روزہ داروں کو بشارت
جنت میں بات الریان روزہ داروں کیلئے ہی خاص ہے ،حضرت سہل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جنت کا ایک دروازہ ہے جس کا نام ریان ہے قیامت کے دن اس دروازے سے صرف روزہ دار ہی داخل ہونگے ، کہاجائیگا روزہ دار کہاں ہیں۔ وہ لوگ کھڑے ہوجائینگے، اس دروازے سے ان کے سواکوئی داخل نہ ہوسکے گا جب وہ داخل ہوجائیں گے تو دروازہ بند کردیا جائیگا اوراس میں اورکوئی داخل نہ ہوگا۔‘‘ (صحیح بخاری) روزہ احکام الٰہی کی تعمیل میں کھانے ،پینے اورشہوات سے بچے رہنے اورتمام خواہشات کو پابند آداب بنانے کا نام ہے، یہ حقیقت ہے کہ نفس انسانی پر ہمہ وقت خواہشات کی یلغار ہوتی ہے، یہ چوبائی حملہ ہوتا ہے اسکی گرفت سے بچنا اوراسکی لذات کے حملوں سے محفوظ رہنا، بہت محنت کا کام ہے، روزہ اس دفاعی جنگ میں انسان کا معاون ہے ، یہ برائی کے سامنے حفاظتی ڈھال ہے ، اس ڈھال کو مضبوط رہنا چاہیے اس لئے کہ محارم کی خواہش اوربداعمالیوں کی چمک بڑی منہ زورہوتی ہے ، کبھی توحفاظتی دیوار پر بھی حملہ آور ہوتی ہے، یہ انسان کے اپنے مفاد میں ہے کہ اس دفاع کو مضبوط اورناقابل تسخیر بنائے تاکہ سلامتی کی تسکین حاصل رہے۔روزہ ، دیگر عبادات سے اس لئے بھی منفرد ہے کہ اس میں فرض کی ادائیگی، داخل کا معاملہ ہے ، یہ ضمیر کا عمل ہے قانون کی حکمرانی اورضابطوں کی پابندی زیادہ تر خارجی عمل پر ہوتی ہے ، انسان کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ حکم مانے اور قانون کیمطابق زندگی گزارے، اس تسلیم ومطابقت کیلئے ضابطے بنائے جاتے ہیں، ان کی پاسداری کیلئے طاقت استعمال کی جاتی ہے اور کوتاہی پر سزادی جاتی ہے ، اس کڑے انتظام کے باوجود ، انسان احکامات کو بجالانے میں خوش دلی کا اظہار کم ہی کرتا ہے بلکہ اپنے اوپر جبر محسوس کرتا ہے اورجب بھی موقع ملے تو حکم توڑنے پر دلیر ہوجاتا ہے،سوچئے اگر خارج کا یہ حکم داخل کا تقاضا بن جائے توا سکی بجا آوری کا ذوق کیسا ہوگا؟ کیا اس سے اطاعت کی روح ہی نہ بدل جائیگی؟
سچی بات یہ ہے کہ اگر عمل کا محرک، خارج کے حکم سے زیادہ اندر کا جذبہ ہوتو تعمیر سیرت کی فضا مختلف ہوگی کہ حسن کردار کی نمود ہونے لگے گی ، روزہ اسی داخلی فضا کو قائم کرنے کا ذریعہ ہے ، یہ خالق ومخلوق کا وہ رابطہ ہے جس سے دل کی دنیا میں انقلاب آتاہے ، نیکی حکم نہیں ، خواہش بن جاتی ہے اورضمیر نیکیوں کا متلاشی ہوجاتاہے ایسے وجود پر کوئی خارجی حکم سے گناہ طاری کرنے کا دبائو بھی ڈالے تو اندر کا ایقان اورداخل کا جذبہ ، خارج کے عمل کو غیر مستقیم نہیں ہونے دیتا، زندگی یوں مربوط اور منضبط ہوجائے تو ذات کی روشنی اوراندر کا ٹھہرائو پورے معاشرے کو منور اورمستحکم بناتا ہے۔(عقائد وارکان)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں