ذوالبشارتین
حضرت غنی رضی اللہ عنہ حضور اکرم ﷺکی بارگاہ سے دوبار براہِ راست جنت کی بشارت سے نوازے گئے۔ پہلی بار اس وقت جب آپ نے بئر رومہ (پانی کا کنواں )خرید کر مسلمانوں کیلئے وقف کردیا۔ دوسری بار غزوہ تبوک کے موقع پر ’’ہجرت کے آٹھویں سال ماہ ذی الحجہ میں سرکار دوعالم ﷺکو یہ اطلاع ملی کہ رومیوں نے شام میں لشکر جرار اکٹھا کر لیا ہے اور وہ مدینہ طیبہ پر حملہ کرنے کیلئے زبر دست تیاریوں میں مصروف ہیں انکے متعدد فوجی دستے ’’بلقائ‘‘کے شہر تک پہنچ گئے ہیں۔ وہاں انہوں نے پڑائو ڈال لیا ہے‘‘۔اب مسلمانوں کے پاس دو صورتیں تھیں ایک یہ کہ وہ مدینہ میں رہ کر رومی عساکر کا انتظار کریں یا پھر یہ کہ وہ آگے بڑھ کر دشمن کے سیلِ رواں کے سامنے بند باندھ دیں ۔اللہ کے غیر ت مند رسول نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا،اور اس مہم کا اعلان عام کردیا ۔اتفاق سے وہ زمانہ بڑی عسرت اور تنگ دستی کا تھا۔ شدید گرمی کا موسم تھا، عرصہ دراز سے بارش نہیں ہوئی تھی۔ قحط سالی کا عالم تھا۔ ایسے میں نبی اکرم ﷺنے امت کے اغنیاء اور اصحاب ثروت کو حکم دیا کہ وہ اللہ کے راستے میں دل کھول کر مالی اعانت کریں۔ صحابہ کرام نے اس موقع پر ایثار وقربانی کی بے مثال داستانیں رقم کیں۔ ایسے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کمالِ فیاضی کا ثبوت فراہم کیا ۔آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔آپ کی آستین میں دس ہزار دینا ر تھے۔ آپ نے فخر دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی جھولی میں پلٹ دیے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ،میں نے رسول اللہ ﷺکو دیکھا کہ حضور ان دیناروں کو الٹ پلٹ رہے تھے اور ساتھ ہی دعا فر مارہے تھے۔ ’’اے اللہ عثمان سے راضی ہوجا میں اس سے راضی ہوں ‘‘۔پھر انہیں دعاد ی ’’اے عثمان اللہ تمہاری مغفرت کرے اس دولت پر جو تم نے مخفی رکھی اور جس کا تم نے اعلان کیا ،اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے، عثمان کو کوئی پروا نہیں کہ آج کے بعدوہ کوئی عمل کرے۔(مسند امام احمد بن حنبل )٭حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓروایت کرتے ہیں حضور اکرم ایک باغ میں داخل ہوئے اور مجھے باغ کے دروازے کی حفاظت پر مامور فرمایا ۔ پس ایک آدمی نے آکر اند ر آنے کی اجازت طلب کی ،حضور نے فرما یا : اسے اجازت دو اور جنت کی بشارت بھی دے دو۔ دیکھا تو وہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ تھے۔ پھر اسی طرح معاملہ پیش آیا اوروہ حضرت عمر تھے۔ پھر ایک اور شخص آیا اور اجازت طلب کی تو حضور نے فرمایا: اسے بھی اجازت دو اور جنت کی بشارت بھی ، مگر مصائب ومشکلات کے ساتھ، دیکھا تو وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے۔ (بخاری ،مسلم)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں