کشف المحجوب
حضرت سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کشف المحجوب میں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقع کا ذکر فرماتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے مشکل پیش آئی۔ میں نے اس مشکل سے نکلنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا۔
اس سے قبل بھی مجھ پر ایسی ہی مشکل پڑی تھی تو میں نے حضرت بایزید رحمۃ اللہ علیہ کے مزار شریف پر حاضری دی تھی تو میری وہ مشکل آسان ہو گئی تھی۔ اس مرتبہ بھی میں نے ارادہ کیا کہ میں وہاں حاضری دوں۔ تین ماہ تک مزار شریف پر چلہ کشی کی تا کہ میری یہ مشکل حل ہو جائے۔
ہر روز تین مرتبہ غسل اور تین مرتبہ وضو کرتا اس امید پر کہ مشکل آسان ہو مگر پریشانی دور نہ ہوئی تو خراسان کے سفر کا اراداہ کیا۔
اس ولایت میں ایک رات ایک گائو ں میں پہنچا ، وہاں خانقاہ تھی جس میں صوفیوں کی ایک جماعت بھی ٹھہری ہوئی تھی میرے جسم پر کھردری اور سخت قسم کی چادر تھی۔ مسافروں کی طرح میرے ساتھ کچھ سامان نہ تھا ، صرف ایک لاٹھی اور لوٹا تھا۔ اس جماعت نے مجھے حقارت کی نظر سے دیکھا اور کسی نے مجھے نہ پہچانا۔ وہ اپنے رسم و رواج کے مطابق آپس میں گفتگو کرتے اور کہتے کہ یہ ہم میں سے نہیں ہے اور یہ درست بھی تھا کہ میں ان میں سے نہیں تھا۔لیکن مجھے وہاں پر رات گزارنی ضروری تھی ، گنجائش نہ ہو نے کے باوجود بھی وہاں ٹھہر گیا اور انہوں نے مجھے دریچہ میں بٹھا دیا۔ وہ لوگ اس سے اونچی چھت پر چلے گئے اور میں زمین پر رہا۔ انہوں نے میرے آگے ایک سوکھی اورپھپھوندی لگی ہوئی روٹی رکھ دی۔
میں ان چیزوں کی خوشبوئو ں کو سونگھ رہا تھا۔ وہ لوگ خود کھا رہے تھے۔ وہ لوگ مجھ پر برابر آوازیں کس رہے تھے۔ جب وو کھانے سے فارغ ہو گئے تو خربوزے کھانے لگے اور دل لگی سے اس کے چھلکے میرے سر پر پھینک کر میری تحقیر و توہین کرتے رہے۔میں اپنے خدا سے دل میں کہ رہا تھا کہ خدا وند ! اگر تیرے محبوبوں کا لباس پہننے والوں میں سے نہ ہوتا تو میں ان سے کنارہ کش ہو جاتا۔
پھر جتنی بھی مجھ پر ان کی طعن و تشنیع زیادہ ہوتی رہی میرا دل مسرور ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ اس واقع کا بوجھ اٹھا نے سے میری مشکل حل ہو گئی۔ اس وقت مجھ پر یہ حقیقت کھلی کہ مشائخ کرام جاہل لوگوں کو اپنے ساتھ کیوں گوارہ کرتے ہیں اور کیوں ان کی سختیاں جھیلتے ہیں ؟ یہ ہیں کامل تحقیق کے ساتھ ملامت کے احکام۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں