ذکر
قرآن مقدس اوراحادیث مبارکہ میں لفظِ ’’ذکر‘‘متعدد معانی میں استعمال ہواہے۔
ارشادرباّنی ہے :۔
(۱)بے شک ہم ہی نے اْتار اس ذکر (قرآن مجید )کو اور یقینا ہم ہی اسکے محافظ ہیں۔ (حجر۔۹) (۲)اے ایمان والو!جب تمہیں جمعہ کے دن نماز کی طرف بلایا جائے تو اللہ کے ذکر (نماز)کی طرف دوڑ کر جائو۔(جمعہ۔۹)(۳)پس ! اہل ذکر (علم) سے استفسار کرو،اگر تم (خود حقیقتِ حال کو )نہیں جانتے۔(انبیائ۔۷)(۴)لیکن اکثر عبادات میں لفظِ ذکر سے تسبیح وتحلیل ،تکبیر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر درود وسلام مراد لیا جاتا ہے۔جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشادہے :۔
(i)جب تم نماز ادا کر چکوتو اللہ کا ذکر کرو،کھڑے ہوئے ، بیٹھے ہوئے اوراپنے پہلوئوں پر۔ (النسائ۔۳۰۱)
(ii)اے ایما ن والو!جب تم کسی لشکر سے جنگ آزمائو ہوجائو تو ثابت قدم رہواور کثرت سے اللہ کا ذکر کرو۔(انفال۔۵۴)
(iii)اور اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرواور سب سے کٹ کر اسی کے ہو رہو۔(مزمل۔۸)
٭حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :’’اللہ رب العزت ارشادفرماتا ہے :میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں ، جب وہ میرا ذکر کرتا ہے اور جب اس کے ہونٹ میرے ذکر کے لیے حرکت کرتے ہیں ‘‘۔ (ابن ماجہ،مسندامام احمد بن حنبل)
٭حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالیہ میں حاضر ہوااور عرض کیا،یارسول اللہ ! اسلام کے احکام کثیر ہیں ،کوئی ایسی چیز بتایئے کہ جس کو میں مضبوطی سے تھام لوں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :’’تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر پاک سے تر رہے ‘‘۔(ترمذی)
٭شیخ عبدالقادر عیسیٰ رقم طراز ہیں،بندہ جب تک غفلت سے بیدار نہ ہو اس کے لیے ان منازل کا حصول ممکن نہیں ،جس کے لیے اس کی تخلیق ہوئی ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :۔’’اور نہیں پیدا کیا میں نے جن وانس کو ،مگر اس لیے وہ میری عبادت کریں‘‘۔(الذاریات۔۶۵)
انسان ذکر کے ذریعہ ہی غفلت سے بیدار ہوتا ہے ،غفلت دل کی نیند یا موت کا نام ہے۔تمام احوال ومقامات ذکر ہی کا ثمرہ ہیں۔ذکر کے شجر ہی سے تمام ثمرات کا حصول ممکن ہے اور یہ شجر جتنا بڑا ہوگا ،اس کی جڑیں جتنی مضبوط ہوں گی اتنا ہی ثمر بار ہوگا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں