Maarifulquran O Hadees
اللہ تعالی کی طرف سے بہت ہی آسان فلاح کا راستہ سنیے اور عمل کیجئے تاکہ ہم سب فلاح پا لیں . ہر قسم کی تفرقہ بازی اور مسلکی اختلافات سے بالاتر آسان اور سلیس زبان میں
بدھ، 20 نومبر، 2024
معاشی خود انحصاری (۱)
معاشی خود انحصاری (۱)
آج کے دور میں معاشی نظام عالم انسانیت کی قیادت کر رہا ہے۔ انسان کی نفسانی خواہشات لامحدود ہیں اور ان کو پورا کرنے کے لیے وسائل محدود ہیں۔ انسان ہر وقت اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے وسائل کی تلاش میں لگا رہے اور یہی اس کی ساری معاشی جدو جہد کا مقصد ہونا چاہیے۔ لیکن وہ اس بات کا خیال نہیں کرتا کہ وہ جن ذرائع سے اپنی خواہشات کی تکمیل کر رہا ہے وہ حلال ہیں یا حرام۔
حضور نبی رحمت ﷺ نے اہل ایمان کو جو معاشی لائحہ عمل دیا ہے اس میں یہ بات واضح ہے کہ مومن کی خواہشات لا محدود نہیں ہوتیں بلکہ اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی خواہشات پر کٹرول رکھے۔ آپ نے اتباع نفس اور جائز اور ناجائز میں تمیز نہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اور ساتھ میں یہ بات بھی واضح کر دی کہ تمہاری زندگی افراط و تفریط سے پاک ہونی چاہیے یہ نہ ہو کہ تم ساری زندگی ہاتھ پہ ہاتھ رکھ بیٹھے رہو اور نہ یہ ہو کہ ساری زندگی دولت کو جمع کرنے میں لگے رہو بلکہ تمہاری زندگی میں اعتدال ہونا چاہیے اور اعتدال کا دامن کسی بھی وقت ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔
رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :
” تین چیزیں ایسی ہیں جو انسان کی ہلاکت کا سبب ہیں حد درجہ بخل ، اتباع نفس اور تکبر و غرور اور تین باتیں انسان کے لیے باعث نجات ہیں۔ ہر حال میں خوف خدا ، حالت فقراور حالت غنی میں میانہ روی اور ناراضگی اور خوشی دونوں صورتوں میں عدل کا دامن نہ چھوڑنا۔“
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بنی آدم کا تین چیزوں کے سوا کسی چیز پر کوئی حق نہیں۔رہائش کے لیے گھر ، ستر پوشی کے لیے کپڑا اور حسب ضرورت روٹی اور پانی۔
اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں اگر انسان محض اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرے تو اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں اور وہ کسی بھی پریشانی میں مبتلا نہیں ہو گا۔ اگر انسان اپنے مکان کی زیب و آرائش پر کروڑوں خرچ کر دے یا پھر اپنی لذت کو پورا کرنے کے لیے طرح طرح کے کھانے بنائے یا پھر ظاہری آرائش کے لیے مہنگے کپڑے پہنے اور اس کے لیے سر گرم رہے اور اپنے وسائل پر نظر نہ رکھے اور ان کو پورا کرنے کے لیے قرض تک لے تو یہ بعد میں پریشانی کا باعث بنے گا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمان کا بدترین مال وہ ہے جو غیر ضروری تعمیرات پر خرچ ہوتا ہے۔
حضور نبی رحمت ﷺ نے اہل ایمان کو جو معاشی لائحہ عمل دیا ہے اس میں یہ بات واضح ہے کہ مومن کی خواہشات لا محدود نہیں ہوتیں بلکہ اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی خواہشات پر کٹرول رکھے۔ آپ نے اتباع نفس اور جائز اور ناجائز میں تمیز نہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اور ساتھ میں یہ بات بھی واضح کر دی کہ تمہاری زندگی افراط و تفریط سے پاک ہونی چاہیے یہ نہ ہو کہ تم ساری زندگی ہاتھ پہ ہاتھ رکھ بیٹھے رہو اور نہ یہ ہو کہ ساری زندگی دولت کو جمع کرنے میں لگے رہو بلکہ تمہاری زندگی میں اعتدال ہونا چاہیے اور اعتدال کا دامن کسی بھی وقت ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔
رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :
” تین چیزیں ایسی ہیں جو انسان کی ہلاکت کا سبب ہیں حد درجہ بخل ، اتباع نفس اور تکبر و غرور اور تین باتیں انسان کے لیے باعث نجات ہیں۔ ہر حال میں خوف خدا ، حالت فقراور حالت غنی میں میانہ روی اور ناراضگی اور خوشی دونوں صورتوں میں عدل کا دامن نہ چھوڑنا۔“
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بنی آدم کا تین چیزوں کے سوا کسی چیز پر کوئی حق نہیں۔رہائش کے لیے گھر ، ستر پوشی کے لیے کپڑا اور حسب ضرورت روٹی اور پانی۔
اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں اگر انسان محض اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرے تو اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں اور وہ کسی بھی پریشانی میں مبتلا نہیں ہو گا۔ اگر انسان اپنے مکان کی زیب و آرائش پر کروڑوں خرچ کر دے یا پھر اپنی لذت کو پورا کرنے کے لیے طرح طرح کے کھانے بنائے یا پھر ظاہری آرائش کے لیے مہنگے کپڑے پہنے اور اس کے لیے سر گرم رہے اور اپنے وسائل پر نظر نہ رکھے اور ان کو پورا کرنے کے لیے قرض تک لے تو یہ بعد میں پریشانی کا باعث بنے گا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمان کا بدترین مال وہ ہے جو غیر ضروری تعمیرات پر خرچ ہوتا ہے۔
منگل، 19 نومبر، 2024
ماحولیاتی آلودگی(۲)
ماحولیاتی آلودگی(۲)
صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا کہ : ”تم میں سے کوئی شخص ایسے رکے پانی میں پیشاب نہ کرے جو چلتا نہیں ، پھر اس میں غسل بھی کرے“۔
فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والا پانی دریاﺅں اور نہروں میں شامل ہو کر اس کو آلودہ کر دیتا ہے جس کی وجہ سے جب یہ پانی فصلوں کو دیا جاتا ہے تو فصلوں کی پیداوار پر کافی منفی اثر پڑتا ہے۔ اور جب یہ پانی جانور پیتے ہیں تو اس سے وہ بھی بیمار ہو جاتے ہیں۔ اس لیے فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والے پانی کو مناسب طریقے سے ضائع کرنا چاہیے تا کہ یہ پانی صاف پانی میں شامل ہو کر اس کو زہریلا نہ کرے۔ اس طرح پٹرول کی ریفائنری ، صابن سازی کے فضلاتی مادے ، نمک ، تیزاب ، نقصان دہ کیمیکل اور صنعتی کوڑ ا کرکٹ زمینی آلودگی کا سبب بنتا ہے۔ جب بارش ہوتی ہے تو صاف شفاف پانی زمینی آلودگی میں شامل ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے زمین بڑی تیزی سے نا قابل استعمال ہو تی جا رہی ہے۔
اسلام نے انسانوں کے مردہ اجسام کو دفنانے کا حکم دیا تا کہ مردہ جسم سے پیدا ہونے والی آلودگی ماحول کو خراب نہ کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ” پھر اسے موت دی اور قبر میں پہنچایا “۔ اس کے علاوہ جب کوئی جانور مر جائے تو ہم اسے ایسے ہی کھلے میدان میں پھینک آتے ہیں جس کی وجہ سے ماحول میں بہت زیادہ تعفن اٹھنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس لیے جب بھی کو ئی جانور مرے یا ذبح کرنے کے بعد اس کے جو بقایا جات بچ جاتے ہیں ان کو مناسب طریقے سے دفنا دیں تا کہ ماحول آلودہ نہ ہو۔ شور کی آلودگی بھی ماحولیاتی آلودگی کی ایک قسم ہے جو ہماری زندگیوں میں براہ راست اور بلا واسطہ بہت زیادہ اثرات مرتب کر رہی ہے۔ شور کی آلودگی میں بہت سی آوازیں شامل ہیں جن کو ہم عام زندگی میں نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن یہ ہماری زندگی پر بہت گہرے اثرات چھوڑ رہیں ہیں۔ مثلا ً شہروں میں بے جا ٹریفک ، بسوں اور ٹرکوں میں پریشر ہارن کا استعمال ، جنریٹر کا شور۔ اور اسکے علاوہ ہمسائیوں کی مشکلات سے بے خبر گھروں کے اندر اونچی آوازمیں سپیکر وغیرہ کا استعمال۔ہو سکتا ہے کہ ساتھ والے گھر میں کوئی بیمار موجود ہو یا پھر کوئی نماز پڑھ رہا ہو۔ اس سے نہ صرف شور کی آلودگی پیدا ہوتی ہے بلکہ ہمسائیوں کے حقوق کی خلاف ورزی بھی ہو تی جو کہ اللہ تعالی کی ناراضگی کا سبب بنتی ہے۔
ایک ریسرچ کے مطابق اگر کوئی شخص مسلسل شور کے ماحول میں زندگی بسر کرتا ہے تو اسکے سننے کی حس بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اور اسکے علاوہ مصنوعی شور کی آلودگی جس میں ٹریفک کا شور شامل ہے کی وجہ سے انسان اعصابی تناﺅ ، بے چینی اور طبیعت میں چڑ چڑے پن کا شکار ہوجاتا ہے۔
فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والا پانی دریاﺅں اور نہروں میں شامل ہو کر اس کو آلودہ کر دیتا ہے جس کی وجہ سے جب یہ پانی فصلوں کو دیا جاتا ہے تو فصلوں کی پیداوار پر کافی منفی اثر پڑتا ہے۔ اور جب یہ پانی جانور پیتے ہیں تو اس سے وہ بھی بیمار ہو جاتے ہیں۔ اس لیے فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والے پانی کو مناسب طریقے سے ضائع کرنا چاہیے تا کہ یہ پانی صاف پانی میں شامل ہو کر اس کو زہریلا نہ کرے۔ اس طرح پٹرول کی ریفائنری ، صابن سازی کے فضلاتی مادے ، نمک ، تیزاب ، نقصان دہ کیمیکل اور صنعتی کوڑ ا کرکٹ زمینی آلودگی کا سبب بنتا ہے۔ جب بارش ہوتی ہے تو صاف شفاف پانی زمینی آلودگی میں شامل ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے زمین بڑی تیزی سے نا قابل استعمال ہو تی جا رہی ہے۔
اسلام نے انسانوں کے مردہ اجسام کو دفنانے کا حکم دیا تا کہ مردہ جسم سے پیدا ہونے والی آلودگی ماحول کو خراب نہ کرے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ” پھر اسے موت دی اور قبر میں پہنچایا “۔ اس کے علاوہ جب کوئی جانور مر جائے تو ہم اسے ایسے ہی کھلے میدان میں پھینک آتے ہیں جس کی وجہ سے ماحول میں بہت زیادہ تعفن اٹھنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس لیے جب بھی کو ئی جانور مرے یا ذبح کرنے کے بعد اس کے جو بقایا جات بچ جاتے ہیں ان کو مناسب طریقے سے دفنا دیں تا کہ ماحول آلودہ نہ ہو۔ شور کی آلودگی بھی ماحولیاتی آلودگی کی ایک قسم ہے جو ہماری زندگیوں میں براہ راست اور بلا واسطہ بہت زیادہ اثرات مرتب کر رہی ہے۔ شور کی آلودگی میں بہت سی آوازیں شامل ہیں جن کو ہم عام زندگی میں نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن یہ ہماری زندگی پر بہت گہرے اثرات چھوڑ رہیں ہیں۔ مثلا ً شہروں میں بے جا ٹریفک ، بسوں اور ٹرکوں میں پریشر ہارن کا استعمال ، جنریٹر کا شور۔ اور اسکے علاوہ ہمسائیوں کی مشکلات سے بے خبر گھروں کے اندر اونچی آوازمیں سپیکر وغیرہ کا استعمال۔ہو سکتا ہے کہ ساتھ والے گھر میں کوئی بیمار موجود ہو یا پھر کوئی نماز پڑھ رہا ہو۔ اس سے نہ صرف شور کی آلودگی پیدا ہوتی ہے بلکہ ہمسائیوں کے حقوق کی خلاف ورزی بھی ہو تی جو کہ اللہ تعالی کی ناراضگی کا سبب بنتی ہے۔
ایک ریسرچ کے مطابق اگر کوئی شخص مسلسل شور کے ماحول میں زندگی بسر کرتا ہے تو اسکے سننے کی حس بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اور اسکے علاوہ مصنوعی شور کی آلودگی جس میں ٹریفک کا شور شامل ہے کی وجہ سے انسان اعصابی تناﺅ ، بے چینی اور طبیعت میں چڑ چڑے پن کا شکار ہوجاتا ہے۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
-
معاشرتی حقوق (۱) اگر کسی قوم کے دل میں باہمی محبت و ایثار کی بجائے نفر ت و عداوت کے جذبات پرورش پا رہے ہوں وہ قوم کبھی بھی سیسہ پلائی د...
-
تربیت اولاد اور عشق مصطفیﷺ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کا تعلق سیرت مصطفی ﷺ کے ساتھ جوڑیں۔ تا کہ سیرت مبارکہ ان کے لیے مشعل راہ بنے ا...
-
روزہ اور اس کے مقاصد(۲) روزے کا پانچواں مقصد ضبط نفس کا حصول ہے۔ بھوک اور جنسی خواہش کے ساتھ تیسری خواہش راحت پسندی بھی اس کی زد میں آ...