پیر، 5 مئی، 2025

امت مسلمہ کی ذمہ داریاں قرآن کی روشنی میں (۱)

 

امت مسلمہ کی ذمہ داریاں قرآن کی روشنی میں (۱)

جب امت مسلمہ کا ذکر آتا ہے تو ایک ایسی جماعت کا تصور ذہن میں آتا ہے جو صرف عبادات کی امین نہیں بلکہ انسانیت کی رہبر ، اخلاق کی معلم ، عدل کی علمبردار اور فکری انقلاب کی پیامبر ہو۔ قرآن مجید ایک ایسی الہامی کتاب ہے جو ہمیں زندگی گزارنے کا آئین فراہم کرتی ہے۔ جو امت مسلمہ کی فکری ، معاشرتی ، معاشی اور تمدنی ، تہذیبی ذمہ داریوں کا مکمل ماڈل فراہم کرتی ہے جن کو ادا کر کے ہم دنیا و آخرت میں کامیابیوں کو سمیٹ سکتے ہیں۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول تمہارے نگہبان اور گواہ ہوں ‘‘ (سورۃ البقرۃ آیت:۱۴۳)۔
اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو باقی امتوں پر فضیلت بخشی ہے اور ہمیں لوگوں پر گواہ مقرر فرمایا ہے۔اس لیے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم لوگوں کو توحید اور نیکی کی دعوت دیں اور یہی قرآن مجید کی بنیادی تعلیم ہے۔ اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا اور صرف اسی کے سامنے سر بسجود ہونا امت مسلمہ کی پہلی ذمہ داری ہے اور انبیاء کرام علیہ السلام بھی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا پیغام پہنچاتے تھے۔
 ارشادباری تعالیٰ ہے :’’ اور بیشک ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور شیطان سے بچو ‘‘۔ ( سورۃ النحل آیت : ۳۶)۔
امت مسلمہ کی دوسری بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ لوگوں کو نیکی کی دعوت دے اور برائی سے منع کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ تم بہترین امت ہو جولوگوں کے لیے نکالی گئی ہے ، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ‘‘۔( سورۃ آل عمران آیت ۱۱۰)۔
اس آیت مبارکہ میں امت مسلمہ کو بہترین امت قرار دیا گیا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں لوگوں کی اصلاح کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں عدل و انصاف کا قیام بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے بغیر کوئی بھی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا۔ اور عدل و انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ اس میں رشتہ داری کو مقدم نہ رکھا جائے۔ جب نبی کریم ﷺ  کو ایک عورت کے متعلق سفارش کی گئی کہ اسے چھوڑ دیں ہمارے قبیلے کی بدنامی ہو گی تو نبی کریمؐ نے فرمایا تم سے پہلی قومیں اسی لیے تباہ ہوئیں کہ اگر کوئی طاقتور جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی غریب یا کمزور جرم کرتا اسے سزا دی جاتی۔ آپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم اس کی جگہ فاطمہ بنت محمد ؐ  بھی ہوتی تو میں اسے بھی سزا دیتا۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے : اے ایمان والو انصاف پر قائم رہنے والے اور اللہ کے لیے گوہی دینے والے بنو خواہ وہ گمراہی خود تمہارے خلاف یا والدین اور رشتہ دار کے خلاف ہی کیوں نہ ہو ‘‘۔ ( سورۃ النساء￿ آیت: ۱۳۵)۔اس آیت مبارکہ کی روشنی میں امت مسلمہ کا فرض ہے کہ وہ کسی بھی رشتہ کو مقدم رکھے بغیر معاشرے میں عدل و انصاف کا بول بالا کرے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں