ایمان ، یقین اور استقامت
انسانی زندگی میں بعض تصورات ایسے ہیں جو محض الفاظ نہیں ہوتے بلکہ وہ کردار ، سوچ اور عمل کی بنیاد بن جاتے ہیں۔ایمان ،یقین اور استقامت تین ایسے تصورات ہیں جو فرد کے فکری ، روحانی اور عملی وجود کو ایک سمت عطا کرتے ہیں اگر ان تینوں کو ایک لڑی میں پرو دیا جائے تو ایک مکمل شخصیت کی تکمیل ہوتی ہے اور دنیا و آخرت میں کامیابی نصیب ہوتی ہے۔انسان کے دل میں سب سے پہلی چیز جو جنم لیتی ہے وہ ایمان ہے۔ ایمان وہ چیز ہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ کے وحدہ لاشریک ہونے ، اس کے رسولوں ، کتب سماویہ ، ملائکہ ، اچھی اور بری تقدیر اور یوم آخرت پر یقین رکھنے کا درس دیتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ رسول ایمان لایا اس پر جو اس کے رب کی طرف سے اس پر اترا اور ایمان والے ، سب نے مانا اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو ‘‘۔ ( سورۃ البقرہ )۔
ایمان ایک ایسا نور ہے جو انسان کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آتا ہے۔ ایمان صرف زبانی دعوے کا نام نہیں بلکہ اس کا اثر انسان کے اعمال اور کردار میں بھی نظر آنا چاہیے۔ جب ایمان انسان کے دل میں مضبوط ہو جاتا ہے تو وہ یقین میں ڈھل جاتا ہے۔ یقین ایک ایسا درجہ ہے جس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور زمین میں نشانیاں ہیں یقین والوں کیلئے ‘‘۔ ( سورۃ البقرہ )۔
یقین انسان کو مشکل وقت میں بھی اپنے رب پر بھروسہ رکھنے کا حوصلہ دیتا ہے۔جس کی مثالیں ہمیں انبیاء کرام ، نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کی زندگیوں سے ملتی ہیں کہ کس طرح انہوں نے مشکلات و مصائب میں اللہ تعالیٰ پر کامل یقین رکھا اور اللہ تعالی نے انہیں کامیابی عطا فرمائی۔ جب انسان حق کو پہچا ن کر اسے دل و جان سے تسلیم کرتے ہوئے اس پر ڈٹ جائے اور ثابت قدم رہے تو اسے استقامت کہتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ بیشک جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر قائم رہے ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو ‘‘۔ ( سورۃ الفصلت )۔
کسی بھی بات پر قائم رہنا آسان نہیں۔ یہ صبر ، قربانی اور حوصلے کا تقاضا کرتی ہے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان کی زندگیاں ہمارے لیے استقامت کا عملی نمونہ ہیں کہ کس طرح انہیں طرح طرح کی تکالیف دی گئیں لیکن وہ استقامت کے ساتھ اپنے دین پر قائم رہے۔ حضرت بلال حبشیؓ کو تپتی ریت پر لٹایا گیا آپ کے جسم پر پتھر رکھے گئے لیکن آپ کی استقامت کا یہ عالم تھا کہ آپ احد احد ہی کی صدا بلند کرتے تھے۔ ایمان بندے کے دل میں روشنی پیدا کرتا ہے ، یقین اس روشنی کو مستقل قوت دیتا ہے اور استقامت اس قوت کو آزمائش میں ثابت کرتی ہے۔ ایمان ، یقین اور استقامت ایک ایسا نظام ہے جو انسان کو دنیا و آخرت میں کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔ جب انسان ان تینوں صفات کو اپنا لے تو وہ نہ صرف خود کو سنوارتا ہے بلکہ معاشرے کی بھی اصلاح کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سچا ایمان ، مضبوط یقین اور استقامت عطا فرمائے۔ آمین۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں