منگل، 13 مئی، 2025

لالچ اور لامحدود خواہشات(۱)

 

لالچ اور لامحدود خواہشات(۱)


انسانی فطرت میں خواہشات کا پایا جانا ایک فطری امر ہے۔ یہی خواہشات انسان کو ترقی کے راستے پر گامزن کرتی ہیں لیکن خواہشات حد سے بڑھ جائیں تو انسان کو اخلاص اور اصولوں کی راہوں سے ہٹا کر محض ذاتی مفاد اور حرص کی کھائی میں دھکیل دیتی ہیں۔ حد سے زیادہ خواہشات انسان کو لالچ میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ لالچ وہ آگ ہے جو نہ صرف فرد کو جلاتی ہے بلکہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ تمہیں مال و دولت کی زیادتی کی طلب نے غفلت میں ڈال دیا یہاں تک کہ تم قبروں میں پہنچ گئے ‘‘۔ ( سورۃ التکاثر )۔
امام غزالی  فرماتے ہیں کہ لوگوں کا لالچ اور عمر درازی سے دھوکہ کھانے کی دو وجوہات ہیں۔ جہالت اور دنیا کی محبت۔ انسان بلا سوچے سمجھے اپنی موت کو بھلائے لمبی امیدیں باندھ لیتا ہے اور دن رات لالچ کی وجہ سے دولت کو دونوں ہاتھو ں سے سمیٹنے میں لگا رہتا ہے۔لیکن وہ اس بات کو بھول گیا ہے کہ موت اٹل حقیقت ہے اور کسی بھی وقت آ سکتی ہے۔ ابو اللیث سمر قندی فرماتے ہیں کہ خواہش دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک خواہش دنیاوی لذت اور ہوس ہے جو انسان کو فرائض کی ادائیگی سے غافل کر دیتی ہے اور وہ دولت کے لالچ میں آخرت کو بھول جاتا ہے۔ اور دوسری خواہش وہ ہوتی ہے جو نا قابل مذمت ہوتی ہے یعنی ایسی خواہش جس کی تکمیل کی وجہ سے انسان احکام الٰہی کی بجا آوری میں کوئی روکاوٹ نہ آنے دے۔ انسان کو اپنی لامتناہی خواہشات کو لگام ڈال کر رکھنی چاہیے۔اگر خواہشات کی لگام کو ایسے ہی چھوڑ دیا جائے تو انسان دنیا کی محبت اور مال و دولت کے حرص کی وجہ سے اپنی عاقبت کو بھی خراب کر لیتا ہے۔
 نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ایک بوڑھے کا دل دو باتوں میں جوان رہتا ہے دنیا کی محبت میں اور دوسرا خواہشات کی طوالت میں ‘‘ (بخاری)۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر آدمی کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کی خواہش کرے گا۔ آدمی کے پیٹ کو سوائے قبر کی مٹی کے کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ جب وہ توبہ کر تا ہے اور خود کو حرص و لالچ سے پاک کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول فرماتا ہے۔(بخاری )۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ خوف خواہشات نفس اور لمبی لمبی امیدیں رکھنے کا ہے۔رہی بات خواہشات نفس کی تو یہ انسان کو حق سے روک لیتی ہیں۔ اور لمبی لمبی امیدیں آخرت کو بھلا دیتی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ دنیا فانی ہے اور آخرت آنے والی ہے۔ دونوں میں سے ہر ایک کے کچھ بندے ہیں اگر تم سے ہو سکے تو دنیا کے بندے مت بنو۔ ایسا ضرور کرو۔ بلا شبہ آج تم ایسی جگہ میں ہو جس میں بھر پور عمل کیا جا سکتا ہے۔اور حساب کتاب نہیں۔ لیکن کل بروز قیامت تم ایسی جگہ پہنچ جائو گے جس میں حساب لیا جائے گا اور عمل نہیں کیا جا سکے گا۔ ( بہیقی )۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں