جمعرات، 8 مئی، 2025

ضروریات دین پر ایمان لانا ضروری ہے

 

ضروریات دین پر ایمان لانا ضروری ہے

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ رسول ایمان لا یا اس پر جو اس کے رب کے پاس سے اس پر اترا اور ایمان والے سب نے مانا اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو یہ کہتے ہوئے کہ ہم اس کے کسی رسول پر ایمان لانے میں فرق نہیں کرتے اور عرض کی کہ ہم نے سنا اور مانا تیری معافی ہو اے رب ہمارے۔ اور تیری ہی طرف پھرنا ہے ‘‘۔ 
۱:اس آیت مبارکہ میں اصول ضروریات دین کا بیان ہے کہ ہر ایک کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اللہ پر ایمان لائے یعنی زبان سے اقرار کرے اور دل سے تصدیق کرے کہ اللہ واحد ہے اس کا کو ئی شریک نہیں اس کے تمام اسمائے حسنی و صفات عالیہ پر ایمان لائے اوریقین کرے اور مانے کہ وہ علیم ہے اور ہر شے پر قادر ہے اس کے علم و قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے۔
۲:ملائکہ پر ایمان لانا اس طرح یقین کرے اور مانے کہ وہ موجود ہیں معصوم ہیں پاک ہیں اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان احکام و پیام کا ذریعہ ہیں۔
۳:اللہ تعالیٰ کی کتابوں پر ایمان لانا اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے جو کتابیں نازل فرمائیں اور اپنے رسولوں پر بطریق وحی بھیجیں۔ بے شک و شبہ سب حق و صدق اور اللہ کی طرف سے ہیں اور قرآن مجید تغیر و تبدل و تحریف سے محفوظ ہے۔
۴: رسولوں پر ایمان لانا اس طرح کہ اللہ نے جس قدر رسول و نبی خلق کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمائے وہ اللہ کے رسول ہیں، اس کی وحی کے امین ہیں، گناہوں سے پاک و معصوم ہیں، سارے خلق سے افضل و اکرم ہیں۔ ان میں سے بعض رسول بعض سے افضل ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اور ہم کسی جان پر بوجھ نہیں رکھتے مگر اس کی طاقت بھر اس کا فائدہ ہی جو اچھا کمایا۔ اور اس کا نقصان ہے جو برائی کمائی۔ اے رب ہمارے ہمیں نہ پکڑ،  اگر ہم بھولیں یا چوکیں اے رب ہمارے۔ اور ہم پر بھاری بوجھ نہ رکھ جیسا تو نے ہم سے پچھلوں پر رکھا تھا۔ اے رب  ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کو ہم اٹھا نہ سکیں اور ہمیں معاف فرما دے اور بخش دے اور ہم پر رحم فرما۔ توہمارا مولیٰ ہے ، تو کافروں پر ہمیں مدد دے ‘‘۔ 
اس آیت مبارکہ میں مومن بندوں کو طریقہ دعا کی تلقین فرمائی گئی ہے کہ وہ اس طرح اپنے رب سے دعا کریں۔ اس میں بتا یا گیا کہ ہر جان کو اس کے نیک کاموں کا اجر و ثواب عطاہو گا اور برے اعمال کا عذاب دستیاب ہو گا۔

حکمت کی بات - اِلٰہ کا مطلب؟

حکمت کی بات - ہمارا معبودِ حقیقی کون؟

Surah Al-Ahzab (سُوۡرَةُ الاٴحزَاب) Ayat 01-03 Part-01.کیا ہماری روش زند...

بدھ، 7 مئی، 2025

توبہ اور استغفار کی فضیلت

 

توبہ اور استغفار کی فضیلت

قر آن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اور (یہ) ایسے لوگ ہیں کہ جب کوئی برائی کر بیٹھتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ پھر اپنے گناہوں کی معا فی مانگتے ہیں ، اور اللہ کے سوا گناہوں کی بخشش کون کرتا ہے ، اور پھر جو گناہ وہ کر بیٹھتے تھے ان پر جان بوجھ کر اصرار بھی نہیں کرتے ‘‘۔
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اور (اے حبیب !) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اور اللہ تعالی سے معافی مانگتے اور رسولؐ  بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر)ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے ‘‘۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اور اے لوگو! تم اپنے رب سے( گناہوں کی) بخشش مانگو پھر اس کی جناب میں( صدق دل سے) رجوع کرو ، وہ تم پر آسمان سے مو سلا دھار بارش بھیجے گا اور تمہاری قوت پر قوت بڑھائے گا اور تم مجرم بنتے ہوئے اس سے رو گردانی نا کرنا ‘‘۔ 
احادیث مبارکہ میں بھی توبہ کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔
’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا:تم اس شخص کی خوشی سے متعلق کیا کہتے ہو جس کی اونٹنی کسی سنسان جنگل میں اپنی نکیل کی رسی کھینچتی ہوئی نکل جائے ، جس سر زمین میں کھانے پینے کی کوئی چیز نہ ہو اور اس اونٹنی پر اس کے کھانے پینے کی چیزیں لدی ہوں ، وہ شخص اس اونٹنی کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک جائے ،پھر وہ اونٹنی ایک درخت کے تنے کے پاس سے گزرے اور اس کی نکیل اس تنے میں اٹک جائے اور اس شخص کو وہ اونٹنی تنے میں اٹکی ہوئی مل جائے ، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ؐ!وہ بہت خوش ہو گا ، حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا : سنو ! بخدا ! اللہ تعالی کو اپنے بندے کی توبہ پر اس شخص کی سواری کے (ملنے کی ) بہ نسبت زیادہ خوشی ہوتی ہے‘‘۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا : گناہ سے (سچی) توبہ کرنے ولا اس شخص کی مانند ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں ‘‘۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم گنا کرتے تھے کہ حضور نبی اکرم ﷺایک مجلس کے اندر سو مرتبہ کہا کرتے۔ اے رب ! مجھے بخش دے اور میری توبہ قبول فرما بے شک تو توبہ قبول کرنے والا ، رحم فرمانے والا ہے ‘‘۔