تعلیم اورارشاداتِ نبوی
٭ اللہ تبار ک وتعالیٰ نے مجھے جس ہدایت اورعلم کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، اس کی مثال ابر کثیر جیسی ہے کہ وہ زمین کے ایک ایسے ٹکڑے پر برستا ہے ، جو اسے قبول کرتا ہے اوراس سے بہت زیادہ ہریالی اگالیتا ہے اورزمین کا ایک ٹکڑا ایسا ہے جو پانی کو روک لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے لوگوں کو بھی نفع فرماتا ہے۔وہ اس سے خود بھی سیراب ہوتے ہیں مویشیوں کو پلاتے ہیں اورکھیتی باڑی بھی کرتے ہیں اور ایک ایسا(بدنصیب)خطہ بھی ہے جس میں نہ تو پانی ٹھہرتا ہے اورنہ ہی اس سے کوئی سبزہ پیدا ہوتا ہے ۔(بخاری شریف)
امام غزالی فرماتے ہیں، آپ نے پہلی مثال اُن لوگوں کے بارے میں ارشادفرمائی ہے جو اپنے علم سے فائدہ اٹھاتے ہیں دوسری مثال اُن لوگوں کی ہے جو اپنے علم سے دوسروں کو بھی نفع پہنچاتے ہیں اورتیسری مثال اُن محروم لوگوں کی ہے جو اپنے علم سے نہ تو خود فائدہ اٹھاتے ہیں اورنہ دوسروں تک اس کا فیض پہنچاتے ہیں۔
٭ بہترین عطیہ اورسب سے اچھا تحفہ کیا ہے؟دانائی کی وہ ایک بات جسے تم سنوپھر اسے محفوظ رکھ کر اپنے دوسرے بھائی کے پاس لے جائو اوراسے سکھادو(تمہارایہ عمل)ایک سال کی عبادت کے برابر ہے۔(مجمع الزوئد)
٭ بے شک اللہ تعالیٰ اس کے ملائکہ آسمانوں اورزمینوں کی مخلوق حتیٰ کہ چیونٹی اپنے بل میں اورمچھلی دریا میں لوگوں کو نیکی سکھانے والوں کے لیے رحمت کی دعا مانگتے ہیں۔(جامع ترمذی)
٭ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کاشانہ اقدس سے باہر تشریف لائے تو آپ نے دو مجلسیں دیکھیں ، ان میں سے ایک مجلس والے اللہ تبار ک وتعالیٰ سے دعا مانگ رہے تھے اوراُس کی طرف متوجہ تھے اوردوسری مجلس والے اہل حلقہ کی تعلیم وتلقین میں مصروف تھے۔آپ نے ارشادفرمایا:یہ لوگ اللہ تبار ک وتعالیٰ سے سوال کرتے ہیں اگر وہ چاہے تو ان کو عطا کرے ، اگر چاہے تو روک دے، لیکن وہ گروہ لوگوں کو تعلیم دے رہا ہے اوربے شک مجھے بھی معلم بناکر بھیجا گیا ہے پھر آپ ان کی طرف تشریف لے گئے اوران کے درمیان بیٹھ گئے ۔(سنن ابن ماجہ)
٭ دوقسم کے انسانوں پر رشک کیا جاسکتا ہے ، ایک وہ شخص جس کو اللہ تبار ک وتعالیٰ نے دین کی بصیرت عطافرمائی اوروہ اس کے ساتھ فیصلہ بھی کرتا ہے اوراسے لوگوں کو سکھاتا بھی ہے اوردوسرا وہ شخص جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے مال کی فراوانی عطافرمائی اوراس کو خیر کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق بھی نصیب ہوئی ۔(بخاری)
٭ ایک اچھی بات جسے کوئی مسلمان سن کر دوسروں کو سکھاتا ہے اورخود بھی اس پر عمل کرتا ہے وہ اس کے لیے ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔(احیاء العلوم : امام محمد غزالیؒ)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں