

حضور نبی کریم ﷺ کا ایثار بھی ساری دنیا سے اعلیٰ و ارفع ہے۔ آپ کی حیات طیبہ سے ہمیں بہت سے ایسے واقعات ملتے ہیں جب آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہوتی لیکن اس کا طلب گار کوئی اور آ جاتا تو آپ وہ چیز اس شخص کو عطا کر دیتے۔ حضور نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کا ایک ایک لمحہ آپ کے ایثار کی گواہی دیتا ہے۔ 
ایک مرتبہ آپ ایک جنگ سے فتح یاب ہو کر لوٹے ساتھ بہت سارے مال غنیمت اور لونڈیاں بھی تھیں۔ آپ مال غنیمت ضرورت مندوں میں تقسیم فرما رہے تھے۔ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کوجب علم ہوا تو انہوں نے آپ تک اپنی عرض پہنچائی کہ سارا دن کام کر کے تھک جاتی ہوں اگر ایک خادمہ مل جائے تو میرا کام آسان ہو جائے گا۔ آپ کو اپنی شہزادی کی نازک طبعی کا پورا اندازہ تھا لیکن آپ نے ارشاد فرمایا : اے پیاری بیٹی میں کیا کروں بدر کے یتیم تم سے پہلے درخواست لے کر آئے ہیں اور وہ واقعی ضرورت مند ہیں۔ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا نے بھی ساری کائنات سے اعلیٰ و افضل گھرانے میں پرورش پائی تھی اور آپکی تربیت حضور نبی کریم ﷺنے کی تھی آپ نے اس جواب کو خوش دلی سے قبول کیا اور تعمیل کی اور اپنے حق کو یتیموں کے لیے چھوڑ دیا۔ 
اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم کو ساری کا ئنات کے خزانے عطا فرمائے تھے لیکن آپ نے تواضع و انکساری کو ترجیح دی اور یہ تواضع و انکساری آپ کی خود اختیار کردہ تھی۔ آپ کا مقام و مرتبہ یہ ہے کہ آپ کی بارگاہ ناز میں اونچی سانس لینا بھی اللہ تعالیٰ کو گوارہ نہیں اور آپ کی آواز سے اونچی آواز کرنے پر ساری عمر کی نیکیاں ضائع ہو جائیں اور ہمیں پتہ تک نہ چلے۔ 
لیکن آپ کی تواضع و انکساری کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ ایک بدو آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا لیکن مجلس کی ہیبت اور جلال نبوت کی تاب نا لاسکا اورہونٹ لرزنے لگے۔ اس کے لیے بولنا مشکل ہو گیا۔ لیکن قربان جاﺅں رحمت دو عالم پر آپ نے مسکر ا کر فرمایا : میرے ساتھ کھل کر بات کرو میں اس ماں کا بیٹا ہوں جو کئی دن سوکھی کھجور کھاکر اور پانی پی کر گزارا کرتی تھی۔ 
ایک مرتبہ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے نابینا والدکو آپ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا : انہیں کیوں زحمت دی مجھے بتایا ہوتا میں خود ان کے پاس حاضر ہو جاتا ہے۔

ہم فرقان کی دولت کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟

Surah Al-Mumenoon (سُوۡرَةُ المؤمنون) Ayat 106-107.کیا آج ہم اللہ تعالی ...

Surah Al-Mumenoon (سُوۡرَةُ المؤمنون) Ayat 105.کیا ہم نے قرآن پاک کو عمل...

جمعرات، 3 اکتوبر، 2024

Surah Al-Mumenoon (سُوۡرَةُ المؤمنون) Ayat 102-103 Part-03.کیا غیر مومن ...

سیر ت النبی ﷺ کے اہم پہلو (2)

 

سیر ت النبی ﷺ کے اہم پہلو (2)

حضور نبی کریم ﷺ کا عفو درگزر ساری دنیا سے اعلی و ارفع ہے حضور نبی کریم ﷺ طاقت ہونے کے باوجود کسی سے بدلہ یا انتقام نہیں لیتے تھے۔ اس کی سب سے بڑی مثال فتح مکہ کے موقع پر ملتی ہے جب مکہ کے سارے سردار گردنیں جھکائے آپ ﷺکے سامنے کھڑے تھے جنہوں نے آپ ﷺ کو بہت تکالیف دیں۔ اور یہ سب سخت سزا کے حق دار تھے۔ان میں ہبار بن الاسود بھی تھا جس نے حضرت زینب  کو برچھی مار کر آپ کا حمل ضائع کر دیا تھا اور خود کو ملنے والی سزا کا انتظار کر رہا تھا لیکن آپﷺ کی کمال شفقت کہ آپ ﷺ نے اسے معاف فرما دیا۔ 
ان میں کعب بن زہیر عرب کا مشہور شاعر جو ہر لمحہ حضور نبی کریم ﷺ اور اسلام کا مذاق اڑاتا تھا اور آپ ﷺ کی گستاخی میں شعر لکھا کرتا تھا۔ آج یہ بھی اپنی سزا کا منتظر تھا لیکن قربان جائو ں آپ ﷺکے عفو درگزر پر۔ آپ ﷺ نے اسے بھی معاف فرما دیا۔ آپﷺ کے پیارے چچا حضرت حمزہؓ کا قاتل بھی انہی لائنوں میں کھڑا تھا اور اپنا منہ چھپا رہا تھا آپ ﷺ نے اس سے بھی بدلہ نہیں لیا اور اسے بھی معاف فرما دیا۔ اس موقع پر جب بڑے بڑے صابر اپنے صبر پر قابو نہیں رکھ پاتے اور انتقام لیے بغیر نہیں رکتے قربان جائوں اپنے آقا و مولا ﷺ پر جنہوں نے عفو در گزر کی عظیم مثال قائم کی۔ 
حضور نبی کریم ﷺ کے ظرف جیسا کائنات میں کسی کا ظرف نہیں آپ ﷺ کا ظرف پوری کائنات سے اعلیٰ ہے۔ دکھ سکھ زندگی کا حصہ ہے لیکن ایک متوازن شخص وہ ہی ہو تا ہے جو دونوں مواقع پر صبر و تحمل اور بردباری سے کا م لے۔ حضور نبی کریم ﷺ کا ظرف دیکھنا ہو تو آپ  کا سفر طائف دیکھیں جب آپ ﷺ تنہائی کے عالم میں وہاں تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے تو وہاں کے لوگوں نے آپ ﷺ کے پیچھے اوباش نوجوانوں کو لگا دیا جو آپ ﷺ کو پتھر مارتے آپﷺ کے نعلین مبارک خون سے بھر گئے۔
جب ظلم حد سے بڑھ گیا تو پہاڑ کا فرشتہ آیااور عرض کی اگر آپ ﷺ حکم دیں تو میں ان کو ان دو پہاڑوں کے درمیان پیس دوں آپﷺ ان کے لیے بد دعا کیجیے۔ لیکن قربان جائوں آپ ﷺ کی عالی ظرفی پر آپ ﷺ نے فرمایا : میں بد دعا کر نے والا نہیں میں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ آپ ﷺ نے دعا کی اے اللہ ان کو شعور کی آنکھیں دے یہ مجھے نہیں جانتے۔ یہ میری بات کو نہیں سمجھتے۔

بدھ، 2 اکتوبر، 2024

Surah Al-Mumenoon (سُوۡرَةُ المؤمنون) Ayat 102-103 Part-02.کیا ہم فضول ز...

Surah Al-Mumenoon (سُوۡرَةُ المؤمنون) Ayat 102-103 Part-01.کیا ہم پکے جن...

سیر ت النبی کے اہم پہلو (۱)

 

سیر ت النبی کے اہم پہلو (۱)

اللہ تعالیٰ کے پیارے محبوب رحمت دو عالم سرور کو ن و مکاں نور مجسم خاتم النبین کی حیات طیبہ کا ایک ایک لمحہ ہمارے لیے صدیوں کی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ عزم و استقلال ہو یا پھر توکل علی اللہ ، عفو درگزر کا معاملہ ہو یا پھر اعلی ظرفی ، تواضع و انکساری ہو یا پھر ایثار۔ حضور نبی کریم ﷺکی حیات طیبہ سے ہر معاملے میں رہنمائی ملتی ہے۔ 
اسلام کی دعوت و تبلیغ کے آغاز میں حضور نبی کریم ﷺ کو بہت ساری مشکلات پیش آئیں۔ آپ کو تکالیف دی گئیں۔ مشرکین مکہ کی جانب سے آپ کا مذاق اڑایا گیا۔لیکن آپ کا عزم و استقلال کم نہ ہوا۔ کفار مکہ نے حضرت ابو طالب کو کہا کہ اپنے بھتیجے کو سمجھائیں انہوں نے ایسے الفاظ بولے کہ حضرت ابو طالب بھی پریشان ہو گئے اور آپ کے پاس تشریف لائے اور کفار مکہ کی طرف سے دی جانے والی دھمکیوں اور اپنی مجبوریوں کا ذکر کیا اور کہا کہ میرے اوپر اتنا بوجھ نہ ڈالو۔ آپ نے فرمایا:”اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی لا کر رکھ دیں تو میں پھر بھی اپنے کام سے نہیں رکو ں گا یا تو اللہ تعالیٰ مجھے اس میں کامیابی عطا کرے گا یا اس راہ میں کام آجاﺅں گا۔ 
یہودیوں کا بہت بڑا عالم عمرو بن حصین اپنے ساتھیوں اور بہت ساری کتابوں کے ساتھ آپ کے ساتھ مناظرے کے لیے آیا۔ ابھی ملاقات کا آغاز ہی ہوا تھا کہ یہو دیوں کا عالم عمرو بن حصین کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔ اس کے ساتھیوں کو بہت ندامت اور بے عزتی کا سامنا کرنا پڑا اور اپنے عالم کے ساتھ لڑ پڑے۔ لیکن عمرو بن حصین کہتے ہیں کہ جب میں نے رخ مصطفی کو پہلی نظر میں دیکھا تو میرے دل نے یہ گواہی دی کہ ” یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہو سکتا “اور میں مسلمان ہو گیا۔ 
حضور نبی کریم ﷺ ایک مرتبہ مکہ مکرمہ سے باہر کسی جگہ درخت کے نیچے آرام فرما رہے تھے۔ ایک کافر آپ کو سوتے ہوئے دیکھ کر آپ کے قریب آیا اور بولا اب تجھے میری تلوار سے کون بچائے گا۔ آپ کا اللہ تعالیٰ پر توکل تھا کہ میرا رب میری حفاظت فرمائے گا آپ نے کہا میرا اللہ۔
 یہ سن کر کافر کی تلوار زمین پر گر گئی تو آپ نے پوچھا اب تجھے مجھ سے کون بچائے گا تو اس کے اوپر سکتہ طاری ہو گیا۔ آپ نے فرمایا جا میں نے تجھے اللہ تعالیٰ کے لیے معاف کیا۔ یہ سن کر آپ کو شہید کرنے کے ارادہ سے آنے والا آپ کی شفقت دیکھ کر آپ پر فدا ہو گیا۔

Surah Al-Mumenoon (سُوۡرَةُ المؤمنون) Ayat 101-کیا ہمارا معبود ہماری خوا...

Surah Al-Mumenoon (سُوۡرَةُ المؤمنون) Ayat 96-98.کیا ہم باطل کے سامنے جھ...

منگل، 1 اکتوبر، 2024

صحت انسانی اور سیرت النبی ؐ(۳)

 

صحت انسانی اور سیرت النبی ؐ(۳)

حضور نبی کریمﷺ نے کھانے پینے میں احتیاط اور اعتدال سے کام لینے کا حکم فرمایا۔ یعنی کہ نہ ہی اتنا کم کھائیں کہ بھوکے رہ جائیں اور نہ ہی بھوک سے زیادہ کھائیں کہ بیماری کا سبب بن جائے۔ اگر کھانے پینے میں اعتدال سے کام نہ لیا جائے تو نعمت زحمت بن جاتی ہے۔ 
ایک دفعہ ایک بادشاہ نے حضور نبی رحمت ؐ کی خدمت میں ایک حکیم بھیجا کہ وہ وہاں رہ کر لوگوں کا علاج کرے۔لیکن کافی عرصہ گزرنے کے باوجود کوئی بھی اس کے پاس علاج کے لیے نہ آیا۔ تو وہ حکیم آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ ایک عرصہ گزر گیا ہے لیکن میرے پاس کوئی علاج کے لیے نہیں آیا۔آپ  نے فرمایا : میرے صحابہ پر جب تک بھوک حاوی نہ ہو جائے تب تک کھانا نہیں کھاتے اور جب تھوڑی بھوک باقی رہ جائے تو وہ کھانا چھوڑ دیتے ہیں۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے بہت زیادہ کھانے سے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا مسلمان ایک آنت سے کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں سے کھاتا ہے۔ ( موطا امام مالک )۔
حضور نبی کریم ﷺ نے زیادہ کھانے کو فتنہ قرار دیا۔ آپ نے فرمایا : جب کسی قوم کے پیٹ حد سے زیادہ بھر جائیں تو ان کے جسم موٹے ہو جاتے ہیں ان کے دل کمزور ہو جاتے ہیں اور ان کی شہوتیں سر کش ہو جاتی ہیں۔ (الترغیب الترہیب ) 
حضور نبی کریم  نے زیادہ کھانے کو بیماریوں کی جڑ قرار دیا۔(احیا ء العلوم ) 
حضور نبی کریم ﷺ نے بیماری کی صورت میں علاج کروانے کی ترغیب دی۔ بیماری کی صورت میں علاج کروانا اللہ تعالیٰ پر توکل کے منافی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل رکھ کر ظاہری اسباب اختیار کرنا آپ کی سنت مبارکہ ہے۔ حضور نبی کریم ﷺنے  بیماری کی صورت میں مایوس ہونے سے منع فرمایا۔ آپ نے فرمایا بڑھاپے اور موت کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کا علاج پیدا کیا ہے۔ آپ  نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری پیدا نہیں فرمائی جس کا علاج پیدا نہ کیا ہو۔ (بخاری)
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :اے اللہ کے بندو دوائی لیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کی شفا پیدا فرمائی ہے۔ مگرایک بیماری کی دوائی نہیں پیدا کی وہ بڑھاپا ہے۔( المعجم الکبیر )۔ ایک روایت میں بڑھاپے کے ساتھ موت کا لفظ بھی آیا ہے یعنی موت اوربڑھاپے کی کوئی دوا نہیں۔ مسند امام احمد میں ہے آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جس طرح بیماری پیدا کی اسی طرح اس کی دوا بھی پیدا فرمائی لہذا تم دوا کا استعمال کیا کرو۔