بدھ، 27 اپریل، 2022

زکوٰۃ (۳)

 

زکوٰۃ (۳)

حضرت عبداللہ بن معاویہ الغاضری روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : جو شخص تین کام کرے ، وہ ایمان کی ذائقہ چکھ لے گا، (محض) اللہ کی عبادت کرے اوراس (بات) کو اچھی طرح جان لے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، ہر سال زکوٰۃ کو خوش دلی سے اداکرے، اور(زکوٰۃ کی مد میں)بوڑھا جانور یا خارش زدہ جانور یا بیمار اورگھٹیا قسم کا جانور نہ دے بلکہ درمیانی قسم کاجانور دے، اللہ تمہارا بہترین مال نہیں چاہتا لیکن وہ گھٹیا مال کا حکم بھی نہیں دیتا۔(ابودائود ، الترغیب والترہیب)

مسلم بن شعبہ کا بیان ہے کہ (گورنر )حضر ت نافع بن علقمہ رضی اللہ عنہ نے میرے والد کو ہماری قوم کا امیر مقرر کیاتھا انھوں نے میرے والد کو حکم دیا کہ ساری قوم کی زکوٰۃ جمع کریں، میرے والد نے مجھے زکوٰۃ وصول کرنے اورجمع کرنے پر مامور کردیا، میں ایک مرد بزرگ کے پاس پہنچا جن کا نام ’’سعر‘‘تھا انھوں نے مجھ سے استفسار کیا: بھتیجے !کس طرح کامال وصول کروگے، میں نے کہا اچھے سے اچھا لوں گا، حتیٰ کہ بکری کے تھن تک دیکھوں گا کہ بڑے ہیں یا چھوٹے  (یعنی بڑی باریک بینی سے جائزہ لوں گا)انھوں نے فرمایا : پہلے میں تمہیں ایک حدیث پاک سناتا ہوں ، میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عہد ہمایوں میں اسی جگہ مقیم تھا ، میرے پاس دوافراد تشریف لائے اورفرمایا: ہمیں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا ہے ،میں نے اپنی بکریاں ان کو دکھائیں اوران سے دریافت کیا کہ ان میں کیا چیز واجب ہے ، انھوں نے ملاحظہ کرکے بتایا کہ ان میں ایک بکری واجب ہے میں نے ایک نہایت عمدہ بکری جو چربی اوردودھ سے لبریز تھی نکالی کہ اسے زکوٰۃ کی مدمیں دے دوں ، لیکن ان صاحبان نے اسے دیکھ کرکہا، بھئی یہ میمنے والی بکری ہے، ہمیں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایسی بکری وصول کرنے کی اجازت نہیں ہے، میں نے ان سے پوچھا کہ پھر کیسی بکری لینا چاہوگے، انھوں نے کہا کہ چھ مہینہ کا مینڈھا یا ایک سال کی بکری ، میں نے ایک ششماہا بچہ نکال کران کو دے دیا اوروہ اسے (بخوشی ) لے کر چل دیے ۔(ابودائود)

حضر ت علقمہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب ہمارا وفد جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا تو آپ نے ارشادفرمایا : تمہارے اسلام کی تکمیل اس (امر)میں ہے کہ اپنے اموال کی زکوٰۃ ادا کرو۔(البزار ، الترغیب والترہیب)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں