پیر، 1 جنوری، 2024

سیدنا صدیق اکبر ؓ کا عشق مصطفیﷺ

 

سیدنا صدیق اکبر ؓ  کا عشق مصطفیﷺ

 
عکس حسن کمال مصطفی ﷺ وارث مسند رسول ، ذات وصفات محمدی ﷺکے مظہر ، پیکر رشدو ہدایت ، چشمہ صدق و صفا حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ رشدو ہدایت کے وہ درخشندہ آفتاب ہیں جن کی ضیا پاش کرنوں نے کفر و شرک کے ظلمت کدوں میں حضور نبی کریم ﷺکے دین متین کا علم سر بلند کیا۔ آپ ؓ   رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت و کردار کی عظمت اور رفعت کی نورانی قندیلوں سے قصر انسانیت اور ایوان آدمیت کے درو بام منور و تاباں ہوئے۔ آپ نے اپنی ساری زندگی عشق مصطفی ﷺ میں گزاری۔ محبوب کے جلوئوں میں مست ہو کر مار یں کھائیں اور اذیتیں برداشت کی۔ لیکن عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن نہ چھوڑا۔ 
ابتدائی اسلام میں حضرت سیدنا صدیق اکبررضی اللہ تعالی عنہ نے بیت اللہ میں توحید و رسالت کا خطبہ دینا شروع کیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی نے بیت اللہ میں اس طرح کھلے عام خطبہ دیا۔ دشمنان اسلام پر آپ کی حق گوئی بجلی بن کر گری وہ سب اس خطبہ کو سن کر آگ بگولہ ہو گئے اور مشتعل ہو کر آپ کی شرافت و عزت اور رفعت و عظمت کے باوجود خوب مارا پیٹا۔ آپ کو دھکا دے کر گرا دیا گیا اور آپ کے جسم مبارک کو پائوں میں روندنا شروع کر دیا۔ اور ڈنڈوں سے بہت زیادہ مارا۔عتبہ بن ربیعہ ایک سفاک ظالم اور شقی القلب شخص تھا اس بد بخت نے اپنے بھاری تسمہ دار جوتے سے اس ظالمانہ انداز سے ماراکہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ لہو لہان ہو گئے اور آپ کے پیٹ پر چڑھ کر کودتا رہا۔ آپ رضی اللہ تعالی  زخمی ہو گئے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے خاندان بنی تیم کے چند لوگ آئے اور آپ کو بے ہوشی کی حالت میں اٹھا کر گھر پہنچایا۔ سارا دن آپ رضی اللہ تعالی عنہ پر غشی طاری رہی۔جب ہوش آیا آنکھیں کھولیں تو سب سے پہلے پوچھا مجھے بتائو میرے محبوب کا کیا حال ہے۔والدہ ماجدہ نے کہا کہ آپ کوئی اور بات کہیں لیکن حضرت سیدنا صدیق اکبرؓنے پھر وہی جملہ دہرایا۔پھر ام جمیل حضرت سیدنا عمر فاروق ؓ کی ہمشیرہ نے بتایا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیریت سے ہیں اور دارارقم میں تشریف فرما ہیں۔ 
رات کو جب لوگوں کا آنا جانا کم ہوا تو آپ کی والدہ ماجدہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو سہارا دے کر حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں لے گئیں۔صدیق اکبر ؓ حضور نبی کریم ﷺ کو دیکھتے ہی فرط محبت میں آپ  کے ساتھ لپٹ گئے اور اس حالت زار کو دیکھتے ہی رحمت دو عالمﷺنے اپنے رفیق صادق کی جبین مبارک پر بوسہ دیا۔ محبت کی اس داستان کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ لیکن وفا اور عشق کے باب میں یہ ایک ایسی داستان ہے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں