پیر، 19 دسمبر، 2022

رفعت ذکر مصطفی(۱)

 

رفعت ذکر مصطفی(۱)

پروفیسر ڈاکٹربشیر احمد صدیقی رقم طراز ہیں: کیا آج اس محسوس ومشہود روئے زمین پر اس دور دور پھیلی ہوئی وسیع دھرتی پر کوئی دن، کوئی رات، کوئی گھڑی ، کوئی پل، کوئی لمحہ ایسا گزرتا ہے جس میں انسانیت کے سب سے بڑے محسن اورمعلم اللہ تعالیٰ کے حبیب محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک ذکر نہ ہورہا ہو؟مناروں سے بلند ہونے والے جلسوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیارا نام فضائوں میں ارتعاش پیداکرتا، کانوں میں رس گھولتا ، روح وقلب کو گرماتا، ایمان کو تازگی اورحلاوت بخشتا ‘ قرآن حکیم کی آیت کریمہ ’’ورفعنا لک ذکرک ‘‘(اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر بلندکردیا)کی صداقت پر گواہی دیتا نظر آتا ہے۔ 
اس آیت کریمہ کا نزول سواچودہ سوبرس پہلے ہوا تھا۔ تاریخ کے اس دور پر نظر دوڑائیے ۔ مکہ کی گلیوں میں ’’فردواحد‘‘لوگوں کو توحید کی دعوت دے رہا ہے لیکن انواع واقسام کے بتوں کی پرستش کرنے والے ‘آبائو اجداد کی اندھی پیروی کرنے والے‘شرک کی مروج صورتوں پر پورے عزم ویقین سے کاربند مشرکین پر توحید کا یہ پیغام بجلی بن کر گرتا ہے۔ وہ عظیم ہستی جو توحید کا پیغام دینے سے قبل لوگوں کے اعتماد اورامانات کا مرکز ، مکہ میں صادق وامین کے القاب سے معروف ،حجراسود کے نصب ہونے کے موقع پر قبائلی بغض وعناد کو اتحاد و اتفاق میں بدلنے والی صلح وامن کی داعی حیا داری اور اخلاق فاضلہ سے آراستہ ہونے کی بناپر لوگوں کی تحسین وستائش کا محورتھی، اعلان نبوت کے بعدیکایک لوگوں کی کھلی عداوت کا مرکز قرار پاتی ہے۔
’’نبوت کا بار امانت کوئی معمولی بوجھ نہ تھا یہ وہ کوہ گراں تھا جسے آسمانوں اورپہاڑوں نے بھی اٹھانے سے معذوری ظاہر کردی تھی ، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت توحید کا آغاز کیا تو مکہ کی ساری فضا سلگنے لگ گئی ۔لوگوں کے اطوار بدل گئے، ہر چہرہ پر نفرت، ہر آنکھ میں عناد کے شعلے ناچنے لگے‘‘ایسے دل گداز اور روح فرسا حالات میں ،حکیم وخبیر رب کائنات کی طرف سے سورۃ الانشراح کا نزول وقت کے عین تقاضوں کے مطابق ہوا۔’’ان سراسر ناموافق حالات میں قلب نبوت کے لئے راحت وسکون کا اگر کوئی پیغام ہوسکتا تھا تو وہ اس کے کریم پروردگار کا ہی ارشاد ہوسکتا تھا چنانچہ جبرائیل امین حاضر ہوئے اوریہ سورت اپنے ملکوتی اورنوارنی ہونٹوں سے تلاوت کرکے سنائی ‘ہر آیت میں ایک عظیم احسان کا مژدہ ‘ہر آیت میں دلجوئی اوربندہ نوازی اپنے جوبن پر ہے۔‘‘ (ضیاء القرآن)
لیکن ایسے سنگین حالات میں کیا کوئی بھی شخص یہ تصور کرسکتا تھا، کسی کے وہم وگمان میں بھی یہ بات آسکتی تھی کہ آنے والے زمانوں میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا آوازہ اس قدر بلند ہوگا؟(تجلیات رسالت )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں