منگل، 1 جولائی، 2025

Surah Fatir (سُوۡرَةُ فَاطِر) Ayat 41.کیا ہم نے اپنے رب کو ناراض کر دیا ہے

Surah Fatir (سُوۡرَةُ فَاطِر) Ayat 40.کیا ہمیں دنیا کا دھوکہ لگ چکا ہے

امت محمدیہ کا مقصدِ وجود

 

امت محمدیہ کا مقصدِ وجود

اللہ تعالی جل شانہ نے امت محمدیہ ؐ کو باقی تمام امت پر فضیلت بخشی ہے۔ جو مقام و مرتبہ امت محمدیہ ؐ کا ہے وہ اور کسی امت کو حاصل نہیں۔ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو فضیلت عطا کرتا ہے تو اس پر کچھ خاص ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں۔ امت محمدیہ ؐ کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بھی ارشاد فرمائی ہے۔
’’ تم بہترین امت ان سب امتوں میں ہو جو لوگوں میں ظاہر ہوئی بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ‘‘۔ (سورۃ اٰل عمرآن )۔
اس آیت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امت مسلمہ کا وجود دنیا میں صرف اپنی بھلائی کے لیے نہیں بلکہ تمام انسانیت کی اصلاح ، بھلائی اور رہنمائی کے لیے ہے۔ امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا میں حق کا پر چم بلند کرے اور لوگوں کو گمراہی کے اندھیروں سے نکالے۔ 
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد لوگوں کو کفر و شرک کے اندھیروں سے نکال کر روشنیوں کی طرف لانا تھا۔
 ارشاد باری تعالی ہے : ’’وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا کہ ان پر اس کی آیتیں پڑھتے ہیں اور انہیں پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتے ہیں ‘‘۔ ( سورۃ الجمعہ )۔
امت محمدیہ ؐ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی پیغام کو دنیا میں عام کرنے کی امین ہے۔ نبی کریمﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا میرا آج کا پیغام ان تک پہنچا دو جو آج یہاں موجود نہیں۔ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا میری طرف سے دوسروں کو پہنچا دو اگرچہ وہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔ ( بخاری )۔
اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو لوگوں پر گواہی دینے والا بنایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول تمہارے نگہبان اور گواہ ‘‘۔( سورۃ البقرۃ )۔
امت محمدیہ ؐ دنیا میں اسلام کی نمائندہ ہے۔اسی لیے ہمیں اپنی عبادات ، معاملات ، اخلاق و کردار اور سچائی اس قدر بلند کرنی چاہیے کہ غیر مسلم ہمیں دیکھ کر متاثر ہوں اور مشرف بہ اسلام ہو جائیں۔ دعوت دین اور تبلیغ دین امت محمدیہ ؐ کا انفرادی اور اجتماعی فریضہ ہے۔اور اس فریضہ کو پورا کرنے کے لیے ہمارے اخلاق و کردار بہت بلند ہونے چاہیئں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے بہترین اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔ امت محمدیہ ؐ کا مقصد صرف نماز ، روزہ یا ذاتی نجات تک محدود نہیں بلکہ اس مت کا وجود اجتماعی خیر ، اصلاح ، عدل ، اخلا ق اور دعوت دین کے لیے ہے۔ ہمیں مل کر محبت و امن کا پیغام عام کرنا ہو گا۔ اسی میں ہی دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔

پیر، 30 جون، 2025

حکمت کی بات - صرف اللہ کو پکارنا آخر کیوں؟

Surah Fatir (سُوۡرَةُ فَاطِر) Ayat 39 Part-02.کیا ہم سب اپنے رب کے ناشکر...

Surah Fatir (سُوۡرَةُ فَاطِر) Ayat 39 Part-01.کیا ہم اللہ تعالی کا خلیفہ...

مرنے کے بعد انسان کی آرزوئیں(۲)


 

  مرنے کے بعد انسان کی آرزوئیں(۲)

جب مرنے کے بعد انسان کو اس کے اعمال کی وجہ سے سزا دی جائے گی تو وہ آرزو کرے گا اے کاش میں نے دنیا میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کی ہوتی ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : جس دن ان کے چہرے آگ میں بار بار الٹے جائیں گے تو کہتے ہوں گے ہائے اے کاش ہم نے اللہ کا حکم مانا ہوتا اور اس کے رسول کا حکم مانا ہوتا ۔ ( سورۃ الاحزاب :۶۶)۔
اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا کبیرہ گناہ ہے اور اس کی معافی نہیں ہے ۔ جب قیامت کے دن مشرک یعنی شرک کرنے والے کو عذاب ہوگا تو کہے گا  اے کاش میں نے اپنے رب کا کسی کو شریک نہ کیا ہوتا ۔ (سورۃ الکھف )۔ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ جب انہیں جہنم کی آگ پر کھڑا کیا جائے گا تو یہ تمنا کرے گا کہ کاش میں دنیا میں واپس چلا جاوں اور اللہ تعالیٰ کی آیات کو نہ جھٹلاوں اور مسلمان ہو جاوں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :  اور کبھی تم دیکھو جب وہ آگ پر کھڑے کیے جائیں گے تو کہیں گے کاش کسی طرح ہم واپس بھیجے جائیں اور اپنے رب کی آیتیں نہ جھٹلائیں اور مسلمان ہو جائیں ۔ ( سورۃ الانعام :آیت ۷۲)۔
آج مسلمان بھی اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بھلا کر اپنی زندگیا ں بسر کر رہے ہیں ۔ سود ، غیبت ، چغلی ، دھوکہ دہی ، ذخیرہ اندوزی ، جھوٹ عام ہو چکا ہے مسلمانوں میں اتحاد ختم ہو چکا ہے جس کی بڑی وجہ قرآن و سنت کی پیروی نہ کرنا ہے ۔ 
سورۃا لاحزاب میں ارشادباری تعالیٰ ہے : اور جس دن ظالم اپنے ہاتھ چبا لے گا اور کہے گا کہ ہائے کسی طرح سے میں نے رسول اللہﷺ کی راہ لی ہوتی۔یعنی جو لوگ دنیا میں سیرت النبی ﷺ کی پیروی نہیں کرتے اپنی زندگیاں اسلامی احکامات کے مطابق بسر نہیں کرتے وہ اس دن آرزو کریں گے کہ کاش ہم نے دنیا میں نبی کریم ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کی ہوتی اور آج نجات پا جاتے ۔ انسان مرنے کے بعد آرزو کرے گا کہ اے اللہ تو نے ہمیں تھوڑی مہلت دی ہوتی تاکہ ہم تیری راہ میں صدقہ و خیرات کر لیتے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور ہمارے دیے میں سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے پھر کہنے لگے اے میرے رب تو نے مجھے تھوڑی مدت تک کیوں مہلت نہ دی کہ میں صدقہ دیتا اور نیکوں میں ہوتا ۔ (سورۃ المنٰفقون )۔
قرآن مجید فرقان حمید کی ان آیات کی روشنی میں ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مرنے کے بعد تمام تر خواہشات صرف حسرت ہی رہ جائیں گی ۔لہذا ابھی وقت ہے ہم اپنے اعمال کو درست کریں ۔نیک سیرت دوست بنائیں ، صدقہ و خیرات کریں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی پیروی کریں ۔