پیر، 12 دسمبر، 2022

تیرے کرم پر منحصر۔۔

 

تیرے کرم پر منحصر۔۔

٭ حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (کسی سابقہ امت کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے )فرمایا:کہ ایک شخص نے کہا :میں آج کی رات میں ضرور صدقہ کروں گا، چنانچہ وہ صدقے کا مال لے کرنکلااوربے خبری میں کسی چور کو دے آیا(بستی کے لوگوں کو بھی کسی طرح اطلاع ہوگئی )،صبح ہوئی تو لوگ آپس میں باتیں کرنے لگے کہ آج رات ایک چور کو صدقہ دے دیاگیاوہ شخص کہنے لگا، یااللہ!ساری حمد تیرے ہی لیے ہے ،کیا میرا صدقہ ایک چور کو پہنچ گیا ۔اب میں (اس کے ازالے کے لیے )آج رات بھی ضرور صدقہ کروں گا۔چنانچہ وہ دوسری رات صدقے کا مال لے کر نکلااورمستحق جان کروہ صدقہ ایک ایسی عورت کو دے آیا جس کا کردار درست نہ تھا،صبح ہوئی تولوگ پھر باتیں کرنے لگے کہ لوجی کیسی خراب عورت کو صدقہ دے دیا گیا ،وہ شخص متأسف ہوکرکہنے لگا:للہ الحمد کیا میرا صدقہ ایک بدکار عورت کو چلاگیا ، میں آج پھر لازماًصدقہ کروں گا۔تیسری رات یہ صدقہ کا مال لے کر نکلاتو نادانستگی میں ایک مالدار شخص کو تھما دیا ، لوگوں میں پھر چہ مگویٔ ہوئی کہ آج رات تو ایک غیر مستحق مالدار کو صدقہ دے دیا گیا ،وہ شخص کہنے لگا:اے اللہ تبارک وتعالیٰ ہر تعریف کے لائق صرف تیری ہی ذات ہے (یہ میرے ساتھ کیا ہوا)میرا صدقہ ایک چور، بدکارعورت اورایک مالدار پر خرچ ہوگیا تو اس صدقہ دینے والے کو مطلع کیاگیا کہ تیرا صدقہ قبول فرمالیا گیا ہے (یہ بے کار نہیں گیا بلکہ ) تیراوہ صدقہ جو چور پر صرف ہوا تو یہ امکان ہے کہ وہ اب چوری سے باز رہے ،وہ صدقہ جو ایک ناپسندیدہ عورت کو چلا گیا تو ممکن ہے کہ وہ خود کو گناہ سے محفوظ کرلے اوراسی طرح تیرا وہ صدقہ جو ایک مالدار کے حوالے ہوگیا تو شایدوہ مالدار بھی اس سے عبرت پکڑے اورخود بھی اللہ رب العزت کے دیے ہوئے مال میں سے خرچ کرنے لگے۔(بخاری،مسلم،ترمذی)
٭ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضورنبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں غزوئہ تبوک میں شریک ہوئے جب ،واپس آئے توآپ نے ارشادفرمایا:بے شک کچھ لوگ ہمارے ساتھ شریک نہیں ہوسکے وہ مدینہ میں ہی قیام پذیر رہے نہ انھوں نے کسی منزل کا سفرکیا نہ کسی مصرف میں اخراجات کیے اورہمارے ساتھ کسی پہاڑی راستے سے گزرے اورنہ کسی وادی کو طے کیالیکن اس کے باوجود وہ ہمارے ساتھ ثواب میں شریک ہیں ۔صحابہ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ !وہ ہمارے ساتھ کیسے شریک ہوسکتے ہیں، حالانکہ وہ مدینہ میں قیام پذیر رہے۔آپ نے ارشادفرمایا:انہیں کسی بیماری نے روک لیا تھا (یعنی وہ بدنیتی یا تساہل کی وجہ سے پیچھے نہیں رہے بلکہ بیماری ان کے آڑے آگئی ورنہ ان کی نیت تو جہاد میں شمولیت کی تھی)۔(بخاری ، ابودائود)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں