(2) خدمت خلق
خدمت خلق کا ایک بڑا ذریعہ غرباءکی مدد کر نا ہے کہ انسان مجبو راور بے بس انسانوں کی جانی اور مالی خدمت کرے اور مشکل حالات میں ان کے کام آئے ۔قرآن مجید میں اس بات کو بڑی تاکید سے بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ معاشرے میں زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہے جائیں تو امرا کے مال میں ان کا حق ہے ۔قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتا ہے :
اور ان کے مال میں سائل اور محروم کا حصہ ہے ۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا :جن کے مال میں سائل اور محروم کا معین حق ہے ۔
اللہ تعالی کے پسندیدہ بندوں کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے مال سے غرباءکی مدد کرنا اتنا ہی ضروری سمجھتے ہیں جتنا کسی کو اس کا حق لوٹانا ۔ وہ غریبوں کو دیتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ وہ ان پر کوئی احسان کر رہے ہیں بلکہ ان کے ذہن میں یہ ہی ہوتا ہے کہ وہ حق داروں کو ان کا حق ادا کر رہے ہیں ۔ غرباءاور فقراء کی مدد کرنا مقربین الہی کی ایسی فطرت ثانیہ ہے کہ جیسے بھوکا کھانا کھانے سے اطمینان پاتا ہے اور پانی پینے سے پیاسا سکون محسوس کرتا ہے ، اسی طرح مقربین الہی غربا ءکی مدد کر کے سکون محسوس کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی اپنے مقبول بندوں کی ایک صفت یہ بھی بیان کرتا ہے : وہ خوشحالی اور تنگدستی میں بھی (راہ خدا میں ) خرچ کرتے ہیں ۔
قرآن مجید میں یہ بات بھی بہت واضح الفاظ میں بیان کی گئی ہے کہ جو لوگ غربأ اور مساکین کی اپنے مال میں سے مدد کرتے ہیں وہ دنیا و آخرت کی رحمتوں کو سمیٹ لیتے ہیں اور جو غریبوں کی مدد سے منہ موڑ لیتا ہے رزق کی برکتیں بھی اس سے منہ موڑ لیتی ہیں اور رب کی رحمتوں سے محروم کر دیاجاتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے :
جو لوگ اپنے اموال راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں ، ان کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک دانہ ہو ،جس سے سات بالیاں پیدا ہو ں ۔ ہر بالی میں سو دانے ہوں۔ اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے کئی گناہ بڑھا دیتا ہے اور اللہ تعالی وسعت والا جاننے والا ہے ۔
ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے : جو لوگ اپنے مال کو رات دن ، مخفی اور علانیہ خرچ کرتے ہیں ، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے ۔ اور ان کے لیے نہ خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے ۔ یہ ایک حقیت ہے کہ طاقت ، وسائل اور اسباب میں سب انسان برابر نہیں ہیں ۔ کوئی امیر ہے اورکوئی غریب۔ کوئی مزدور ہے اور کوئی سرمایہ دار اور کوئی آقا ہے اور کوئی غلام ۔ یہاں عموماً طاقتور کمزور کے حقوق غصب کرنا چاہتا ہے ۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے :
اور اکثر شرکا ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں مگر وہ جو ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے اور ایسے لوگ بہت کم ہیں ۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں