نوید
امام بخاری ؒحضرت عدی بن حاتم ؓکی روایت نقل کرتے ہیں: عدی بن حاتم ؓفرماتے ہیں ہم جناب رسالت مآب ﷺکی مجلسِ مبارکہ میں موجود تھے کہ ایک شخص وہاں حاضر ہوا، اس نے حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں فقروفاقہ کی شکایت کی، اتنے میں ایک اور شخص آیا اوراس نے اپنے علاقے میں رہزنی کی شکایت کی، اس وقت حضور مخبرِ صادق علیہ الصلوٰۃ والسلام نے (اپنا روئے سخن میری جانب کرکے)فرمایا: اے عدی بن حاتم اگر تمہاری زندگی دراز ہوئی تو تم دیکھ لوگے ایک عورت ہود ج نشین ہوکر حیرہ سے چلے گی اوربیت اللہ کے طواف کیلئے آئیگی اسے راستے میں سوائے اللہ رب العزت کے کسی اورکا خوف نہیں ہوگا، یہ سن کر میں نے اپنے دل میں کہا کہ پھرقبیلہ طے کے وہ رہزن کہا ں جائینگے جو شہروں (اورقافلوں) کو لوٹتے ہیں۔نبی محتشم ﷺنے پھر ارشادفرمایا: اگر تمہاری زندگی نے وفاء کی تو تم اپنی آنکھوںسے دیکھ لوگے کہ کسریٰ کے خزانے کھل جائینگے اورتم انہیں فتح کرکے اپنے تصرف میں لے آئو گے ، میں نے (حیرت سے)عرض کی کیا کسریٰ بن ہرمز (شہنشاہِ ایران)کے خزانے؟ ارشادہوا، ہاں کسریٰ بن ہرمز کے خزانے ، اورفرمایا اگر تم زندہ رہے تو تم ضرور دیکھ لو گے کہ ایک شخص دونوں ہاتھوں میں سونا چاندی لئے ہوگا ، اور وہ تلاش کریگا کہ کوئی اسے قبول کرلے مگر (اسکی جستجوکے باوجود) اسے کوئی مفلس وکنگال نہیں مل سکے گا، حضرت عدی بن حاتم ؓارشادفرماتے کہ بلاشبہ میں نے ایسا ہی مشاہدہ کیا، میں دیکھتا کہ ایک عورت ہودج میں بیٹھ کر کوفہ سے روانہ ہوتی ، مکہ مکرمہ پہنچ کر بیت اللہ کا طواف کرتی ، مگر راستے میں اسے اللہ تبارک وتعالیٰ کے علاوہ کسی اورکا خوف اور اندیشہ نہیں ہوا کرتا تھا، اورمیں خود ان خوش بخت لوگوں میں شامل تھا ، جنہوں نے کسریٰ شہنشاہِ ایران کے خزانوںکو فتح کیا ہے ، اب اگر تم لوگ زندہ رہے تو تم تیسری بات کو بھی ضرور پورا ہوتا ہوا دیکھ لوگے ، امام بیہقی فرماتے ہیں کہ تیسری بات حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ کے زمانے میں پوری ہوگئی ، عمر بن اسید بن عبدالرحمن بن زید بن خطاب (رضی اللہ عنہ )کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اڑھائی سال خلافت کی اوراس وقت تک وصال نہ فرمایا جب تک ہم نے یہ نہ دیکھ لیا کہ ایک شخص بہت وافر مقدار میں مال لے کر آتا اورکہتا کہ جہاں کوئی فقراء اورمفلسین نظر آئیں یہ مال ان میں تقسیم کردیا جائے اس کا ایک کارندہ مال لیکر ہر جگہ تلاش کرتا پھرتا ، مگر اسے کوئی ضرورت مند نظر نہ آتا، بالآخر وہ مال لیکر واپس اسکے مالک کے پاس آجاتا اور کہتا مجھے کوئی شخص ایسا نہیں ملا جو اس مال کو قبول کرے، وہ مالک اپنا مال لے کر واپس لوٹ جاتا، بلاشبہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں لوگ بہت تونگر ہوگئے تھے، آپ نے سب کوآسودہ اورخوشحال کردیا تھا۔ (سیوطی)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں