حضور نبی کریم ﷺ کی تواضع
حضور نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا کہ آپ ﷺ چاہیں تو شاہانہ زندگی بسر کریں اور اگر چاہیں توایک بندے کی زندگی بسر فرمائیں۔ تو آپ ﷺ نے بندہ بن کر زندگی گزارنے کو پسند فرمایا۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام نے آپ ﷺ کی یہ تواضع دیکھ کر فرمایا کہ یا رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی اس تواضع کی وجہ سے جلیل القدر مرتبہ عطا فرمایا ہے۔ آپﷺ تمام اولاد آدم میں سب سے زیادہ بلند مرتبہ والے ہیں اور قیامت کے دن سب سے پہلے آپ ﷺ ہی اپنی قبر مبارک سے اٹھائیں جائیں گے اور میدان حشر میں سب سے پہلے آپ ﷺ ہی کی شفاعت قبول فرمائی جائے گی۔ (زرقانی )۔
حضرت عبد اللہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ ﷺ کی نعلین مبارک کا تسمہ ٹوٹ گیا تو آپﷺ اپنے ہاتھ مبارک سے اسے ٹھیک کرنے لگ گئے۔ تو میں نے کہا یارسول اللہ مجھے دیں میں ٹھیک کر دیتا ہو تو آپ ﷺ نے فرمایا یہ ٹھیک ہے کہ تم اس کو ٹھیک کر دو گے مگر میں اس کو پسند نہیں کرتا کہ میں تم لوگوں پر اپنی برتری یا بڑائی ظاہر کروں۔ ( زرقانی )۔
یہ حضور نبی کریم ﷺ کی تواضع ہی تھی کہ آپ ﷺ خچر پر سوار ہو جاتے اور دوسروں کو بھی ساتھ سوار کر لیتے۔ مسکینوں اور غریبوں کی عیادت کرنے چلے جاتے اور فقراء کے برابر بیٹھ جاتے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے ساتھ مل جل کر بیٹھ جاتے اور اپنی نشست کو کوئی بھی امتیازی نشان نہ بناتے۔ غلاموں اور خادموں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے اور بازار سے اپنا سودا خرید کر اور خود اٹھا کر لے آتے۔ اپنے جانوروں کو خود چارہ ڈالتے اور اپنی اونٹنی کی خود زانو بندی کرتے۔ گھر کے چھوٹے چھوٹے کام اپنے ہاتھ سے خود کر لیا کرتے تھے۔
حضور نبی کریم ﷺ جب حجۃ الوداع کے لیے تشریف لے کر گئے تو آپ ﷺ کی اونٹنی پر ایک پراناپا لان تھا اور آپ ﷺ کے جسم انور پر ایک چادر تھی جس کی قیمت چار درہم سے زیادہ نہ تھی۔ آپ ﷺ نے اسی اونٹنی کی پشت پر بیٹھ کر اور اسی لباس میں خطبہ حجۃ الوداع دیا۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ایک دوکان سے کچھ خریدا۔ جب آپ ﷺ اٹھنے لگے تو اس نے حضورﷺ کے ہاتھ پر بوسہ دیا تو آپ نے جلدی سے ہاتھ پیچھے کر لیا اور فرمایا : یہ تو عجمی لوگ اپنے بادشاہوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ میں بادشاہ نہیں ہوں، میں تم میں سے ہی ہوں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں