اتوار، 15 ستمبر، 2024

حضور ﷺ کی شان حضور ﷺ کی زبان سے (۱)

 

حضور ﷺ کی شان حضور ﷺ کی زبان سے (۱)

حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ نے اولاد ابراہیم علیہ السلام سے حضرت اسماعیل کو چن لیا پھر حضرت اسماعیل کی اولاد سے بنی کنانہ کو منتخب کیا اور بنی کنانہ کی اولاد سے قبیلہ قریش کو فضیلت بخشی اور قبیلہ قریش سے خاندان ہاشم کو ممتاز کیا اور خاندان بنو ہاشم سے مجھے چن لیا۔ (سبل الہدی )۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تمام اولاد سے میں اپنے رب کے نزدیک معزز و مکرم ہو ں۔ میں یہ بات فخر و مباہات کے لیے نہیں کر رہا بلکہ اظہار حقیقت کر رہا ہو ں۔ ( ترمذی )۔
حضور نبی کریم رﺅ ف الرحیم نے ارشاد فرمایامیں ہی سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹاﺅں گا اور کسی اور کے لیے نہیں بلکہ صرف میرے لیے ہی جنت کا دروازہ کھولا جائے گا۔ بس اللہ مجھے جنت میں داخل فرمائے گا اور میرے ساتھ فقراءمومنین ہوں گے اور میں یہ بات بطور فخر نہیں کہتا بلکہ اظہار حقیقت کر رہا ہوں۔ ( مشکوة شریف )۔
مشکوة شریف ہی کی روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : میں ہی قیامت کے دن حمد کا جھنڈا اٹھاﺅ ں گا ،جس کے نیچے حضرت آدم علیہ السلام اور باقی ساری مخلوق ہو گی۔ 
حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین انبیاءکی شان و عظمت پر تذکرہ کر رہے تھے کوئی کہہ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنایا ہے ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپناکلیم بنایا ہے۔ اتنے میں حضور نبی کریم ﷺ بھی تشریف لے آئے اور صحابہ کرام کی گفتگو سن کر ارشاد فرمایا تم جو انبیاءکرام کی شان و عظمت بیان کر رہے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسی ہی شان عطا فرمائی ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا : ” میں ہی اگلوں پچھلوں میں سے سب سے زیادہ اللہ کے ہاں عزت والا ہوں اور میں یہ بات بطور فخر نہیں کرتا “۔(ترمذی )۔
اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریمﷺ کو بے شمار معجزات اور کمالات سے نوازا ہے۔ جہاں باقی تمام انبیاءکرام علیہم السلام کے معجزات و کمالات کی انتہا ہوتی وہاں سے حضور نبی کریم ﷺ کے معجزات کی ابتدا ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے جتنے کمالات و معجزات تمام انبیاءکرام علیہ السلام کو عطا کیے وہ تمام کے تمام حضور نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس میں موجود ہیں۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا : میں ہی تمام رسولوں کا قائد ہوں اور میں یہ بات بطور فخر نہیں کرتا۔

Why should we sacrifice?-ہم قربانی کیوں دیں؟

Surah Al-Mumenoon Ayat 05-07.کیا ہم نے اللہ تعالی کی قائم کردہ حدود کو ...

Surah Al-Mumenoon (سُوۡرَةُ المؤمنون) Ayat 01-04 Part-03 -کیا ہم نے اپنا...

ہفتہ، 14 ستمبر، 2024

حضور نبی کریم ﷺ کے فضائل (۲)

 

حضور نبی کریم ﷺ کے فضائل (۲)

حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن مجھے عرش کی دائیں جانب ایسے مقام پر کھڑا کیا جائے گا کہ جہاں کسی اور کو قدم رکھنے کی مجال نہ ہو گی اس وقت اولین و آخرین میرے ساتھ رشک کریں گے۔ ( مسند احمد ) 
 حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا کہ میں اپنی نصف امت کو جنت میں داخل کرا لو ں یا شفاعت کروں میں نے شفاعت کو پسند کیا کیونکہ شفاعت کا فیضان عام ہے ۔جب تک میری امت کا آخری فرد بھی جنت میں نہ پہنچ جائے اس وقت تک میں شفاعت کا حق استعمال کرتا رہوںگا پھر فرمایا یہ شفاعت متقین کے لیے نہیں ہوں گی بلکہ میری شفاعت گناہ گاروں اور خطاکاروں کے لیے ہو گی ۔ (ابن ماجہ ) 
حضرت ابو سعید خدری ؓسے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ایک روز جبرائیل امین میرے پاس آئے اور کہا کہ میرا رب اور آپ کا رب آ پ کو فرماتا ہے کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں نے آ پ کے ذکر کو کس طرح بلند کیا ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے جواب دیا اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے ۔ جبرائیل امین نے جواب دیا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس بلند ذکر کی صورت یہ ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے گا اس وقت میرے ذکر کے ساتھ تیرا ذکر بھی کیا جائے گا ۔ 
حضرت عمر ؓ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن تمام تعلقات اور رشتہ داریاں ختم ہو جائیں گی لیکن میرا تعلق اور میرا نسب اس روز بھی قائم رہے گا ۔ 
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا سب سے پہلے میری قبر شریف کھلے گی اور میں باہر آ ﺅ ں ۔ مجھے جنت کی پو شاکوں سے ایک خلعت پہنائی جائے گی ۔ پھر میں عرش الہی کی دائیں جانب کھڑا ہوں گا ۔ میرے علاوہ کسی کو بھی اس مقام پر کھڑا ہونے کا شرف حاصل نہیں ہو گا ۔ ( ترمذی ) 
حضرت سلمان ؓسے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ایک روز جبرائیل امین تشریف لائے اور عرض کی بیشک آپ کا رب فرماتا ہے اگر چہ میں نے ابراہیم کو خلیل بنایا ہے لیکن آپ کو میں نے اپنا حبیب بنایا ہے میں نے آج تک کوئی ایسی چیز پیدا نہیں کی جو آپ سے زیادہ میرے نزدیک مکرم ہو ۔ میں نے دنیا اور اس کے رہنے والوں کو اس لیے پیدا کیا تا کہ میں آپ کی کرامت اور آپ کے درجہ رفیعہ سے ان کو آگاہ کروں ۔ اگر آپ کی ذات نہ ہوتی تو میں دنیا کو بھی پیدا نہ کرتا ۔ ( حجة اللہ علی العالمین ) 

Surah Al-Mumenoon (سُوۡرَةُ المؤمنون) Ayat 01-04 Part-02.کیا ہم خواہشات ...

Surah Al-Mumenoon (سُوۡرَةُ المؤمنون) Ayat 01-04 Pt-01.کیا ہم دین اسلام ...

جمعہ، 13 ستمبر، 2024

خاتم النبین ﷺ (2)

 

خاتم النبین ﷺ (2)

حضرت ابو ہریرہ ؓسے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیاء کرام علیہم السلام کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے بہت حسین و جمیل ایک گھر بنایا۔ مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ، لوگ اس کے گرد گھومتے ہیں اور تعجب سے کہتے ہیں کہ اس میں یہ اینٹ کیوں نہیں لگائی گئی۔ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبین ہو ں ( مسلم )
حضرت ثوبان ؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ نے میرے لیے تمام روئے زمین کولپیٹ دیا ہے اور میں نے اس کے مشرق اور مغرب کو دیکھ لیا ہے اور فرمایا عنقریب میری امت میں تیس کذاب ہوں گے اوران میں سے ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ کہ میں خاتم النبین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ ( ابودائو )
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے چھ وجوہات کی وجہ سے باقی انبیاء پر فضیلت بخشی گئی ہے۔ 1:مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے ہیں ، 2: رعب سے میری مدد کی گئی ہے ،3: میرے لیے غنیمتوں کو حلال کر دیا گیا ہے ،4:تمام روئے زمین کو میرے لیے طہارت اور نماز کی جگہ بنا دیا گیا ہے ،5: مجھے تمام مخلوق کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہے اور6: اور مجھ پر انبیاء کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے۔ ( مسلم ) 
حضرت جبیر بن معطم ؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا میرے متعدد نام ہیں۔ میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں ، میں ماحی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میرے سبب کفر کو ختم کیا۔ میں حاشر ہو ں کیونکہ میرے قدموں پر لوگوں کا حشر ہو گا اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔ (ترمذی) 
 حضور نبی کریمﷺ نے حضرت علی ؓسے فرمایا کیا تم مجھ سے اس پر راضی نہیں ہوکہ تمہاری اور میری مثال ایسے ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کی لیکن فرق یہ ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام نبی تھے لیکن میرے بعد کوئی نہیں۔ (مسلم ) 
حضرت ابو امامہ ؓسے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے لوگو بیشک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں لہٰذا تم اپنے رب کی عبادت کرو ، پانچ نمازیں پڑھو ، رزے رکھو، خوش دلی کے ساتھ زکوۃ ادا کرو اپنے حاکم کی اطاعت کرو اور اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جائو۔ ( معجم الکبیر ) 
خود میرے نبی ﷺ نے بات یہ بتا دی لانبی بعدی ،لانبی بعدی
ہر زمانہ سن لے یہ نوائے ہادی لا نبی بعدی، لانبی بعدی

Surah Al-Anbiya (سُوۡرَةُ الاٴنبیَاء) Ayat 36 .کیا ہم صرف دنیا کی زندگی ...

جمعرات، 12 ستمبر، 2024

Surah Al-Anbiya Ayat 16-18 Part-01.ہم کیا صرف دنیاوی کامیابی کو ہی اصل ک...

خاتم النبین ﷺ

 

خاتم النبین ﷺ


للہ تعالیٰ نے انبیاءکرام علیہم السلام اور رسولوں کا جو سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع کیا تھا وہ حضور نبی کریم ﷺ پر آ کر ختم ہو گیا ہے۔ آپ کے بعد قیامت تک نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ ہی کوئی نبی دنیا میں آ ئے گا۔یہ بات قرآن مجید اور احادیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے اورتمام صحابہ کرام ، محدثین،اور تمام مکاتب فکر کے مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔اور جو کوئی اس میں ذرہ برابر بھی شک کرے گا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ 

ارشاد باری تعالیٰ ہے :”محمد (ﷺ) مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاءکے آخرمیں ( سلسلہ نبوت ختم کرنے والے ) ہیں۔ اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے “۔(سورة الاحزاب )۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح اعلان فرما دیا ہے کہ حضورنبی کریم رﺅف الرحیم ہی آخری نبی ہیں اور اب قیامت تک کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا۔ سورة المائدہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : ”آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا “۔اللہ تعالیٰ نے آپ پر دین کی تکمیل کر دی ہے اور اب قیامت تک اسلام ہی بطور دین اللہ تعالی نے پسند فرمایا۔ اس لیے اب قیامت تک دین اسلام کا کوئی بھی حکم منسوخ نہیں ہو سکتا۔ اس آیت مبارکہ سے بھی یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دین کو مکمل کر دیا ہے اور اسلام کو بطور دین پسند فرما لیا ہے لہٰذا اب قیامت تک نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ ہی رسول۔ قرآن قیامت تک کے لیے حجت اور برہان ہے اور اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے قرآن مجید کو کسی بھی ردو بدل سے محفوظ فرما دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حضور نبی کریم کی نبوت رسالت قیامت تک کے لوگوں کے لیے ہے نا کہ کسی مخصوص طبقے یا دور کے لوگوں کے لیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ”بیشک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بیشک ہم خود اس کے نگہبان ہیں “۔ (سورة الحجر )۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :” اور میری طرف اس قرآن کی وحی ہوئی ہے کہ میں اس سے تمہیں ڈراں اور جن جن کو پہنچے “۔ (الانعام)
یعنی کہ آپ فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ میری نبوت کی گواہی دیتا ہے اس لیے کہ اس نے میری طرف قرآن کی وحی نازل فرمائی ہے۔ اورمیرے بعد قیامت تک آنے والے جن افراد تک یہ قرآن پہنچے میں ان سب کو حکم الٰہی کی مخالفت سے ڈراﺅں۔

قربانی کا فائدہ - Quran Sacrifice Benefits: Powerful Islamic Teaching Yo...

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 78 Part-06 .کیا نجات صرف اتباع رسول ...

بدھ، 11 ستمبر، 2024

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 78 Pt-05 .کیا ہم نے اللہ تعالی کے رن...

حضور نبی کریمﷺ کا حسن معاشرت(۲)

 

حضور نبی کریمﷺ کا حسن معاشرت(۲)

اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریمﷺ کو تمام خزانوں کا مالک بنایا ہے۔ حضور نبی کریمﷺ کی تواضع خود اختیار کردہ تھی ۔
ایک مرتبہ ایک فرشتہ جبرائیل امین کی معیت میں حضور نبی کریمﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی یارسول اللہﷺ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اختیار دیا ہے کہ آپ ایسے نبی بنیں جو بندہ ہے یا پھر بادشاہ بنیں ۔ حضور نبی کریمﷺ نے جبرائیل امین کی طرف دیکھا، جبرائیل نے کہا کہ تواضع اختیار فرمائیں ۔ 
حضرت جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، نبی مکرمﷺ کا یہ معمول مبارک تھا کہ جب گوشت پکاتے تو اہل خانہ کو حکم دیتے شوربا زیادہ بنانااور اپنے پڑوسیوں کی خیر گیری کرنا ۔ حضور نبی کریمﷺ جب کھانا کھانے کا ارادہ فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو دھو لیتے ۔
 حضرت عبد اللہ بن بسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی کریمﷺ ایک بڑے برتن میں صحابہ کرام کے ساتھ کھانہ تناول فرما رہے تھے ایک اعرابی نے اس سادگی کو دیکھا تو کہنے لگا یہ کس قسم کی نشست ہے تو حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا، مجھے اللہ تعالیٰ عزت والا بندہ بنایا ہے مجھے جابر اور مغرور نہیں بنایا ۔ اس کے بعد حضور نبی کریمﷺ نے صحابہ کرام کو کھانا کھانے کا طریقہ بتایا کہ پہلے اطراف سے کھائو اس کے درمیان والی چوٹی یوں ہی رہنے دو اس میں تمھارے لیے برکت ڈالی جائے گی۔ اس کے بعد آپؐ نے کھانے کی اجازت دی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں حضور نبی کریمﷺ سخت گرم کھانے کو ناپسند فرماتے یہاں تک کہ اس کی شدت کم ہو جاتی ۔ 
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے۔ حضور نبی کریمﷺ نہ کھانے کی چیز میں پھونک مارتے اور نہ پینے کی چیز میں ۔ صحابہ کرام نے حضورؐ کی بارگاہ میں عرض کی، ہم کھاتے ہیں لیکن سیر نہیں ہوتے ۔ آپؐ نے فرمایا، سب اکٹھے ہو کر کھایا کرو اور کھانا شروع کرتے وقت بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ لیا کرو ۔ اللہ تعالیٰ اس کھانے میں تمھارے لیے برکت ڈال دے گا ۔
 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا جب کھائو تو دائیں ہاتھ سے کھائو ۔ پیو تو دائیں ہاتھ سے پیو۔ اور کوئی چیز پکڑو تو دائیں ہاتھ سے لو اور دو تو دائیں ہاتھ سے دو کیونکہ شیطان کا طریقہ ہے کہ وہ اپنے بائیں ہاتھ سے کھاتا ہے ، پیتا ہے ، بائیں ہاتھ سے دیتا اور بائیں ہاتھ سے لیتا ہے ۔ ( سبل الہدی ٰ) 

Islam's Wisdom of Sacrifice Will Change How You Think About Life-قربانی ...

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 78 Pt-4 .کیا دین اسلام کو باقی دنیا ...

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 78 Part-03.کیا اللہ تعالی نے ہمیں اپ...

منگل، 10 ستمبر، 2024

حضور نبی کریم ﷺکا حسن معاشرت(۱)


 

حضور نبی کریم ﷺکا حسن معاشرت(۱)

حضور نبی کریم ﷺ کا حسن معاشرت ساری دنیا سے اعلی و ارفع ہے۔حضور نبی کریمﷺ نے اپنی امت کو معاشرے میں رہنے کے آداب سکھائے۔ جن پر عمل کر کے کوئی بھی شخص معاشرے میں اپنی عزت و مقام کو بلند کر سکتا ہے۔ 
بنی عامر قبیلہ کا ایک آدمی حضور نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور باہر کھڑا ہو کر اجازت طلب کی کیا میں اندر آ جائوں۔حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے خادم کو حکم دیا جائو اسے اذن طلب کرنے کا صحیح طریقہ بتائو۔ اسے کہو جب اجازت طلب کرو تو کہو السلام علیکم اور پھر اندر آنے کی اجازت مانگو۔ اس آدمی نے حضور ؐ کا یہ جملہ سن لیا پھر اس نے کہا السلام علیکم کیا میں اندر آ سکتا ہو ں۔پھر آپؐ نے اسے اندر آنے کی اجازت دی۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اے ایمان والو نہ داخل ہوا کرو دوسروں کے گھروں میں اپنے گھروں کے علاوہ جب تک تم اجازت نہ لے لو اور سلام نہ کر لو ان گھروں میں رہنے والوں پر۔‘‘( سورۃ النور ) 
حضرت جابر ؓ  فرماتے ہیں ایک مرتبہ میں حضور نبی کریمﷺ کی بارگاہ میں حاضرہوا اور دروازے پر دستک دی۔ آواز آئی کون میں نے کہا میں ہو ں۔ حضور نبی کریم ﷺ کو میرا یہ جواب پسند نہ آیا اور آپ ؐ خود باہر تشریف لائے اور مجھے بتایا جب پوچھا جائے کون ہے تو میں نہ کہو بلکہ اپنا نام بتائو۔ ( سبل الہدی ) 
حضور نبی کریم ﷺ جب کسی مجمع میں تشریف لے جاتے تو جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتے اور صحابہ کرام کو بھی یہی حکم فرماتے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓسے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ اپنے صحابہ کے درمیان بیٹھتے۔ جب کوئی ناواقف اعرابی آتا تو اسے یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ آپ کہاں تشریف فرماں ہیں۔ انہیں لوگوں سے پوچھنا پڑتاتھا۔ پھر ہم نے حضور نبی کریم ﷺ سے اجازت طلب کی اور ایک تھڑا بنا دیا تا کہ جب کوئی اعرابی آئے تو آپ کو آسانی سے پہچان لے۔ 
 حضور نبی کریم ﷺ جب چلتے تو پوری قوت کے ساتھ چلتے تھے اس میں سستی نہ ہوتی۔ حضرت فرماتے ہیں حضور نبی کریمﷺ جب چلا کرتے یوں معلوم ہوتا کہ بلندی سے نشیب کی طرف جارہے ہیں اور جب آپ ؐ چلا کرتے تو قدم جما کر رکھتے جس سے پتہ چلتا کہ حضور ﷺ جلدی میں نہیں ہیں۔ ( سبل الہدی ) 
حضرت علیؓ  فرماتے ہیں جب آپ زمین پر چلتے تو پائوں زور کے  اٹھاتے جیسے مستعد اور مضبوط لوگوں کی چال ہے یہ نہیں کہ چھوٹے چھوٹے قدم مغروروں یاعورتوں کی طرح رکھتے۔

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 78 Part-02. کیا ہم صرف طالب دنیا ہیں

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 78 Part-01 .کیا دین اسلام آسان ہے

پیر، 9 ستمبر، 2024

بعثت نبی ﷺ اور حقوق نسواں(۲)

 

بعثت نبی ﷺ اور حقوق نسواں(۲)

حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے دو بچیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں تو آپ نے اپنی انگلیوں کو قریب کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اور وہ قیامت کے دن اس طرح قریب ہوں گے ۔ ( صحیح مسلم ) 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جس کی ایک بیٹی ہو وہ اسے زندہ دفن نہ کرے اس کی توہین نہ کرے اپنے بیٹے کو اس پر فوقیت نہ دے تو اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا ۔ ( ابی دائود ) 
حضور نبی کریم ﷺ نے بیٹی کو وہ مقام و مرتبہ دیا جس کا زمانہ تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ حضور نبی کریم ﷺ اپنی بیٹی کے استقبال کے لیے کھڑے ہو جاتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے ۔ 
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ کلام و گفتگو میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بڑھ کر کوئی بھی حضور ﷺ کے مشابہ نہیں تھا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جب بھی حضرت فاطمہ الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہارسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوتی تو آپﷺ انہیں خوش آمدید کہتے اور کھڑے ہو جاتے ان کا ہاتھ پکڑتے ان کی پیشانی پر بوسہ دیتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے ۔ (شعب الایمان ) 
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے متعلق فرمایا تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ 
اسلام نے عورت کو ماں ، بہن اور بیٹی ہر لحاظ سے عزت دی ہے ۔ ایک موقع پر ماں کا مقام بیان کرتے ہو ئے ارشاد فرمایا ’’ماںکی خدمت کو لازم پکڑ لو کیونکہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے ۔ ( مسند احمد ) 
حضور نبی کریم ﷺ کی رضاعی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاجب آپ ﷺ کے پاس تشریف لائی تو ان کے احترام میں چادر بچھائی اور کافی دیر تک ان سے گفتگو کرتے رہے ۔ اسلام نے عورت کو حقوق دیے جن کی وہ حق دارتھی ۔ ارشاد باری تعالی ہے :’’ اور ان عورتوں کے لیے دستور کے مطابق اسی طرح حقوق ہیں جس طرح ان کی ذمہ داریاں ہیں ‘‘۔ ( سورۃ البقرۃ ) 
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ ماں باپ اور رشتہ داروں نے جو مال چھوڑا ہے اس میں مردوں کا حصہ ہے اور ماں باپ اور رشتہ داروں نے جو مال چھوڑا ہے اس میں عورتوں کا حصہ ہے ۔ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ یہ حصہ طے شدہ ہے ‘‘۔( سورۃالنساء) 
الغرض کہ حضور نبی کریم ﷺ نے عورت کا مقام و مرتبہ بلند کیا اسے ماں ، بہن اور بیٹی کا مقدس مقام دیا اور عورت کی عزت نفس کو بحال کیا ۔ 

Why the sacrifice? - قربانی آخر کیوں؟

Surah Al-Haj Ayat 77 Part-02.کیا ہم اللہ تعالی کے حکم کے سامنے جھکنے کے...

اتوار، 8 ستمبر، 2024

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 77 Part-01. صرف اللہ کی عبادت آخر کیوں

بعثت نبی اور حقوق نسواں(۱)

 

بعثت نبی اور حقوق نسواں(۱)

اسلام سے قبل عورت کی بالکل بھی عزت و تکریم نہیں کی جاتی تھی۔ دنیا عورت کو ذلت اور حقارت کی نظر سے دیکھتی تھی۔ اس کی حیثیت صرف بچے پالنے والی لونڈی جیسی تھی۔ عورت ہر قسم کے حقوق سے محروم تھی اسے گھر میں بند کر دیا جاتا اور شوہر کے سامان میں سے ایک سامان تصور کی جاتی تھی۔ 
بیوہ عورت دوسرا نکاح نہیں کر سکتی تھی۔ عرب میں عورت پر بہت ظلم و ستم کیا جاتا تھا۔ طلاق کی کوئی حد مقرر نہیں تھی۔ شوہر کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ نہ رجوع کرے اور نہ ہی اسے کسی سے نکاح کرنے دے۔ اگر باپ مر جاتا تو اس کی بیویاں اس کے بیٹوں کی میراث سمجھی جاتی تھیں سوائے ان کی حقیقی ماﺅں کے۔ وہ ان سے نکاح کر لیتے یا انہیں فروخت کر دیتے تھے۔ بیٹیوں کو معیوب سمجھا جاتا تھا اور پیدا ہوتے ہی زندہ در گور کر دیاجاتا تھا۔ بعض لوگ بیٹی پیدا ہونے پر نادم ہوتے اور لوگوں سے چھپتے پھرتے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :” ان میں جب کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خبر دی جاتی تو دکھ کے مارے اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے۔ وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا کہ اسے کیسی بری خبر ملی ہے۔ اب ذلت برداشت کرتے ہوئے اسے سنبھالے رکھے یا اسے زمین میں گاڑ دے۔خبر دار یہ بہت برا فیصلہ کرتے ہیں “۔ ( سورة النحل )۔ 
ایک قبیلہ کے رئیس کے گھر بیٹی کی ولادت ہوئی تو اس نے گھر میں آنا چھوڑ دیا۔ ماں بیٹی کو یہ لوریاں دے کر سلاتی تھی۔ ” وہ ہم سے اس لیے ناراض ہیں کہ ہم بیٹے نہیں جنتے اس میں ہمیں اپنے چاہنے پر کوئی اختیار نہیں ہے۔ ہمارا اختیار تو صرف اسی پر ہے جو ہمیں دیا جائے۔ہمارے متعلق یہ ہمارے رب کی حکمت ہے “۔ (تفیر الخازن ) 
لیکن جب آمنہ کے لال امت کے غم خوار رحمت دو عالم سرور کائنات حضرت محمد دنیا میں تشریف لائے تو عورت کو کھویا ہوا مقام واپس مل گیا۔ آج عورت کو جو بھی مقا م و مرتبہ حاصل ہے وہ حضور نبی کریم ﷺ کی ہی بدولت ہے۔ جب پوری دنیا عورت کو حقارت کی نظر سے دیکھتی تھی تب حضور نبی کریم ﷺ نے عورت کو عزت بخشی۔ آپ نے فرمایا جب کسی کے گھر بیٹی پیدا ہو تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس کے گھر آتے ہیں اور کہتے ہیں اے گھر والو تم پر سلامتی ہو۔وہ بچی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں۔یہ ایک کمزور جان ہے جو کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے۔ جو اس بچی کی پرورش کرے گا قیامت تک اللہ تعالی کی مدد اس کے ساتھ شامل رہے گی۔

Surah Al-Haj سُوۡرَةُ الحَجّ Ayt 75-76 ہم کیا قرآن پاک کی ہدایت سے بے نی...

ہفتہ، 7 ستمبر، 2024

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 74 .کیا ہم اللہ تعالی کو بھلا کر زند...

اسلام سے قبل عرب کے حالات

 

اسلام سے قبل عرب کے حالات

اسلام سے قبل عرب کے حالات بہت خراب تھے لوگ جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبے ہو ئے تھے۔ عرب میں معاشرتی ، تمدنی ، اخلاقی کمزوریاں اس قدر بڑھ گئیں تھیں کہ عرب کے رہنے والے انسان برائے نام ہی انسان رہے گئے تھے۔آداب معاشرت بالکل ختم ہو چکے تھے۔ ہر طرف ظلم و ستم ، جبرو تشدد نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ کفرو جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔ فحش باتوں سے بالکل بھی نہیں بچا جاتا تھا۔بے حیائی اس قدر عام ہو گئی تھی کہ حج کے موقع پر برہنہ حالت میں طواف کیا جاتا تھا ہر شخص اپنے افعال اور اقوال میں آزاد تھا۔خوبصورت اور نوجوان لڑکیوں کے نا م پر اشعار لکھے جاتے تھے اور بازاروں میں سر عام گایا جاتا تھا۔ کو ئی ولولہ اور ارمان چھپا کر نہیں رکھا جا تھا۔ زنا پر نادم ہو نے کی بجائے فخر کیا جاتا تھا۔ عرب کے لوگوں کے لیے شراب اور دیگر نشہ آور چیزوں سے زیادہ محبوب کوئی مشغلہ نہیں تھا۔ پھر نشہ کی حالت میں بد مست ہو کر نہایت شرم ناک افعال کیے جاتے اور ان پر فخر کیا جا تا تھا۔ 
قمار بازی شرفا ء اور امراء کا بہترین مشغلہ تھا۔ ہر جگہ قمار خانے کھلے ہو ئے تھے جن میں عرب کے بڑے بڑے رئیس شامل ہوتے تھے اور بڑی بڑی رقوم ہارتے اور جیتتے تھے۔ سود خوری نہایت ہی معزز پیشہ سمجھا جاتا تھا۔ نہایت ہی بے دردی سے ضرورت مندوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر ان کو لوٹا جاتا تھا۔ لونڈیوں کو ناچنا گانا سکھا کر بازاروں میں بٹھا دیا جا تا تھا اور وہ جو کما کر لاتی تھیں وہ سب کچھ آقا کا ہوتا تھا اور اس پیسے سے بڑی بڑی دعوتیں کی جاتیں تھیں۔
 دو قبیلوں کے درمیان اگر کوئی جنگ چھڑ جاتی تھی تو پچیس پچیس ، تیس تیس سال تک جاری رہتی تھی۔ ہزروں لوگ ان جنگوں میں مارے جاتے تھے۔ یہ لڑائیاں شعرو شاعری اور گھڑ دوڑ کی وجہ سے ہوتی تھی۔عورت کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا اور معاشرے میں اس کی کوئی عزت نہیں تھی۔ 
ہر قبیلے اور گھر نے اپنا الگ الگ بت بنایا ہواتھا۔ مگر ہبل ، اساف ، نائلہ ، لا ت و منات ان کو بہت عزت والے بت سمجھا جاتا تھا اور لوگ ان کی پرستش کرتے تھے۔ دہریے کسی پیغبر یا آسمانی کتاب کو نہیں مانتے تھے۔ یہ خدا کا بھی انکار کرتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ یہ دنیا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہی رہے گی۔ یہودیوں نے خانہ کعبہ میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے نا م کے بت رکھے اوران کی پوجا کرتے تھے۔ عیسائی تثلیث کے قائل تھے اور انہوں نے بھی تین بت کعبہ میں رکھے ہوئے تھے جن کی وہ پوجا کرتے تھے۔

جمعہ، 6 ستمبر، 2024

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 73 .کیا ہماری روش کافرانہ ہے

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 72 . کیا ناشکرے لوگ جہنم میں جائیں گے

شانِ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا(۵)

 

شانِ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا(۵)

ارشاد باری تعالیٰ ہے : ”اور قسم نہ کھائیں وہ جو تم میں فضیلت والے اور گنجائش والے ہیں قرابت والوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دینے کی اور چاہیے کہ معاف کریں اور در گزر کریں۔ کیا تم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے“۔ (آیت :۲۲)۔
یہ آیت مبارکہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں نازل ہوئی۔ آپ نے قسم کھائی کہ حضرت مسطح کے ساتھ حسن سلوک نہیں کریں گے۔ حضرت مسطح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خالہ کے بیٹے تھے۔ نادار تھے ، مہاجر ، بدری تھے اور حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کا خرچ اٹھاتے تھے جب حضرت مسطح نے آپ کی بیٹی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پرتہمت لگانے والوں کا ساتھ دیا تو آپ یہ قسم کھائی۔تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ آیت سنی آپ نے فرمایا میری آرزو ہے کہاللہ تعالیٰ میری بخشش فرمائے اور میں حضرت مسطح کے ساتھ حسن سلوک جاری رکھوں گا۔ 
”بیشک جو عیب لگاتے ہیں انجان پارسا ایمان والیوں کو ان پر لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ جس دن ان پر گواہی دیں گی ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاﺅں جو کچھ کرتے تھے۔ اس دن اللہ انہیں ان کی سچی سزا پوری دے گا اور جان لیں گے کہ اللہ ہی صریح حق ہے گندیاں گندوں کے لیے اوگندے گندوں کے لیے ر ستھریاں ستھروں کے لیے اور ستھرے ستھریوں کے لیے وہ پاک ہیں ان باتوں سے جو یہ کہ رہے ہیں ان کے لیے بخشش اور عزت کی روزی ہے “۔(آیت:۳۲)
ان آیات مبارکہ میں حضرت عائشہؓ پر بہتان لگانے والوں کی سزا بیان کی گئی ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاک دامنی بیان کی گئی ہے۔ حضرت عائشہؓ اورقیامت تک آنے والی ایماندار اور پارسا عورتوں پر الزام لگانے والوں پر لعنت کی گئی اور ان کے لیے سخت عذاب ہے۔ قیامت کے دن انکے خلاف ان کی زبانیں ، انکے ہاتھ اور ان کے ہاتھ ان کے خلاف گواہی دینگے۔ اور اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کے دن انہیں انکی سچی سزا دے گا جس کے وہ حق دار ہیں اور وہ یہ جان لیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی صریح حق ہے۔آخر میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی پاکد امنی بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ گندی عورتیں گندے مردوں کے لیے ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لیے۔ حضور نبی کریم ﷺ اطیب الاطیبین ہیں اور آپ کی ازواج مطہرات بھی الطیب الا طیبات ہی ہوں گی۔

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 70-71 .کیا ہم نفس و شیطان کے بندے ہیں

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 67-69 Part-02.کیا ہم اللہ کے رسول ﷺ ...

جمعرات، 5 ستمبر، 2024

شانِ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا(۴)

 

شانِ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا(۴)

حضور نبی کریم ﷺ کا خاموش رہنا صرف اور صرف وحی الٰہی کا انتظار تھا کیونکہ اگر آپ اپنے علم کی بنا پر حضرت عائشہ ؓکی عصمت کی خبر دیتے تو منافقین نے کہنا تھا کہ آپ اپنے اہل بیت کی طرف داری کر رہے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :”اللہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے کہ اب کبھی ایسا نہ کہنا اگر ایمان رکھتے ہو“۔ ( آیت : ۷۱)۔یعنی کہ تمہیں معلوم ہو گیا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر الزام لگانا کتنا بڑا گناہ ہے اس جرم کی وجہ سے حد لگے گی اور دنیا میں ذلت اور آخرت میں سخت عذاب ہو گا۔ 
”اور اللہ تمہارے لیے آیتیں صاف بیان فرماتا ہے ، اور اللہ علم و حکمت والا ہے “(آیت :۸۱)۔ اللہ تعالیٰ اپنے احکام واضح طور پر نازل فرماتا ہے تا کہ تم اس سے نصیحت حاصل کرو اور اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کے سب حالات کا خوب علم رکھتا ہے۔ 
”وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں برا چرچا پھیلے ان کے لیے درد ناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے “(آیت :۹۱)۔ یعنی کہ وہ لوگ جو یہ ارادہ کرتے اور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی کی بات پھیلے ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ اور اللہ تعالیٰ دلوں کے راز اور باطن کے احوال خوب جانتا ہے، تمہیں اس کا علم نہیں۔ 
”اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی اور یہ کہ اللہ تم پر نہایت مہر بان مہر والا ہے “(آیت ۰۲)۔ یعنی کہ تم نے جو یہ اتنا بڑا گناہ کیا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پاکدامنی پر بہتان لگایا ہے اگر تم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت نہ ہوتی اور یہ کہ وہ تم پر نہایت مہربان نہ ہوتا تو اللہ تمہیں تمہاری اس حرکت کا مزہ چکھاتا اور اس کا عذاب تمہیں مہلت نہ دیتا۔ 
”اے ایمان والو شیطان کے قدموں پر نہ چلو اور جو شیطان کے قدموں پر چلے تو وہ تو بے حیائی اور بری ہی بات بتائے گا اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی توتم میں کوئی بھی کبھی ستھرا نہ ہو سکتا۔ ہاں اللہ ستھرا کر دیتا ہے جسے چاہے اوراللہ سنتا جانتا ہے “(آیت :۱۲)۔
اللہ تعالیٰ نے شیطان کے طریقہ اور اس کے راستے سے دور رہنے کا حکم فرمایا اور جن مسلمانوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر تہمت لگانے میں حصہ لیا اور پھر توبہ کر لی اور ان پر حد حذف جاری ہو گئی اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا کہ ان پر یہ اللہ کا بڑا کرم ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر تمہت لگانے سے جو ان کے دلوں میں میل آگیا تھا اللہ تعالیٰ نے انہیں توبہ کی توفیق دی اور ان کے دلوں کو صاف کر دیا۔

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 67-69 Part-01.شریعت محمدی ﷺ کا مطلب

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 56-57 Part-02.کیا ہم جنت کی بجائے دن...

بدھ، 4 ستمبر، 2024

شانِ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا(۳)

 

شانِ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا(۳)

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کہ ایسا کیوں نہیں ہوا جب تم نے یہ بہتان سنا تو مسلمان مرد اور عورتیں اپنے لوگوں پر نیک گمان کرتے کیونکہ مسلمان کو یہی حکم ہے کہ وہ مسلمان کے ساتھ نیک گما ن کرے اور بد گمانی منع ہے اور لوگ یہ سن کر فوراً کہتے کہ یہ کھلا بہتان ہے اور جھوٹ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’اس پر چار گواہ کیوں نہ لائے تو جب گواہ نہ لائے تو وہی اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں ‘۔ (سورۃ النورآیت:۱۳) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے اس دعوی میں رائی کے برابر بھی سچائی ہے تو وہ گواہ پیش کرتے لیکن یہ گواہ پیش کرنے سے ناکام رہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا یہ الزام حضرت عائشہ ؓ پر من گھڑت اور جھوٹا ہے۔ 
آگے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر دنیا و آخرت میں نہ ہوتی تو جس چرچے میں تم پڑے اس پر تمھیں بڑا عذاب پہنچتا‘۔ (آیت ۱۴: ) یعنی یہ اللہ تعالیٰ کا احسان اور اس کی رحمت ہے کہ اس نے تمھیں فوری عذاب میں مبتلا نہیں کیا ورنہ بہتان لگانے والوں نے اللہ تعالی کے قہر کو دعوت دینے میں ذرا بھی کسر نہیں چھوڑی تھی کیونکہ کہ جب اللہ تعالی کا محبوب رنجیدہ ہو تو آتش غضب بھڑک اٹھتی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’ اور جب تم ایسی بات اپنی زبانوں پر ایک دوسرے سے سن کر لاتے تھے اور اپنے منہ سے وہ نکالتے تھے جس کا تمھیں علم نہیں اور اسے سہل سمجھتے تھے اور وہ اللہ کے نزدیک بڑی بات ہے ‘۔ (آیت : ۱۵) یعنی کہ تم اس بات کو معمولی سمجھتے اور اپنی زبانوں پر وہ بات لاتے تھے جس کا تمھیں علم نہیں اللہ تعالی کے نزدیک یہ بہت بڑا جرم ہے ۔ 
ارشاد باری تعالی ہے: ’ اور کیوں نہ ہوا جب تم نے سنا تھا کہا ہوتا کہ ہمیں نہیں پہنچتا کہ ایسی بات کہیں الٰہی پاکی ہے تجھے یہ بڑا بہتان ہے‘( آیت :۱۶) ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی پاکی کا ذکر کر کے اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک اور منزہ ہے کہ اس کے رسول (ﷺ) کی زوجہ محترمہ کا دامن ایسے الزام سے آلودہ ہو ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضور نبی کریمﷺ کی ازواج پر الزام لگانا حضورﷺ پر الزام لگانا ہے اور نبی کریمﷺ کی ذات پر الزام لگانا آپ پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ پر ہے ۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ کو نزول وحی سے پہلے حضرت عائشہ ؓ کی پاک دامنی کا علم تھا کیونکہ نبی کا ایسے عیب سے پاک ہونا جو لوگوں کواس سے متنفر کر دے ضرورت عقلیہ میں سے ہے۔ حضورﷺ کا اس سے پریشان ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ آپؐ کو آپؓ کی پاک دامنی کا علم نہیں تھا بلکہ حضورﷺ کفار اور منافقین کی باتیں سن کر پریشان ہوتے تھے ۔ 

کیا دین اسلام سے ہمارا کوئی واسطہ ہے؟ - Kya deen-e-islam say humara koi ...

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 56-57 Part-01.کیا ہم کلمہ طیبہ کا مط...

منگل، 3 ستمبر، 2024

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 52-55 Part-04.کیا حق سے انکار ہماری ...

شانِ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا(۲)


 

شانِ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا(۲)

حضورؐکی خاموشی میں حکمت تھی آپؐ کو حضرت عائشہ ؓ کی پاک دامنی پر کوئی بھی شک وشبہ نہیں تھا آپؐ وحی الٰہی کا انتظار فرما رہے تھے ۔ نزول وحی میں تاخیر ہوئی تو حضور نبی کریمﷺ بھی پریشان ہو گئے ۔ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یا رسول اللہﷺ، یہ منافقین بالکل جھوٹے ہیں اور ام المؤمنین سچی اور پاک دامن ہیں ۔ اللہ تعالی نے آپ ؐ کے جسم اطہر کو مکھی بیٹھنے سے محفوظ رکھا ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ آپؐ کو بد عورت سے محفوظ نہ رکھے ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ حضرت عائشہ ؓ پاک ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کا سایہ زمین پر نہیں پڑنے دیا کہ اس پر کسی کے قدم نہ پڑیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ آپؐ کے اہل کو محفوظ نہ فرمائے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا، اللہ تعالی آپؐ کے جوتے کے ساتھ تھوڑا سا بھی کچھ لگ جائے تو اسے اتارنے کا حکم فرماتا ہے، اللہ تعالیٰ کو آپؐ کے نعلین کے ساتھ لگنے والی تھوڑی سے آلودگی بھی گوارا نہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالی آپؐ کے اہل کی آلودگی کو گواراکرے ۔ اسی طرح بہت سارے صحابہ کرام اور صحابیات نے آپ ؓ کی پاک دامنی کی گواہی دی ۔
حضور نبی کریمﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تشریف فرما تھے۔ اللہ تعالی نے آپ ؓ کی شان میں قرآن نازل فرمایا جو قیامت آپؓ کی پاکدامنی کی گواہی دیتا رہے گا اور جو کوئی اس کا انکار کرے گا اور اس میں شک کرے گا وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہو جائے گا اور ایمان کی نعمت سے محروم ہو جائے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’ بے شک وہ کہ یہ بڑا بہتان لائے ہیں تمھیں میں سے ایک جماعت ہے اسے اپنے لیے برا نہ سمجھو بلکہ وہ تمھارے لیے بہتر ہے ان میں ہر شخص کے لیے وہ گناہ ہے جو اس نے کمایا اور ان میں وہ جس نے سب سے بڑا حصہ لیا اس کے لیے بڑا عذاب ہے ‘۔ (سورۃ النور آیت : ۱۱)
یعنی اے محبوبؐ، آپ اسے اپنے لیے برا نہ سمجھے بلکہ بہتان سے بچنا تمھارے لیے بہتر ہے اللہ تعالی تمھیں جزا دے گا اوراللہ تعالی حضرت عائشہ ؓ کی شان اور ان کی برأ ت ظاہر فرمائے گا ۔ اور جنھوں نے بہتان لگایا اور جس نے اس میں سب سے بڑا حصہ لیا اس کے لیے آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے یعنی عبد اللہ بن ابی کے لیے ۔ 
سورۃ النور کی آیت نمبر بارہ میں اللہ تعالی آپؓ کی شان بیان کرتے ہو ئے فرماتا ہے: ’ کیوں نہ ہوا جب تم نے اسے سنا تھا کہ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں نے اپنوں پر نیک گمان کیا ہوتا اور کہتے یہ کھلا بہتان ہے ‘۔

پیر، 2 ستمبر، 2024

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 52-54 Part-03.کیا ہم نے دنیا کو منزل...

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 52-54 Part-02. کیا ہمارے دل دنیا کی ...

شانِ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا(۱)

 

شانِ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا(۱)

اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی تمام ازواج کو بہت بلند مقام و مرتبہ عطا فرمایا ہے اور حضور نبی کریمﷺ کی ساری ازواج طیبہ ، طاہرہ ، عابدہ اور متقی پرہیز گار ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ کی بہت بڑی فضیلت ہے اگر سورۃ النور کو پڑھو تمھیں علم ہو گا اللہ تعالیٰ نے کسی کی معصیت پر اتنی سخت وعید نہیں فرمائی جتنی حضرت عائشہؓ کی تہمت پر وعید نازل فرمائی ۔ یہ بھی آپ ؓ کی فضیلت ہے کہ اللہ تعالی نے آپؓ کی شان میں سورۃ النور کی آیات نازل فرمائیں ۔ حضرت عائشہ ؓسے ہی روایت ہے کہ حضور نبی کریمﷺ کا یہ معمول مبارک تھا کہ جب کبھی سفر پر روانہ ہونا ہوتا تو اپنی ازواج کے درمیان قرعہ اندازی فرماتے اس میں جس زوجہ کا نام نکل آتا آپؐ اسے اپنے ساتھ سفر پر لے جاتے ۔ حضور نبی کریمﷺ جب غزوہ بنی مصطلق پر روانہ ہوئے تو قرعہ حضرت عائشہ ؓکے نام نکلا ۔ اس وقت پردہ کے احکام نازل ہو چکے تھے ۔ آپ ؓ کے لیے ایک محمل تیار کیا گیا جس میں آپؓ بیٹھ جاتی اور اسے اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیا جاتا۔جہاں قیام کرتے وہاں محمل اتار کر نیچے رکھ دیا جاتا ۔ آپؓ فرماتی ہیں کہ غزوہ سے واپسی پر ہم مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو ایک جگہ قیام کیا ۔ میں ضرورت کے لیے باہر گئی ۔ وہاںمیرا ہار ٹوٹ کر گر گیا تو میں اس کی تلاش میں لگ گئی ۔ہار ڈھونڈ کر جب میں واپسی آئی تو قافلہ وہاں سے جا چکا تھا ۔ جو لوگ میرے محمل کو اونٹ پر رکھنے اور اتارنے پر معمور تھے انھوں نے میرامحمل اٹھایا اور اونٹ پر رکھ دیا۔ انھیں یہ معلوم نہ ہوا کہ میں اس میں ہوں یا نہیں ۔ آپؓ فرماتی ہیں کہ میں وہاں بیٹھ گئی کہ جب انھیں معلوم ہو گا تو وہ ضرور میری تلاش میں آئیں گے ۔ اس وقت ایک فرد کی یہ ڈیوٹی ہوتی تھی کہ وہ قافلے کے پیچھے رہے اور اگر کسی کا سامان رہ جائے تو اسے اٹھا لے ۔ اس وقت صفوان بن معطلؓ کی ڈیوٹی تھی پیچھے رہنے کی ۔ جب وہ دیکھنے کے لیے آئے تو انھوں نے مجھے پہچان لیا اور اونٹ کو لا کر میرے قریب بیٹھا دیا میں اونٹ پر سوار ہوئی اور قافلے کے ساتھ مل گئی ۔ اس وقت عبدا للہ بن ابی جو کہ بہت بڑا ،منافق تھا اس نے آپؓ پر بہتان لگا دیا ۔ آپؓ فرماتی ہیں کہ میں واپسی پر بیمار ہو گئی اور کافی دن بیمار رہی حضورؐ بھی آتے تو پہلے کی طرح مجھ سے لطف و عنایت نہ فرماتے بس یہ پوچھتے کہ کیا حال ہے اور چلے جاتے ۔ ایک بار آپؓ ام مسطح کے ساتھ باہر گئیں تو انھوں نے آپؓ کو سارا واقعہ بتا دیا ۔ آپؓ فرماتی ہیں کہ یہ سن کر میری طبیعت اور خراب ہو گئی ۔ آپؓ فرماتی ہیں میں رات بھر روتی رہتی اور نیند بھی نہیں آتی تھی ۔

ہمیں اسلام کی کیا ضرورت ہے ؟ - ?Why do we need Islam

اتوار، 1 ستمبر، 2024

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 52-54 Part-01.کیا ہمارے دل سخت ہو چک...

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 51 .کیا ہم صرف طالب دنیا ہیں

فضائلِ دعا

 

 فضائلِ دعا

قرآن و حدیث میں دعا کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ سورة البقرة میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور (اے رسول ) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو آپ فرما د یں جیئے۔ بے شک میں ان کے قریب ہوں۔ دعا کرنے والا جب دعا کرتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :”اور تمہارے رب نے فرمایا تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا کو قبول فرماﺅں گا ، بیشک جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب ذلت سے جہنم میں ہوں گے۔ (سورة المومن )۔
حضور نبی کریم ﷺنے دعا کو عین عبادت قرار دیا ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور کو فرماتے سنا ہے کہ دعا عبادت ہی ہے (ترمذی )۔
 اگر کوئی بندہ اس لیے دعا کے لیے ہاتھ نہیں اٹھاتا کہ میری دعا قبول ہو یہ نہ ہو۔ اس کے متعلق رسول نے فرمایا اللہ تعالیٰ بندے کے دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھوں کو خالی نہیں لوٹاتا۔ حضرت سلمانؓ سے مروی ہے حضور نے فرمایا اللہ تعالی حیا دار کریم ہے اپنے بندے سے حیا فرماتا ہے کہ جب بندہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلائے تو وہ انہیں خالی لوٹا دے۔ ( ابو داﺅد )۔
حضور نبی کریم ﷺ نے دعا کو مومن کا ہتھیار قرار دیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے مروی ہے حضور نے فرمایا دعا مومن کا ہتھیار ہے ، دین کا ستون ہے اورآسمان اور زمین کا نور ہے ( مستدرک للحاکم )۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے حضور نے فرمایا دعا ہر اس مصیبت سے نفع دیتی ہے جو نازل ہو چکی ہو یا نازل ہونے والی ہو۔ تو اے اللہ کے بندو تم پر دعا مانگنا لازم ہے ( مستدرک للحاکم )۔
حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم میں سے جس کے لیے دعا کا دروازہ کھولا گیا اس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیے گئے اور اللہ تعالیٰ سے مانگی جانے والی چیزوں میں اللہ تعالیٰ کو سب سے محبوب چیز عافیت کا سوال ہے۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا بیشک جو مصیبتیں نازل ہو چکی ہیں اور جو نازل ہونے والی ہیں دعا ان سب کو دور کرنے میں نفع دیتی ہے پس اے اللہ کے بندو دعا کو لازم پکڑ لو۔ ( ترمذی ) 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالی کے نزدیک دعا سے زیادہ باعث تکریم کوئی چیز نہیں ہے (ترمذی)۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے حضور نے فرمایا جو بندہ اللہ تعالی سے سوال نہیں کرتا اللہ اس پر غضب فرماتا ہے۔ ( ترمذی )۔

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 49-50 .کیا جنت میں صرف متقین جائیں گے

Surah Al-Haj (سُوۡرَةُ الحَجّ) Ayat 47-48.کیا ہم اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں