شہادتِ امام حسین علیہ السلام (۱)
اسلامی تاریخ قربانی ، ایثار اور صداقت کے روشن واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن واقعہ کربلا رہتی دنیا تک لوگوں کو ظلم کے خلاف کھڑے ہونے ،باطل سے ٹکرانے اور حق کے لیے ڈٹے رہنے کا سبق دیتا ہے۔ واقعہ کر بلا سے یہ سبق ملتا ہے کہ حق پر کھڑے رہنے کے لیے تعداد کی ضرورت نہیں بلکہ حوصلہ ، صبر ، توکل علی اللہ اور استقامت کی ضرورت ہے۔
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
یزید جب ۶۰ ہجری کو تخت پر بیٹھا تو اس نے اسلامی اصولوں کو پامال کرتے ہوئے ظلم و زیادتی ، جبر اور فسق و فجور کو پالیسی کا حصہ بنایا۔ امام عالی مقام نے نبی کریمﷺ کی گود میں پرورش پائی تھی اس لیے انہوں نے یہ گوارا نہ کیا کہ وہ ایک فاسق و فاجر کی بیعت کریں۔ امام حسین نے مکہ سے مدینہ اور پھر وہاں سے کربلا کی طرف سفر تخت کے لیے نہیں بلکہ اپنے نانا جان کے دین کی حفاظت کے لیے کیا۔
دس محرم الحرام کی ساری رات امام عالی مقام امام حسین ؑ اور آپ کے ساتھیوں نے عبادت اور اللہ تعالیٰ سے دعا میں گزاری۔ صبح ہوئی تو آپ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ نماز فجر ادا کی یہ دس محرم اور جمعہ کا دن تھا۔ اس کے بعد آپ اپنی سواری پر سوار ہو کر یزیدی لشکر کی طرف چلے گئے۔میدان کربلا میں امام عالی مقام امام حسین ؑ کا سب سے پہلے قافلہ حر نے روکا لیکن جب اسے معلوم ہوا کہ یزیدی لشکر امام عالی مقام کو شہید کرنا چاہتا ہے تو وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا آپ سے معافی مانگی اور اللہ کے حضور توبہ کی اس کے بعد امام عالی مقام سے میدان جنگ میں جانے کی اجازت طلب کی۔
حضرت حْر نے کوفیوں سے کہا کہ افسوس تم نے خود امام عالی مقام کو بلایا اور اب انہیں شہید کرنا چاہتے ہو۔تم نے اہل بیت کا پانی بند کر دیا۔ ہائے افسوس تم اہل بیت کے ساتھ کیسا سلوک کر رہے ہو۔ایک طرف ہزاروں کا لشکر اور ایک طرف اہل بیت کے 28 چشم و چراغ باطل کے ساتھ ٹکرانے کو تیار تھے۔
امام عالی مقام نے دس محرم الحرام اکسٹھ ہجری کو یزیدی لشکر کو خطبہ دیا۔آپ نے حمدو ثناء کے بعد دورد پاک پڑھا اور یزیدیوں سے کہا میرے نسب پرغور کرو، دیکھو میں کون ہو ں۔ کیا میرا قتل کرنا اور میری بے عزتی کرنا تم پر جائز ہے ؟ کیا میں تمہارے نبی ﷺ کا نواسہ نہیں ہوں ؟کیا تم کو یہ اطلاع نہیں پہنچی کہ رسول کریم ﷺ نے میرے اور میرے بھائی حسن ؑ کے حق میں فرمایا کہ تم دونوں جنت کے نوجوانوں کے سردار ہو۔ جو میں تم سے کہہ رہا ہوں اس کی تصدیق کرو۔ میں کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ لیکن آپ کے خطاب کا یزیدی لشکر پر کوئی اثر نہ ہوا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں