بدھ، 1 فروری، 2023

حضرت ضماد رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام

 

حضرت ضماد رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت ضماد رضی اللہ عنہ کا تعلق ازدشنوہ قبیلہ سے تھا، یہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ آئے، وہاں انھوں نے ایک مجلس میں روساء قریش سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اوران کی دعوت کا تذکرہ سنا، امیہ بن خلف نے آپ پر (نعوذ باللہ) دیوانہ ہونے کا اتہام لگا دیا ، ضماد نے کہا میں پاگل پن، دیوانگی اورجنات کے اثرات کا جھاڑ پھونک کے ذریعے علاج کرتا ہوں، یہ شخص کہا ں ہے؟ شاید اللہ تعالیٰ اس کو میرے ہاتھوں سے شفاء عطاء فرمادے ، دوسرے دن ضماد نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام ابراہیم پر نماز پڑھتے ہوئے پایا، آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ضماد نے کہا : اے ابن عبدالمطلب ! آپ کی قوم آپ کے بارے میں گمان کررہی ہے کہ آپ جنوں میں مبتلا ہوگئے ہیں آپ ان کے دیوتائوں میں عیب نکالتے ہیں، انھیں بے وقوف گردانتے ہیں، اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں آپ کا علاج کرسکتا ہوں، آپ اپنی بیماری کو گراں نہ سمجھیں کیونکہ میں آپ سے بھی زیادہ شدید بیمار وں کا علاج کرچکا ہوں، یہ سن کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خطبہ مسنونہ کے ابتدائی کلمات تلاوت فرمائے، ضماد کہنے لگے میں نے تو ایسا کلام پہلے کبھی نہیں سنا، اس میں تو سمندر سے زیادہ گہرائی ہے، ازہ کرم اسے دوبارہ ارشادفرمائیے ، آپ نے یہ کلمات مبارکہ دو ہرا دیے۔ ضماد نے استفسار کیا، آپ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں۔ ارشادہوا ، ایک اللہ پر ایمان لے آئو جس کا کوئی شریک نہیں، اورخود کو بتوں کی غلامی سے آزاد کرلو اوراس بات کی گواہی دو کہ میں اللہ کا رسول ہوں، ضماد نے کہا: اگر میں ایسا کر لوں تو مجھے کیا ملے گا، فرمایا : جنت ! ضماد نے کہا : اپنا دست اقدس بڑھائیے۔ میں آپ سے اسلام پر بیعت کرتا ہوں۔ آپ نے انھیں بیعت کرلیا ، اورارشادفرمایا یہ بیعت تمہاری قوم کے لیے بھی ہے، حضرت ضماد رضی اللہ عنہ نے کہا : بہت اچھا میری قوم کے لیے بھی۔
ایک عرصے بعد مسلمانوں کے ایک لشکر کا گزران کی قوم پر سے ہوا، لشکر کے امیر نے اپنے ساتھیوںسے پوچھا : کہیں تم نے اس قوم کی کوئی چیز تو نہیں لی، ایک لشکر ی نے کہا میں نے ان کا ایک لوٹا اٹھا لیا ہے، امیر نے کہا : فوراً واپس لوٹا دو، کیوں کہ یہ حضرت ضماد رضی اللہ عنہ کی قوم ہے، دوسری روایت میں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی قیادت میں ایک لشکر کا بھی وہاں سے گزرہوا، لشکریوں کو وہاں بیس اونٹ الگ تھلک ملے تو انھوں نے ساتھ لے لیے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خبر ہوئی کہ یہ تو حضرت ضماد رضی اللہ عنہ کی قوم کے ہیں تو انھوں نے وہ اونٹ واپس فرمادئیے ۔ (ماخوذاز: مسلم ، بیہقی ، نسائی، ابونعیم)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

توحید کیوں ضروری ہے؟