اثباتِ علم
حضرت علی بن عثمان الہجویری رحمة اللہ علیہ کشف المحجوب میں ارشاد فرماتے ہیں، ہر شخص پر لازم ہے کہ احکام الٰہی اورمعرفت ربانی کے علم کے حصول میں مشغول رہے ، بندے کا علم وقت کے ساتھ فرض کیاگیا یعنی جس وقت پر جس علم کی ضرورت ہو اس کا حاصل کرنا فرض ہے ۔حضرت ابوعلی ثقفی علیہ الرحمة اللہ فرماتے ہیں، ”جہالت اورتاریکی کے مقابلے میں علم دل کی زندگی اورآنکھوں کا نور ہے“۔مطلب یہ ہے کہ جہالت کے خاتمے سے دل کی حیات اور کفر کی تاریکی دور ہونے سے آنکھ کی روشنی یقینی ہے جس کو ایمان کی معرفت نہیں اس کا دل جہالت کی وجہ سے مردہ ہے اورجس کو شریعت کا علم نہیں اس کا دل نادانی اورغفلت کا مریض ہے، پس کافروں کے دل مردہ ہیں کیونکہ وہ خدا کی معرفت سے بے بہرہ ہیں۔اہل غفلت کا دل بیمار ہے کیونکہ وہ اللہ کے فرمان سے بہت دور ہیں۔حضرت بایزید بسطامیؒ فرماتے ہیں ، ”میں نے تیس سال تک مجاہدہ کیا مگر مجھے علم اوراسکے پیروی سے زیادہ مشکل کوئی اورچیز نظر نہیں آئی “۔انکے فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ طبیعت کے نزدیک علم کیمطابق عمل کرنے کے مقابلے میں آگ پر پاﺅں رکھنا زیادہ آسان ہے اور جاہل کے دل پر ہزار بار پل صراط سے گزرنا اس سے زیادہ آسان ہے کہ ایک علمی مسئلہ سیکھے ،فاسق کیلئے جہنم میں خیمہ نصب کرنا اس سے زیادہ محبوب ہے کہ وہ کسی ایک علمی مسئلہ عمل پیرا ہو۔ حضرت یحییٰ بن معاذ رازی ؒنے کیا خوب فرمایا ہے ”تین قسم کے لوگوں کی صحبت سے بچو ، ایک غافل علماءسے ،دوسرے مداہنت کرنےوالے فقراءسے اور تیسرے جاہل صوفیاءسے “غافل علماءوہ ہیں جنہوں نے دنیا کو اپنے دل کا قبلہ بنارکھا ہے ،شریعت میں آسانی کے متلاشی رہتے ہیں،صاحبانِ اقتدار کی پرستش کرتے ہیں، ظالموں کا دامن پکڑتے ہیں ، انکے دروازوں کا طواف کرتے ہیں ،خلق میں عزت و جاہ اپنی معراج گردانتے ہیں ، اپنے غرور وتکبر اوراپنی خود پسندی پر فریفتہ ہوتے ہیں دانستہ اپنی باتوں میں رقت وسوز پیداکرتے ہیں، آئمہ سلف کے بارے میں زبان طعن دراز کرتے ہیں ، بزرگانِ دین کی تحقیر کرتے ہیں اوران پر زیادتی کرتے ہیں،اگر انکے ترازو کے پلڑے میں دونوں جہان کی نعمتیں رکھ دو تب بھی وہ اپنی مذموم حرکتوں سے باز نہ آئینگے،کینہ وحسد کو انھوں نے اپنا شعار دین قرار دے دیا ہے، بھلا ان باتوں کا علم سے کیا تعلق ؟علم تو ایک ایسی صفت ہے جس سے جہل و نادانی کی باتیں اربابِ علم کے دل سے فنا ہوجاتی ہیں، مداہنت کرنیوالے فقراءوہ ہیں جو ہر کام اپنی خواہش کے مطابق کرتے ہیں اگر چہ وہ باطل ہی کیوںنہ ہو، مخلوق سے ایسا سلوک کرتے ہیں جس میں جاہ و مرتبہ کی طمع ہوتی ہے ،جاہل صوفیاءوہ ہیں جنھوں نے کسی استاد و مربی سے علم و ادب حا صل نہ کیا ہو،اورمخلوق خدا کے درمیان بن بلائے مہمان کی طرح خود بخود کود کر پہنچ گئے ہوں۔(کشف المحجوب)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں