تزکیہ نفس قرب الٰہی کا ذریعہ
نفس سے مراد کسی شے کا موجود ہونا ہے۔ اسلامی اصطلاح میں نفس سے مراد شر و فتنہ کا سر چشمہ اور برائی کی طرف لے جانے والی چیز ہے۔بْرے اخلاق اور غلط کاموں میں مبتلا ہونے کا سبب نفس امارہ ہوتا ہے۔ نفس انسان کو گناہ اور بْرے اخلاق مثلاً تکبر ، حسد ، کینہ ، غصہ ، بخل کی طرف لے کر جاتا ہے اور اس کی اصلاح کے لیے مجاہدہ اور ریاضت بہت ضروری ہے۔
روح ، نفس اور جسم ان تینوں کی ایک ایک صفت ہے۔ روح کی صفت عقل ، نفس کی صفت خواہش اور جسم کی صفت حس یعنی کسی چیز کو محسوس کرنا ہے۔ روح لطافت پاکیزگی کی وجہ سے جنت کی جگہ ہے اور نفس آفت و وحشت کی وجہ سے دوزخ کی جگہ ہے۔ مومن کی روح مومن کو دنیا میں جنت کی طرف بلاتی ہے اور نفس بندے کو دوزخ کی طرف بلاتا ہے۔ عقل روح کی مدد کرتی ہے تا کہ وہ نیک اعمال کرے اورجنت کا مستحق ٹھہرے اور نفس اسے گناہ کی طرف لے کر جاتا ہے تا کہ بندہ جہنم میں پہنچ جائے۔کیونکہ روح کا اصل مقام جنت ہے اور نفس کا اصل مقام دوزخ ہے۔
اسی لیے اولیا کرام نے ہمیشہ نفس کی مخالفت کی اور ریاضت و مجاہدہ سے نفس کو قابو میں کرتے ہیں۔ ریاضت و مجاہدہ سے انسان کے اندر سے نفس کی ذات ختم نہیں ہوتی بلکہ اسکی بْری صفات ختم ہو جاتی ہیں۔ اگر انسان کی نفسانی خواہشات عقل پرغالب آجائیں تو انسان اپنے مرتبہ سے گر جاتا ہے لیکن اگر انسان کی عقل خواہشات پر قابو پا لے تو انسان کا مقام فرشتوں سے بھی بڑھ جاتا ہے۔
سورۃ النازعات میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کے مقام سے ڈرا اور اپنے نفس کو (حرام ) خواہش سے روکا بیشک اس کا ٹھکانہ جنت ہے ‘‘۔
رات کو اٹھ کر نماز تہجد ادا کرنا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہو جانا نفس کو مارنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’بیشک رات کا اٹھنا نفس کو خوب روندنے والا ہے اور اس وقت کا ذکر بھی نہایت ہی درست ہے ‘‘ ( سورۃ المزمل )۔
سورۃ الغاشیہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے جس نے اپنے نفس کو پاک رکھا اس نے فلاح پائی ‘‘۔
حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا دشمنوں میں سب سے بڑا دشمن تیرا نفس ہے جو تیرے دوپہلوئوں کے درمیان ہے۔(کشف المحجوب )۔
کنزالعمال میں حضرت ابو ذر غفاری سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا انسان اپنے نفس اور اپنی خواہش سے جہاد کرے۔
ارشادباری تعالیٰ ہے جن لوگوں نے ہم تک پہنچنے کی کوشش کی ہم ضرور انہیں اپنا راستہ دکھاتے ہیں بیشک اللہ تعالیٰ احسان کرنے والے کے ساتھ ہے۔ ( سورۃ العنکبوت )۔
روح ، نفس اور جسم ان تینوں کی ایک ایک صفت ہے۔ روح کی صفت عقل ، نفس کی صفت خواہش اور جسم کی صفت حس یعنی کسی چیز کو محسوس کرنا ہے۔ روح لطافت پاکیزگی کی وجہ سے جنت کی جگہ ہے اور نفس آفت و وحشت کی وجہ سے دوزخ کی جگہ ہے۔ مومن کی روح مومن کو دنیا میں جنت کی طرف بلاتی ہے اور نفس بندے کو دوزخ کی طرف بلاتا ہے۔ عقل روح کی مدد کرتی ہے تا کہ وہ نیک اعمال کرے اورجنت کا مستحق ٹھہرے اور نفس اسے گناہ کی طرف لے کر جاتا ہے تا کہ بندہ جہنم میں پہنچ جائے۔کیونکہ روح کا اصل مقام جنت ہے اور نفس کا اصل مقام دوزخ ہے۔
اسی لیے اولیا کرام نے ہمیشہ نفس کی مخالفت کی اور ریاضت و مجاہدہ سے نفس کو قابو میں کرتے ہیں۔ ریاضت و مجاہدہ سے انسان کے اندر سے نفس کی ذات ختم نہیں ہوتی بلکہ اسکی بْری صفات ختم ہو جاتی ہیں۔ اگر انسان کی نفسانی خواہشات عقل پرغالب آجائیں تو انسان اپنے مرتبہ سے گر جاتا ہے لیکن اگر انسان کی عقل خواہشات پر قابو پا لے تو انسان کا مقام فرشتوں سے بھی بڑھ جاتا ہے۔
سورۃ النازعات میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کے مقام سے ڈرا اور اپنے نفس کو (حرام ) خواہش سے روکا بیشک اس کا ٹھکانہ جنت ہے ‘‘۔
رات کو اٹھ کر نماز تہجد ادا کرنا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہو جانا نفس کو مارنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’بیشک رات کا اٹھنا نفس کو خوب روندنے والا ہے اور اس وقت کا ذکر بھی نہایت ہی درست ہے ‘‘ ( سورۃ المزمل )۔
سورۃ الغاشیہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے جس نے اپنے نفس کو پاک رکھا اس نے فلاح پائی ‘‘۔
حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا دشمنوں میں سب سے بڑا دشمن تیرا نفس ہے جو تیرے دوپہلوئوں کے درمیان ہے۔(کشف المحجوب )۔
کنزالعمال میں حضرت ابو ذر غفاری سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا انسان اپنے نفس اور اپنی خواہش سے جہاد کرے۔
ارشادباری تعالیٰ ہے جن لوگوں نے ہم تک پہنچنے کی کوشش کی ہم ضرور انہیں اپنا راستہ دکھاتے ہیں بیشک اللہ تعالیٰ احسان کرنے والے کے ساتھ ہے۔ ( سورۃ العنکبوت )۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں