منگل، 2 اپریل، 2024

رحمۃ اللعالمینؐ(۲)

 

رحمۃ اللعالمینؐ(۲)

شایاں ہے تجھ کو سرورِ کونین کا لقب 
نازاں ہے تجھ پہ رحمۃ اللعالمین کا خطاب
فتح مکہ کا موقع حضور نبی کریمﷺ کی سیرت طیبہ کادرخشاں باب ہے۔ اس وقت آپﷺ کے سامنے دیرینہ دشمن پیش کیے گئے ۔ یہ وہ ہی اہل قریش تھے جنھوں نے آپﷺ کو آپ کے جانثاروں کے ساتھ مکہ مکرمہ سے بے گھر کیا ۔ شعب ابی طالب میں محصور کیا تھا اور کھانے پینے کی اشیاء سے محروم کیا تھا ۔یہ وہی لوگ تھے جنھوں نے آپﷺ کے اہل و عیال کو اذیتیں دیں اور بدر و احد اور خندق میں آپﷺ کے ساتھ جنگیں لڑیں ۔ ان میں آپﷺ کو شہید کرنے کا ارادہ کرنے والا ابو سفیان بھی تھا ، حضرت امیرحمزہؓ کا قاتل وحشی بھی تھا ۔ ہندہ زوجہ ابو سفیان بھی تھی جس نے انتقام میں حضرت حمزہؓ کا کلیجہ نکال کر چبایا ۔ ان میں حبار بن الاسود بھی تھا جس نے آپ کی سب سے بڑی صاحبزادی حضرت سیدہ زینب کو برچھی مار کر ان کا حمل ضائع کیا ۔ فتح مکہ کے موقع پر وہ قریش بھی تھے جنھوں نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اذیتیں دیں ۔ حضرت خبیبؓ کو دہکتے انگاروں پر لٹا یا جاتا تھا ۔ حضرت بلالؓ کو گرم ریت اور گرم سنگریزوں پر لٹانے والا امیہ بن خلف بھی ان میں شامل تھا ۔ اورابو جہل کا بیٹا جس نے ساری عمر حضور نبی کریمﷺ کو پریشان کیا وہ بھی قطار میں کھڑا تھا ۔ 
حضور نبی کریمﷺ نے گروہ قریش سے خطاب فرمایا کہ اے گروہ قریش تم سب آج مجھ سے کس طرح کے سلوک کے منتظر ہو ۔ قریش مکہ اپنے کیے ہوئے سے خوب واقف تھے لیکن وہ حضورﷺ کے اخلاق حسنہ سے بھی واقف تھے۔ سب نے ایک ساتھ کہا آپ معزز بھائی ہیں اور معزز برادر زادہ ہیں۔ تمام قریش حضورﷺ کے سامنے موجودد تھے اور صحابہ کرام تلواریں لیے آپﷺ کے اشارے کے منتظر تھے۔ لیکن حضور نبی کریمﷺ کی شفیق زبان حرکت میں آئی اور ارشاد فرمایا: آج کے دن تم سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی جائو تم سب آزاد ہو ۔ رحمت کی ایسی مثال دنیا نہ پیش کر سکی ہے اور نہ ہی کر سکے گی ۔ 
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والے 
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا 
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا 
یہ حضور نبی کریمﷺ کی شان رحمت ہی تھی کہ کفر و شرک کا پرچم سر نگوں ہوا اور اسلام کا پرچم بلند ہوا ۔ ظلم وستم کا دور بند ہوااور غلاموں ، بیوائوں ، یتیموں ، عورتوں کو مقام حاصل ہوا ۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں