حسن گفتگو
گفتگو کرتے وقت اچھے الفاظ کا چنائو کرنا اور بات کرتے وقت اپنے لہجے کو نرم رکھنے سے آپ میں محبت و اخوت اور نیکی بھلائی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔گفتگو کے دوران ایسے الفاظ کے استعمال سے پرہیز کیا جائے جس کی وجہ سے کسی کی دل آزاری ہو اور انتشار پھیلنے کا خدشہ ہو۔قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر حسن کلام کی ترغیب دی گئی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : اچھی بات کہنا اور در گزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد جتانا ہو اور اللہ بے پرواہ حلم والا ہے۔(البقرہ)۔
سورۃ ابراہیم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :کیا آپ نے نہ دیکھا اللہ نے کیسی مثال بیان فرمائی پاکیزہ بات کی جیسے پاکیزہ درخت جس کی جڑ زمین پر اور شاخیں آسمان میں۔
سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :اور میرے بندوں سے فرمائو وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو بیشک شیطان ان کے آپس میں فساد ڈال دیتا ہے بیشک شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے۔
حضور نبی کریم رؤف الرحیم ﷺنے فرمایا ہر روز آدمی کے ہر جوڑکا صدقہ ضروری ہے۔جوکسی کو سوار ہونے میں مدد دے یا اس کے سامان کو اٹھوا کر سواری پر رکھوا دے تو یہ بھی صدقہ ہے۔ اچھی بات کہنا بھی صدقہ ہے ،نماز کے لیے جتنے قدم اٹھائے وہ بھی صدقہ ہیں اور کسی کو راستہ بتا دینا بھی صدقہ ہے۔ ( متفق علیہ )۔
حضرت عبد اللہ بن عمروؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی رحمتﷺ نے فرمایا جنت میں ایسے کمرے بھی ہوں گے جن کا باہر اندر سے دکھائی دے گا اور اندر باہر سے۔حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ نے عرض کی یارسو ل اللہﷺ یہ کس کے لیے ہوں گے؟ آپ ؐنے فرمایا جو اچھی گفتگو کرے ، کھانا کھلائے اور رات کو اس وقت قیام کرے جب سب لوگ سو رہے ہو ں۔ ( مسند احمد ، مستدرک للحاکم)۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر میں اللہ کی راہ کا مسافر نہ ہوتا ، یا اللہ کے لیے اپنے پہلو کو خاک آلود نہ کرتا یا ایسے لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھتا جو خوش گوار انداز میں گفتگو کو ایسے منتخب کرتے جیسے اچھی کھجور کو منتخب کیا جاتا ہے تو یقینا میں اس بات کو پسند کرتا کہ خالق حقیقی سے جا ملو ں۔
حضرت کعب بیان کرتے ہیں کم بولنا بہت بڑی بات ہے۔لہذا تم پر خاموش رہنا لازم ہے۔ بے شک یہ مہذب انداز ہے اور یہ بوجھ میں کمی اور گناہوں میں تخفیف کا سبب ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں