ہفتہ، 31 مئی، 2025

قرآن مجید اور مظاہر فطرت

 

قرآن مجید اور مظاہر فطرت

قرآن مجید ایک ہمہ گیر ضابطہ حیات ہے جو انسان کو اس کی تخلیق ، زندگی کے مقصد ، کائنات کی حقیقت اور خالق کائنات کے عرفان کی طرف رہنمائی فراہم کرتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نہ صرف ہدایت ، عبرت اور علم کا سر چشمہ بنایا ہے بلکہ اس میں کائنات کے بے شمار مظاہر فطرت کو بیان کر کے انسان کو غورو فکر کی دعوت دی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو مسلسل تدبر ، تفکر اور بصیرت کی دعوت دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات دن کی باہم بدلیوں میں نشانیاں ہیں عقلمندوں کے لیے‘‘۔ ( سورۃ آل عمران )۔
اس آیت میں اس بات کی واضح دلیل ہے کہ فطرت کے مظاہر میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نہ مٹنے والے نشانات موجود ہیں اور یہ نشانیاں ان لوگوں کے لیے جو عقل و شعور رکھتے ہیں اور کائنات کو صرف ظاہری آنکھ سے نہیں بلکہ دل کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آسمان ،چاند اور سورج اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مظہر ہیں جو اپنے مقررہ وقت پر طلوع و غروب ہوتے ہیں۔ سورۃ نوح میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :’’ کیا تم نہیں دیکھتے اللہ نے کیونکر سات آسمان بنائے ایک پر ایک۔ اور ان میں چاند کو روشن کیا اور سورج کو چراغ ‘‘۔ 
اس آیت مبارکہ میں مظاہر فطرت کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سات آسمان ایک کے اوپر ایک بنائے بغیر ستون کے اور سورج کو چراغ بنایا جو دنیا کو روشن کرتا ہے اور دنیا والے اس کی روشنی میں ایسے ہی دیکھتے ہیں جیسے رات کو چراغ کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے چاند کو نور قرار دیا۔ ستاروں کو نہ صرف آسمان کی زینت قرار دیا بلکہ انہیں راستہ معلوم کرنے کا ذریعہ بھی قرار دیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اور علامتیں اور ستارے سے وہ راہ پاتے ہیں ‘‘۔ ( سورۃ النحل :آیت ۱۶)۔
یہ سب اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کے مظاہر ہیں اور ان میں عقل رکھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں کہ یہ کائنات کا سارا نظام چلانے والی ہستی اللہ تعالیٰ ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ سورۃ النبا میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا ‘‘۔ اسی طرح سورۃ النحل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور زمین میں لنگر ڈال دیے کہ کہیں تمہیں لے کر نہ کانپے ‘‘۔ زمین کی ساخت ، اس کی کشش ثقل ، فصلوں کی نشونما ، پانی کا ذخیرہ ، معدنیا ت ، پہاڑ اور اس کا استحکام یہ سب اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں۔
سورۃ الروم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :’’اللہ ہے کہ بھیجتا ہے ہوائیں کہ ابھارتی ہیں بادل پھر اسے پھیلا دیتا ہے آسمان میں جیسا چاہے ‘‘۔ ہوا کا چلنا اور بارش کا برسنا یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ سورۃ النور میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’ اللہ بدلی کرتا ہے رات اور دن کی بیشک اس میں سمجھنے کا مقام ہے نگاہ والوں کو ‘‘۔
اسکے علاوہ یہ چرند پرند ، نباتات جمادات اور حیونات یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے کوئی بھی چیز بے مقصد پیدا نہیں فرمائی۔ قرآن مجید میں مظاہر فطرت کا ذکر ایمان ، فکر اور علم کا منبع ہے۔یہ مظاہر انسان کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنے خالق کو پہچانے اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرے۔ جو شخص فطرت کے مظاہر پر غور کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کو پا لیتا ہے۔

حکمت کی بات - ہدایت کس کو ملے گی؟

Surah Saba (سُوۡرَةُ سَبَإ) Ayat 23-24.کیا ہم حیات دنیا کے دھوکے میں مب...

Surah Saba (سُوۡرَةُ سَبَإ) Ayat 22.کیا ہمارا رویہ مشرکانہ ہے

جمعہ، 30 مئی، 2025

جھوٹی گواہی کی مذمت

 

 جھوٹی گواہی کی مذمت

اللہ جل شانہ نے قرآن مجید فرقان حمید میں عدل و انصاف کو معاشرے کی بنیاد قرار دیا ہے۔ مگر عدل کے نظام میں جھوٹی گواہی شامل ہو جائے تو یہ عدل و انصاف کے لیے زہر قاتل ہے۔جھوٹی گواہی کی اسلام میں سختی سے مذمت کی گئی ہے۔ اہل ایمان کی صفات میں ایک صفت اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان کی ہے کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اور وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔(سورۃ الفرقان :آیت ۷۲)۔
سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :’’ اے ایمان والو انصاف پر خوب قائم ہو جائو، اللہ کے لیے گواہی دو چاہے اس میں تمہارا نقصان ہو یا ماں باپ کا یارشتہ داروں کا۔ جس پر گواہی دو وہ غنی ہو یا فقیر ہو بہر حال اللہ کو اس کا سب سے زیادہ اختیار ہے۔ تو خواہش کے پیچھے نہ جائو کہ حق سے الگ پڑو اور اگر تم ہیر پھیر کرو یا منہ پھیرو تو اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے ‘‘۔(آیت ۱۳۵)۔
یعنی ہمیشہ حق اور سچ کا ساتھ دینا چاہیے چاہے اس میں اپنا یا والدین یا رشتہ داروں کا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔کیونکہ اللہ سچا ہے اور سچ کو پسند فرماتا ہے اس لیے ہمیں اپنے نفس کی پیروی کرتے ہوئے جھوٹ کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ 
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑے گناہ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ، کسی جان کو قتل کرنا ، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹ بولنا یا پھر جھوٹی گواہی دینا۔ ( بخاری و مسلم )۔
ایک دن نبی کریم ﷺ  فجر کی نماز سے فارغ ہو کر پیچھے مڑے اور ارشاد فرمایا جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر کر دی گئی ہے۔تین بار نبی کریم ﷺ نے یہی ارشاد فرمایا اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے سورۃ الحج کی آیات کی تلاوت کی۔ترجمہ: ’’سوا اْن کے جن کی ممانعت تم پر پڑھی جاتی ہے تو دور ہو بتوں کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات سے۔ ایک اللہ کے ہو کر اس کا شریک کسی کو نہ کرو ‘‘۔ 
ابن ماجہ کی روایت ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ جھوٹی گواہی دینے والے کے پائو ں سرک نہ سکیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے دوزخ واجب کر دے۔ جھوٹی گواہی دینے کے بے شمار نقصانات ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں امن و امان کی صورتحال خراب ہو تی ہے۔ حق دار کو اس کا حق نہیں ملتا اور عدل وانصاف کی فراہمی ختم ہو جاتی ہے۔ جو شخص جھوٹی گواہی دیتا ہے حقیقت میں وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دے رہا ہوتا ہے اور حق کے راستے سے ہٹ کر شیطان کے راستے پر گامزن ہوتا ہے۔ حق بات کو چھپانا اور باطل کا ساتھ دینا منافقین کا طرز عمل ہے۔ 
جھوٹی گواہی دینا ایک سنگین ترین جرم ہے جو معاشرتی ، اخلاقی اور روحانی ہر لحاظ سے تباہی کا سبب بنتی ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم خود بھی اس گناہ سے بچیں اور دوسروں کو بھی اس گناہ سے بچنے کی ترغیب دیں۔ اگر ہم حق اور سچ کا ساتھ دیں گے تو نہ صرف معاشرے میں امن قائم ہو گا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں بھی ہمارے اوپر نازل ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حق کے ساتھ کھڑا ہونے کی تو فیق دے۔ آمین !