راستے اور بازار کے آداب(۲)
راستے کے اداب میں ایک اخلاقی اور روحانی پہلو بھی شامل ہے اور وہ ہے سلام کا جواب دینا ۔سلام کرنے والوں کو ان کے سلام کا جواب دینے کو حضور نبی کریم ﷺ نے راستے کا حق قرا ر دیا ہے ۔ سلام اور اس کا جواب دینا محبت ، الفت اور خیر سگالی کو فروغ دیتا ہے ۔ آج اس پُر فتن دور اور سماجی مصروفیات نے لوگوں کو اجنبی بنا دیا ہے لیکن راستے میں ایک مسکراہٹ اور سلام معاشرے میں خوشگوارماحول پیدا کرتا ہے ۔
اسلامی معاشرے کی بنیا د خیر خواہی اور اصلاح پر قائم ہے ۔اس لیے راستے میں نیکی کا حکم دینا اور برائی روکنا راستے کا حق ہے ۔ راستہ ایک عوامی مقام ہے اس لیے یہاں کوئی غلط کام دیکھ کر خاموش رہنا مناسب نہیں بلکہ نرمی ، حکمت اور شائستگی کے ساتھ اس برائی کو ختم کرنا راستے کے آداب میں سے ہے ۔ اسی طرح لوگوں میں نیکی کی دعوت عام کرنا بھی راستے کے حقوق میں شامل ہے ۔شور شرابہ بھی راستے کے حق کو پامال کرتا ہے ۔ اونچی آواز میں موسیقی چلانا ، بلاوجہ اور بے جا ہارن بجانا اور چیخ چیخ کر بات کرنا نہ صرف دوسروں کو تکلیف دیتا ہے بلکہ ذہنی سکون کو خراب کرتا ہے ۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے کچھ انصار ی صحابہ کرام کے پاس سے گزرے تو وہ راستے میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ آپ ﷺ نے فرمایااگر تمہارے لیے راستوں میں بیٹھنا ناگزیر ہے تو ہر سلام کرنے والے کے سلام کا جواب دو ، مظلوم کی مدد کرو اور لوگوں کو راستہ بتائو ۔(ترمذی )
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں حضور نبی کریم ﷺ نہ طبعا ًبد گو تھے اور نہ ہی تکلفا ًبد کلام تھے۔آپﷺ بازاروں اور دیگر مقامات پر شوروغوغاکرنے والے نہ تھے ۔آپﷺ برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے تھے بلکہ عفو ودرگزر اور چشم پوشی فرمانے والے تھے۔راستے میں گزرنے والے معذور اور ضعیف لوگوں کی مدد کرنا بھی راستے کے آداب میں شامل ہے ۔ بھٹکے ہوئے کو راستہ دکھانا اور بزرگوں کو سڑک پار کرانا بھی راستے کے حقوق میں شامل ہے۔
راستے کے حقوق دراصل ایک جامع اخلاقی نظام کا حصہ ہیں جو انسان کو مہذب ، باشعور اور باکردار بناتا ہے ۔ اسلام کی تعلیمات اس بات پر مبنی ہیں کہ راستہ صرف ایک گزر گاہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی مقام ہے جہاں ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسروں کا خیال رکھے ۔ اگر ہم راستے کے حقوق کا خیال رکھیں یعنی اپنی نگاہ کی حفاظت کریں ، کسی کو تکلیف نہ پہنچائیں، راستے میں رکاوٹ نے ڈالیں ، کوڑا کرکٹ نہ پھینکیں ، سلام کا جواب دیں ، کمزوروں کا خیال رکھیں تو معاشرہ حقیقی معنوں میں مہذب ، پُر سکون اور خوشگواربن جائے گا۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں