ہفتہ، 5 اپریل، 2025

حکمت کی بات - اصل مومن کون؟

شرفِ انسانیت

 

شرفِ انسانیت

قرآ ن مجید ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسانی شرف ، وقار اور عظمت کے اصول واضح کرتا ہے ۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر یہ ذکر آیا ہے کہ انسان کو برتری علم ، تقویٰ اور اچھے اعمال کی بنیاد پر حاصل ہوئی ہے نہ کہ نسل ، مال یا کسی اور دنیاوی معیار پر ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’اور ہم نے بنی آدم کو عزت دی‘۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرما دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو تمام مخلوقات پر فضیلت بخشی ہے اور اس فضیلت کا معیار علم ، عقل اور شعور کی بنیاد پر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا اس کی وجہ علم تھی جو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو سکھایا اور یہی برتری کی دلیل ہے ۔ 
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا، مجھے ان چیزوں کے نام بتا دو اگر تم اپنے خیال میں سچے ہو تو انھوں نے عرض کی، ہم کچھ نہیں جانتے سوائے اس کے جو کچھ تو نے ہمیں سکھایا ۔پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے کہا، اے آدم، اب تم انھیں اشیاء کے نام بتائو ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’فرمایا، اے آدم بتا دو انھیں سب اشیاء کے نام۔ جب آدم نے انھیں سب کے نام بتا دیے، فرمایا، میں نے کہا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو ‘۔( سورۃ البقرہ ) 
معاشروں میں جب انسان کی عظمت کا تعین علم کی بجائے مال ، دولت اور اثرو رسوخ کی بنیاد پر ہوتا ہے تو معاشرہ تباہی کی طرف ہی جائے گا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’ اے محبوب، ایک کتاب تمھاری طرف اتاری گئی تو تمھارا جی اس سے نہ رکے اس لیے کہ تم اس سے ڈر سنائو اور مسلمانوں کو نصیحت ۔ اے لوگواس پر چلو جو تمھاری طرف تمھارے رب کے پاس اترا اور اسے چھوڑ کر اور حاکموں کے پیچھے نہ جائو بہت ہی کم سمجھتے ہو‘۔ ( سورۃ الاعراف ) 
سورۃ الاعراف میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’اور بے شک ہم نے تمھیں زمین میں جما ئو دیا اور تمھارے لیے اس میں زندگی کے اسباب بنائے بہت ہی کم شکر کرتے ہو ۔اور بے شک ہم نے تمھیں پیدا کیا پھر تمھارے نقشے بنائے پھر ہم نے ملائکہ سے فرمایا کہ آ دم کو سجدہ کرو تو وہ سب سجدے میں گر گئے مگر ابلیس یہ سجدہ والوں میں نہ ہوا ‘۔ 
 سب سے پہلے قرآن مجید: انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا حقیقی شرف قرآن مجید ہے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر زندگی بسرکرنا ہے ۔ دوسرا اللہ تعالیٰ نے زمین پر جو چیزیں نازل فرمائی ہے اس کے بدلے اللہ تعالیٰ شکر ادا کرنا ۔ جو نا شکری کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے سب کچھ چھین لیتا ہے ۔ اس کے بعد ملائکہ پر انسان کی برتری عمل کی وجہ سے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم الاسماء سکھا کر علم کے ذریعے انسان کو فرشتوں پر برتری دی اور پھر اسی علمی تفوق کی بنیاد پر انسان کو فرشتوں سے سجدہ کرایا ۔

جمعہ، 4 اپریل، 2025

تعمیر شخصیت اور قرآن

 

تعمیر شخصیت اور قرآن

قرآن مجید انسان کی روحانی ، فکری ، اخلاقی اور عملی زندگی کی راہنمائی کرتا ہے۔ یہ نہ صرف عقائد و عبادات کی وضاحت کرتا ہے بلکہ ایک مثالی شخصیت کی تعمیر کے اصول بھی وضح کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :
’’ اس لیے کہ غم نہ کھائو اس پر جو ہاتھ سے جائے اور نہ اترائو اس پر جو تم کو دیا اور اللہ کو نہیں پسند کوئی اترونا بڑائی مارنے والا ‘‘۔ ( سورۃ الحدید )۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کے دو پہلوئوں کی طرف رہنمائی فرمائی ہے کہ اگر تم کوئی چیز کھو دو تو اس پر غم نہ کرو اور نہ ہی خود کو اس میں کھوئے رکھو ضروری نہیں کہ تمہاری ہر خواہش پوری ہو اور جو چیز تم چاہتے ہو اسکے حاصل نہ ہونے کی صورت میں فطرت اور درست سمت پر رکھو۔ اور جو کچھ تمہیں حاصل ہو اسے اپنی محنت اور کوشش کا نتیجہ نہ سمجھو بلکہ اسے اللہ تعالی کی عطا سمجھو کیونکہ اللہ تعالی کو بڑائی اور تکبر پسند نہیں۔ 
سورۃآل عمران میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی شخصیت کے اصول بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :’’تو تم انہیں معاف فرمائو اور ان کی شفاعت کرو اور کاموں میں ان سے مشورہ لو اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کر لو تو اللہ پر بھروسہ رکھو بیشک توکل والے اللہ کو پیارے ہیں ‘‘۔
اس آیات مبارکہ میں بیان کیے گئے اصولوں پر عمل کیا جائے تو نہ صرف تعمیر شخصیت ہو گی بلکہ تعمیر معاشرہ بھی ہو گی۔ سب سے پہلے ہے در گزر کرنا۔ یعنی اگر کسی سے کوئی غلطی سر زد ہو جائے تو اسے معاف کر دینا چاہیے اس سے نہ صرف شخصیت کی تعمیر ہو گی بلکہ معاشرہ بھی امن کا گہوارہ بنے گا۔درگزر کرنا سنت رسول بھی ہے۔ اسی آیت میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے محبوب اگر تم ان سے سختی مزاجی سے پیش آتے تو یہ تم سے دور ہو جاتے۔ اس معلوم ہوتا ہے کہ قیادت میں نرم مزاجی اور در گزر کرنا ضروری ہے۔ 
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو دوسرا اصول یہ بیان فرمایا کہ ان کے لیے دعا کرو۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہمیں دوسروں کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ 
تیسرا  کوئی بھی کام کرنے سے پہلے مشورہ کر لینا بھی سنت رسول ہے۔نبی کریم ﷺ اس کے باوجود کہ وحی الٰہی آپ  کی راہنمائی کے لیے موجود تھی آپؐ صحابہ کرام ؓ سے مشورہ کر لیا کرتے تھے۔  توکل علی اللہ جب کوئی کام مشورہ اورغورو فکر کرنے کے بعد شروع کر لیا جائے تو پھر اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ کرنا چاہیے کیونکہ وہی حقیقی مدد گار ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں قرآن مجید تعمیر شخصیت کے لیے صدق وامانت ، عدل وانصاف ، صبر و استقامت ، علم کے حصول اور حسن سلوک کا درس دیتا ہے۔ قرآن مجید شخصیت کو سنوارنے اور نکھارنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔ آمین

جمعرات، 3 اپریل، 2025

Surah Al-Room (سُوۡرَةُ الرُّوم) Ayat 46-47.کیا ہم مجرم بن کر زندگی گزار...

Surah Al-Room (سُوۡرَةُ الرُّوم) Ayat 41-45 Part-04.کیا ہم ناشکرے لوگ ہیں

جنت کے انعامات

 

جنت کے انعامات

جنت اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ جو جنت میں داخل ہو گا وہ ہمیشہ اس میں رہے گا۔ وہ کبھی بھی تنگدست نہیں ہو گا۔اسے کبھی بھی موت نہیں آئے گی۔ اس کے کپڑے بوسیدہ نہیں ہو ں گے۔اور نہ ہی کبھی اس کا شباب اور حسن ختم ہو گا۔ جنت میں انسان کو ایسی نعمتیں ملیں گی جو کسی انسان نے نہ پہلے کبھی دیکھی ہوں گی اور نہ کبھی سنی ہوں گی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : کوئی نہیں جانتا کہ ان کے اعمال کے بدلے میں ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کی کون کون سی چیزیں پوشیدہ رکھی گئی ہیں۔ ( سورۃ سجدہ )۔
جنت کے ارد گرد مصیبتوں ، پریشانیوں اور تکلیفوں کی باڑ لگا دی گئی ہے۔ جنت میں کسی بھی قسم کی مصیبت برداشت نہیں کرنی پڑے گی۔ جنت کا محل سونے چاندی کی اینٹوں اور کستوری کے گارے سے بنا ہوا ہے۔جنت میں ہیرے اور جواہرات کی کنکریاں ہوں گی۔ جنت کی مٹی زعفران کی ہوگی۔ حسد و کینہ اور بغض جیسی فضول چیزیں دل سے نکل جائیں گی۔ اہل جنت کے چہرے بڑے حسین و جمیل ہوں گے ، ان کی صحت قابل رشک ہو گی۔ ان کے دل بڑے مطمئن ہوں گے اور وہ بہت زیادہ خوش ہوں گے۔ انھیں کبھی کسی قسم کی تنگی اور تنگ دستی نہیں ہو گی۔ آسائش ان کے قدم چومے گی۔ اہل جنت سکون و اطمینان کی زندگی بسر کریں گے۔ خوش ذائقہ پھلوں کی ڈالیاں ان کے ارد گرد جھوم رہی ہوں گی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : ان کے لیے جاری چشمے سے شراب طہور کے بھرے جام گردش کر رہے ہوں گے۔ نہایت سفید رنگ پینے والوں کے لیے لذت والی ، نہ اس سے سر چکرائے گا اور نہ اس سے مدہوش ہوں گے۔ ( سورۃ لصفت)۔
جنت کے خادموں کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : اور ان کی خدمت میں سدا نو خیز رہنے والے لڑکے پھرتے ہوں گے جب انہیں دیکھیں گے تو انہیں بکھرے ہوئے موتی سمجھیں گے۔ (سورۃ الدھر)۔ 
وہاں تھوک اور پیشاب پاخانے کا تصور تک نہ ہو گا۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ان کے لیے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ ان باغوں میں ہمیشہ رہیں گے۔
(سورۃ البقرۃ)۔
جنت کی حوروں کی صفات بیان کرتے ہو ئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ان میں جھکی جھکی نظروں والی (حوریں) ہوں گی۔ ان سے پہلے انہیں کسی انسان اور جن نے ہاتھ بھی نہیں لگایا ہو گا۔ (سورۃ الرحمن)۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ان کے لیے بالا خانے ہیں ، ان کے اوپر بالا خانے بنے ہوئے ہیں جب کہ ان کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ ( سورۃ الزمر)۔
جنت میں سب سے بڑا انعام یہ ہو گا اللہ تعالیٰ اپنی ذات اقدس سے پردے ہٹا دے گا اور اہل جنت اللہ تعالی کا جمال بے مثال دیکھیں گے۔